انتہا پسند انتخابات کے لئے خطرہ ہیں۔۔۔ آئی اے رحمان

پاکستان کے آئین میں دفعہ 62 اور 63 موجود ہیں جو منتخب نمائندوں کے لیے امین اور صادق ہونے کو ضروری خیال کرتی ہیں، لیکن پاکستان کے سیکولر اور لبرل طبقے کے نزدیک امین اور صادق کا کیا مفہوم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ 7 مارچ 2013ء کے انگریزی اخبار ڈان میں آئی اے رحمن نامی ایک خود ساختہ دانشور نے دفعہ 62 اور 63 کے نفاذ کے مطالبے کو ’’ہذیانی مطالبہ‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہمیں ملک کے لیے پالیسی بنانے والے درکار ہیں، مسجدوں اور قبرستانوں کے متولی نہیں۔ پاکستان کو مولویوں کی بالکل ضرورت نہیں ہے وہ قبرستان اور مزار سنبھالیں۔ اس کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ صداقت اور امانت کا تعلق سیاست سے نہیں ہو سکتا۔ یہ ’’عیوب‘‘ صرف مسجدوں اور قبرستانوں کے متولیوں کے لیے ’’زیبا‘‘ ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے آئی اے رحمن کو ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہ آیا ہو گا کہ صادق اور امین کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہیں۔ خیر صادق اور امین ہونا تو بڑی بات ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں منتخب نمائندوں کے لیے بی اے کی ڈگری بھی بوجھ بن گئی اور اتنی معمولی علمی اہلیت کا بار بھی ہمارے اہلِ سیاست نہیں اٹھا سکے۔ اس کے باوجود بھی پاکستان کے عوام ہی نہیں دانش ور، صحافی اور علماء تک بچوں کی طرح پوچھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست نااہلی، بدعنوانی اور بے ضمیری کے بحرانوں میں کیوں مبتلا ہے؟ ---- شاہنواز فاروق
 
07_03_2013_007_008.jpg
 
نام ہمارے بھلے مسلمانوں جیسے رہے ہوں اور ہم خود کو محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گردانتے رہیں، جب ہم سرکارِ دو عالم کا دیا ہوا نظام ترک کر بیٹھے تو خالی خولی نعروں کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ اس انداز کی دانش جب آپ اللہ اور اللہ کے رسول سے ناطہ توڑ بیٹھے تو پھر جس کے جو جی میں آئے کہتا رہے۔ یہاں لوگ علی الاعلان زکوٰۃ کا انکار کر رہے، اسلامی نظامِ عدالت کا مذاق اڑا رہے ہیں اور غلاموں کے لئے وضع شدہ استبدادی نظام کی خاطر ’’شہید‘‘ ہو رہے ہیں۔ یہیں پر بس نہیں! آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!!۔
 
ویسے اگر پالیسی میکر صادق اور امین نہیں ہے تو کیسی پالیسی بنائیں گے۔

اچھا کردار کا دیانت دار ہونا ، صادق و امین ہونا ہی پالیسی میکر ہونے کی ایک بنیادی شرط ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ عوام کو طے کرلینے دیں کہ وہ اس پالیسی میکر کا انتخاب کریں گے جو صادق و امین ہو۔ اگر عوام میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ جان سکیں کون صادق و امین ہے تو پھر انتخابات میں ان سے رائے لینے کی کیا ضرورت؟
 
ویسے اگر پالیسی میکر صادق اور امین نہیں ہے تو کیسی پالیسی بنائیں گے۔

اچھا کردار کا دیانت دار ہونا ، صادق و امین ہونا ہی پالیسی میکر ہونے کی ایک بنیادی شرط ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ عوام کو طے کرلینے دیں کہ وہ اس پالیسی میکر کا انتخاب کریں گے جو صادق و امین ہو۔ اگر عوام میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ جان سکیں کون صادق و امین ہے تو پھر انتخابات میں ان سے رائے لینے کی کیا ضرورت؟
آپکی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں۔۔لیکن کالم نگار نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ پاکستان کو مولویوں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی آپکے اقتباس سے یہ مفہوم نکلتا ہے۔۔
ویسے دلچسپی کی بات ہے کہ بہت سے جعلی ڈگری والوں کے پاس مدرسوں کا "شہادہ عالمیہ" پایا گیا ۔ مشہور مثال تو جمشید دستی کی ہے۔
 
بجا ارشاد فرمایا آُپ نے بلکہ بہت اچھا نکتہ ہے کہ شاہنواز فاروقی نے یہ جملہ اپنی طرف سے استعمال کیا ہے کہ پاکستان کو مولویوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ لیکن آرٹیکل 62-63 والی بات سے پہلے صاحب مضمون آی اے رحمان صاحب نے ایک جملہ اور لکھا ہے جسکا ترجمہ شائد یہ بنتا ہے کہ ً حادثاتی طور پر مدارس کی سندوں پر اقتدار حاصل کرنے والے ملاوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہتا جنہیں قبول کرنا غلط ہے، ان سندوں کو سپریم کورٹ میں چلینج کیا گیا لیکن چار سال سے یہ کیس التوا میں ہےً
 
بجا ارشاد فرمایا آُپ نے بلکہ بہت اچھا نکتہ ہے کہ شاہنواز فاروقی نے یہ جملہ اپنی طرف سے استعمال کیا ہے کہ پاکستان کو مولویوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ لیکن آرٹیکل 62-63 والی بات سے پہلے صاحب مضمون آی اے رحمان صاحب نے ایک جملہ اور لکھا ہے جسکا ترجمہ شائد یہ بنتا ہے کہ ً حادثاتی طور پر مدارس کی سندوں پر اقتدار حاصل کرنے والے ملاوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہتا جنہیں قبول کرنا غلط ہے، ان سندوں کو سپریم کورٹ میں چلینج کیا گیا لیکن چار سال سے یہ کیس التوا میں ہےً
اور میں اسکی ایک مثال یعنی جمشید دستی کا نام دے چکا ہوں۔ موصوف کے پاس کسی مدرسے ہی کا شہادہ عالمیہ ہے۔
 
گویا اس ساری مشق کا مقصد پالیسی میکرز نہیں بلکہ قریبی مساجد اور قبرستان کے متولیوں کو منتخب کرنا ہے۔
گویا آپ ابھی تک اس غلط فہمی کا شکار تھے کے پاکستان کے عوام جن لوگوں کو منتخب کرتے آئے ہیں وہ قبرستانوں کے متولی نہیں﴿ بلکہ گورکن اور کفن چور﴾ اور مساجد کے منتظم ﴿بلکہ پنکھے اور جوتے چور ﴾نہیں ہیں۔
 
گویا آپ ابھی تک اس غلط فہمی کا شکار تھے کے پاکستان کے عوام جن لوگوں کو منتخب کرتے آئے ہیں وہ قبرستانوں کے متولی نہیں﴿ بلکہ گورکن اور کفن چور﴾ اور مساجد کے منتظم ﴿بلکہ پنکھے اور جوتے چور ﴾نہیں ہیں۔
میں نے آپکے دئیے ہوئے انگریزی کے جملے کے آخری حصے کا ترجمہ لکھا ہے :)
 
Top