منیر نیازی انتخاب از منیر نیازی

کار اصل زیست

کوئی آئے باغ میں اس طرح
کوئی دید جیسے بہار میں
کوئی رنگ دار سحر اڑے
کسی گوشئہ شب تار میں
کوئی یاد اس میں ہو اس طرح
کوئی رنج جیسے خمار میں
کوئی زندگی کسی خواب میں
کوئی کام کوچئہ یار میں​
 
سارے آسمان پر بادل چھائے ہیں

مجھے اپنا گھر بھول گیا ہے
میں گھر سے باہر ضرورت کی کوئی چیز لینے کے لیے نکلا تھا
گھر سے باہر نکلنے کے بعد مجھے اپنا گھر بھول گیاہے
اب میں اسے تلاش کررہا ہوں
اسے کیسے تلاش کروں
اکّا دکّا کوئی درخت ،
کبھی کبھی ، کہیں کہیں کو شناسا چہرہ،
اور دور دراز میں کہیں کوئی مانوس عمارت _______
سمجھ میں نہیں آتا
ایسے نامکمل نشانوں کی معرفت اپنے گھر تک کیسے پہنچوں گا
میرے آس پاس خواب کی کیفیت ہے
اور میرا دل گھر واپس جانے کو چاہتا ہے
 
ایک وعدہ جو مجھ سے کیا گیا ہے

اس کڑی مسافت میں
راہگزار آفت میں
اک طویل نفرت کی
بے کنار عادت میں
بے شمار نسلوں کی
بے وفا وراثت میں
منتظر ہیں میرے بھی
میرے ہم سفر کے بھی
ایک دن مسرت کا
ایک شب محبت کی
اک مقام راحت کا
اک فضا حفاظت کی
اک خیال دائم کا
ایک سوچ ثابت
 
خزاں ایک بہار رنگ موسم ہے

درختوں سے پتے جھڑ رہے ہیں
کبھی ایک کرکے ہوا کے مطابق
کبھی اچانک بے شمار ہوا کے مطابق
خزاں کے بہاروں میں خوب دلکشی ہے
وسوسوں اور وہموں سے بھری ہوئی
اور آوارہ خیالی اور اکساہٹوں سے بھری ہوئی
اور بے شمار خوشیوں سے بھری ہوئی
درختوں سے پتے جھڑ رہے ہیں
کبھی ایک کرکے______
 
بھیروں

ایک ہی سرکی دو شکلیں ہیں
جینے کی بھی مرنے کی بھی
دکھ بھی ہو اس سر کو سن کر
خوشی سی جی کو مرنے کی بھی
ملنے کی بھی گھڑی
بین فراق میں کرنے کی بھی
 
یہ ہمارا گھر
یہ ہمارا گھر ہے ساتھی یا خوشی کا باغ ہے
یہ کئی رشتوں کی باہم دوستی کا باغ ہے
شام جب آتی ہے اپنے گھر کے صحن و بام پر
جگمگا اٹھتا ہے دل قدرت کے اس انعام پر
جیسے یہ آنگن ہمارا روشنی کا باغ ہے
اک جزیرہ سا ہے یہ بحر جہاں کے درمیاں
مسکراہٹ روح کی آہ و فغاں کے درمیاں
وقت کی بے چینیوں میں پر سکوں احساس ہے
اجنبی بستی میں کوئی اپنا جیسے پاس ہے
عمر کے باغ ہر دور میں اک تازگی کا باغ ہے
رات کے آخر پہ صبح زندگی کا باغ ہے
 
کتاب کو بھی خبر ہوتی ہے

اسے کون پڑھ رہا ہے
خراب نظروں سے وہ اپنا اصل باب چھپا جاتی ہے
عورت کو بھی خبر ہوتی ہے
اسے کون دیکھ رہا ہے
خراب نظروں سے وہ اپنا اصل آپ چھپا رہی ہے
 
ملتے جلتے زمانے

شام تھی اور شام کے دوران یہ سب کچھ ہوا
دائیں جانب بیٹھے میرے دوست نے مجھ سے کہا
"بائیں جانب دیکھنا ‘ منظر ہے کیسا دلربا "
گہری ہوتی جارہی اس شام میں اس شہر کے آغاز کا
جا بجا روشن نشانوں سے مزین اک سیہ کہسار سا
میں نے یہ پہلے بھی دیکھا تھا یہی منظر
کہیں پہلے پرانے خواب میں
منزلوں پر منزلیں آبادیوں کی ‘
اور ان میں
جا بجا روشن دیے
میں نے اپنے دوست سے ‘
اس سلسلے میں اور کچھ باتیں نہ کہیں
بس یونہی خاموش بیٹھا
اس پرانے خواب کو تکتا رہا
کتنا چلتے اور
کتنا تھکتے اور
منزل آخر مل ہی جاتی
آس اک رکھتے اور
اس بستی میں جو کچھ دیکھا
دیکھ نہ سکتے اور
ایک بھی خواب جو پورا ہوتا
خواب نہ تکتے اور
 
فجر کے وقت کی اداسی

چاند میرے گھر کی دیوار پر
اس کے آگے جامن کے پتے
اس کے پیچھے اذانوں کی صدائیں
اور وہ کوئٹے جانے والی گاڑی میں
اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی
 
سندری ایک درخت ہے جس پر کوئی طائر نہیں بیٹھتا

سندریاں ہی سندریاں تھیں
سندر بن میں دور تک
ایک بڑے دریاسے لے کر
اک سمت مستور تک
ایک ادا جو میں نے دیکھی
سندریوں کی خاموشی کے
بہت ہرے اسرار میں
جس پر شام اتری تھی جیسے
سیاہی سرخ غبار میں
اک طائر بھی وہاں نہیں تھا
انبوہ اشجار میں
بوندا باندی میں کسی گھنے شجر تلے
زمانے کو بھول کر‘
بیٹھ کر سوچنے کی گھڑی ہے
اور دروازے پر ہورہی دستک کا جواب دینا ہے مجھے
 
بے رنگ زیست میں حسن اتفاقات

کسی نیم باز سے شہر میں
کسی ایسی شکل کو دیکھنا
جسے یاد کرتے تھے ہم کبھی
کبھی خود پرستوں کے درمیاں
کسی محفل شب شہر میں
کسی ایسی شکل کو دیکھنا
جسے دیکھنا تھا ہمیں کبھی
سر صبح ، ابر بہار میں
وہ جھلک سی برق بہار کی
سر بام دامن یار سی
جو میرے خیال میں تھی کہیں
کہیں ایک ایسے مقام پر
جو ہے دور سب کی نگاہ سے
کوئی زخم دل کی پکار ہے
جو سنی نہیں ہے کسی نے بھی
 
کسی سوچے ہوئے کو ملنا نیند میں

نیند میں چلتے ہوئے
شہروں مکانوں اور پہاڑوں اور زمانوں سے گزرکر
وسعت حیراں میں رک کر
اس کو دیکھیں
کیاہے وہ________
دیکھنا، ملنا اسے اور دیر تک ملتے ہی رہنا
نیند میں رک کر اسے
جاگنے سے خوب ہے ملنا اسے
اور ساتھ رہنا نیند میں
 

الف عین

لائبریرین
یہ کس کتاب سے ٹائپ کر رہے ہیں شاید کچھ نظمیں تو میری ای بکس میں بھی مشترک ہیں۔ ویسے زیادہ تر تو نئی ہیں۔ اگر نئی ای بک بنائی جائے تو اس کا نام بھی تجویز کر دیں۔ ‌
 
یہ کس کتاب سے ٹائپ کر رہے ہیں شاید کچھ نظمیں تو میری ای بکس میں بھی مشترک ہیں۔ ویسے زیادہ تر تو نئی ہیں۔ اگر نئی ای بک بنائی جائے تو اس کا نام بھی تجویز کر دیں۔ ‌

استادِ گرامی یہ سب کلیات سے ٹائپ کر رہا ہوں ۔ باقی اگر کوئی ای بک بنائیں تو نام بھی آپ ہی تجویز کر دیجیے گا۔
 
روشنی

تھکی تھکی گلوں کی بو
بھٹک رہی ہے جو بہ جو

چھلک رہے ہیں چار سو
لبوں کے رس بھرے سبو

ہوا چلی تو چل پریں
کہانیاں سی کو بکو

لب مہ و نجوم پر
رکی رکی سی گفتگو

یہ اک خلائے دم بخود
یہ اک جہان آرزو

گئے دنوں کی روشنی
کہاں ہے تو، کہاں ہے تو
 
باز گشت

یہ صدا
یہ صدائے بازگشت
بیکراں وسعت کی آوارہ پری
سست رو جھیلوں کے پار
نم زدہ پیڑوں کے پھیلے بازوؤں کے آس پاس
ایک غم دیدہ پرند
گیت گاتا ہے مری ویران شاموں کے لیے۔
ٴ
 
برسات

آہ! یہ بارانی رات
مینہ، ہوا، طوفان، رقصِ صاعات
شش جہت پر تیرگی امڈی ہوئی
ایک سناٹے میں گم ہے بزم گاہ حادثات
آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوئے
اور مری کھڑکی کے نیچے کانپتے پیڑوں کے ہات
چار سو آوارہ ہیں
بھولے ، بسرے واقعات
جھکڑوں کے شور میں
جانے کتنی دور سے
سن رہا ہوں تیری بات
 
گزر گاہ پر تماشا
کھلی سڑک ویران پڑی تھی
بہت عجیب تھی شام

اونچا قد اور چال نرالی
نظریں خوں آشام

سارے بدن پر مچا ہوا تھا
رنگوں کا کہرام

لال ہونٹ یوں دہک رہے تھے
جیسے لہو کا جام

ایسا غسن تھا اس لڑکی میں
ٹھٹھک گئے سب لوگ

کیسے خوش خوش چلے تھے گھر کو
لگ گیا کیسا روگ
 
ایک خوش باش لڑکی

کبھی چور آنکھوں سے دیکھ لیا
کبھی بے دھیانی کا زہر دیا
کبھی ہونٹوں سے سرگوشی کی
کبھی چال چلی خاموشی کی
جب جانے لگے تو روک لیا
جب بڑھنے لگے تو ٹوک دیا
اور جب بھی کوئی سوال کیا
اس نے ہنس کر ہی ٹال
 
Top