اور بھی بیٹھے ہیں تیرے شیدائی راہوں میں

سیفی

محفلین
اور بھی بیٹھے ہیں تیرے شیدائی راہ

برلن (ٹی وی رپورٹ+جنگ نیوز) جرمنی کے عام انتخابات میں کوئی جماعت حکومت بنانے کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی تاہم امکان ہے کہ اپوزیشن کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹس کی قیادت میں مخلوط حکومت وجود میں آجائے گی، کرسچین ڈ یموکریٹس کی سربراہ انجیلا مارکل نے چانسلر شروڈر سے کہا ہے کہ وہ اپنی شکست تسلیم کریں کیونکہ ہمیں 12 لاکھ ووٹوں سے جیت حاصل ہوئی ہے،ادھر چانسلر شروڈر نے کہا ہے کہ عہدہ برقرار رکھنے کیلئے مطلوبہ اکثریت موجود ہے، انتخابات میں برسراقتدار جماعت سوشل ڈیموکریٹس کے چانسلر ہارڈ شروڈر اور حزب اختلاف کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹس لیڈر انجیلا مارکل کے درمیان سخت مقابلہ ہوا جس میں کرسچین ڈیموکریٹس نے تین نشستوں کی معمولی اکثریت حاصل کی لیکن یہ حکومت بنانے کیلئے کافی نہیں تاہم دونوں لیڈروں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حکومت تشکیل دیں گے اس سلسلے میں دونوں لیڈر دوسری سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورے کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے جرمنی والوں کو بھی ہماری طرح اقتدار کی دیوی سے محبت ہو گئی ہے۔۔

ع۔ اور بھی بیٹھے ہیں تیرے شیدائی راہوں میں
دیکھے ہیں کتنا دم خم باقی ہے تیری بانہوں میں۔
:D
 

نبیل

تکنیکی معاون
کچھ ماہ قبل جرمنی کے ایک انتہائی اہم صوبے کے اتخابات میں شکست کے بعد چانسلر شروڈر نے فیصلہ کیا کہ اب ان کے پاس حکومت چلانے کے لیے ضروری مینڈیٹ نہیں رہا۔ اپوزیشن کیونکہ نہایت طاقتور ہو گئی تھی اس لیے وہ شروڈر کی ہر قانون سازی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی تھی۔ چانسلر شروڈر نے نئے مینڈیٹ کے لیے دوبارہ عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور مقررہ وقت سے ایک سال قبل انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ ہم پاکستان میں اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جنرل مشرف کے مشیران خاص ابھی سے عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ 2007ء کے بعد بھی صدر رہیں گے اور اس طرح ق-لیگ بھی اقتدار سے چپکی رہے گی۔ اقتدار کی بھوک کا بھر پور مظاہرہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ہوا جہاں من پسند امیدواروں کو جتانے کے لیے انتخابات سے پہلے اور اس کے دوران ہر گھٹیا حربے کو استعمال کیا گیا۔ یہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہی تو تھا۔

جرمنی میں اپوزیشن پارٹیوں نے انجیلا میرکل کو چانسلرشپ کا امیدوار نامزد کیا اور اسے اپنی بھرپور کامیابی کا پورا یقین تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں عوام میں مقبولیت کھوتی گئیں۔ خاص طور پر جب چانسلر شروڈر اور انجیلا میرکل کے درمیان ٹی وی پر مباحثہ پیش ہوا تو اس کے بعد شروڈر کی پارٹی کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ چانسلر شروڈر جرمنی کی تاریخ میں میڈیا کو سب سے مہارت سے استعمال کرنے کی شہرت رکھتے ہیں اور اسی لیے انہیں میڈیا چانسلر بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب انجیلا میرکل جو کہ فزکس میں پی۔ایچ۔ڈی ہیں، کو میڈیا ایکسپرٹس کی ایک پوری ٹیم کی خدمات حاصل تھیں لیکن وہ خاطر خواہ پرفارمنس نہ دے سکیں۔ رہی سہی کسر ان کے نامزد وزیرخزانہ کرشوف نے پوری کردی جنہوں نے الیکشن میں کامیابی کے بعد ایک نہایت غیرمقبول معاشی ایجنڈے پر عملدرآمد کا اعلان کردیا۔ اس سے بھی اپوزیشن اتحاد کو کافی تقصان پہنچا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شروڈر کے اعتماد میں اضافہ ہوتا گیا۔

انتخابات کے نتائج سے اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ جہاں انہیں مطلق اکثریت حاصل ہونے کی امید تھی، اب وہ حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت بھی نہ حاصل کرسکیں۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد کو غیر متوقع طور پر عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اب الیکشن کے بعد صورتحال یہ ہے کہ کوئی پارٹی بھی از خود حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ بڑی پارٹیاں مل کر ایک قومی حکومت کی تشکیل دیں لیکن اس امکان کو دونوں اطراف سے رد کیا گیا ہے۔ اگرچہ ایسے موقعوں پر جرمنی کا صدر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے لیکن صدر کوہلر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تمام تر سیاست جمہوریت کے فریم ورک کے اندر ہو رہی ہے۔ کوئی لوگ کسی قسم کے قومی مفاد کی خاطر فوج کو مداخلت کی دعوت نہیں دے رہے۔ جرمنی کے جمہوری نظام کا پاکستانی سیاسی نظام سے مقابلہ کرنا ہی مضحکہ خیز ہے۔ اس معاملے میں تو بھارت ہی ہم سے کئی درجہ بہتر ہے جہاں کبھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ گزشتہ انتخابات میں شکست کے بعد واچپائی کے الفاظ “ہم ہار گئے لیکن جمہوریت جیت گئی“ پاکستان کے باشعور طبقے پر بجلی بن کر گرے۔ بھارت میں جمہوری روایات مضبوط ہوتی گئی جبکہ ہمارا جمہوری عمل سے حاصل کیا ہوا ملک اس وقت فوجی آمریت، فصلی بٹیروں اور ملائیت کے علمبرداروں کے شکنجے میں ہے۔

جمہوریت نام ہی بار بار عوام سے رجوع کرنے پر آمادگی کا ہے اور جرمنی کے حالیہ انتخابات نے اس بات کو ثابت کر دکھایا ہے۔
 

زیک

مسافر
نبیل آپ کا کیا خیال ہے کون حکومت بنائے گا؟ کیا ٹریفک لائٹ کولیشن بنے گی یا گرینڈ یا جمیکا؟ مجھے تو لگتا ہے اینجلا مرکل گئی کام سے۔ سی ڈی یو کا کوئی نیا لیڈر آئے گا۔ مگر چانسلر شروڈر بھی بن سکتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
زکریا:

اس وقت سارا جرمنی یہی سوال پوچھ رہا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ اگر 19 اکتوبر تک یہ اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا تو یہ بھی امکان ہے کہ نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس وقت تک تو شروڈر صاحب ہی جمے رہے گیں اقتدار کی کرسی پر۔
 

موبی

محفلین
نبیل لگتا ہے کہ لفظ مظبوط آپ کے ذخیرہ الفاظ میں شامل ھو گیا ھے ۔ آپ نے اپنی پوسٹ میں دو جگہوں پر اس کو استعمال کیا ھے ، جب کہ اس سے قبل لکہا جا چکا ھے کہ درست لفظ مضبوط ھے ۔
 

موبی

محفلین
املاء

نبیل ایسی غلطیاں ھر روز ھم سےسر زد ہوتی ھیں ۔ ابھی اگلے روز اعجاز اختر صاحب کی ایک تحریر میں دو فاش غلطیاں دیکہنے میں آ ئیں۔ میں آپ کے قاعدہ کو استعمال نہیں کرتا ھوں ، بلکہ منہ زبانی لکہتا ھوں ۔ شاید اس لئے ھمزہ کو درست جگہ پر نہیں ڈال پاتا اور ہ اور ھ میں گڑ بڑ ھو جاتی ہے ۔
 
Top