سید ذیشان

محفلین
دلچسپ موضوع ہے۔ میرے خیال کے مطابق اسلام میں یہ دونوں باتیں یعنی خود اختیاری اور اللہ کا عالم الغیب ہونا متضاد باتیں نہیں ہیں۔ اللہ کو اگرچہ سب باتوں کا علم ہے لیکن اس سے ہمارے اختیار پر کوئی حرف نہیں پڑتا۔ اللہ ہم کو کوئی خاص فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اور جہاں تک بات ہے کہ معاشرے کے کچھ لوگ پسے ہوئے ہیں اور کچھ زیادہ بہتر حالات میں ہیں تو انصاف کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک کیساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے ان کے حالات اور ماحول کو دیکھے بغیر۔ قرآن میں اسی لئے فرمایا گیا ہے:

”اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا“ سورہ البقرہ، آیت 286
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
السلام علیکم دوستو !!
میں نہیں سمجھتا میری بسات کے اختیار میں میرے بنانے والے پر سوال کی طاقت موجود ہے ،، احباب کے لیئے ایک واقعہ رسید کر رہا ہوں ، اسے مزہبی اور غیر مذہبی دونوں سانچوں میں ڈھالا جا سکتا ہے ،،، اگر کوئی خدا پر یقین نہ رکھے تو اور بات ورنہ میرا ماننا یہ ہے اس کے بارے اشارتی ( فلسفیانہ ) گفتگو ہی بہتر ہو گی ،،، اس کی ساختِ ذات کو ہمارے طے شدہ اختیارات میں رہتے ہوئے جاننا ممکن نہیں ،، اللہ ہم سب کو راہِ راست پر رکھے ، آمین !!
حضرت علی رضی اللہ عنہہ سے منسوب مشہور واقعہ ہے ایک شخص آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا تقدیر اور اختیار کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھاو اس شخص نے حکم کی تعمیل کی، آپ نے فرمایا اب اپنی دوسری ٹانگ بھی اوپر اٹھاو اس شخص نے کہا حضرت یہ کیسے ممکن ہے اسطرح تو میں گر جاونگا، آپ نے فرمایا یہ ہی تعریف ہے تقدیر اور اختیار کی۔ یعنیٰ ایک ٹانگ اٹھانا انسان کے اختیار میں ہوا اسکے بعد سے معاملہ تقدیر کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دلچسپ موضوع ہے۔ میرے خیال کے مطابق اسلام میں یہ دونوں باتیں یعنی خود اختیاری اور اللہ کا عالم الغیب ہونا متضاد باتیں نہیں ہیں۔ اللہ کو اگرچہ سب باتوں کا علم ہے لیکن اس سے ہمارے اختیار پر کوئی حرف نہیں پڑتا۔ اللہ ہم کو کوئی خاص فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اور جہاں تک بات ہے کہ معاشرے کے کچھ لوگ پسے ہوئے ہیں اور کچھ زیادہ بہتر حالات میں ہیں تو انصاف کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک کیساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے ان کے حالات اور ماحول کو دیکھے بغیر۔ قرآن میں اسی لئے فرمایا گیا ہے:

”اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا“ سورہ البقرہ، آیت 286
سید بادشاہ، سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی مثال دیکھ لیں، ان کے ساتھ کیا ہوا، کیا یہ انصاف ہے؟ انڈیا میں دو کزنز کے اجتماعی زیادتی ہوئی ہے اور انہیں پھانسی دے کر مار دیا گیا ہے، یا اسی طرح کی بے شمار مثالیں؟ اسے کس طرح پکاریں گے؟ یا پھر یہ کہ اس طرح کے استثنائی واقعات ہوتے رہتے ہیں اور بات ختم؟
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
سید بادشاہ، سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی مثال دیکھ لیں، ان کے ساتھ کیا ہوا، کیا یہ انصاف ہے؟ انڈیا میں دو کزنز کے اجتماعی زیادتی ہوئی ہے اور انہیں پھانسی دے کر مار دیا گیا ہے، یا اسی طرح کی بے شمار مثالیں؟ اسے کس طرح پکاریں گے؟ یا پھر یہ کہ اس طرح کے استثنائی واقعات ہوتے رہتے ہیں اور بات ختم؟
اس غمِ زندگی میں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں ،،، کیا کیا یاد کرا دیا بھائی جان ۔۔۔ دل درد سے سے ایک آن میں بھر گیا !! یا اللہ رحم فرما !! آمین !! بھائی جان میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں سوائے اس کے کہ آنے والے انسان جب بھی اس صدی کا ذکر کریں گے یہ واقعات اور بہت سے ،،،، رقم کرنے والوں کو بھی ہمت چاہیئے ہو گی ،،،، ہائے ظلم کو تماشائی بھی موجود تھے ،،، اپنی اپنی خبیث خود غرض حدود کے ساتھ ۔۔۔۔ کیا ایک بھی انسان نہ تھا وہاں ،،، بلا شبہ انسان رب کی خود غرض ترین تخلیقات میں صف اول میں شمار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ !! کیا کہوں اور ،،،، الفاظ نہیں ہیں میرے پاس !!!
 
دیکھئے برادرم، میرا نکتہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش سے لے کر اس کے بالغ ہونے تک، زیادہ تر امور اس کے بس سے باہر ہوتے ہیں بشمول تعلیم و تربیت کے۔ اور یہی وہ حالات ہیں جو اس کے مستقبل اور اس کی فری ول پر سب سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ پھر بہت سارے معاشروں میں بیٹی ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اسے سیکنڈ کلاس شہری بنایا جائے اور بنایا جاتا ہے۔ جب آپ بچے (بچی اور بچے کے لئے عمومی لفظ) کی تعلیم، اس کی تربیت، اس کے احساسات، اس کی خواہشات، اس کی حسرتوں اور اس کے حالات کو یکساں نہیں بناتے تو پھر یہ کیا اعتراض کہ فلاں اچھا بن گیا اور فلاں برا؟

دراصل فری ول یا ازادی اختیار تو پھر بھی اس کے پاس ہوگا ہی ۔ اب انسان نے اپنے معاشرے میں اپنے اختیار سےا یسا نظام وضع کیا کہ کچھ لوگوں کی تعلیم و تربیت ایک مخصوص طریقے سے ہورہی ہے دوسروں کی ایک مختلف طریقے سے۔ یہ اختصاصات ہماری ازادی اختیار سے ہی وضع کیے ہیں۔
بیٹی کے پیدا کرنے کا اختیار ہمارا نہیں۔ البتہ اس کو حقوق دینے کا اختیار ہمارا ہے۔ یہ ہمارا معاشرہ طے کرتا ہے کہ کس قسم کے حقوق دیے جاویں۔ مکمل ازادی سے۔
انفرادی طور پر تمام انسان مختلف ہیں۔ ہر لحاظ سے ۔ ان کو ان کے اعمال کے لحاظ سے (درست طور پر کیفیت قلب سے) ان مخصوص حالات کے مطابق ہی جانچا جاسکتا ہے۔ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام خدا ہی کرسکتا ہے۔

اعتراض ہم یوں کرتے ہیں کہ خدا نے ایک میعار بنادیا ہے کہ جب انسان اس میعار سے ہٹ جاتا ہے یا پوری طرح عمل کرتا ہے تو معاشرہ اس کو برا یا اچھا کہتا ہے- یہ میعار اخلاقیات کہلاتے ہیں۔ اچھے اخلاق کا ماخذ قلب سلیم ہے۔
 
سید بادشاہ، سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی مثال دیکھ لیں، ان کے ساتھ کیا ہوا، کیا یہ انصاف ہے؟ انڈیا میں دو کزنز کے اجتماعی زیادتی ہوئی ہے اور انہیں پھانسی دے کر مار دیا گیا ہے، یا اسی طرح کی بے شمار مثالیں؟ اسے کس طرح پکاریں گے؟ یا پھر یہ کہ اس طرح کے استثنائی واقعات ہوتے رہتے ہیں اور بات ختم؟

نہیں۔ کوئی استشنات نہیں ہیں۔
کارخانے ِقدرت میں سب کام انصاف ہے۔ البتہ اس دنیا میں انصاف ممکن نہیں ہے۔ یہ جائے انصاف نہیں ہے۔ انصاف تو مرنے کے بعد ہوگا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دراصل فری ول یا ازادی اختیار تو پھر بھی اس کے پاس ہوگا ہے۔ اب انسان نے اپنے معاشرے میں اپنے اختیار سےا یسا نظام وضع کیا کہ کچھ لوگوں کی تعلیم و تربیت ایک مخصوص طریقے سے ہورہی ہے دوسروں کی ایک مختلف طریقے سے۔ یہ اختصاصات ہماری ازادی اختیار سے ہی وضع کیے ہیں۔
بیٹی کے پیدا کرنے کا اختیار ہمارا نہیں۔ البتہ اس کو حقوق دینے کا اختیار ہمارا ہے۔ یہ ہمارا معاشرہ طے کرتا ہے کہ کس قسم کے حقوق دیے جاویں۔ مکمل ازادی سے۔
انفرادی طور پر تمام انسان مختلف ہیں۔ ہر لحاظ سے ۔ ان کو ان کے اعمال کے لحاظ سے (درست طور پر کیفیت قلب سے) ان مخصوص حالات کے مطابق ہی جانچا جاسکتا ہے۔ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام خدا ہی کرسکتا ہے۔

اعتراض ہم یوں کرتے ہیں کہ خدا نے ایک میعار بنادیا ہے کہ جب انسان اس میعار سے ہٹ جاتا ہے یا پوری طرح عمل کرتا ہے تو معاشرہ اس کو برا یا اچھا کہتا ہے- یہ میعار اخلاقیات کہلاتے ہیں۔ اچھے اخلاق کا ماخذ قلب سلیم ہے۔
یعنی خدا کی پہلی خاصیت ممتحن ہے، نہ کہ رحمان یا رحیم؟ :)
 
اس غمِ زندگی میں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں ،،، کیا کیا یاد کرا دیا بھائی جان ۔۔۔ دل درد سے سے ایک آن میں بھر گیا !! یا اللہ رحم فرما !! آمین !! بھائی جان میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں سوائے اس کے کہ آنے والے انسان جب بھی اس صدی کا ذکر کریں گے یہ واقعات اور بہت سے ،،،، رقم کرنے والوں کو بھی ہمت چاہیئے ہو گی ،،،، ہائے ظلم کو تماشائی بھی موجود تھے ،،، اپنی اپنی خبیث خود غرض حدود کے ساتھ ۔۔۔ ۔ کیا ایک بھی انسان نہ تھا وہاں ،،، بلا شبہ انسان رب کی خود غرض ترین تخلیقات میں صف اول میں شمار ہوتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ !! کیا کہوں اور ،،،، الفاظ نہیں ہیں میرے پاس !!!

جب الفاظ نہ ہوں تو مطالعہ بڑھانا چاہیےا ور تقاریر کم کرنی چاہیں
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
جب الفاظ نہ ہوں تو مطالعہ بڑھانا چاہیےا ور تقاریر کم کرنی چاہیں
حضرت میں مسکرا دیا :) ۔۔۔ یہ ایک محواراتی ترکیب تھی ۔۔۔ کہنے سے مراد کہ مجھ پر غم کا وار ایسا ہے ،،، اور آپ نے میری تقریر کا اختتام نہیں پڑھا شائد ،، کیا آپ انسان کی خود غرضی کو قصور وار نہیں گردانتے ؟؟
 
حضرت میں مسکرا دیا :) ۔۔۔ یہ ایک محواراتی ترکیب تھی ۔۔۔ کہنے سے مراد کہ مجھ پر غم کا وار ایسا ہے ،،، اور آپ نے میری تقریر کا اختتام نہیں پڑھا شائد ،، کیا آپ انسان کی خود غرضی کو قصور وار نہیں گردانتے ؟؟

ہر انسان خود غرض ہی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
نہیں
بلکہ الر حمٰن و الرحیم ہی ہے
مگر انسان کو یہ کیسے احساس ہو کہ خدا ہی رحمٰن و رحیم ہے؟
ظاہر ہے کہ اگر میری ماں اتنی رحیم ہے کہ اگر اس کے بس میں ہو تو مجھے کوئی تکلیف نہ ہونے دے تو ستر ماؤں سے زیادہ رحیم مجھے کیسے شر کے سامنے اکیلا چھوڑ دے گا؟ :)
 
ظاہر ہے کہ اگر میری ماں اتنی رحیم ہے کہ اگر اس کے بس میں ہو تو مجھے کوئی تکلیف نہ ہونے دے تو ستر ماؤں سے زیادہ رحیم مجھے کیسے شر کے سامنے اکیلا چھوڑ دے گا؟ :)

یہ رحیم ہونے کا محدود علم ہے انسان کا

خدا انسان کو کوئی تکلیف نہیں دیتا بلکہ انسان ہی اپنے نفس کو تکلیف دیتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ رحیم ہونے کا محدود علم ہے انسان کا

خدا انسان کو کوئی تکلیف نہیں دیتا بلکہ انسان ہی اپنے نفس کو تکلیف دیتا ہے۔
یعنی اگر میرا بچہ پیدائشی ذہنی معذور ہو، میرے سامنے زندہ لاش کی طرح پوری زندگی گذارے تو وہ تکلیف دراصل میں اپنے نفس کو دے رہا ہوں؟ معلوماتی۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
سید بادشاہ، سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی مثال دیکھ لیں، ان کے ساتھ کیا ہوا، کیا یہ انصاف ہے؟ انڈیا میں دو کزنز کے اجتماعی زیادتی ہوئی ہے اور انہیں پھانسی دے کر مار دیا گیا ہے، یا اسی طرح کی بے شمار مثالیں؟ اسے کس طرح پکاریں گے؟ یا پھر یہ کہ اس طرح کے استثنائی واقعات ہوتے رہتے ہیں اور بات ختم؟

اس کے علاوہ زلزلوں میں بیگناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو پیدا ہی نابینا ہوتے ہیں یا پھر قوتِ سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ سب باتیں اس دنیا سے متعلق ہیں اور اس کو مجموعی طور پر Problem of Evil کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے تو اللہ کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ برائی کو ختم کر دے۔ جو آیت اوپر بیان کی ہے اس کا تعلق آخرت میں سزا و جزا سے ہے۔ دنیا کے بارے میں ایک اور آیت ہے:

” اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کی جانوں کے لئے بہتر ہے، ہم تو (یہ) مہلت انہیں صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لئے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے“ سورہ آل عمران آیت 178

القصہ یہ کہ دنیا کسی بھی طور پر انصاف سے بھرپور نہیں ہے اور یہ اسی وجہ سے ہے کہ اچھائی اور برائی میں تمیز ہو سکے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر میرا یہ ایمان ہے آخرت میں سب کو انصاف ملے گا تو دنیا کی برائیوں سے میں لاتعلق ہو جاوں اور اس کے بارے میں کچھ نہ کروں۔ برائی کے خاتمے کے لئے ہمیں حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ میں یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ اللہ سب سے بڑا منصف ہے۔

ظاہری بات ہے کہ ہٹلر، سٹالن اور صدام جیسے دیگر لوگ جنہوں نے ہزاروں اور لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل کیا ہے ان کیساتھ دنیا میں انصاف نہیں ہو سکتا اگر ہم چاہیں بھی۔ ایک آدمی کا بدلہ تو چلو ہم ان کو قتل کر کے لے لیں گے لیکن باقی لاکھوں لوگوں کے قتل کا کیا بدلہ ہو گا؟ اسی لئے اس کا حل اللہ کا انصاف ہے جو کہ سب سے بڑا منصف ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کے علاوہ زلزلوں میں بیگناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو پیدا ہی نابینا ہوتے ہیں یا پھر قوتِ سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ سب باتیں اس دنیا سے متعلق ہیں اور اس کو مجموعی طور پر Problem of Evil کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے تو اللہ کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ برائی کو ختم کر دے۔ جو آیت اوپر بیان کی ہے اس کا تعلق آخرت میں سزا و جزا سے ہے۔ دنیا کے بارے میں ایک اور آیت ہے:

” اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کی جانوں کے لئے بہتر ہے، ہم تو (یہ) مہلت انہیں صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لئے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے“ سورہ آل عمران آیت 178

القصہ یہ کہ دنیا کسی بھی طور پر انصاف سے بھرپور نہیں ہے اور یہ اسی وجہ سے ہے کہ اچھائی اور برائی میں تمیز ہو سکے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر میرا یہ ایمان ہے آخرت میں سب کو انصاف ملے گا تو دنیا کی برائیوں سے میں لاتعلق ہو جاوں اور اس کے بارے میں کچھ نہ کروں۔ برائی کے خاتمے کے لئے ہمیں حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ میں یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ اللہ سب سے بڑا منصف ہے۔

ظاہری بات ہے کہ ہٹلر، سٹالن اور صدام جیسے دیگر لوگ جنہوں نے ہزاروں اور لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل کیا ہے ان کیساتھ دنیا میں انصاف نہیں ہو سکتا اگر ہم چاہیں بھی۔ ایک آدمی کا بدلہ تو چلو ہم ان کو قتل کر کے لے لیں گے لیکن باقی لاکھوں لوگوں کے قتل کا کیا بدلہ ہو گا؟ اسی لئے اس کا حل اللہ کا انصاف ہے جو کہ سب سے بڑا منصف ہے۔
اس طرح بات بہت دور نکل جاتی ہے۔ ایک بندہ یا مثال کے طور پر ہٹلر، اس نے یہ سب کچھ مظالم کئے، مرتے وقت وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہے، سارے گناہ دھلوا کر جنت میں جائے گا۔ کیا یہ این آر او انصاف ہوگا؟
میرا خیال ہے کہ ہم کچھ زیادہ جنرل صورتحال سامنے رکھیں تو آسانی رہے گی، ورنہ صرف اسلام یا مسلمان کے نظریئے تک محدود رہے تو دھاگہ آج ہی بند ہو جائے گا :)
 
تکلیف تو ان والدین کو ہوتی ہے جن کے لئے ساری زندگی کا امتحان ہوتا ہے

اچھا۔ اب اس تکلیف پر قلب کی کیا کیفیقت رہتی ہے۔ اس پر جزا ملے گی یا سزا۔
بہرحال ہم انسانوں کو خدا کے ارادے جانچنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ بحث صرف اپنی سمجھ بڑھانے کے لیے ہورہی ہے
 
Top