ان شاء اللہ .......

بسم اللہ الرحمن الرحیم
(ٳن شاء اللہ)
محترمین ومکرمین
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
امید ہے سب خیریت وعافیت سے ہوں گے۔
پہلے بندہ خود ( ٳن شاء اللہ) کو(ٳنشاء اللہ) کی صورت میں لکھا کرتا تھا۔ لیکن جب سے معلوم ہوا کہ املائی طور پر ایسا لکھنا غلط ہے تو ایسا لکھنا چھوڑ دیا ۔
در اصل (ٳن) کو ملاکر لکھنے سے معنی بدل جاتا ہے۔ انشاء کے معنی غالبا اردو میں ’’تحریر ‘‘ کرنے کے آتے ہیں۔ جو کہ مقصود نہیں۔ بلکہ ہمارا مقصد (ٳن شاء اللہ) کہنے سے ( اگر اللہ نے چاہا ) ہوتا ہے۔
اور عربی زبان میں (ٳنشاء) کے معنی ( بلڈنگ بنانے) میں آتا ہے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل عربی مثال اور اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو
(۱) ٲنشٲنا مصنعًا للملابس۔ ہم نے کپڑے بنانے کی فیکٹری تعمیر کی۔
( ۲) ھذا الٳنشاء جمیل۔ یہ بلڈنگ خوبصورت ہے۔ بلڈنگ کو ’’عمارہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امید ہے آئندہ تمام احباب اس بات کا خیال رکھیں گے۔
نوٹ: کل میں نے کسی تعارفی ’’دھاگے‘‘ پر مختصر سا اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ (ٳن شاء اللہ) کو کس طرح لکھنا چاہئیے۔ تو قیصرانی بھائی نے پوچھا تھا کہ (ٳ) الف جسکے تحت ہمزہ ہو کس کنجی سے لکھا جاتا ہے؟ اس بات سے میرے ذہن میں بات آئی کے (ٳ) یعنی الف کے نیچے ہمزہ لکھنا عربی میں زیادہ موزون ومناسب ہے۔ اردو املا کے لحاظ سے غالبا الف بغیر ہمزہ کے بھی لکھ سکتے ہیں۔ یعنی (ان شاء اللہ) اس بارے میں اگر کوئی صاحب بتانا چاہیں تو ضرور بتائیں۔ شکریہ۔
یہ تو (ٳن شاء اللہ) لکھنے کا علمی روپ تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ (ٳن شاء اللہ ) کی کس طرح ہم انسان ’’درگت ‘‘ بناتے ہیں۔
(۱) ایک تو (ٳن شاء اللہ) وہ ہوتا ہے جو انسان کسی بات پر دل سے کہتا ہے کہ واقعتا (اگر اللہ نے چاہا) تو یہ کام ضرور ہوگا یا یہ کام ضرور کروں گا۔ ایسے لوگ خود دار اور با اعتماد ہوتے ہیں۔
(۲) دوسری قسم (ٳن شاء اللہ) کی وہ ہے جو ہم بالعموم کسی کو ’’ٹرخانے‘‘ کے لئےاس بابرکت لفظ کا سہارا لیتے ہیں۔ کئی دفعہ دوست احباب آپس میں کسی بات پر اتفاق کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں۔ انداز تکلم سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کس قسم کا (ٳن شاء اللہ) بول رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر کسی لا یعنی شخص یعنی جو خومخواہ تنگ کرنے کا عادی ہو اور ہمیں چکرانے کی حد پر اتر آئے تو اسے کہتے ہیں: ( ٳن شاء اللہ) (ٳن شاء اللہ) خدا نے چاہا تو ضرور بضرور کچھ ہوگا۔ پھر واقعتا اسباب مہیا کئے بغیر خدا پر ڈوری ڈال دی جاتی ہے۔ اور جس کے لئے کام کرنا ہو تو اسکو (ان شاء اللہ) ایک دفعہ سناکر خوشخبری کے انتظار کا کہا جاتا ہے۔
(۳) یہ ایک ایسا ( ان شاء اللہ) ہے جو غیر ارادی طور پر منہ سے نکل پڑتا ہے۔ اس کا مقصد اگلے کو رد کرنا نہ اس کا کام کرنا مقصد ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کہہ کر بھول جاتے ہیں بلکہ یاد ہی کہاں رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔
========================================
آہ بہت ہم سہتے ہیں، ان شاء اللہ
وصل کا کہہ کر کہتے ہیں، ان شاء اللہ
جانِ تمنا! وعدہ پورا کردو بھی
آگ تری میں جلتے ہیں ، ان شاء اللہ
دل تو کر رہا تھا مزید تحریر کروں۔ پر اس وقت کام پر ہوں اور کام مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ حافظ
راسخ کشمیری
اتوار ۶ ذی قعدہ ۱۴۲۷ھ
۲۶ نومبر ۲۰۰۶م۔ صبح پونے آٹھ بجے۔
 

دوست

محفلین
انشاءاللہ
ہم تو ایسے ہی لکھتے ہیں اور ایسے ہی پڑھا بھی ہے۔
ان شاءاللہ کہیں کہیں بلکہ شاید آپ کے ہاتھوں سے لکھا ہی دیکھا ہے۔
آپ کی بات ٹھیک ہے انشاءاللہ اکثر بغیر ارادے کے ایویں ہی کہہ دیا جاتا ہے۔خصوصًا وہ لوگ جن کی کوئی کام کرنے کی نیت ہی نہ ہو۔
 
دوست نے کہا:
انشاءاللہ
ہم تو ایسے ہی لکھتے ہیں اور ایسے ہی پڑھا بھی ہے۔
ان شاءاللہ کہیں کہیں بلکہ شاید آپ کے ہاتھوں سے لکھا ہی دیکھا ہے۔
آپ کی بات ٹھیک ہے انشاءاللہ اکثر بغیر ارادے کے ایویں ہی کہہ دیا جاتا ہے۔خصوصًا وہ لوگ جن کی کوئی کام کرنے کی نیت ہی نہ ہو۔

اگر میری یہ باتیں آپ کو قائل نہیں کر سکیں تو مزید تحقیق کرنے کی گنجائش موجود ہے کیا مزید تحقیق کرکے آپکو ارسال کردوں؟
 

رضا

معطل
دوست نے کہا:
انشاءاللہ
ہم تو ایسے ہی لکھتے ہیں اور ایسے ہی پڑھا بھی ہے۔
ان شاءاللہ کہیں کہیں بلکہ شاید آپ کے ہاتھوں سے لکھا ہی دیکھا ہے۔
آپ کی بات ٹھیک ہے انشاءاللہ اکثر بغیر ارادے کے ایویں ہی کہہ دیا جاتا ہے۔خصوصًا وہ لوگ جن کی کوئی کام کرنے کی نیت ہی نہ ہو۔
سلام
دوست بھائي! لگتا ہے آپ قرآن پاک نہیں پڑھتے یا شاید آپ نے غور نہ کیا ہو۔
قرآن پاک میں سب جگہ ۔ان شاء اللہ ایسے ہی لکھا گیا ہے۔
کبھی غور کیجئے گا۔(یہ تو صرف ایک مثال دی ہے۔اسی طرح جو جاننے والے ہیں وہ ان شاءاللہ اسی طرح لکھتے ہيں۔)
امید ہے کہ آپ آئندہ ان شاء اللہ اسی طرح لکھا کریں گے۔
 

زیک

مسافر
راسخ آپ کی بات عربی زبان کے حساب سے ٹھیک ہے مگر میں زبانوں اور الفاظ کو فرق انداز میں دیکھتا ہوں۔ جب کوئی لفظ یا اصطلاح ایک زبان سے مستعار لے کر دوسری زبان میں داخل ہو جائے تو وہ اس نئی زبان میں شامل ہو جاتی ہے اور پھر اس کی شکل، معانی وغیرہ میں وقت کے ساتھ کئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اب یہ نئی اشکال اور معانی غلط نہیں بلکہ نئی زبان کا حصہ ہوتے ہیں۔

اس لئے میرے خیال سے اردو میں انشاء اللہ ہی ٹھیک ہے۔
 
زکریا بھائی
یہ تحریر پوسٹ کرنے کے بعد آپ کی بات کی طرف بھی ذہن گیا تھا۔ آپکی بات درست معلوم ہوتی ہے میں نے جامع فیروز اللغات مرتبہ الحاج مولوی فیروز الدین رحمۃ اللہ علیہ مطبوعہ فیروز سنز لاہور مادہ (ا۔ن) صفحع نمبر ۱۳۰ پر دیکھا تو اس سے آپکی بات درست معلوم ہوئی۔ لیکن مندرجہ ذیل الفاظ دیکھر کر آپ مندرجہ بالا مضمون سے بھی اتفاق کریں گے
ملاحظہ ہو:
انشا (اِن۔شا) (۱) عبارت لکھنا۔ بات پیدا کرنا۔
(۲) عبارت۔ طرز۔ تحریر۔
(۳) کوئی بات پیدا کرنا۔
(۴) وہ کتاب جس میں خط وکتابت کے قواعد اور خطوط لکھے ہوں۔ عربی میں مزہ کے ساتھ تھا فارسی میں حذف کردیا گیا۔
یہ لفظ انشا کے معانی ہیں۔
نیز: (انشاء اللہ تعالی) اسی صورت میں لکھا ہے اور اسکا معنی اگر اللہ تعالی نے چاہا۔
سو اس صورت میں تصادم رسم میں تصادم نظر آتا ہے۔ آپ کا موقف بھی درست ہے۔
آپکا شکریہ
 

عبدالرحمٰن

محفلین
راسخ بھائی
جزاک اللہ خیرا
میں نے اس بات کا ملاحظہ کیا اور اس موضوع پر ایک موضوع کی ابتدا کرنے کا ارادہ تھا مگر آپ نے بہت ہی اچھے انداز میں سمجھایا ہے۔
لفظ انشاء کے معنی بنانا ہے
جبکہ اصل لفظ ان مطلب اگر اور شاء مطلب چاہا
ان شاء اللہ یعنی اگر چاہا اللہ نے۔
 

دوست

محفلین
انشا ایک لفظ ہے۔
انشاءاللہ ایک اور لفظ ہے۔
دونوں کا مطلب واضح ہے اور ان میں کبھی بھی کسی کو کوئی شک نہیں ہوتا بلحاظ معنی۔
چونکہ یہ روزمرہ ہوچکا ہے اس لیے اگر املاء میں غلطی بھی ہے تو اب غلطی نہیں رہی اگرچہ میں اس کو املاء کی غلطی بھی نہیں مانتا۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ایک مشہور ضرب المثل ہے "غلط العوام فصیح" یعنی عوامی غلطی فصاحت میں داخل ہے ۔

پھر ایک اور قاعدہ ہے کہ مختلف زبانیں ایک دوسرے سے الفاظ کو مستعار لیتی ہیں ۔ اور اپنی تہذیب اور ثقافت کے مطابق اس میں معمولی ردو بدل بھی کر لیا جاتا ہے ۔

اس معمولی ردوبدل کو ہم تعریب ، تفریس یا تارید کا نام دیتے ہیں ۔

تعریب : اگر عربی زبان میں کوئی لفظ معمولی ردوبدل کے ساتھ کسی اور زبان سے لیا جائے تو اس میں کئے گئے ردوبدل کو تعریب کہا جائے گا ۔ جیسا کہ انگریزی کو انجلیزیہ اور پاکستان کو باکستان اور چین کو صین ،یورپ کو اروپا وغیرہ ہیں

تفریس : بعینہ فارسی میں دوسری زبانوں کے الفاظ بتغیر شامل کئے جائیں تو یہ ان الفاظ کی تفریس کہلائے گی ۔ جیسا کہ ڈاکٹر سے دکتور ، موٹر سے موتور وغیرہ

تارید : اردو زبان میں جب ہم کسی دوسری زبان سے لفظ لیتے ہیں تو ہم اسے اردو لب و لہجہ اور املاء کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اس معمولی ردو بدل کو ہم تارید کا نام دیتے ہیں اس سے لفظ کے معانی تو نہیں بدلتے البتہ اس کی املاء یا اس کی ادائیگی اور لب و لہجہ میں معمولی فرق آسکتا ہے ۔مثلا ہاسپٹل کو اسپتال یا ہسپتال وغیرہ ۔

لفظ انشاء اللہ بھی عربی کے ان شاء اللہ کی تارید ہے ۔ اور اردو میں اس کو انہی معانی میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے جن معانی میں یہ عربی میں استعمال ہوتا ہے ۔

اور یہ عوامی سطح پر یہ لفظ اتنا مقبول ہے کہ ایک مبتدی سے لے کر اعلی درجہ کے اردو دان سب پر اس کے معانی واضح اور روشن ہیں ایسی صورت میں یہ کہنا غلط ہو گا کہ اس کے معانی میں ابہام پیدا ہو تا ہے اور انشاء چونکہ مرصع تحریر کو کہتے ہیں اس لئے انشاء اللہ کا معنی اللہ کی تحریر یا اس قسم کا کوئی اور معنی ہو سکتا ہے ۔

چونکہ اردو میں لفظ انشاء اللہ ہی مقبول ہے اور عوامی سطح پر درجہ قبولیت پر فائز ہے اس لئے یہ غلط العوام فصیح کی مصداق بھی درست ہے اور قواعد تارید کے مطابق بھی غلط نہیں ۔

میرے کہنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ان شاء اللہ نہ لکھا جائے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر انشاء اللہ بھی لکھ دیا جائے تو یہ از روئے قواعد غلط نہیں ہے ۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
راسخ صاحب، معذرت کے ساتھ، آپ کو تھوڑا سا اشتباہ ہو رہا ہے۔ اصل فرق انشا، انشاء اللہ اور ان شاء اللہ میں املا کا نہیں ہے بلکہ حروف کا ہے۔

غور فرمائیے، انشا بمعنی تحریر وغیرہم اردو میں بغیر ہمزہ کے مستعمل ہے جب کہ ان شاءاللہ اور انشاءاللہ میں متحرک ہمزہ ہے زبر کے ساتھ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ عربی میں زیر زبر کے فرق سے ایمان زیر و زبر ہو جاتا ہے۔ لہذا انشاء اللہ بالکل صحیح ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم غیر عربی لوگ، عربی حروف کے مخرج سے نا بلد، انشاء کو بھی ایسے ہی بولیں جیسے انشا۔

اور قادری صاحب سے بھی معذرت کے ساتھ، انشاءاللہ قطعاً غلط العوام نہیں ہے، بلکہ عربی کا فصیح و بلیغ لفظ ہے۔

حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

امیر الغات از امیر مینائی ۔ ص 597 اور 598

فرہنگِ آصفیہ از سید احمد دہلوی۔ ج اول، ص 251 اور 252

لغاتِ کشوری از مولوی سید تصدق حسین رضوی لکھنؤی۔ ص 56

علمی اردو لغت از وارث سرہندی۔ ص 141
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محمد وارث نے کہا:
اور قادری صاحب سے بھی معذرت کے ساتھ، انشاءاللہ قطعاً غلط العوام نہیں ہے، بلکہ عربی کا فصیح و بلیغ لفظ ہے۔
شکریہ جناب
میری توجہ متحرک ہمزہ کی جانب نہ تھی
میرے ذہن میں صرف یہ بات تھی کی قرآن کریم کی املا میں ان شاء اللہ ہے
اور اردو میں یہ انشاء اللہ ہے
اور ساتھ ہی میں نے اس کو تارید کے قاعدہ سے بھی دیکھ لیا تھا
بہرحال نشاندہی کے لیے ایک بار پھر شکریہ
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جزاک اللہ راسخ بھائی اب جس کو جیسا لکھنا ہے لکھ لیں ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس کی اصلاح کرلیں اب جو نہ ماننے ان کی مرضی ان شاء اللہ میں بھی اب کو شش کروں گا
 

arshadmm

محفلین
ویسے راسخ بھائی کہہ تو ٹھیک رہے ہیں‌ کافی عرصے سے میں‌ بھی اسی طرح‌ لکھ رہا ہوں‌ ان شاء اللہ
 
راسخ صاحب، معذرت کے ساتھ، آپ کو تھوڑا سا اشتباہ ہو رہا ہے۔ اصل فرق انشا، انشاء اللہ اور ان شاء اللہ میں املا کا نہیں ہے بلکہ حروف کا ہے۔

غور فرمائیے، انشا بمعنی تحریر وغیرہم اردو میں بغیر ہمزہ کے مستعمل ہے جب کہ ان شاءاللہ اور انشاءاللہ میں متحرک ہمزہ ہے زبر کے ساتھ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ عربی میں زیر زبر کے فرق سے ایمان زیر و زبر ہو جاتا ہے۔ لہذا انشاء اللہ بالکل صحیح ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم غیر عربی لوگ، عربی حروف کے مخرج سے نا بلد، انشاء کو بھی ایسے ہی بولیں جیسے انشا۔

اور قادری صاحب سے بھی معذرت کے ساتھ، انشاءاللہ قطعاً غلط العوام نہیں ہے، بلکہ عربی کا فصیح و بلیغ لفظ ہے۔

حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

امیر الغات از امیر مینائی ۔ ص 597 اور 598

فرہنگِ آصفیہ از سید احمد دہلوی۔ ج اول، ص 251 اور 252

لغاتِ کشوری از مولوی سید تصدق حسین رضوی لکھنؤی۔ ص 56

علمی اردو لغت از وارث سرہندی۔ ص 141

جزاک اللہ خیر محمد بھائی

لیکن چونکہ ان شاء اللہ عربی سے ماخوذ ہے اس لئے سلاست اور صحت اسی میں ہے کہ اسے ویسے ہی تحریر کیا جائے جیسے اصل لغت میں‌ ہے۔

آپ کی باتوں پر اعتراضا نہیں۔

لیکن اچھا ان شاء اللہ ہی لگتا ہے

شکریہ
:)
 

زنیرہ عقیل

محفلین
انشاء اللہ لکھنا غلط ہے۔ اس کی صحیح املاء ان شاء اللہ ہے۔

لفظ "انشاء" کا مطلب ہے "تخلیق کیا گیا" لیکن اگر "انشاء اللہ" کا مطلب دیکھا جائے تو "اللہ تخلیق کیا گیا" (نعوذ باللہ)
اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ لفظ "انشاء کو لفظ "اللہ" کے ساتھ لکھنا بالکل غلط ہے۔
اس کے لئے قرآن کی کچھ آیات ہیں جن میں لفظ "انشاء" اکیلا استعمال ہوا ہے۔
سورۃ مومن کی آیت نمبر 78
سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر 20
سورۃ واقعہ کی آیت نمبر 35

ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ "انشاء کے ساتھ کہیں "اللہ" نہیں لکھا گیا کیونکہ یہ لفظ الگ معنی رکھتا ہے۔

لفظ "ان شاء اللہ" جس کا مطلب ہے "اگر اللہ نے چاہا"

"ان" کا معنی ہے "اگر"
"شاء" کا معنی ہے "چاہا"
"اللہ" کا مطلب ہے "اللہ نے"

تو لفظ "ان شاء اللہ" ہی درست ہے جیسا کہ کچھ آیات میں بھی واضح ہے۔

سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 70
سورۃ یوسف کی آیت نمبر 99
سورۃ کہف کی آیت نمبر 69
سورۃ القصاص کی آیت نمبر 27

ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ "ان شاء اللہ" کا مطلب ہے "اگر اللہ نے چاہا"
 

زنیرہ عقیل

محفلین
لکھنے کادرست طریقہ تو ان شاء اللہ ہی ہے،مگر جو لوگ انشاء اللہ لکھتے ہیں ان کے پیش نظر بھی اللہ کا پیدا کیا ہوا معنی نہیں ہوتا ۔اگر ہم اسی طرح املا کی غلطی سے ہر لفظ کا دوسرا معنی لینے لگ جائیں تو بات بہت پھیل جائے گی اور سینکڑوں الفاظ تک اس قاعدے کا دائرہ پھیل جائے گا ،اس لیے بہتر یہی ہے لوگوں کو ان کی عام اور مانوس عادت پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ عادت جب پختہ ہوجاتی ہے تو اس میں تبدیلی بہت مشکل ہوجاتی ہے ،جو لوگ اس طرح کی مہم چلارہے ہیں اس کا انجام سوائے بے چینی اور ہل چل پیدا کرنے کے کچھ اور نہیں نکلے گا ۔ بلكه فتاوی کی مشہور کتاب شامی میں ہے کہ :الخطأ المشہور أولی من الصواب المہجور، مطلب یہ ہے کہ ایک لفظ غلط ہے مگر عوام میں رواج پاچکا ہے تو وہ اس سےبہتر ہے جو درست ہے مگر لوگ اسے چھوڑ چکے ہیں ۔ واللہ اعلم
 
Top