اودھی زبان اور اس کا پس منظر

رانی پدمنی کی بے مثال وفاداری اور بہادری کی داستان کو سب سے زیادہ شہرت“پدماوت”نامی ایک طویل نظم سے ملی ۔جسے1540؁میں ملک محمد جائسی نے اودھی زبان میں تحریر کیا۔اس نظم کا انتساب شیر شاہ(1486؁سے1545؁)کے نام سے تھا۔جبکہ اودھی زبان میں یہ پہلا عظیم ادبی شاہکار تھا۔

اودھی
ایک انڈو آرین زبان ہے۔ زیادہ تر یہ زبان اتر پردیش کے علاقے اودھ میں بولی جاتی ہے۔لیکن بہار،مدھیہ پردیس دہلی اور نیپال میں بھی اودھی زبان بولنے والے پائے جاتے ہیں۔اودھی کا ایک اور لہجہ برج بھاشا یا بندیلی (بندیل کھنڈ ایک علاقہ ہے اسی کی نسبت سے بندیلی)سے زیادہ متاثر ہے۔وتسا یعنی زیریں دو آب کے حصوں یعنی اودھ ریجن کے جنوب میں بھی بولا جاتا ہے۔ان علاقوں میں کانپور اور
اِلٰہ آباد
شامل ہیں۔
گو کہ آج کل اودھی زبان کو ہندی کا ہی ایک انداز یا لہجہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن ہندی کے ارتقاء سے پہلے اودھی زبان برج بھازا (بھاشا یا بھاکھا)کے بعد دوسری بڑی زبان تھی۔ اودھی زبان میں جو شاہکار تخلیق ہوئے ان میں تلسی داس کی رام چرت مانس(رامائن)اور ملک محمد جائسیی کی پدما وت (پدماوت)قابل ذکر ہیں۔

اودھی کی “ماردری زبان”برج بھاشا ہے،جسے اس علاقے کی قدیم ترین زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جبکہ اس کے علاوہ اودھی نے اپنے مشرق میں بولی جانے والی
ماگدھی(مگدھ کی نسبت سے ماگدھی) کا اثر بھی قبول کیا۔
ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ اگر کھڑی زبان کو جدید ہندی زبان کا باپ قرار دیا جاتا ہے تو اودھی کو اس کی ماں کہا جاسکتا ہے۔ ہندی کو پہلے ہندوی کہا جاتا تھا اور ماہر لسانیات کے مطابق اس زبان کو ان لوگوں نے رواج دیا جو دہلی کے قرب و جوار کےعلاقوں سے ہجرت کر کے لکھنؤ پہنچے تھے۔ ان میں امیر خسرو جیسے لوگ بھی شامل تھے جنہیں بعض افراد جدید ہندی کا بانی قرار دیتے ہیں۔اسی طرح اودھی نے ہندی کی ترویج اور ارتقا میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
اودھی زبان،بھوج پوری سے قطعی مختلف ہے۔ان کے لہجے بے شک ایک دوسرےسے ملتے ہوں لیکن ویسے یہ ایک دوسرے سے قطعی علیحدہ زبانیں ہیں۔یہ دونوں ہندوستانی فلموں اور ڈراموں میں عام طور پر وہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔جنہیں ہجرت کر کے بمبئی میں اپنی زندگی کی جدو جہد کرتے دکھایا جاتا ہے۔
اودھی زبان ہندوستان کے اضلاع لکھنؤ ، رائے، بریلی،فیض آباد ، بارہ بنکی ، سیتا پور، لکھم پور کھیری،ہردوئی، بہرائچ، گونڈا، سلطان پور، ادوناؤ،پرتاب گڑھ، بھیم پور،بلرام پور کے علاوہ کانپور اور الہ آباد میں بھی بولی جاتی ہے۔
ملک محمد جائسی(جائس نامی قصبہ کی نسبت سے جائسی) کا شمار اسی اودھی زبان کے مشہر شعراء میں ہوتا ہے۔1477؁ میں پیدا ہونے والے ملک محمد جسی کا تعلق بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع رائے بریلی کے گاؤں سے تھاجو اب بہت بڑا قصبہ ہے۔

ملک محمد جائسی(جائس نامی قصبہ کی نسبت سے جائسی) کا مقبرہ امیٹھی(امیٹھی، ضلع لکھنؤ، اُتر پردیس جہاں اورنگ زیب عالم گیر رحمۃ اللہ علیہ کے استا د حضرت ملا جیون کا مزار ہے لیکن جیس شہر میں ان کا نام پر”جائسی سمارک جائسی میموریل ہال” موجود ہے۔
ملک محمد جائسی نے گو”آخراوت”اور “آخری کلام” جیسی معرکتۂ الآرا نظمیں بھی لکھیں ،لیکن انہیں اصل شہرت میں چتوڑپر
سلطان علاؤ الدین خلجی کے حملے کی وجوہات اور رانی پدمنی کی اجتماعی خودکشی کا احوال نہایت تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق اس طویل نظم میں “چتوڑ”کو “جسم”راجا کو ذہن ،سیلون کو دل، پدمنی کو عقل، اور علاؤالدین کو ہواس کے استعاروں میں استعمال کیا گیا ہے۔ جس نے پدما وت کو دینا اور حکمران کو خواہش سے تعبیر کیا ہے۔چنانچہ پوری نظم میں اسی ترتیب کو کارفرما رکھا گیا ہے۔
تواریخ میں ہے کہ رانی پدمنی کی تقلید مین چتوڑ کی دو اور مہارانیوں نے بھی بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں اپنی عزت و ناموس کو محفوظ رکھنے کے لئے اجتماعی چتا میں جلنے کا راستہ اپنایا، لیکن رانی پدمنی کو سب سے زیادہ شہرت نصیب ہوئی،کیونکہ سلطان علاؤالدین نے دوسرے حملہ آوروں کے برعکس یہ لڑائی چتوڑپر قبضے کے لئے نہیں بلکہ رانی پدمنی کے حصول کے لئے لڑی تھی۔
 
آخری تدوین:
اس دھاگے کی تصحیح اور تدوین کے لئے میں محترم فارقلیط رحمانی کا بہت مشکور ہوں نہ صرف انہوں نے تاریخی حوالوں سے رہنمائی فرمائی بلکہ ان کی بدولت مجھے بہت سع معلومات حاصل ہوئیں
اس تعاون پر میں دل کی گہرایئوں سے ان کے لئے دعاگو ہوں
 
Top