انعام برائے انصاف

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

WANTED_2.jpg


انعام برائے انصاف

دہشت گردوں کو روکيں – زندگياں بچائيں


تحریک طالبان پاکستان اور اس کے دھڑوں کے اہم رہنماؤں کے بارے میں معلومات پر انعام کی پیشکش

واشنگٹن: امریکی دفتر خارجہ کا 'انعام برائے انصاف' پروگرام دہشت گرد تنظیم 'تحریک طالبان پاکستان' (ٹی ٹی پی) اور اس سے ملحقہ دھڑوں سے وابستہ تین اہم رہنماؤں کی شناخت یا ان کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات پر انعامات کی پیشکش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں دفتر خارجہ نے ٹی ٹی پی کے رہنما مولانا فضل اللہ کے بارے میں پانچ ملین ڈالر جبکہ عبدالولی اور منگل باغ کے بارے میں اطلاع دینے پر تین تین ملین ڈالر انعام کی پیشکش کی ہے۔

مولانا فضل اللہ دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا رہنما ہے جس نے پاکستانی اور امریکی مفادات کے خلاف دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں یکم مئی 2010 کو نیویارک سٹی میں ٹائم سکوائر پر فیصل شہزاد کی جانب سے دھماکہ خیز مواد سے حملے کی ناکام کوشش بھی شامل ہے۔ فضل اللہ کی قیادت میں ٹی ٹی پی نے 16 دسمبر 2014 کو پاکستانی شہر پشاور میں سکول پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی جس میں 132 طلبہ سمیت 148 افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ فضل اللہ جون 2012 میں 17 پاکستانی سپاہیوں کے سر قلم کرنے اور 9 اکتوبر 2012 کو پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کا بھی ذمہ دار ہے۔ 2015 میں دفتر خارجہ نے فضل اللہ کو انتظامی حکم 13224 کے تحت خصوصی طور پر نامزد کردہ عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا جس کے نتیجے میں امریکی حدود میں اور امریکی شہریوں کے پاس اس کے تمام اثاثے منجمد کر دیے گئے۔

عبدالولی ٹی ٹی پی سے ملحقہ عسکریت پسند دھڑے جماعت الاحرار (جے یو اے) کا رہنما ہے۔ ولی کی قیادت میں جے یو اے نے خطے میں متعدد حملے کیے جن میں عام شہریوں، مذہبی اقلیتوں، فوجی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے حکام کو نشانہ بنایا گیا۔ عبدالولی مارچ 2016 کے اوائل میں پشاور میں امریکی قونصل خانے کے دو پاکستانی ملازمین کے قتل کا ذمہ دار بھی ہے۔

منگل باغ ٹی ٹی پی سے ملحقہ عسکری پسند دھڑے 'لشکر اسلام' کا رہنما ہے۔ اس کی قیادت میں لشکر اسلام کے آلہ کاروں نے نیٹو کے قافلوں کو نشانہ بنایا۔ اس کا گروہ منشیات کی تجارت، سمگلنگ، اغوا اور پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹرانزٹ تجارت سے 'محصول' اکٹھا کرتا ہے۔ ستمبر 2007 میں حکومت پاکستان نے اسے پکڑنے یا اس کی گرفتاری میں معاون معلومات کی فراہمی پر قریباً 60 ہزار ڈالر کے مساوی انعامی رقم کا اعلان کیا تھا۔

ان میں ہر ایک نے دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے یا ان کی جانب سے ایسی کارروائیوں کا نمایاں خدشہ موجود ہے جن سے امریکہ اور اس کے شہریوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ پاکستانی فوج کے خلاف جنگ کے علاوہ افغانستان سے اتحادی افواج کو باہر نکالنا بھی ٹی ٹی پی کا ایک ہدف ہے۔ اس گروہ کا القاعدہ کے ساتھ قریبی اتحاد ثابت ہے اور 2008 سے اس نے تواتر سے امریکی سرزمین پر حملوں کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔

انعامات کی اس پیشکش کی بابت مزید معلومات 'انعام برائے انصاف' کی ویب سائٹ www.rewardsforjustice.net پر موجود ہیں۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں اطلاعات رکھنے والے ہر شخص کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ویب سائٹ، ای میل (info@rewardsforjustice.net) فون (شمالی امریکہ میں1-800-877-3927) یا اس پتے (انعام برائے انصاف، واشنگٹن ڈی سی 20520-0303 یو ایس اے) پر رابطہ کرے۔ لوگ اپنے قریب ترین امریکی سفارت خانے یا قونصل خانے میں علاقائی سلامتی کے دفتر سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ اطلاع دینے والوں سے متعلق تمام معلومات صیغہ راز میں رکھی جائیں گی۔

'انعام برائے انصاف' پروگرام امریکی دفتر خارجہ کی سفارتی سکیورٹی سروس کے زیراہتمام چلایا جاتا ہے۔ 1984 میں آغاز کے بعد اب تک اس پروگرام کے تحت قابل عمل اطلاعات دینے والے 90 سے زیادہ لوگوں کو 145 ملین ڈالر سے زیادہ رقم ادا کی جا چکی ہے جنہوں نے دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے یا دنیا بھر میں دہشت گردی کے افعال کی روک تھام میں مدد فراہم کی۔ ٹویٹر پر ہمیں اس لنک کے ذریعے فالو کیجیے

Rewards for Justice (@Rewards4Justice) | Twitter


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت اچھے ۔ ۔ ۔ کتنا مخلص ہے امریکہ ۔ ۔ دہشت گردی کے کیخلاف ۔ ۔ ۔ انسانیت کا علمبردار امریکہ - - - ہے مظلوموں کا غمخوار امریکہ ۔ ۔ ۔
 
آخری تدوین:
داعش کو بناتا ہے ، سو ہے وہ بھی امریکہ
داعش کو مٹاتا ہے ، سو ہے وہ بھی امریکہ
افیون اگاتا ہے ، سو ہے وہ بھی امریکہ
ہیرؤین کو مٹاتا ہے، سو ہے وہ بھی امریکہ

امریکہ کے کارناموں سے تاریخ بھری ہوئی ہے، اور آئندہ بھی بھری جاتی رہے گی ۔ ۔
 
لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجئے کہ کراچی میں نیٹو کے جو کنٹینر غائب ہوئے تھے وہ کس کو کس کارنامے پر بطور انعام دئیے گئے تھے؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

انعامات برائے انصاف پروگرام کا مقصد دنيا کے کسی بھی حصے ميں رہنے والے شخص کو دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں مدد کے لیے حوصلہ افزائ فراہم کرنا ہے۔

انعام برائے انصاف نامی پروگرام امريکی وزارت خارجہ کے ڈپلوميٹک (سفارتی) سيکورٹی سروس کے زير انتظام چلايا جاتا ہے۔ سال 1984 ميں اس پروگرام کے اجراء سے اب تک 90 افراد کو 145 ملين ڈالرز کی رقم فراہم کی جا چکی ہے، جن کی فراہم کی گئ قابل عمل معلومات کی مدد سے نا صرف يہ کہ دہشت گردوں کو قانون کے کٹہرے ميں لايا گيا بلکہ دنيا بھر ميں عالمی دہشت گردی کی کاروائيوں کو بھی کاميابی سے روکنا ممکن ہو سکا ہے۔

اس پروگرام کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کے ذريعے کئ نامی گرامی مجرموں اور دہشت گردوں کو کيفر کردار تک پہنچايا گيا ہے اور سينکڑوں بے گناہوں کی جانوں کو بچايا گیا ہے:

يہ انعام صرف ان مجرموں کی سرکوبی کے ليے نہيں ہے جو جرم کے عمل سے گزر چکے ہیں۔ يہ رقم ان افراد کو بھی دی جاتی ہے جن کی معلومات کی بنياد پر مستقبل ميں دہشت گردی کے کسی منصوبے يا کاروائ کو روکنے ميں مدد مل سکتی ہے۔ يہ ايک قانونی پروگرام ہے جس کی ہر سال کانگريس سے باقاعدہ فنڈنگ کی جاتی ہے۔ انعامات برائے انصاف پروگرام کا مقصد لوگوں کو آمادہ کرنا ہے تا کہ وہ معلومات فراہم کريں جس کی مدد سے مطلوب دہشت گردوں کو گرفتار کر کے انھيں انصاف کے کٹہرے ميں لانا ممکن ہو سکے، يا پھر ان افراد تک رسائ حاصل کی جا سکے جو مستقبل ميں دہشت گردی کی کاروائياں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انعامات برائے انصاف


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
عالمی دادا کی گرفتاری کب ہوگی اللہ کےہاتھوں!!!


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ستم ظريفی ديکھيں کہ اکثر رائے دہندگان مسلمان ممالک ميں تشدد اور دہشت گردی کی لہر پر غم وغصے کا اظہار تو کرتے ہيں اور اس کے باوجود آپ ايک ايسے تھريڈ ميں امريکہ کو ہدف تنقيد بنا رہے ہيں جس ميں ہماری حکومت کی جانب سے اسی دہشت گردی کے ذمہ دار اہم ترين افراد کے خلاف کاروائ اور ہمارے واضح موقف کو اجاگر کيا جا رہا ہے۔

جہاں تک مشرق وسطی ميں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات اور اس ميں امريکی حکومت کے کردار کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں واضح رہے کہ خطے ميں امريکی کاوشيں عالمی اتحاد کی جانب سے جاری ان اجتماعی کاروائيوں کا حصہ ہيں جو داعش اور اس سے منسلک ديگر دہشت گرد گروہوں کی پرتشدد اور خونی سوچ پر مبنی کاروائيوں کو روکنے کے ليے شروع کی گئ ہيں۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ داعش، ٹی ٹی پی، جماعت احرار اور ديگر دہشت گرد گروہوں کو بغير کسی رکاوٹ اور مزاحمت کے پورے خطے ميں اپنے اثرات پھيلانے کی اجازت دينا ايسا قابل قبول "حل" ہے جس کے بعد عام مسلمانوں کی زندگيوں ميں امن آ جائے گا؟

يہ نا بھوليں کہ امريکہ سميت عالمی اتحاد کی جانب سے جو عسکری امداد فراہم کی جا رہی ہے، وہ مقامی فريقین پر زبردستی مسلط نہيں کی جا رہی ہے۔ حقيقت اس سے کوسوں دور ہے۔ عراقی حکومت سميت خطے کے اسٹريجک اتحادی جن ميں کئ سرکردہ اسلامی ممالک کی حکومتيں بھی شامل ہيں، امريکہ سميت عالمی برادری سے بھرپور مدد کی اپيل کرتی رہی ہيں تا کہ پورے خطے ميں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکا جا سکے۔

DCGi_To_HXo_AEGiu9.jpg




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجئے کہ کراچی میں نیٹو کے جو کنٹینر غائب ہوئے تھے وہ کس کو کس کارنامے پر بطور انعام دئیے گئے تھے؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بحث کی حد تک اگر يہ الزام درست تسليم کر ليا جائے کہ امريکی حکومت کسی بيرون ملک ميں اپنے ہی کنٹينرز کی چوری کے ليے ذمہ دار ہے تا کہ مبينہ طور پر ٹی ٹی پی جيسی دہشت گرد تنظيم کو وسائل فراہم کيے جا سکيں تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ہم انھی دہشت گردوں کی سرکوبی کے ليے انعامی رقم کيوں مقرر کر رہے ہيں اور اپنے وسائل کيونکر فراہم کر رہے ہيں؟

علاوہ ازيں، ٹی ٹی پی جيسی دہشت گرد تنظيميں کس منطق کے تحت ہماری جانب سے کسی بھی قسم کی امداد قبول کرنے کے ليے آمادہ ہو جائيں گی، يہ جانتے ہوئے کہ امريکہ نا صرف يہ کہ خود ان کا تعاقب کر رہا ہے بلکہ ان کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کو ہر قسم کی مدد بھی فراہم کر رہا ہے؟

ميں نہيں سمجھ سکا کہ آپ نيٹو کے کنٹينرز کی چوری اور اس کے نتيجے ميں اسلحے اور سازوسامان کی دہشت گردوں تک منتقلی کے ليے امريکہ کو کيوں الزام دے رہے ہیں؟ يہ تو ايسے ہی ہے کہ جس کی چوری ہو جائے، الٹا اسے ہی قصوروار قرار ديا جائے۔ يہ معاملہ مقامی پوليس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دائرہ اختيار میں آتا ہے۔ ہم پاکستان کے اعلی حکام کے ساتھ ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن تعاون اور باہم مشاورت کرتے رہتے ہيں۔ يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ خود ہمارے اپنے فوجی بھی انھی دہشت گردوں اور عسکريت پسندوں کے خلاف برسر پيکار ہيں۔ اس تناظر ميں ان کنٹينرز سے اسلحے اور سازوسامان کی چوری سے ہماری کاوشوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہيں کيونکہ افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کی زندگيوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

اکمل زیدی

محفلین
بھائ
يہ نا بھوليں کہ امريکہ سميت عالمی اتحاد کی جانب سے جو عسکری امداد فراہم کی جا رہی ہے، وہ مقامی فريقین پر زبردستی مسلط نہيں کی جا رہی ہے۔ حقيقت اس سے کوسوں دور ہے۔ عراقی حکومت سميت خطے کے اسٹريجک اتحادی جن ميں کئ سرکردہ اسلامی ممالک کی حکومتيں بھی شامل ہيں،
جی یہی تو مسئلہ ہے ۔ ۔ ۔ گھر کو آگ لگ رہی ہے گھر کے چراغ سے۔ ۔ ۔
 
علاوہ ازيں، ٹی ٹی پی جيسی دہشت گرد تنظيميں کس منطق کے تحت ہماری جانب سے کسی بھی قسم کی امداد قبول کرنے کے ليے آمادہ ہو جائيں گی، يہ جانتے ہوئے کہ امريکہ نا صرف يہ کہ خود ان کا تعاقب کر رہا ہے بلکہ ان کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کو ہر قسم کی مدد بھی فراہم کر رہا ہے؟
یہ تو میں نے نہیں کہا کہ امریکہ نے یہ اسلحہ ٹی ٹی پی کو دیا، کیا چور کی داڑھی میں تنکا ہے؟
کراچی میں ٹی ٹی پی کے علاوہ بھی ایسی تنظیمیں ہیں جو طاقت کے بل پر شہر پر کنٹرول رکھا کرتی تھیں، اگر وہ تنظیم ذہن میں نہیں آرہی تو میرا مشور ہے کہ بی بی سی وغیرہ کی خبریں بھی پڑھتے رہا کیجئے
 
Top