اُردو کی تلاش میں ۔۔۔

اپنی پیدائش سے لے کر آج تک خیبر پختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں رہائش کے دوران میں اکثر سمجھتا رہا کہ بحیثیت ’’نان نیٹیو سپیکر‘‘ ہم پٹھانوں کے پاس اُردو کی ٹانگیں توڑنے کا پیدائشی حق یا لائسنس ہے۔ (کسی کی دِل آزاری کے لیے پیشگی معذرت) مگر گزشتہ سال کراچی آنے تک میں اسی غلط فہمی میں رہا کہ ’’پاکستان میں سب سے خالص اُردو صرف اور صرف کراچی میں بولی جاتی ہے‘‘۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے میری آنکھیں اُس وقت کھلیں جب میں کراچی آ کر ایسے ایسے لوگوں سے ملا جن کے ننھیال اور دودھیال دونوں طرف سے اُن کو مادری زبان اُردو وراثت میں ملی تھی مگر اُن کی اُردو سن کر مجھے بحیثیت پٹھان اپنی اُردو پر فخر بلکہ گھمنڈ محسوس ہوا۔
میں نے اُردو کی سابقہ کتابوں میں ’’کتاب لیں‘‘ یا ’’کتاب دیں‘‘ کو ’’کتاب لیجئے‘‘ یا ’’کتاب لیجیو‘‘ پڑھا۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے چنانچہ سننے کو ملا کہ ’’کتاب لیو‘‘ یا ’’کتاب دیو‘‘۔ بعینہٖ دُنیا کے طول و عرض میں اُردو بولنے والے کہتے ہیں کہ ’’یہ کام ہم نے کیا ہے‘‘ مگر کراچی میں ’’یہ کام ہم نے کرا ہے‘‘ سننے کو ملتا ہے۔ کئی لوگوں سے بحث و مباحثہ ہوا مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔
ایک صاحب نے تو مجھے حیران ہی کردیا جب موصوف خود کو عقلِ کل گردانتے ہوئے بڑے فخر سے مجھے تڑی دینے لگے کہ میں نے سولہ جماعتیں پڑھی ہیں چنانچہ میں جو کچھ ’’ارشاد‘‘ کر رہا ہوں وہی صحیح ہے اور بحیثیت ماسٹرز ڈگری ہولڈر میں تو غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ قبل ازیں جھگڑا صرف اس جملے پر ہوا کہ ’’انتقالِ جائیداد کے لیے فریق اوّل ہمہ وقت تیار رہے گا‘‘ حضرت نے تشریح کی کہ ’’جائیداد تو سانس نہیں لیتی چنانچہ وہ مر بھی نہیں سکتی‘‘۔ میں نے بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ انتقال منتقل سے نکلا ہے جس کا مطلب انگریزی میں ٹرانسفر ہے۔ مگر موصوف تھے کہ مانتے ہی نہیں تھے۔
ایک صاحب مجھے کہنے لگے ’’ذرا پنکھا کھول دیں‘‘ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ ’’جناب میں کوئی مکینک تھوڑی ہوں جو پنکھا کھول کے بیٹھ جاؤں‘‘۔ خیر ایک دوسرے صاحب نے تشریح فرمائی کہ ’’پنکھا آن کرنے کو یا پنکھا چلانے کو یہاں پنکھا کھولنا کہا جاتا ہے‘‘۔
ایک دُوسرے صاحب نے جملہ ’’تحریر کر دیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے‘‘ میں سوال اُٹھا دیا کہ ’’آپ نے اس جملے میں ’’ سُندر ‘‘ کیوں لکھا؟‘‘ میں نے از راہِ تفنن کہا کہ ’’جی دراصل ہماری نانی مرحومہ سنسکرت زبان بولتی تھیں لہٰذا میں نے بھی اُن سے سنا اورمستعار لے کر آپ کے مسودے میں تحریر کر دیا‘‘ (جبکہ درحقیقت خیبرپختونخوا کی کسی پٹھان نانی کا دُور دُور تک سنسکرت سے تعلق نہیں ہوتا‘ اور دوسرا میری نانی میری پیدائش سے پہلے ہی انتقال (ٹرانسفر) فرما چکی تھیں۔
کراچی کے بچے اور بڑے بھی ’’Square‘‘ کو ’’اسکوائر‘‘ کہتے ہیں جبکہ ’’Question‘‘ کو یہاں ’’کوئسٹن یا کوشن‘‘ سننے کو ملا۔ خیر ’’سانوں کی ﹍ بلکہ مٹی پاؤ‘‘ کیونکہ انگریزی کا ٹھیکہ ہم نے تھوڑی لے رکھا ہے۔
مگر ہمیں تو اُردو کی کم مائیگی پر رونا آتا ہے۔ کیونکہ کراچی میں اُردو کی گنتی سمجھنے والے آپ کو کہیں خال خال ہی ملیں گے۔ آپ آج بھی کسی کو موبائل نمبر لکھواتے ہوئے ’’سڑسٹھ‘‘ یا ’’ اُناسی‘‘ نمبر بتا کر اُس کی اچھی بھلی شکل کو ’’ہونق‘‘ میں تبدیل ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
اب پتہ نہیں خالص اُردو کبھی یہاں بولی بھی جاتی تھی یا وہ بھی پاکستان بننے کے بعد آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی؟ اب تو یہاں کے لوگ ایک دوسرے کو ’’ابے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو کہ میرے خیال میں ’’انتہائی ناشائستہ لفظ‘‘ ہے اور شاید کچھ لوگ تو اسے ’’بازاری لفظ‘‘ بھی کہہ دیں۔
آج کل تو ایسا لگتا ہے کہ اصل اُردو کا کہیں وجود ہی نہیں پایا جاتا اور اگر موجود بھی ہے تو کثیر الاستعمال غلط زبان کی وجہ سے اصل اُردو زبان بھی اپنا وجود آہستہ آہستہ کھو بیٹھے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
 
آخری تدوین:

عباس اعوان

محفلین
کراچی والوں کےاردو میں شامل کردہ ایسے الفاظ کے بارے میں ہمارے بھی کچھ ایسے ہی تاثرات تھے/ہیں۔
البتہ حاصل تحریر سے مجھے اختلاف ہے،زندہ زبانیں ارتقاء پذیر رہتی ہیں، اردو بھی ان میں شامل ہے۔
 
اپنی پیدائش سے لے کر آج تک خیبر پختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں رہائش کے دوران میں اکثر سمجھتا رہا کہ بحیثیت ’’نان نیٹیو سپیکر‘‘ ہم پٹھانوں کے پاس اُردو کی ٹانگیں توڑنے کا پیدائشی حق یا لائسنس ہے۔ (کسی کی دِل آزاری کے لیے پیشگی معذرت) مگر گزشتہ سال کراچی آنے تک میں اسی غلط فہمی میں رہا کہ ’’پاکستان میں سب سے خالص اُردو صرف اور صرف کراچی میں بولی جاتی ہے‘‘۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے میری آنکھیں اُس وقت کھلیں جب میں کراچی آ کر ایسے ایسے لوگوں سے ملا جن کے ننھیال اور دودھیال دونوں طرف سے اُن کو مادری زبان اُردو وراثت میں ملی تھی مگر اُن کی اُردو سن کر مجھے بحیثیت پٹھان اپنی اُردو پر فخر بلکہ گھمنڈ محسوس ہوا۔
میں نے اُردو کی سابقہ کتابوں میں ’’کتاب لیں‘‘ یا ’’کتاب دیں‘‘ کو ’’کتاب لیجئے‘‘ یا ’’کتاب لیجیو‘‘ پڑھا۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے چنانچہ سننے کو ملا کہ ’’کتاب لیو‘‘ یا ’’کتاب دیو‘‘۔ بعینہٖ دُنیا کے طول و عرض میں اُردو بولنے والے کہتے ہیں کہ ’’یہ کام ہم نے کیا ہے‘‘ مگر کراچی میں ’’یہ کام ہم نے کرا ہے‘‘ سننے کو ملتا ہے۔ کئی لوگوں سے بحث و مباحثہ ہوا مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔
ایک صاحب نے تو مجھے حیران ہی کردیا جب موصوف خود کو عقلِ کل گردانتے ہوئے بڑے فخر سے مجھے تڑی دینے لگے کہ میں نے سولہ جماعتیں پڑھی ہیں چنانچہ میں جو کچھ ’’ارشاد‘‘ کر رہا ہوں وہی صحیح ہے اور بحیثیت ماسٹرز ڈگری ہولڈر میں تو غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ قبل ازیں جھگڑا صرف اس جملے پر ہوا کہ ’’انتقالِ جائیداد کے لیے فریق اوّل ہمہ وقت تیار رہے گا‘‘ حضرت نے تشریح کی کہ ’’جائیداد تو سانس نہیں لیتی چنانچہ وہ مر بھی نہیں سکتی‘‘۔ میں نے بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ انتقال منتقل سے نکلا ہے جس کا مطلب انگریزی میں ٹرانسفر ہے۔ مگر موصوف تھے کہ مانتے ہی نہیں تھے۔
ایک صاحب مجھے کہنے لگے ’’ذرا پنکھا کھول دیں‘‘ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ ’’جناب میں کوئی مکینک تھوڑی ہوں جو پنکھا کھول کے بیٹھ جاؤں‘‘۔ خیر ایک دوسرے صاحب نے تشریح فرمائی کہ ’’پنکھا آن کرنے کو یا پنکھا چلانے کو یہاں پنکھا کھولنا کہا جاتا ہے‘‘۔
ایک دُوسرے صاحب نے جملہ ’’تحریر کر دیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے‘‘ میں سوال اُٹھا دیا کہ ’’آپ نے اس جملے میں ’’ سُندر ‘‘ کیوں لکھا؟‘‘ میں نے از راہِ تفنن کہا کہ ’’جی دراصل ہماری نانی مرحومہ سنسکرت زبان بولتی تھیں لہٰذا میں نے بھی اُن سے سنا اورمستعار لے کر آپ کے مسودے میں تحریر کر دیا‘‘ (جبکہ درحقیقت خیبرپختونخوا کی کسی پٹھان نانی کا دُور دُور تک سنسکرت سے تعلق نہیں ہوتا‘ اور دوسرا میری نانی میری پیدائش سے پہلے ہی انتقال (ٹرانسفر) فرما چکی تھیں۔
کراچی کے بچے اور بڑے بھی ’’Square‘‘ کو ’’اسکوائر‘‘ کہتے ہیں جبکہ ’’Question‘‘ کو یہاں ’’کوئسٹن یا کوشن‘‘ سننے کو ملا۔ خیر ’’سانوں کی ﹍ بلکہ مٹی پاؤ‘‘ کیونکہ انگریزی کا ٹھیکہ ہم نے تھوڑی لے رکھا ہے۔
مگر ہمیں تو اُردو کی کم مائیگی پر رونا آتا ہے۔ کیونکہ کراچی میں اُردو کی گنتی سمجھنے والے آپ کو کہیں خال خال ہی ملیں گے۔ آپ آج بھی کسی کو موبائل نمبر لکھواتے ہوئے ’’سڑسٹھ‘‘ یا ’’ اُناسی‘‘ نمبر بتا کر اُس کی اچھی بھلی شکل کو ’’ہونق‘‘ میں تبدیل ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
اب پتہ نہیں خالص اُردو کبھی یہاں بولی بھی جاتی تھی یا وہ بھی پاکستان بننے کے بعد آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی؟ اب تو یہاں کے لوگ ایک دوسرے کو ’’ابے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو کہ میرے خیال میں ’’انتہائی ناشائستہ لفظ‘‘ ہے اور شاید کچھ لوگ تو اسے ’’بازاری لفظ‘‘ بھی کہہ دیں۔
آج کل تو ایسا لگتا ہے کہ اصل اُردو کا کہیں وجود ہی نہیں پایا جاتا اور اگر موجود بھی ہے تو کثیر الاستعمال غلط زبان کی وجہ سے اصل اُردو زبان بھی اپنا وجود آہستہ آہستہ کھو بیٹھے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
اگر بولی جانے والی زبان اور تحریری زبان کے فرق سے زبان مردہ ہوجاتی ہے تو عربی زبان کب سے مردہ ہوجانی چاہیے تھی۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اغلاط کی اصلاح کی کوشش ہوتی رہنی چاہیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی بات درست ہے لیکن اردو زبان میں مقامی الفاظ یا لہجوں کا در آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اردو الفاظ کو پنجابی تلفظ نے بھی کم "خراب " نہیں کیا لیکن اردو کا ایک معیار بہرحال موجود ہے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
کراچی والوں کےاردو میں شامل کردہ ایسے الفاظ کے بارے میں ہمارے بھی کچھ ایسے ہی تاثرات تھے/ہیں۔
البتہ حاصل تحریر سے مجھے اختلاف ہے،زندہ زبانیں ارتقاء پذیر رہتی ہیں، اردو بھی ان میں شامل ہے۔
میں آپ سے اتفاق کرتی ہوں۔۔؟
جس طرح ایک جسم میں خلئیے (cells) بنتے اور مٹتے رہتے ہیں اسی طرح ایک زندہ زبان میں بھی الفاظ بنتے بگڑتے اور متروک ہوتے رہتے ہیں۔

زندہ زبان سے مراد وہ زبان ہے جسے لوگ ترسیلِ خیالات کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ مردہ زبانیں وہ ہیں جن کا عملی استعمال اب ختم ہو چکا ہے اور لوگ تحریر و تقریر کے لئے اب انہیں استعمال نہیں کرتے مثلا سنسکرت اور لاطینی یہ دونوں زبانیں ماضی میں علم و ادب کی زبانیں تھیں اور قدیم علوم کے بہت سے اہم ذخائر انہی زبانوں میں محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب فرماتے ہیں:
قومی زبان اور دیگر پاکستانی زبانیں

“زبان انسان کی سماجی اور معاشرتی ضرورتوں کی ایجاد ہے۔ ہر زبان اپنی ارتقائی منزلیں سماجی زندگی ہی کے سہارے طے کرتی ہے اور اس کے زیر اثر اس کی صورت اور معنی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ کسی زبان کے عروج و زوال کی داستان کو دراصل کسی قوم کے عروج و زوال کی تاریخ سمجھنا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ زبان بھی اپنے بولنے والوں کی طرح اپنے سماجی محرکات و عوامل کی پابند ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح افراد یا کسی قوم و ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ہمسایہ ملکوں یا قوموں سے بلکہ دور دراز کے ملکوں اور قوموں سے بھی زیادہ سے زیادہ تعلقات و روابط قائم کرے بالکل اسی طرح کسی زندہ زبان کے لیے بھی ضروری ہے کہ دوسری زبانوں سے اس کا ربط و ضبط بڑھتا رہے اور ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ اور ترجمے کی راہیں کشادہ ہوتی رہیں۔ اس کے بغیر نہ کوئی قوم بین الاقوامی مسائل میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور نہ کوئی زبان ۔ اس لیے زبانوں کا ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ناگزیر ہے”
اس لیے یہ کہنا کہ کراچی والے سارے ہی یہ زبان بولتے ہیں درست نہ ہوگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہاں پر ایک فرق غلط العام اورغلط العوام کا ملحوظ رکھنا بھی ضرور ی ہے۔ میری طبیعت پر بھی "کرا" اور "تھوڑی نہ" بہت گراں گزرتے ہیں لیکن بہرحال یہ غلط العوام ہیں اور کبھی مستند کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپ کی سماعت پر یہ گراں گزرتے ہیں ، میں ان سے محظوظ ہوتا ہوں ۔ میرے خیال میں انڈیا میں اس میں تنوع کا اثر زیادہ ہے ۔
gstslLO_d.jpg

سید صاحب !!!!!
جب بھی کوئی ُاردو کے بارے میں اور کراچی کے اردو بولنے والوں کے بارے میں کچھ لکھتا ہے ،تو مجھے رضا علی عابدی صاحب کی یہ کتاب یاد آجا تی!آپ نے ضرور پڑھی ہوگی۔
مصنف نے اس کتاب کے نام کی یوں وضاحت کی ہے ”اس کتاب کا نام ’اردو کا حال‘ یوں پڑا ہے کہ میں زبان کو جس حال میں پاتا ہوں وہ حال بھی کہتا جاؤں اور دوسری وجہ اس عنوان کی یہ بھی ہے کہ ماضی کے برسوں سے نکل کر اردو نے جس حال میں قدم رکھا ہے اس کا گواہ بنوں۔ “
رضا علی عابدی نے ہندوستان کے اردو بولنے والے خطے سے ہجرت کر کے پاکستان کے اس علاقے میں رہائش اختیار کی جہاں پہلے پہل زیادہ تران جیسے اردو بولنے والے ہی آباد ہوئے تھے یعنی کراچی۔ وہاں ایک اردو اخبار میں کام کیا اور پھر بی بی سی کی اردو سروس سے وابستہ ہوئے، جو کچھ لکھا زیادہ تر اردو میں ہی لکھا، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں وہ اردو کی ہی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی تحریر اور اتنے ہی اچھے تبصرے۔ مزہ آ گیا۔
بر صغیر کی زبان یا تو فارسی تھی یا ہندی، اس کے علاوہ مقامی زبانیں بے شمار تھیں۔ جب راجے مہاراجے اپنی اپنی فوجوں کو کسی ایک راجہ یا مہاراجہ کی کمان میں دیتے تھے تو آپس میں بات چیت میں خاصی مشکل پیش آتی تھی۔ تب یہ زبان (اردو) وجود میں آئی اور لشکری زبان کہلائی۔ پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہوئی عروج پر پہنچ گئی۔ کچھ لوگ زبان کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے، جیسے میر تقی میر، ریل میں سفر کے دوران ساتھی مسافر نے بات چیت کرنے کا کہا، تو منہ ہاتھ رکھ لیا۔ دوسرے مسافر نے کہا، اس نے بات چیت کرنے کو کہا کہ سفر کٹے، اور آپ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ فرمایا، ان کا سفر کٹتا ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
“میری ڈائری کا ایک ورق” کے شروع کے مراسلوں میں اردو زبان پر چار پانچ مراسلے ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
بہت اچھی تحریر اور اتنے ہی اچھے تبصرے۔ مزہ آ گیا۔
بر صغیر کی زبان یا تو فارسی تھی یا ہندی، اس کے علاوہ مقامی زبانیں بے شمار تھیں۔ جب راجے مہاراجے اپنی اپنی فوجوں کو کسی ایک راجہ یا مہاراجہ کی کمان میں دیتے تھے تو آپس میں بات چیت میں خاصی مشکل پیش آتی تھی۔ تب یہ زبان (اردو) وجود میں آئی اور لشکری زبان کہلائی۔ پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہوئی عروج پر پہنچ گئی۔ کچھ لوگ زبان کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے، جیسے میر تقی میر، ریل میں سفر کے دوران ساتھی مسافر نے بات چیت کرنے کا کہا، تو منہ ہاتھ رکھ لیا۔ دوسرے مسافر نے کہا، اس نے بات چیت کرنے کو کہا کہ سفر کٹے، اور آپ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ فرمایا، ان کا سفر کٹتا ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔
درست بہت بہترین یہ وہ مو ضوع ہے کہ اس پہ جتنا لکھا جائے کم ہے اور دل بھی نہیں بھرتا !رضا صاحب کی یہ کتاب میری کتابوں سے کوئی لے گیا۔دوبارہ ضرور خریدوں گی ۔اُردو کا حال۔اس موضوع پر پڑھنے والوں کے لیے ایک اچھی کتاب ہے۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
یہ اردو زبان بھی خوب ہے۔ کہیں پیدا ہوئی، کہیں پروان چڑھی، کہیں پناہ لی، کہیں نزاکتوں سے بھر گئی، کہیں لچھے دار ہوئی، کہیں اس پر جوتم پیزار ہوئی، الفاظ میں باریکی، جملوں کی بناوٹ، ادائیگی میں لگاوٹ، نِت نئے جنم لیتی گئی، ہر روپ میں نکھرتی گئی۔ دلوں میں اترتی گئی، زبان پر چڑھتی گئی، کانوں میں رس گھولتی، خیالوں کے پرئے باندھے ذہنوں کے جھروکوں میں سجی، کبھی ہندی کا رنگ، کبھی فارسی کا رنگ، کبھی عربی کی بلاغت - - - - -

- - دربار میں گئی تو بندی کورنش بجا لائی، شاہی زبان سے نکلی تو فرمانِ ظلِ الٰہی قلعہ معلٰی کی زبان کہلائی :

- - - ہم ہیں اردوئے معّلٰی کے زباں داں اے عرش

گلی کوچوں میں گئی، خواص و عام میں پھیلی، کنجڑے قصائیوں کی زبان، بھٹیارنوں کی لڑائی، “کرخندار“ کی “ آریا - جاریا“، شرفا کی “ آپ جناب “، نوابوں کی زبان، بگڑے رئیسوں کی زبان - - - - - -

- - - زبان دانی کا دعوہ کہیں اور تنبیہ کہیں :

مصرعہ : کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

سازوں میں چھڑی، سُر میں رچی، گلے میں اُتری، انگ انگ سے پھوٹی، شاعرانہ طبیعت کچھ اور مچلی، زورِ قلم اور زیادہ، کسی کے گھر کی لونڈی بنی تو کسی زبان پر کبھی نہ چڑھی :

- - - میرے محبوب توہرے پردہ نسینی کی کسم
- - - میں نے اسکن کی قطارن میں توہکے دیکھلئی

- - - ہندی کا انگ لیا، برج بھاشا کا سنگ ہوا، خسروین جاگی :

مصرعہ : تن میرا من پیہوا، دو بھئی اک رنگ

فارسی کی شیرینی ملی اور یوں گھلی کہ :

- - - آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائیش
- - - گوئم مشکل وگرنہ گوئم مشکل

عربی سے جان پڑی :

- - - ہم نے کی سب معاف بے ادبی
- - - سبقت رحمتی علٰی غضبی

انگریزی کو بھی سمو لیا، دلاور فگار نے کسی سوٹ پوش سے پوچھا کہ آپ ہیں کوئی سارجنٹ، کہنے لگے کہ اپکو معلوم بھی نہیں “ آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ“

- - - زبان خوب سے خوب تر ہوئی، شاعری نے کچھ اور رنگ بھرا، ایک تو حسن ہو اس پر بیان کس کا، حُسن دو آتشہ، عشق دیوانہ ہوا، ہیرے کا جگر پھول کی پتی سے کاٹا، بلبل کے پر رگِ گل سے باندھے، دہلی کی زبان، لکھنئو کے تکلفات، دکن کی باتیں بھل بھلیاں، جو بولے تو پوچھا “ کیا بول کے بولے“

گاڑی تیزی سے جا رہی تھی، ڈرائیور کوئی قصہ سنا رہا تھا، ہم اپنے خیالوں میں بالکل ہی کھوئے ہوئے ہوں گے اور شائد ہنکارا بھرنا بھول گئے ہوں گے، اس لیئے گردن موڑ کر کہا، “ ٹھیک ہے نا سر، بے نکوف کے ساتھ بے نکوف تو بننا ہی پڑتا ہے۔“
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی سماعت پر یہ گراں گزرتے ہیں ، میں ان سے محظوظ ہوتا ہوں ۔ میرے خیال میں انڈیا میں اس میں تنوع کا اثر زیادہ ہے ۔
جی سید صاحب آپ نے درست کہا لیکن یہ الفاظ پاکستان میں بھی بالی وڈ کے صدقے میں عام ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک موقع جب سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے وہ "اپنے" کی جگہ "میرے" کا استعمال ہے، جیسے میں میری ماں سے بہت محبت کرتا ہوں یا میں میرے ابا کی بہت عزت کرتا ہوں۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
جی سید صاحب آپ نے درست کہا لیکن یہ الفاظ پاکستان میں بھی بالی وڈ کے صدقے میں عام ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک موقع جب سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے وہ "اپنے" کی جگہ "میرے" کا استعمال ہے، جیسے میں میری ماں سے بہت محبت کرتا ہوں یا میں میرے ابا کی بہت عزت کرتا ہوں۔ :)
بالکل سر پیٹنے کا مقام ہے ۔کہ میں میرے اباّ کی بہت عزت کرتا ہوں:)
 

سیما علی

لائبریرین
جی سید صاحب آپ نے درست کہا لیکن یہ الفاظ پاکستان میں بھی بالی وڈ کے صدقے میں عام ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک موقع جب سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے وہ "اپنے" کی جگہ "میرے" کا استعمال ہے، جیسے میں میری ماں سے بہت محبت کرتا ہوں یا میں میرے ابا کی بہت عزت کرتا ہوں۔ :)
وارث صاحب!!!!!
رضا علی عابدی صاحب اپنی کتاب “اردو کا حال میں کہتے کہ انہیں:
اردو سے اپنی محبت پر انہیں کسی قسم کا احساسِ کمتری نہیں۔ نہ صرف محبت بلکہ محبت کا اظہار بھی“ یہ زبان مجھ سے نہیں مگر میں اس زبان سے ضرور ہوں۔ اس نے میرا بھلا چاہا، میں اس کا بھلا چاہتا ہوں۔ یہ کوئی ادلے بدلے کا بندوبست نہیں، یہ میرے آنگن میں بکھری ہوئی روشنی اور میرے چمن میں پھیلی ہوئی خوشبو ہے، یہ میرے سینے میں دھڑکتی ہوئی زندگی کی علامت ہے، یہ میرے وجود پر برستی ہوئی ٹھنڈک اور میرے ماتھے پر رکھی ہوئی ماں کی ہتھیلی ہے۔ جس طرح اس میں عربی، فارسی، ہندی، بنجابی، سندھی اور گوجری کی آمیزش ہے بالکل اسی طرح یہ زبان راحت، چین، سکون، آرام اور آسائش کا آمیزہ ہے۔ ”
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی تعصب کے بغیر اگر لکھا جائے (کہ صاحب لڑی نے خود پختون اور کراچی کے اہلِ زبان کا ذکر کیا ہے) تو اردو کی حالت مختلف علاقوں کے حساب سے کچھ ایسی بنتی ہے:

پختون برادران: ان کو اکثر تذکیر اور تانیث کا مسئلہ ہوتا ہے اور اس سے بعض اوقات کافی دلچسپ صورتحال بن جاتی ہے۔ اسی طرح دو چشمی ھ کے ساتھ مل کر جو الفاظ بنتے ہیں ان کے تلفظ میں بھی مسئلہ ہوتا ہے، جیسے بھ، پھ وغیرہ سے بننے والے حروف۔

کراچی: ان کا حال صاحب مراسلہ نے تفصیل سے لکھ دیا، یہ کچھ الفاظ کو لٹکاتے بھی ہیں جیسے 'فلم' کا تلفظ "فی لیم" جا بنتا ہے۔

پنجابی: ہم جیسے پنجابی، انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ چھوٹے چھوٹے تین حرفی الفاظ جن میں دوسرا اور آخری حرف ساکن ہوتا ہے ان کا تلفظ دوسرے حرف پر زبر لگا کر کرنا ہے، جیسے برف، گرم، سرد، زرد، سرخ، سبز، مرچ، صبر، قبر، جبر، شکل وغیرہ۔

مشرقی (انڈین) پنجاب: یہ 'پھول' کو فول کہتے ہیں اور 'ڈیم فول' کو ڈیم پھول۔

:)
 
اہلِ زبان ہیں کراچی والے، اس قدر تو اُن کا حق بنتا ہےماسٹر جی۔
بھائی ہمیں انگریزی الفاظ سے یا اُن کے تلفظ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بلکہ ہمیں تو افسوس ہوتا ہے جب کوئی کہتا ہے کہ ’’کراچی کی آبادی تین کروڑ ہیں گی‘‘ یا پھر ’’پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس کراچی والے دیتے ہینگے‘‘
چنانچہ ساری گفتگو کا حاصل کلام یہ ہے کہ
’’اہل زبان کے ہاتھوں زبان کی یہ دُرگت بنتے دیکھنا کچھ ہضم نہیں ہو رہا۔‘‘
کل ہی کی بات ہے کراچی کے رشتہ داروں نے گلہ کیا کہ آپ کچھ زیادہ ہی حساسیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیا پشتو بولنے والے اُردو کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ یا پنجاب میں اُردو صاف بولی جاتی ہے؟
میں نے جواباً عرض کیا کہ جی نہیں۔ مجھے اور یقیناً سارے پاکستانیوں کو اس بات کا یقین تھا کہ پاکستان میں خالص ترین اُردو صرف اور صرف کراچی میں ہی مل سکتی ہے کیونکہ یہاں قیام پاکستان کے بعد وہ لوگ ہجرت کرکے آئے جو متحدہ ہندوستان میں بھی اُردو بولنے والے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً دہلی‘ لکھنؤ وغیرہ۔
اور ویسے بھی لاہور یا پنجاب کے دیگر علاقوں میں تو پنجابی کا غلبہ ہے چنانچہ اُردو پنجابی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی بلکہ اُردو کم اور پنجابی زیادہ ہو گئی۔ مثلاً

لاہور کے ایک اُردو میڈیم سکول سے واپسی پر ایک لڑکی نے گھر میں داخل ہوتے ہی کہا ’’ مما ! دیکھیں ناں‘ کسی نے ہمارے بوئے کے بالکل سامڑیں اِنّا وَڈا ٹویا مارا ہوا ہے کہ نہ لانگا جاتا ہے اور نہ ٹاپا جاتا ہے‘‘
(ترجمہ: امی ! دیکھیں ناں‘ کسی نے ہمارے دروازے کے بالکل سامنے اتنا بڑا گڑھا کھودا ہوا ہے کہ نہ گزر سکتے ہیں اور نہ پھلانگ سکتے ہیں)
 
آخری تدوین:
Top