اناطولیہ اور دیگر عُثمانی سرزمینوں میں فارسی کی ترویج میں مولانا رُومی کا کردار

حسان خان

لائبریرین
شادی آیدېن (از تُرکیہ) اپنے مقالے 'فارسچا دیوان صاحیبی عۏثمان‌لې سولطان‌لارې و دیوان‌لارېنېن نۆسخالارې' (صاحبِ دیوانِ فارسی عُثمانی سلاطین اور اُن کے دیوانوں کے نُسخے) میں لکھتے ہیں:

"اناطولیہ اور دیگر عُثمانی سرزمینوں میں فارسی زبان و شاعری اور ایرانی ثقافت کے رواج کے دوام میں مولانا رومی کی فکر اور اُن کی تالیفات کا اثر بِسیار زیادہ ہے۔ مولانا کی شاعری، مولوی طریقت اور مولوی خانقاہیں اِن سرزمینوں میں فارسی زبان کے رواج اور اناطولیہ سے بیرون کے مِنطقوں میں بھی اِس کی اشاعت کا وسیلہ بنیں۔ چونکہ مولانا کی مثنوی اور غزلیات فارسی میں کہی گئی تھیں، لہٰذا زبانِ فارسی مولوی درویشوں کے لیے ایک مُقدّس زبان بن گئی تھی۔ تیرہویں صدی میں فارسی شاعروں، وزیروں، مُنشیوں اور حکومتی کارندوں سے مخصوص زبان تھی، لیکن مولوی خانقاہوں کے ذریعے یہ زبان عوامی طبقوں میں بھی داخل ہو گئی۔ جس طرح سُلطان کے قصْروں میں شاہنامہ خواں پائے جاتے تھے، اُسی طرح درویش کی مجلسوں میں بھی مولانا کی شاعری خوانْنے والے مثنوی خواں پائے جاتے تھے۔"

× مولوی = مولانا رُومی کے سلسلۂ طریقت سے منسوب
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دانش نامۂ ایرانیکا کے مقالے 'بوسنیا و ہرزگووینا' میں ایک جا حامد الگر لکھتے ہیں:
"دیگر عُثمانی سرزمینوں کی طرح بوسنیا و ہرزگووینا میں بھی صوفیانِ مولویہ مثنویِ معنوی کی ہمیشہ اُس کی اصلی زبان میں قرائت کرتے تھے؛ اُنہوں نے نہ صرف فارسی کو ایک نیم عباداتی زبان بنا دیا تھا، بلکہ تعلیم یافتہ اشرافیہ کے درمیان اِس کے عام رواج میں بھی بسیار زیاد کردار ادا کیا تھا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی ادیب سُلیمان نظیف ۱۹۱۸ء میں لکھے اپنے مقالے 'ادبیاتِ ایران کی ہمارے ادبیات پر تأثیر' میں لکھتے ہیں:

"ایرانی زبان اور اشعار کے ہمارے مملکت میں شیوع کا دوسرا سبب مدرَسے، خانقاہیں، اور خصوصاً مولوی خانقاہیں ہیں۔ حضرتِ جلال الدینِ رُومی کی مثنوی اِس باب میں مقامِ اوّل پر فائز ہے، مع ہذٰا، مثنویِ شریف خانقاہوں اور خواص کے درمیان رہی، جبکہ فریدالدین عطّار کا پندنامہ، سعدی کی گلستان و بوستان، اور حافظ کا دیوان مزید زیادہ رائج ہوا۔ چونکہ اِن کی زبان زیادہ صاف و ظریف ہے۔ مثنویِ مولانا کو خانقاہوں نے، جبکہ پندنامہ و گلستان و بوستان و اشعارِ حافظ کو سب سے زیادہ مدرَسوں و مکتبوں نے پھیلایا اور عام کیا۔ اِن تمام کتابوں پر متعدِّد و مفصَّل شرحیں لکھی گئی ہیں، اور اِس باب میں اِس قدر اِسرافِ اقدام کیا گیا ہے کہ مثلاً اگر کہا جائے اور قسم کھائی جائے کہ شارح قونوی کی کوششوں سے جو ابیاتِ حافظ کے معانیِ مُتصوّفانہ استنباط ہوئے ہیں، اُن میں سے کئی بلکہ تمام معانی [خود] شاعرِ شیرازی کے خیال سے بھی نہیں گُذرے ہیں تو کوئی شخص کاذب و قسم شِکن نہیں کہلایا جائے گا۔ زبانِ فارسی نے ہمارے دین میں، ہماری حِسّ میں، اور ہمارے فکر و خیال میں اِس طرح سے عصروں تک زندگی کی، اور زندگی کو جاری رکھا۔ اگر ہم کسی اور پیشوا و مُقتدا کی آرزو کرتے تو بھی نہ پا پاتے۔ ہمارے مُقدّراتِ تاریخیہ نے ہم کو یہی پیش اور امر کیا تھا۔"

× صاحبانِ تحقیق کا کہنا ہے کہ 'پندنامہ' فریدالدین عطّار کی تألیف نہیں ہے، بلکہ کسی اور 'عطّار' تخلُّص والے شاعر کی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top