ان آبلوں کے زعم میں پاؤں تلے بھی دیکھ۔۔۔۔ ہماری ایک غزل

توجہ طلبی پر ممنون ہوں جناب شوکت پرویز صاحب۔

ابھرے تھے آسماں سے محبت کے دو ستارے
بوجھل سے چاند پار انہیں ڈوبتے بھی دیکھ
جوازِ اخفاء (الف، واو، ہاے، یاے گرانے کی اجازت) سے قطع نظر اس شعر میں ’’ستارے‘‘ کی ’’ے‘‘ گرانا میرے نزدیک مستحسن نہیں۔ جناب فاتح صاحب سے معذرت۔
مدیحہ گیلانی مجھے بہت عزیز ہیں، اور اچھی بات ہے کہ میرے ’’طرزِ تنقید‘‘ کو بھی جانتی ہیں!۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ان آبلوں کے زعم میں پاؤں تلے بھی دیکھ
منزل سے راستوں کو الجھتے ہوئے بھی دیکھ

پیمان کیوں کیا تھا بچھڑنا ہی تھا اگر
وعدوں کو حسرتوں سے ابھی ٹوٹتے بھی دیکھ

:best:

:great:

حیرت ہے ! آپ اتنی اچھی شاعری کرتی ہیں اور محفلین محروم ہیں۔ بہت بُری بات ہے۔ :)

ماشاءاللہ ! شاید محفل میں یہ آپ کی پہلی غزل پڑھی ہے۔ باذوق تو آپ ماشاءاللہ ہیں ہی لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ خود بھی شعر کہے جا رہے ہیں۔

بہت سی داد اس خاکسار کی جانب سے حاضرِ خدمت ہے۔ خوش رہیے۔ اور ایسے ہی لکھتی رہیے۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ مدیحہ، تم تو چھپی رستم نکلیں!! 'ستارے' کے وزن پر شوکت کی بات سے میں متفق ہوں۔ چاہے عروض داں اسے درست مان لیں لیکن میں اس طرح 'ے' گرایا جانا پسند نہیں کرتا
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح بھائی ۔۔
اس نقطہ پر محمد یعقوب آسی صاحب نے قدرے تفصیلاً (اور الف عین صاحب نے مختصراً) یہاں کچھ لکھا تھا۔
اگر چہ وہاں مسئلہ "جو" کی "و" گرانے کا تھا اور یہاں "ستارے" کی "ے" گرانے کا ہے۔ لیکن میری فہم کے مطابق دونوں معاملہ یکساں ہے کہ آخری رکن متحرّک ہے (جُ اور رِ)۔
"ے" گرانا عام بات ہے (بالکل "و" اور "الف" کی طرح)، لیکن مصرعہ کے آخر میں اسے (یا کوئی بھی حرف علت) گرانے سے وہ لفظ بآسانی نہیں پڑھا جا سکتا۔
اور جو درج ذیل مصرعے ہیں:
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں

تو ان سب مثالوں میں گرائی جانے والی "ے" سے پہلے "ء" ہے، اور "ءِ" پڑھنا ویسا دشوار نہیں جیسا جُ یا رِ پڑھنا ہے۔
اگر قدماء کے یہاں اس کے علاوہ کوئی مثال (کہ یہ مثال مستثنیٰ محسوس ہوتی ہے) مل جائے تو میں آپ کا بہت ممنون و مشکور رہوں گا۔ :)
جناب محمد یعقوب آسی صاحب اور جناب اعجاز عبید صاحب میرے لیے قابل صد احترام بزرگوں میں سے ہیں اور میں ان کی آرا کی بھی عزت کرتا ہوں لیکن وہ ان کی ذاتی پسند و نا پسند کا معاملہ ہے۔
لیکن شعر کے آخر میں الف، واؤ یا یے کا گرانا میرے نزدیک اس لیے سو فیصد درست ہے کہ اساتذہ کے کلام میں کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ ہر دو میر و غالب کے کے کلام میں ایسی مثالیں میری نظر سے گزری ہیں۔۔۔ گو کہ فی الوقت ذہن میں وہ اشعار نہیں آ رہے لیکن جیسے ہی یاد آتے ہیں میں عرض کر دوں گا۔
ویسے ہماری اپنی ایک غزل ہے:
اس غزل کے تو ہر شعر میں بعینہٖ یہی معاملہ ہے کیونکہ اس کی تو ردیف میں ہی "یں" کا اخفا ہو رہا ہے اور اس زمین میں بلا مبالغہ 100 سے زائد شعرا نے غزلیں کہی ہیں اور ان سب نے "جائیں" کی "یں" کو گرایا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت آداب جناب فاتح صاحب۔ تاہم مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہمزہ کی بات اور ہے۔


الف عین صاحب، شوکت پرویز صاحب، عزیزہ مدیحہ گیلانی ۔
وہ کیسے جناب آسی صاحب؟ ہمزہ اگر مکمل مصوتے کے طور پر آ رہا ہو تو وہ ر یا کسی بھی دوسرے حرف سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے
 

عینی شاہ

محفلین
محسن وقار علی صاحب، سمجھا کریں نا! عینی شاہ کی کچھ مجبوریاں بھی تو ہیں! اپنی آپا کو خوش نہیں رکھیں گی، تو کھانا کون پکائے گا؟
اچھا کوئی بات نہیں انکل آپ بھی شروع ہو گئے نا میرے خلاف ۔۔اور اس تھریڈ کو گوسپ تھریڈ نا بنائیں ورنیہ شامت آ جانی ہے میری :atwitsend:
 
Top