امیریکن مہمان ۔۔۔۔

اکمل زیدی

محفلین
سنیں۔۔۔آج شام کو بتول باجی آرہی ہیں تھوڑا جلدی آئیے گا۔۔۔بیگم نے ہمارے سر پر بذریعہ فون بم پھوڑا اور مزید فرمایا کچھ شایان شان ضیافت کا بندوبست بھی کرتے آییے گا۔۔۔یہ کہہ کر فون رکھ دیا گیا اب ہم سوچ میں غلطاں کہ شایان شان کیا؟ ساری امریکی پسندیدہ چیزیں سرچ ماری پھر سوچایہ تو کھاتی رہتی ہونگی اپنی دیسی بہت "ہیوی" ہو جاتیں۔۔۔کیونکہ کھانا وہ اپنی بہن کے یہاں سے کھاتے ہویے آرہیں تھیں۔۔اتنے میں باس سر پر سوار ہمارے ایکسپریشن دیکھ کر فرمانے لگے یار اتنی مشکل ڈیٹیل تو بنوا نہیں رہا کہ تمھارے ہوایاں اڑ رہیں ہیں اب انہیں کیا بتاتے کہ اور بھی ڈیٹیل ہے ہوایاں اڑوانے کے لیے بہرحال انہیں ڈیٹیل کیا بتاتے مختصر بتا کر اجازت لی اور کل تک کا ٹائم لے لیا باس او کے کہہ کر چلے گئیے اور ہم اپنے اصلی باس کے شایانشان ضیافت کی ادھیڑ بن میں لگ گئے۔۔ایک تو ہم لوگوں کا مائینڈ سیٹ ایسا بن گیا ہے کہ خود کو خواہ مخواہ ہلکان کر لیتے ہیں جبکہ سامنے والا ان معاملات میں اتنا کا نشئیس بھی نہیں ہوتا مگر وہی کہ لوگ کیا کہینگے۔۔۔والا معاملہ پھر اس پر وہ مقولہ یاد آجاتا ہے کہ ادھار لے کر گھی کے چراغ جلانے سے بہتر ہے اپنے پاس سے تیل کے جلا لو۔۔۔مگر ہماری شریعت بیگمات میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔۔۔خیر اب ہم بازار سے گذر رہے تھے کچھ بھی ذہن میں نہیں آیا تھا یکایک سامنے نظر پڑی اور ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا فورا فیصلہ کرلیا اور ہمیں اندازہ تھا کہ یہ انتہائی کامیاب رہے گا ان کزن سے ہم خاصے فری تھے سوچ لیا کیسے بات بنانی ہے۔۔۔گھر میں بس ایک تھیلی دیکھ کر بیگم حیران پریشان تھیں مہمان پہنچ چکے تھے۔۔۔ادھر بیگم کا برا حال میں نے جتنا ہو سکتا تھا رعب میں کہا یہ لو اور تھوڑی دیر میں نکال کر لے آنا باقی میں سنبھال لونگا۔۔۔ہم اندر کمرے میں پہنچے انتہائی گرم جوشی سے ملاقات ہوئی بس قسمت نے یاوری کی بیگم کو آنے میں کچھ دیر لگی۔۔۔ورنہ ملاقاتی منظر دیکھ کر منہ پر جو سوجن آتی وہ پھر ہفتہ بھر بعد جاتی۔۔۔بتول باجی دورے پر تھیں اٹھارہ سال بعد آئیں تھیں۔۔۔خیر باتوں باتوں میں ہم نے کھانے کا پوچھا جو انہوں نے ابھی تو کچھ گنجائش نہیں کہہ کر رد کردیا اس پر ہم نے کہا ارے میں ایسی چیز کھلاونگا کہ پورے امریکہ میں نہیں ملے گی اب ان کا تجسس بھی بڑھا کہنے لگیں اچھا پھر لے کر آو بیگم کا مارے غصے کے برا حال تھا زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے ہوئے اور مجھے دھمکی آمیز نظروں سے گھورتی ہوئی گئیں۔۔۔آگے کا منظر بڑا دلچسپ تھا اور ہماری توقع سے بڑھ کر تھا۔۔۔۔باول اور پلیٹوں میں گول گپے دیکھ کر بتول باجی خوشی کے مارے خود گول گپا ہو گئیں تھی۔۔۔بیگم کچھ حیران حیران اب ان کے چہرے پر اطمنان تھا جس پر ہم ہمارے منہ سے ۔۔شکر الحمد لللہ نکلا۔۔۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
اس پر ہم نے کہا ارے میں ایسی چیز کھلاونگا کہ پورے امریکہ میں نہیں ملے گی

باول اور پلیٹوں میں گول گپے دیکھ کر بتول باجی خوشی کے مارے خود گول گپا ہو گئیں تھی
باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن گول گپے تو یہاں اکثر انڈین ریستوران پر ملتے ہیں۔
 
اگلی ملاقات میں ہمیں بھی امریکن سمجھ کر گھر کے قریب سے دو درجن گول گپے ضرور لائیے۔ ہم صدیق بھائی سے احمد رشدی کے گانے
گول گپے والا آیا
کی فرمائش بھی کردیں گے۔
 
Top