امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا@عرفان ستار

محمد فائق

محفلین
امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا
اعلان کردیا گیا میری شکست کا

سائے سے اپنے قد کا لگاتا ہے تُو حساب
اندازہ ہو گیا ہے ترے ذہنِ پست کا

تجھ کو بدن کی حد سے نکلنا کہاں نصیب
سمجھے گا کیسے روح کو آلودہ ہست کا

تُو ہے۔ کہ کل کی بات کا رکھتا نہیں ہے پاس
میں ہوں کہ پاسدار ہوں عہدِ الست کا

جس سے گروہِ بادہ فروشاں حسد کرے
طاری ہے مجھ پہ نشّہ اُسی چشمِ مست کا

جا شہرِ کم نگاہ میں شہرت سمیٹ لے
یہ کام ہے بھی تجھ سے ہی موقع پرست کا

شاہِ جنوں کا تخت بچھا ہے بہ اہتمام
پہلو میں انتظام ہے میری نشست کا

وسعت ملی ہے ضبط کو میرے بقدرِ درد
بولو کوئی جواب ہے اس بندوبست کا؟

عرفان تیری لاج بھی اللہ کے سپرد
ستّار ہے وہی تو ہر اک تنگ دست کا
جناب عرفان ستار صاحب
 
Top