اُمید - غلام مصطفی ذہین

کاشفی

محفلین
اُمید
(غلام مصطفی ذہین - 1906ء)

تو بھی اُمید ہے کچھ عجب شے
تجھ سے وابستہ سچی خوشی ہے

کیوں نہ ہو تجھ سے ہر اک کو اُلفت
تو ہی ہے مایہء عیش و عشرت

جب ہے دنیا باُمید قائم
ساتھ انسان کے تو ہے دائم

باوفا تجھ کو کہنا بجا ہے
کون ورنہ کسی کا ہوا ہے

تو جگاتی ہے سوتے ہوؤں کو
تو ہنساتی ہے روتے ہوؤں کو

بخت خوابیدہ بھی تو جگائے
مردہ دل کو تو زندہ بنائے

ساتھ انساں کا دے مفلسی میں
ایسی کب ہے مروت کسی میں

شان و شوکت ہیں تیرے ہی مظہر
مال و دولت کی ہے تو ہی مصدر

ہے خوشی خُرمی کی تو مخزن
ہے ہر اک دل میں تیرا ہی مسکن

مبتلا رنج و غم میں کوئی ہو
تو جو برآئے اُس کو ‌خوشی ہو

تو ہے اُسکے لئے درجہ فرحت
ہو خوشی سے تبدیل مُصیبت

راہِ مقصد میں جو ہو تیرا ساتھ
کسی خطرے میں ہو جو ترا ساتھ

تجھ سے بڑھتا ہے عزم اور ہمت
تجھ سے گھٹتا ہے خوف اور وحشت

کیوں ذہین اِسکو چاہیں نہ دل سے
زندگی ہے اِسی کے سہارے

دل اسی کا ہے گھر آئے اُمید
کیا خوشی ہو جو برآئے اُمید
 
Top