اور سنایئے غزلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیفی

محفلین
شوق قدوائی لکھنو کے بڑے شاعر تھے۔ اپنا کلام سنانے کے بہت شوقین تھے۔ اسی لیے ان کے دوست، ہمسائے ان سے بہت گھبراتے۔ یہ ان کو دعوت کے بہانے یا بیماری کا دھوکا دے کر بلاتے۔ مرغن کھانے، آم، خربوزے کھلاتے، پھر اپنا کلام سنانے بیٹھ جاتے۔ سہ پہر کا پھنسا شکار رات تک ان کے کلام سے مستفید ہوتا، پھر اس کو ڈنر کراتے اور دستر خوان سے اٹھا کر غزلوں پر غزلیں سناتے۔ تھکاوٹ کے آثار دیکھتے تو چائے منگواتے، پان پیش کرتے یا حقہ بڑھاتے۔ وہ اجازت چاہتا تو اصرار کر کے اپنے ہاں سلا لیتے اور اس کے بیدار ہونے پر یہ سلسلہ پھر سے شروع کر دیتے۔ اگر شوق صاحب غسل خانے جاتے یا کسی ضرورت سے اٹھتے تو ان کی جگہ ان کے چھوٹے بھائی ابر قدوائی آن موجود ہوتے اور وہ اپنی غزلوں سے شوق فرمانا شروع کر دیتے، مشکل ہی سے بے چارے سامع کی جان چھوٹتی۔
 

ثناءاللہ

محفلین
کہیں آپ بھی ایسے شاعر تو نہیں کہ جن سے جان چھڑانی مشکل ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اگر آپ بھی شوق قدوائی صاحب کی طرح کھلا پلا کہ غزلیں سنائیں تو برا نہیں۔ :lol:
 

سیفی

محفلین
ثناءاللہ نے کہا:
کہیں آپ بھی ایسے شاعر تو نہیں کہ جن سے جان چھڑانی مشکل ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اگر آپ بھی شوق قدوائی صاحب کی طرح کھلا پلا کہ غزلیں سنائیں تو برا نہیں۔ :lol:

ثناء بھیا!!
حکماء کہتے ہیں کہ کھانے سے ذہنِ انسانی ثقیل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شوق قدوائی کے سامعین نے اسے اتنا مقبول نہ بنایا جیسے ذوق و غالب تھے۔

میں نہیں چاہتا کہ اپنے پلے سے خرچہ بھی کروں اور شوق قدوائی کی طرح گمنام بھی رہوں

اور سناؤ :roll:
 
Top