اوباما ہمارے ہیں (قمر علی عباسی)

ساقی۔

محفلین
اوباما ہمارے ہیں
(قمر علی عباسی)
مشرق وسطیٰ کے ایک قبیلے گلیلی میں رہنے والے لگ بھگآٹھ ہزار بدوی عربوں (خانہ بدوش قبیلے کے ارکان) نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما ان کے قبیلے کے ایک گمشدہ رکن ہیں۔
گلیلی قبیلے کے ایک رکن عبدالرحمن شیخ عبداللہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں ایک سال قبل ہی علم ہو گیا تھا لیکن اظہار خیال میں تامل ہو رہا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کوئی بات بھی امریکی انتخابات پر اثر انداز ہو۔ انہوں نے اوباما کو ایک مکتوب بھی ارسال کیا ہے جس میں ان کے خاندان کے بارے میں بتایا اور قبیلے کے متعلق وضاحت کی ہے لیکن اوباما کی جانب سے ابھی کوئی جواب نہیں آیا ہے لیکن وہ جلد ہی جواب ملنے کی طرف سے پرامید ہیں۔ شیخ عبداللہ کی 95 سالہ ضعیف والدہ کا یہ بیان ہے کہ منتخب صدر امریکہ کی شباہت ان افریقی تارکین وطن ورکرز کی شباہت سے ملتی ہے جنہیں 1930ءکی دہائی میں برطانیہ کی باجگزار حکومت فلسطین کے شیخوں نے ملازم رکھا تھا۔
شیخ عبداللہ نے بتایا کہ میرے پاس اس خاندان کے سلسلے کے ثبوت دستاویزی شہادت کی شکل میں موجود ہیں۔
گلیلی میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور وہ ”بدوی اوباما“ کی فتح کا جشن جی بھر کر منائیں گے۔ شیخ عبداللہ نے زبردست دعوت کا اہتمام کیا جس میں بارہ بکرے ذبح کئے گئے۔ انہوں نے یہ خواہش کی کہ مبارکباد کیلئے ایک وفد اوباما کے پاس بھی جائے اس قبیلے میں نئے پیدا ہونے والے لڑکوں کا نام بھی اوباما رکھا جا رہا ہے۔
اوباما کے امریکی صدر بنتے ہی مسلمان ملکوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ان میں خاص طور سے پاکستان شامل ہے۔ اوباما کی والدہ گوجرانوالہ میں کچھ عرصے ایک صحت کے ادارے کیلئے کام کرتی رہی ہیں۔ اوباما کئی بار پاکستان گئے ہیں۔ ایک بار لاہور میں قیام کیا۔ دوسری بار سندھ میں رہے وہاں لوگوں سے میل جول اور بات چیت کا موقع ملا۔
اوباما کی جیت پر گوجرانوالہ میں جشن منایا گیا کیونکہ ان کا خیال ہے اوباما کا رشتہ گوجرانوالہ سے ہے ہم خود گوجرانوالہ سے اتنی بار گزرے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی انہی میں سے ہیں۔ اس کے بازار میں کھانا کھایا‘ کبھی گزرتے ہوئے صبح کا ناشتہ کیا۔ کینو‘ مسمی‘ مالٹا وہاں سے ڈھیروں خریدا اگر اوباما کسی وقت اپنا رشتہ گوجرانوالہ سے جوڑ کر پسندیدگی کا اظہار کریں تو ہم اس میں شامل ہوں گے۔
ہم لاہور میں بھی رہے ہیں لیکن ان کی وہاں آمد سے کچھ پہلے ہمارے مزاج میں لاہور خاصا شامل ہے۔ وہاں کے گل و گلزار کوچہ و بازار کھیت کھلیان پسند کرتے ہیں۔ لاہور کے موسم، لوگوں کی محبت اور کھانے کے ذائقے ہماری یادوں میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔ اس لئے اوباما سے لاہور کی نسبت سے ہمارا بھی ایک رشتہ بنتا ہے۔
اوباما اپنے ایک دوست کے گھر قیام کرنے سندھ پہنچے۔ شہروں کی سیر کی، لوگوں سے بات چیت کی۔ ہم حیدرآباد، کراچی دونوں کے رہائشی ہیں اسلئے اوباما کی دوستی پر ہمارا بھی حق ہے۔ پاکستان کے شہر کراچی میں ایک علاقہ لیاری کا ہے جہاں اوباما کی جیت کے بعد خوشیاں منائی گئیں‘ مٹھائیاں بانٹی گئیں کیونکہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اوباما انہی میں سے ہیں۔
آزاد قبائل کے علاقے وزیرستان میں بھی اوباما کے آنے پر بڑی امیدیں وابستہ رکھی گئی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ظلم اور جبر کو ختم کرانے کی کوشش کریں گے۔
اوباما کے بزرگ کینیا میں رہتے ہیں‘ وہاں بھی خوشیاں منائی گئیں۔ لوگ سڑکوں پر نکل کر رقص کرنے لگے۔ کینیا میں ایک دن کی چھٹی کی گئی۔ اس ملک کےلئے فخر کی بات ہے کہ ایک ایسا شخص امریکہ کا صدر بن گیا ہے جس کا تعلق کینیا سے ہے۔ اوباما کے سوتیلے بہن بھائی بھی ٹی وی نیوز میں رقص کرتے نظر آئے۔ اوباما کے والد مسلمان تھے اور بعد میں سوتیلے والد بھی انڈونیشیا کے ایک مسلمان خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو اوباما کو لیکر اپنے ملک چلے گئے اور دس سال تک مدرسے میں تعلیم دلوائی۔
اوباما کے دوست‘ حمایتی اور ان کا ساتھ دینے والے پاکستان کے نوجوان تھے۔ ان میں سے دو ایک تو ابھی تک رابطے میں ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن اوباما نے ہر بار اعلان کیا ہے کہ وہ عیسائی ہیں۔ نجانے کیوں مسلمان اس بات پر یقین نہیں کرتے کیونکہ ان سب کا خیال ہے کہ اوباما لاکھ انکار کریں لیکن وہ اپنے خاندانی مذہب پر قائم ہیں۔
گلیلی قبیلے کے لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اوباما ان میں سے ہیں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تعجب ہے کہ صرف ایک قبیلہ نے یہ دعویٰ کیوں کیا ہے۔ افریقہ کے بہت سے ملک ایسے ہیں جو ان سے رشتے کے خواہشمند ہو سکتے ہیں۔ انڈونیشیا میں ابھی خاموشی ہے اسے بھی بولنا چاہئے۔ سچ پوچھیں تو دنیا کا ہر ملک ہر قوم ہر قبیلہ اوباما سے جوڑنا چاہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اوباما اپنا رشتہ کس سے جوڑتے ہیں۔​
 

arifkarim

معطل
حیرت ہے۔ اب تو اوباما یہودی لابی کے ہیں۔ یہ بات لوگوں‌کو سمجھ کیوں نہیں آتی؟!
 

ساجد

محفلین
اوباما کا ایک رشتہ تو ہم سب کے ساتھ ہے جسے انسانیت کا رشتہ کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی حد تک یہی قائم رہ جائے تو بڑی بات ہے۔
اس رشتے کا تقاضا ہے کہ انسانیت کا احترام کیا جائے اور دوسروں کی جان و مال اور ملکوں پہ ڈاکہ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے نیز سابقون کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایک نیا امریکہ متعارف کروایا جائے۔
 

arifkarim

معطل
اوبامہ حضور وہی کریں گے، جسکا آرڈر بینکرز کی طرف سے آئے گا۔ فی الحال تو ایران پر حملہ کی حکمت عملی پر غور کیا جا رہا ہے۔
 
Top