الف عین
صابرہ امین
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
ظہیر احمد ظہیر
----------
ان کو حقیقتوں کا کچھ بھی پتا نہیں ہے
جو سوچتے ہیں دل میں کوئی خدا نہیں ہے
--------
جانا ہے اس جہاں سے اک دوسرے جہاں میں
ہے ابتدا ہماری پر انتہا نہیں ہے
-------
پھونکی جو روح رب نے انسان بن گئے ہم
کیسا ہے یہ تعلّق اس کا پتا نہیں ہے
-----------
مانا کہ لوگ ہوں گے دنیا میں برگزیدہ
لیکن خطا سے کوئی ہرگز بچا نہیں ہے
---------یا
لیکن خطا سے کوئی بھی ماورا نہیں ہے
---------
دیتا ہے رزق ہم کو جس نے ہمیں بنایا
کوئی نہیں جو اس کے در کا گدا نہیں ہے
-------
یہ فرض ہے ہمارا اوروں کے کام آئیں
کم طرف ہے وہ انساں جس میں سخا نہیں ہے
----------
مر کر نہ ہم مریں گے ، یوں سوچنا عبس ہے
زندہ رہیں گی روحیں جن کو فنا نہیں ہے
---------
ارشد تری یہ باتیں سب کو نہ ہضم ہوں گی
قرآن کہہ رہا ہے کچھ بھی ترا نہیں ہے
----------یا
قرآن کیں ہیں باتیں یہ فلسفہ نہیں ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
الف عین
صابرہ امین
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
ظہیر احمد ظہیر
----------
ان کو حقیقتوں کا کچھ بھی پتا نہیں ہے
جو سوچتے ہیں دل میں کوئی خدا نہیں ہے
--------
درست
جانا ہے اس جہاں سے اک دوسرے جہاں میں
ہے ابتدا ہماری پر انتہا نہیں ہے
-------
درست
پھونکی جو روح رب نے انسان بن گئے ہم
کیسا ہے یہ تعلّق اس کا پتا نہیں ہے
-----------
یہ تعلق واضح نہیں ہوا
مانا کہ لوگ ہوں گے دنیا میں برگزیدہ
لیکن خطا سے کوئی ہرگز بچا نہیں ہے
---------یا
لیکن خطا سے کوئی بھی ماورا نہیں ہے
---------
برگزیدگی فرض کرنے سے خطا سے ماورا ہونے کا تعلق واضح نہیں
دیتا ہے رزق ہم کو جس نے ہمیں بنایا
کوئی نہیں جو اس کے در کا گدا نہیں ہے
-------
ٹھیک ہے
یہ فرض ہے ہمارا اوروں کے کام آئیں
کم طرف ہے وہ انساں جس میں سخا نہیں ہے
---------
اس میں کم ظرفی کی کیا بات ہے؟ کچھ اور کہا جائے کم ظرف کی جگہ
-
مر کر نہ ہم مریں گے ، یوں سوچنا عبس ہے
زندہ رہیں گی روحیں جن کو فنا نہیں ہے
---------
عبس عربی کا( عبس و تولی) یا فارسی کا عبث؟ تقابل ردیفین سے بچیں۔ روحوں کو بھی "اپنی روحیں" کہنا ربط پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔" 'ہم نہ مریں گے" بھی رواں نہیں
ارشد تری یہ باتیں سب کو نہ ہضم ہوں گی
قرآن کہہ رہا ہے کچھ بھی ترا نہیں ہے
----------یا
قرآن کیں ہیں باتیں یہ فلسفہ نہیں ہے
دوسرے متبادل سے تو کچھ ربط ہی نہیں بنتا، بلکہ سوال اٹھتا ہےکہ ارشد قرآن کیسے ہو سکتا ہے؟
پہلا مصرع "ارشد، یہ تیری باتیں" روانی میں بہتر نہیں؟
مجموعی طور پر اس غزل میں بھی وہی خیالات نظر آتے ہیں جو آپ کی ہر غزل میں ہوتے ہیں۔
 
الف عین
-------------
(اصلاح)
------
پھونکی جو روح رب نے انسان بن گئے ہم
رب سے ہے کیا تعلّق اس کا پتا نہیں ہے
-----------
کرتے ہیں سب خطائیں ،توبہ مگر ہے لازم
-------یا
ہم سے خطا تو ہو گی ، توبہ مگر ہے لازم
کوئی خطا سے ہرگز بھی ماورا نہیں ہے
--------
رستے میں جو خدا کے دیتا نہیں کسی کو
کتنا بخیل ہے وہ جس میں سخا نہیں ہے
---------
مشکل نہیں سمجھنا ارشد تری یہ باتیں
ان میں کسی قسم کا بھی فلسفہ نہیں ہے
-------
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
-------------
(اصلاح)
------
پھونکی جو روح رب نے انسان بن گئے ہم
رب سے ہے کیا تعلّق اس کا پتا نہیں ہے
-----------
قابل قبول ہے اب
کرتے ہیں سب خطائیں ،توبہ مگر ہے لازم
-------یا
ہم سے خطا تو ہو گی ، توبہ مگر ہے لازم
کوئی خطا سے ہرگز بھی ماورا نہیں ہے
--------
یہ منقسم بحر ہے، ایک ٹکڑا "بھی ماورا نہیں ہے" کچھ ترتیب بدلیں
رستے میں جو خدا کے دیتا نہیں کسی کو
کتنا بخیل ہے وہ جس میں سخا نہیں ہے
---------
قابل قبول
مشکل نہیں سمجھنا ارشد تری یہ باتیں
ان میں کسی قسم کا بھی فلسفہ نہیں ہے
-------
بھی فلسفہ! یہ بھی ویسا ہی ہے جس پر اوپر اعتراض کیا تھا، دوسرے، قسم کا تلفظ س متحرک سے تقطیع ہو رہا ہے جب کہ اسے ساکن ہونا تھا۔
ان میں کسی طرح کا کچھ فلسفہ نہیں ہے
بہتر ہے
 
Top