الیکٹرانک میڈیا کیلئے سرکاری ضابطہ اخلاق تیار ہوگیا

الیکٹرانک میڈیا کیلئے سرکاری ضابطہ اخلاق تیار ہوگیا
اسلام آباد (طاہر خلیل) الیکٹرانک میڈیا کیلئے سرکاری ضابطہ اخلاق تیار ہوگیا، وزیراعظم محمد نواز شریف کی منظوری کے بعد ضابطہ اخلاق کو قانونی حیثیت دے دی جائے گی۔ جمعہ کو سینیٹ کی اطلاعات ونشریات کمیٹی کے سربراہ سینیٹر کامل علی آغا کو حکومت کی جانب سے مجوزہ ضابطہ اخلاق پیش کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میڈیا پر ریاست کے خلاف بدامنی اور نفرت انگیز ریمارکس دینے، دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے، اہم ترین مطلوب شخصیات کے انٹرویوز جاری کرنے، دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والوں کی براہ راست کوریج کرنے، نشر ہونے والے ہوئے غیر ملکی مواد، ریسکیو آپریشن کے دوران محدود میڈیا کوریج کرنے، سیاسی جماعتوں پر یکطرفہ تنقید، میڈیا ٹرائل، اشتہارات میں بے ہودگی سمیت مذہبی فرقوں اور عدالتی فیصلوں کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کو الیکٹرانک میڈیا میں نشر اور جاری ہونے سے روکنے کیلئے میڈیا کوڈ آف کنڈیکٹ کو حتمی شکل دیدی ہے جسے باضابطہ منظوری کیلئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو بھجوا دیا گیا ہے۔ ذمہ دار سرکاری ذرائع نے جمعہ کو بتایا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے الیکٹرانک میڈیا میں قومی اداروں کا کسی ثبوت کے بغیر میڈیا ٹرائل کرنے کے واقعہ کے بعد اپنے خصوصی معاون برائے آبی امور عرفان صدیقی کی سربراہی میں 9 مئی کو چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جنہوں نے میڈیا کے کوڈ آف کنڈیکٹ کا جائزہ لینے اور تمام فریقین کو آن بورڈ لینے کے بعد اپنی سفارشات کو حتمی شکل دیدی ہے جسے وزیراعظم میاں نواز شریف کو باضابطہ منظوری کیلئے بھجوا دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ’’ الیکٹرانک میڈیا (پروگرامز اینڈ ایڈورٹائزمنٹ) کوڈ آف کنڈیکٹ 2014 ء ‘‘ کو پیمرا آرڈیننس 2002 کے تحت تیار کیا گیا ہے اور وزیراعظم کو بجھوائی جانے والی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ( پروگرامز اینڈ ایڈورٹائزمنٹ) کوڈ آف کنڈیکٹ 2014 کے تحت ریاست پاکستان کیخلاف اعلان جنگ کرنے والوں کے مواد کی تشہیر کرنے، لسانی و گروہی تصادم کو فروغ دینے، کسی بھی فرقے کیخلاف توہین آمیز بیان جاری کرنے اور کسی بھی فرد، گروپ، نسل، ذات اور قومیت کے خلاف نفرت انگیز ریمارکس پر پابندی عائد ہوگی۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، کسی فرد یا گروپ کو بلیک میل کرنے، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کی جانب سے حذف کئے جانیوالے ریمارکس کی تشہیر کرنے، نیوز و کرنٹ افیئرز پروگرامز سمیت سیاسی جماعتوں کو یکطرفہ طور پر تنقید کا نشانہ بنانے جیسے پروگرامز دکھانے پر بھی پابندی عائد ہوگی جبکہ نئے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت وہی پروگرامز نشر کئے جائیں گے جس سے رائے عامہ میں بہتر انداز میں اطلاعات فراہمی ہو اور جس جماعت کے خلاف تنقید کی جارہی ہو اس پروگرام میں اس کی نمائندگی بھی موجود ہو۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ایسے ٹاک شوز دکھانے پر بھی پابندی ہوگی۔ جس سے عدالتی فیصلوں یا ٹربیونل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے اور عدالتی ریمارکس کو غلط انداز میں پیش کرنے سمیت کسی کا بھی میڈیا ٹرائل کرنے پر بھی پابندی عائد ہوگی۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے، جن مطلوب لوگوں کے سر کی قیمت مقرر ہوگی ان کے انٹرویوز دکھانے، قانون کا بلاوجہ مذاق اڑانے، کسی پروگرام میں شراب، تمباکو نوشی اور منشیات کی تشہیر کرنے، مذہبی ہم آہنگی کے منافی پروگرام، زبردستی کسی کے گھر میں گھس کر پروگرام کرنے، بچوں کو تشدد پر آمادہ کرنے جیسے پروگرامز ، بے ہودہ اشتہارات نشر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پیمرا اتھارٹی کے ذریعے حکومت نے تشکیل دیئے جانے والے نئے کوڈ آف کنڈیکٹ پر عملدرآمد کرانا ہے۔ اس ضمن میں ضابطہ اخلاق کی تیاری کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے ’’جنگ‘‘ کے استفسار پر بتایا کہ مجوزہ ضابطہ اخلاق کوئی نیا مسودہ نہیں بلکہ اس میں 90 فیصد سے زائد شقیں وہی ہیں جو پیمرا کے ضابطہ اخلاق میں پہلے سے موجود ہیں اور جن پر عملدرآمد کیلئے ہر چینل لائسنس ہولڈر نے تحریری ضمانت دے رکھی ہے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ مجوزہ مسودے میں کچھ شقیں خود پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)کے بنائے گئے ضابطہ اخلاق میں سے لی گئی ہیں اور کچھ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کمیٹی کی سفارشات سے اخذ کی گئی ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ میڈیا کی آزادی کو کسی طرح بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑنے دیا جائے گا لیکن حالیہ واقعات میں پوری قوم نے اس احساس کو تقویت دی ہے کہ میڈیا کو اپنی آزادی اور ذمہ داری میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ نئے نظام میں تجویز کیا جارہا ہے کہ کسی بھی چینل کے خلاف شکایت کے ازالے کا پہلا موقع خود چینل کی انتظامیہ کو دیا جائے جس کے لئے تمام چینلز سے کہا جارہا ہے کہ وہ رضاکارانہ بنیاد پر خود اپنا احتسابی نظام وضع کریں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ اس جامع اور مربوط ضابطہ اخلاق کی تیاری کے مختلف مراحل میں بی بی اے، اے پی این ایس اور سی پی این ای کے عہدیداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔
 
اگر نوے فیصد شقیں وہی پہلے والی ہیں تو ان پر عمل کیوں نہیں ہوا؟
کیا نئے پیمرا رولز کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو دوسرے ملکی قوانین کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی قانون ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
 
پیمرا ،جس نے ان قوائد پر عمل کروانا ہے خود مکمل نہیں ہے۔ ابھی تک اس کا کوئی مستقل سربراہ نہیں ہے۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو پہلے پیمرا کو فعال کرے۔ اور کسی غیرجانبدار بندے کو اسکا سربراہ بنایا جائے جس کا تمام حلقوں میں احترام ہو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
پیمرا ،جس نے ان قوائد پر عمل کروانا ہے خود مکمل نہیں ہے۔ ابھی تک اس کا کوئی مستقل سربراہ نہیں ہے۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو پہلے پیمرا کو فعال کرے۔ اور کسی غیرجانبدار بندے کو اسکا سربراہ بنایا جائے جس کا تمام حلقوں میں احترام ہو۔
عطاء الحق قاسمی یا پھر عرفان صدیقی؟ :cool:
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے تضحیک پر مبنی سیاسی کامیڈی پروگرام واقعی بند ہو جانے چاہیے یا کم از کم ضابطے کے تحت آنے چاہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
طلعت حسین جیسا بندہ مناسب رہے گا

طلعت حسین تو کھرا بندا ہے ۔ اُسے تو شاید دونوں اطراف کے لوگ پسند نہ کریں۔

ہاں ن ۔ لیگ کو غیر جانبداری پر نجم سیٹھی جیسے بندے ہی یاد آتے ہیں۔

جیسے زرداری صاحب کے صدر بننے کی بات الطاف حسین سے کروائی گئی تھی۔ ویسے ہی نجم سیٹھی کو نگراں بنانے کے لئے پی پی پی کا سہارا لیا گیا تھا۔ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
 
طلعت حسین تو کھرا بندا ہے ۔ اُسے تو شاید دونوں اطراف کے لوگ پسند نہ کریں۔

ہاں ن ۔ لیگ کو غیر جانبداری پر نجم سیٹھی جیسے بندے ہی یاد آتے ہیں۔

جیسے زرداری صاحب کے صدر بننے کی بات الطاف حسین سے کروائی گئی تھی۔ ویسے ہی نجم سیٹھی کو نگراں بنانے کے لئے پی پی پی کا سہارا لیا گیا تھا۔ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
نجم سیٹھی کا ریکارڈ تو واقعی بہت خراب ہے۔ زرداری کے دور میں وہ زرداری کی حمایت کرتا رہا۔ اب نواز کے دور میں نواز کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن اس کا نکتہ نظر زرداری سے زیادہ ملتا ہے۔ اب بھی
اگر غیر جانبدار بندہ رکھنا ہے تو طلعت حسین یا مجیب الرحمن شامی جیسے بندے بھی ٹھیک ہیں۔
مزے کی بات بتاتا ہوں کہ ایک دفعہ ٹوٹر پر میں نے سیٹھی کو ایکسٹرا لبرل کہا تھا جس کی اس نے ڈھکے لفظوں میں تصدیق کی تھی۔ :)
 
Top