الکہف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جان لو کہ 'اللہ' ایک عَلم (علامت) ہے جسکی بدولت تم اس موسوم کا تعقل کرتے ہو جو الوہیت کے تمام مراتب پر حاوی ہے۔ اور یہ تعقل تمہارے تصور میں ایک زائد امر ہے جو تمہاری ذات سے مغائر ہے۔ پس یہ متصور عدم ہے، وجود نہیں رکھتا اسلئے کہ عین مراد تمہاری ذات ہے۔ پس اللہ کے سوا کوئی مصور نہین اور اس تعقل میں تصور کرنے والا تمہارے علاوہ اور کوئی نہین۔ بلکہ یوں ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہین۔
اور جان لو کہ ہمارا خلق و حق اور عبد و رب کہنا یہ دراصل ایک ہی ذاتِ واحد کے نسبی اور حکمی مراتب ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی پورے پورے معانی کی حکایت نہیں کرتا۔ چنانچہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو تمہارا ان درجات کے تعدد میں کسی ایک شئے پر رک جانا محض زور و زبردستی اور تضیعِ اوقات ہے۔ الّا یہ کہ تمہارا تعلق اس گروہ سے ہو جو مشک کو اس حالت میں سونگھ لیتے ہیں جب وہ نافہ میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں یہ سب مراتب (حق و خلق، عبد و رب) وغیرہ اصل کے اعتبار سے تمہاری ہی ذات کے مراتب قرار پائیں گے۔ ایسی صورت میں گویا تم نے ذفر (ایک خوشبودار جڑی بوٹی) کسی دوسرے کے ہاتھ سے چکھی، اور اپنے آپ کو اپنے مرتبے کی کسوٹی اور میزان پر پرکھا۔ پس اس مقام سے تم نے جو کچھ پایا، عین حقیقت ہے۔ اور تم نے اتصال اور اتحاد کی راہ سے اسے اللہ سے حاصل نہیں کیا کیونکہ وہ گمراہی و الحاد ہے۔
اور اس بات کا ذوق وہی شخص حاصل کرے گا جو عربی عجمی ہے، جسکی زبان خلق کی زبان نہین اور جسکا مقام خلق کے مقام سے مغائر ہے۔ اور وہ اس بات کو جو اسے حاصل ہوئی ہے، پوری طرح پا لیتا ہے۔ بلکہ وہ تو ہمیشہ سے ہی تھی۔
اور وہ اپنے اس ھاتھ سے جو احدیت سے قائم ہے، اپنی ذات کے ہدف پر اپنی مقتضیات کی کمان سے اپنے ہی مراتب کا تیر چلاتاہے۔ پس اسکا نشانہ نہیں چُوکتا، نہ اسکا تیر اوندھے منہ گرتا ہے نہ ہی ادھر اُدھر ہوتا ہے اور نہ ہی نشانے باز کی آنکھ اس سے ہٹتی ہے۔ بلند و برتر ہے اللہ اس بات سے کہ اسکی الوھیت زائل ہو یا اسکی احدیت منقسم ہو۔
 
فصل​
جان لو کہ جلالت (اسم اللہ) مرکب ہے چھ حروف سے، اور وہ ہین (ا، ل، ف، م، ی، ھ)۔ اسلئیے کہ الف کو بسط کریں تو وہ تین حروف ہیں (ا، ل، ف)، اور پہلے لام کو بسط کریں تو وہ بھی تین حروف ہیں (ل، ا، م)۔ اسی طرح اسم اللہ کا دوسرا الف ہے۔ اور دوسرا لام بھی پہلے والے لام کی طرح ہے۔ اور ھاء کو بسط کریں تو وہ دو حروف ہین (ھ، ا)۔ تو یہ کل چودہ حروف ہوئے جو نورانی حروف کی تعداد کے برابر ہیں۔ ان میں سے دہرائے جانے والے حروف نکالے تو یہ چھ حروف( ا، ل، ف، م، ی ،ھ) باقی بچے۔
پس الف دراصل تین عالم ہیں۔ ایک عالم غیبی ہے جسکے ظہور اور شہادت کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرا عالم غیبی برزخی ہے جسکا ظہور اور شہادت ممکن ہے۔ اور تیسرا عالم شہادی ہے۔ اور تمام وجود اور موجودات دراصل یہی تین عالم ہیں۔
کیا تم الف کا مخرج نہیں دیکھتے کہ اسکی ابتداء ہمزہ ہے جو سینے کا غیب ہے، اور جسکو کبھی دیکھا نہیں گیا۔ اور درمیانی حرف لام ہے جو تمام مخارض کے وسط میں یعنی منہ میں تالو کے پاس ہے اور یہ وہ غیب ہے جسکا ظہور اور شہادت ممکن ہے۔ اور الف کا آخری حصہ فاء ہے جسکا مخرج دونوں ہونٹ ہیں اور یہ شہادتِ محض ہے۔ پس الف غیب الغیب سے شہادت میں ظاھر ہوا۔
اور دوسرا حرف لام ہے جسکا مقام عالمِ غیب ہے اور اسکے درمیان میں الف آنے کی وجہ سے یہ لام الف کے غیب الغیب میں بھی دخل رکھتا ہے اور اسی طرح اسکے آخر میں میم ہے جس کا مخرج دونوں ہونٹ ہیں پس یہ میم شہادی ہے اور اسکی وجہ سے لام عالمِ شہادت میں بھی دخل رکھتا ہے۔
تیسرا حرف فاء ہے جسکا اول شہادت ہے اور آخر غیب الغیب ہے۔
چوتھا حرف میم ہے جسکی ابتداء شہادی ہے، وسط غیبی ہے اور انتہاء بھی شہادی ہے۔
اور پانچویں حرف یاء کا اول غیب سے ہے اور آخر غیب الغیب سے۔
چھٹے حرف ھاء کے لئے اسکے مخرج کا کوئی محل نہیں ہے اور اسکا تعین نہیں کیا جاسکتا اور اسکے وراء کوئی تعین نہیں۔
پس دیکھو 'اللہ' کی طرف، جو جامع ہے۔ جب وہ الف کی ظرح غیب الغیب سے غیب کی طرف آیا اور اس غیب سے شہادت میں ظاھر ہوا۔ اور جب وہ لام کی طرح غیبِ برزخی سے علامِ شہادت میں روشن ہو۔ فاء کی طرح عالمِ شہادت سے عالمِ غیب کو لوٹا۔اور جب میم کی طرح عالمِ شہادت سے عالمٰ غیب اور پھر وہاں سے اپنے مرکز عالمِ شہادت میں داخل ہوا۔ اور یاء کی طرح جب اس نے غیب سے غیب الغیب کی طرف نظر کی اور اس دوران وہ ھاء کی طرح اپنے غیب پر ہی برقرار رہا۔ پس یہ سب عین ذات اللہ ہے جو الوھیت کی حقیقت ہے۔ کیانکہ الوھیت احاطے کا مرتبہ ہے۔
پس اسکو سمجھو اور دیکھو کہ اس اسم کا حکم کس عجیب طریقے سے تینوں عالموں میں مختلف انداز سے داخل ہے اور کیا عجیب ھئیت ہے اس اسم کی۔ اور اگر ہم اس باب میں کلام کو مزید وسعت دیں تو یہ بیان اسکی تاب نہپین لاسکے گا اور یہ مختصر سی کتاب اس بات کا محل نہیں ہے۔
 
اور جان لو کہ وہ عالم جسے ہم نے غیب الغیب کہا ہے اس سے مراد ہے ذاتِ الٰہیہ کے کمالات کی تفصیل، جسکا کماحقُہ ادراک ناممکن ہے۔
اور جس عالم کو ہم نے برزخی غیب کہا ہے وہ لاہوت کا عالمِ غیب ہے کہ جسکا رحمٰن اس بات کا مستحق ہے کہ اسے اسماءِ حُسنٰی سے موسوم کیا جائے۔
اور عالمِ شہادی عالمِ ملک ہے۔ اور عالمِ ملک سے ہماری مراد وہ سب کچھ ہے جسکو عرش محیط ہے۔ روح، جسد اور معانی، سب اسی میں ہیں۔ پس اسکو سمجھو اور اس جمعیت کا راز جان لو جو اسم اللہ کو حاصل ہے کہ وہ کس طرح اپنے مسمّیٰ کی صورت پر ظاہر ہوا۔
اور جان لو کہ ذاتِ مطلق کو اللہ پر احاطہ حاصل ہے، لیکن اللہ کو ذاتِ مطلق میں افضلیت حاصل ہے۔ کیونکہ ذات کے کئی ایسے پہلو ہیں جو اللہ نہیں اور جن میں الوھیت نہیں پائی جاتی۔ جبکہ اللہ کا ہر پہلوُ دراصل وہی ذات ہے اپنے کمال کے ساتھ۔ اور یہ سب جو کہا گیا اسی وقت درست قرار پائے گا جب ایسا تعقل کیا جائے جس میں ذات اور اللہ کے درمیان کوئی تقسیم نہ ہو۔ اور ایسا ھرگز خیال نہ کرنا کہ میں اسے معدود یا تقسیم کررہا ہوں، یا اسے معطّل یا مشابہ قرار دے رہا ہوں، یا اسے جسمانیت سے موصوف کررہا ہوں۔ حاشا و کلّا۔ میں ایسے تمام باطل تخیّلات سے بری ہوں اور ان سے بیزار ہوں۔ اگر تم نے میری بات کا یہ مطلب نکالا تو گویا تم نے اسے سمجھا ہی نہیں۔ اور اللہ کی پناہ اگر تم علمِ الوھیت کی قابلیت رکھے بغیر اسے سمجھ سکو۔ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں سیدھے رستے پر چلائے، وہ رستہ جو اسی سے اس کی طرف جاتا ہے۔
فصل
عرش وہ عالمِ کبیر ہے جو الرحمٰن کے استواء کا محلّ ہے۔ اور انسان وہ عالمِ صغیر ہے جو اللہ کے استواء کا محلّ ہے۔ کیونکہ اس نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ پس اس لطیف، انسانی عالمِ صغیر کو دیکھو کہ کسطرح اسے عالمِ کبیر پر فضل و شرف حاصل ہوا اور کسطرح چھوٹا بڑا بن گیا اور بڑا چھوٹا بن گیا۔ اور سب اپنے اپنے محلّ و مرتبے پر ہیں۔ اگر تم اس بھید کو سمجھ لو تو تم اس بات کا مطلب جان لو گے کہ "وسّعنی قلب عبدی مؤمن۔ یعنی میرے مؤمن بندے کا قلب میری گنجائش رکھتا ہے"۔ اور جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ "میرے لئے اللہ کے ساتھ ایک ایسا وقت بھی ہے کہ جس میں کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی"۔ ظاھراً تو اسکا یہی مطلب ہے کہ اس وقت میں آپ کو اللہ کے سوا کسی کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور کتنے ہی نبی مرسل، مقرب فرشتے اور اولیاء و عارفین ہیں کہ جن کو عالمِ کبیر یعنی عرش پر وسعت حاصل ہوئی اور انکو کچھ بھی نہ ہوا اور اپنے حال پر مستحکم رہے۔ اور یوں اس لطیفہءِ انسانی کا فصل و شرف عالمِ کبیر پر ظاھر ہوا۔
اور یوں سمجھو کہ وہ اور عالمِ کبیر ایسے ہیں جیسے نقطہ اور محیط ۔ محیط کو خواہ کتنا ہی بڑا کریں، اسکی ترکیب اس نقطے پر ہی ہے اور اسی سے ہے۔ اور نقطے کو دائرے کے ہرہر جزو سے ایک خاص نسبت حاصل ہے، اور اسی اختصاص کی وجہ سے وہ دائرے سے افضل ہے، کیونکہ اسکی ذات میں تعدد نہیں منجملہ اسکے دیگر خصائص کے۔
پس نقطہ اسم اللہ ہے اور محیط اسم رحمٰن ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ "قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمٰن۔ ایّاماً تدعوا فلہ الاسماء الحسنٰی"۔ یعنی کہہ دو کہ تم خواہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، اسی کیلئے ہیں تمام خوبصورت نام، تم جو بھی کہہ کر پکارو۔ اور ہم واضح کرچکے ہیں کہ نقطے کو دائرے کے تمام اجزاء میں سے ہر ہر جزو کے ساتھ مخصوص نسب و اعتبارات حاصل ہیں۔ اور بیشک یہ تمام نسبتیں اور اعتبارات دائرے کو بھی حاصل ہیں۔ پس یہ سب نسبتیں اور اضافتیں جسکی طرف منسوب ہیں بیشک وہ انکا مستحق تھا جیسے کہ تمام اسماءِ حسنٰی۔ اگر اسم اللہ کو ان تمام ناموں سے منسوب و موصوف کیا جائے تو وہ نام اسی اسم اللہ کے ہونگے۔ اور اسم اللہ کی مختلف وجوہ میں سے ایک مخصوص وجہ اسم رحمٰن کو حاصل ہے جس میں وہ ظاھر ہوا جیسا کہ اسکے مرتبہءِ رحمانیت کے لائق تھا۔
پس دائرہ بجز عین نقطے کے، اور کچھ نہیں۔ اسلئیے کہ اسکے ہر ہر جزو میں نقطے کا ظہور ہوا ہے۔ پس نہیں ہے دائرہ مگر یہ کہ نقطہ۔
 
اور جان لو کہ رحمٰن فعلان کے وزن پر ہے۔ اور یہ صفت جب بھی کسی اسمِ صفت میں ہوگی تو اُس میں اس صفت کا عموم پایا جائے گا، اور اُس موصوف میں اس وصف کے ظہور کی شدّت پر دلالت کرے گی۔
لہٰذا اسم رحمٰن دنیا اور آخرت میں عام اور ظاھر ہے، بخلاف اسم رحیم کے۔ کیونکہ رحیم کی رحمت دنیا کی نسبت آخرت میں زیادہ شدّت سے جلوہ گر ہوگی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ " اللہ کی سو رحمتیں ہیں جن میں سے ایک دنیا میں ہے جس کی وجہ سے مخلوق آپس میں میل جول اور مہر و محبت رکھتی ہے۔ جبکہ باقی ننانوے رحمتیں آخرت میں ہیں اور اللہ انہیں قیامت کے دن ظاھر کرے گا۔"
اور اسم رحیم کا سرّ ہے اللہ کی طرف منتہی ہونا اور خلقیّت کا حقّیت کی طرف رجوع کرنا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ و انّ الٰی ربّک المنتہٰی اور و الی اللہ تصیر الامور۔
تعالوا بنا حتّٰی نعود کما کنّا۔ ۔ ۔
فما عھدنا خنتم ولا عھدکم خنّا​
آجاؤ ہماری طرف حتّٰی کہ ہم اسی طرح ہوجائیں جسطرح کبھی ہوتے تھے۔ پس نہ تم ہمارا عہد توڑو نہ ہم تمہارو عہد توڑیں۔
ونترک وشیاً والوشاة و طائراً
غراباً لوقع البین فی ربعنا غنّا​
اور کوّے کی مانند گا گا کر لگائی بجھائی کرنے والوں کو چھوڑ دین تاکہ ہمارے گھر میں علیحدگیوں کی گنجائش ہی نہ رہے۔
ونطوی بساط التعب والحب والجفا۔ ۔ ۔ ۔
و نرمی السوٰی والبین لیت السوٰی یفنٰی​
اور مشقت، جفا اور حب (طلب) کی بساط ہی لپیٹ دیں۔ اور غیریت اور فاصلوں کو دور پھینکیں۔ کاش کہ غیریت فنا ہوجائے۔
عسٰی ان یعود الشمل والحیّ مثل ما
عھدنا و عود الوصل اثمارہُ تجنٰی۔ ۔ ۔ ۔​
شائد کہ ہمارے علاقے میں وہی یگانگت لوٹ آئے جو کبھی ہوتی تھی۔ اور وصال کا موسم پھر سے آئے جسکے پھل اتارے جائیں۔
و ینشد حادی الحال عنّی مترجماً
الا لا اعاد اللہ بیتاً نأى عنّا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
اور گانے والے گنگنا کر میرے حال کی ترجمانی کریں کہ " اللہ نہ کرے کہ پھر وہ وقت آئے جب ہمارے گھر ہم سے دور کردئیے گئے۔
ااحبابنا طیّبوا فلم یک ما مضٰی۔ ۔ ۔
سوی الحلم کاللفظ لیس لہُ معنٰی​
کیا ہمارے احباب خوش تھے بھلا؟"۔ پس جو کچھ بیت گیا وہ ایک بھولا بسرا خواب ہوجائے گویا کہ کوئی بے معنی لفظ ہو۔
فلا طال ہجران و لا ثمّ عازل۔ ۔ ۔
ولا سھر المشتاق لیلاً و قد حنّا​
ھجر و فراق طول نہ کھینچیں بلکہ گھڑی بھر کی جدائی بھی نہ رہے اور نہ ہی وہ شوق و اشتیاق کے رتجگے۔
ولا کان ما قلتم ولا کان ما قلنا
ولا بنتم عنّا و لا عنکم بنّا۔ ۔ ۔ ۔​
اورایسا ہوجائے کہ جو کچھ ہم نے اور تم نے کہا ، گویا وہ کبھی ہوا ہی نہ تھا۔ اور نہ تم ہم سے جدا ہو اور نہ ہم تم سے جدا رہیں۔
ختم ہوئی کتاب الکہف والرقیم۔
و الحمدللہ وحدہُ و صلی اللہ علِی سیّدنا محمدّ و آلہِ و صحبہِ و سلّم تسلیماً کثیراً برحمتک یا ارحم الراحمین۔​
کتاب کا ترجمہ تقریباّ ختم ہوگیا ہے صرف مقّدمے کا ترجمہ رہ گیا ہے۔ انشاء اللہ اسے بھی جلد ہی مکمل کرتا ہوں۔
 
مقدّمہ​
سب تعریف اللہ کیلئے جو پوشیدہ ہے اپنی کنہِ ذات میں، مخفی ہے اپنے غیبوں کے مہیب بادل میں، کامل ہے اپنے اسماء و صفات میں، جامع ہے اپنی الوہیت کے ساتھ جس میں اس (الوہیت) کے متضاد امور بھی شامل ہیں، احد ہے اپنی تمام وجوہ میں، واحد ہے اپنے تمام تعدّدات میں، محیط ہے اپنے تمام اوصاف کو جن سے اسکا ادراک کیا جاتا ہے، ازلی ہے اپنی اُخریات کے ابد میں، ابدی ہے اپنی اولیات کے ازل میں، ظاھر ہے ہر صورت اور معنی میں اپنی علامات اور نشانیوں سے، ماوراء ہے ان تمام باتوں سے جو عقل و وہم اور حواس و گفتگو میں آتی ہیں ظاھر ہے ، ان تمام باہم ممتاز امور میں بغیر کسی امتیاز کے، متخلّق ہے تمام اخلاق سے اپنی مخلوقات کی خلق میں، جلوہ گر ہے عالم کی تمام صورتوں میں بشمول اسکے انسان، حیوانات ونباتات وجمادات کے، خلوت گزیں ہے اپنی تنزیہہ کے پردوں میں جہاں نہ وصل ہے نہ فصل، نہ ضدّ، نہ ندّ، نہ کیف ہے نہ کم ، اسکی تزبیہہ و تنزیہہ میں نہ جسمانیت ہے، نہ محدودیت اور نہ ہی تقیید۔ پاک ایسا کہ اسکے اسماء نے اسکی کنہِ ذات کے سمندر میں شناوری کی لیکن اسکی انتہاؤں تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی گہرائیوں میں کھو گئے، متّصف ہے ہر وصف سے، مؤتلف ہے ہر الفت سے، مجتمع ہے ہر جمع سے، ممتنع ہے ہر منع سے، ممتاز ہے ہر امتیاز سے، مطلق ہے ہر اطلاق سے، مقیّد ہے ہر تحدید سے، مقدّس و منزّہ ہے عین اپنی تشبیہات میں، این و آں سے محصور نہیں اور نہ ہی انکے سامنے ہے، کوئی آنکھ اسکا ادراک نہیں کرسکتی اور نہ ہی وہ ان سے چھپا ہوا ہے، خالق ہے خلق کے معنی میں، رازق ہے رزق کے معنی میں، ایسا عرض ہے جوھر پر جو اس جوھر کی حقیقت ہو اور ایسا جوھر ہے جسے کوئی عرض عریاں نہیں کرسکتا، تنزّل کیا اس نے ایک مرتبے میں اور اسے خلق کا نام دے دیا تاکہ ایک دوسرے مرتبے کا حکم اسکی حکمت اور تقدیرات کے تقاضوں کے مطابق پورا ہوا۔ اپنی مخلوقات کو معروف طریقوں کے مطابق اپنی پہچان کرانے کے باوجود ہنوز پوشیدہ ہے حقیقتِ کنتُ کنزاً لم اعرف(میں ایک خزانہ تھا جس سے کوئی آشنا نہ تھا) میں۔ اس نے اسمِ خلق کو اپنی ذات کا محلّ بنایا اور اس سے تجاوز نہ کیا، اور اسمِ حق کو اپنی ذات کا حکم قرار دیا جو تمہیں اس بات (یعنی اسکی ذات کا حکم ہونے) کے سوا اور کوئی فائدہ نہ دیگا، اور اپنی الوھیت کو ان دونوں (یعنی خلق و حق) کی جمع کا حکم دیا۔ پس تمہارے لئے اللہ سے ماوراء اسکا کوئی غیر نہیں جسکی جانب توجّہ کی جائے۔ اور یہ سب اسلئے کہ اسکی الوھیت اسکی احدیت کو محیط ہو اور اسکی احدیت کو اسکی الوھیت پر مراتب کی ترتیب میں غلبہ حاصل رہے۔ پہچان کرائی اس نے ہر موجود کو اسکے اس مرتبے کے مطابق جس مرتبے میں اس کی (اس موجود کی) عین نے ظہور کیا۔ اور اس (موجود) کے حسن و جمال میں اسکو (اللہ کو) کسی نے نہیں پہچانا سوائے اسکی (اللہ کی) اپنی ذات کے، جس نے عالم ِ کون و مکاں کو مزیّن کیا۔
میں حمد کرتا ہوں اسکی ، وہ حمد جو وہ خود اپنے لئے کرتا ہے غیب کے پردوں کی اوٹ سے ، اور اسکی ثناء کرتا ہوں اسی کے جمالِ اکمل کی زباں سے ۔ وہ ویسا ہی ہے جیسی ثناء وہ خود اپنے آپ کیلئے کرتا ہے ، کیونکہ میں اسکی ثناء کا شمار نہیں کرسکتا ۔ اور میں مدد مانگتا ہوں انکی بارگاہِ اعظم سے جو غیبِ جمع میں پوشیدہ ہیں اور جو نقطہ ہیں حروفِ معجمہ کی ذات کا ۔ یعنی سیّدنا محمّد صلّی اللہ علیہ وسلّم جو سردار ہیں عرب و عجم کے ، مرکز ہیں کنہِ حقائق و توحید کے ، جامع ہیں تنزیہہ و تحدید کے دقائق کے ، روشن کرنے والے ہیں جمالِ قدیم و جدید کے ، صورت ہیں کمالِ ذات کی ،ازلی ابدی مکین ہیں باغہائے صفات اور میدانِ الوھیات میں ۔ صلٰوات و سلام ہوں ان پر اور انکی آلِ پاک پر جو ھادی اور مقتداء ہیں، جو آپکیے جمالِ جہاں آراء سے مزیّن ہیں اور آپکے احوال و مواجید کے خوشہ چین ہیں اور آپکے افعال و اقوال میں آپ ہی کی طرف سے آپ کے قائم مقام ہیں۔ صلٰوات و سلام، شرف و کرم اور بزرگی نازل ہو آپکے اصحاب ہر، آپکی عترت ہر اور آپ کی ذرّیتِ طیبہ پر۔ آمین۔
امّابعد: پس میں نے اس الکہف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نامی کتاب لکھنے کیلئے اس وقت اللہ سے استخارہ کیا جب اس کام کیلئے میرے بھائی (عارفِ ربّانی، صاحبِ فہم و ذکاء سیّدی عمادالدّین یحیٰی بن ابی القاسم التونسی المغربی جو نواسہءِ حسن بن علی ہیں ، تجرید و تفرید کے مقام پر فائز ہیں اور طلب میں قدمِ صدق رکھتے ہیں) نے اس کی فرمائش کی۔ ہرچند کہ میں نے بہت ہچکچاہٹ ظاہر کی اور انکے اس ارشاد کی تعمیل سے گریز کرنا چاہا، لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور جب میں نے دیکھا کہ چارہ غیر از اطاعت نہیں مجھے، تو انکے اس صدقِ رغبت نے مجھے انکی موافقت پر آمادہ کردیا اور میں نے اللہ کی بارگاہ میں التجا و استخارہ کیا۔ میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ اس کتاب کے لکھنے، پڑھنے اور سننے والے کو اس سے نفع حاصل ہو۔ کیونکہ اسکی قبولیت اور اسکی درست طریقے سے تکمیل اور سب توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اسی کو سزاوار ہے۔
اور میں اس کتاب میں نظر کرنے والے اھل اللہ اور سادات و اخوان سلام اللہ علیھم و رضوان سے التماس کرتا ہوں کہ وہ ہر کلمے کے معنی میں غور کریں ، یہاں تک کہ اسکی عبارات و اشارات، اسکی تصریحات و تلویحات اور کنایات، اور اسکی تقدیم و تاخیر ، قواعدِ شرعیہ اور اصولِ دینیّیہ کی رعایت سے خوب واضح ہوجائیں۔ اور اگر وہ توحید کے معانی میں سے کسی معنی پر ٹھریں جسکی تائید کتاب و سنّت سے ہوتی ہو تو وہی دراصل میرا مطلوب و مقصود ہے۔ اور اگر انکو کوئی بات کتاب و سنّت سے مخالف لگے تو میں‌اس فہم سے بری ہوں ، پس اس بات کو دور پھینک دیں اور جو بات میں نے لکھی ہے اسکی تحقیق و تفتیش کتاب و سنّت سے کریں۔ اللہ تعالٰی کی ذات اور اسکے کرم سے امّید ہے کہ کچھ عرصے میں وہ اس بات کو پا جائیں گے۔ اور اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔ اور یہ بھی التماس ہے کہ انفاسِ الٰہیہ سے ہمیں مدد دیں اور ہم جس بات پر ہیں اسے قبول کریں۔ ہم اپنی اس کوشش کو دعائے نجات و نظرِ قبولیت کی امید پرانکے روبرو پیش کرتے ہیں۔
فان تجد عیبا ً فسدّ الخللا
فجلّ من لا عیب فیہ و علا​
اگر تم کسی عیب سے آگاہ ہوئے تو اسکی اصلاح کرو بجائے رسوا کرنے کے، کیونکہ عیب سے مبّرا تو صرف وہی ذاتِ عالی ہے جو بزرگ و برتر ہے۔
اور اب میں اس بات کو شروع کرتا ہوں جسکا کہ ذکر کیا،اورمیں اس میں اسی سے مدد مانگتا ہوں ، اسی کی طرف مری نظر ہے ، اسی کی جانب سے اسی سے اخذ کرتا ہوں۔ پس کچھ نہیں‌ سوائے اللہ کے۔ واللہ یقول الحقّ و ھو یہدی السّبیل۔
وما توفیقی الّا باللہ
 
اللہ کاشکر ہے کہ کتاب کا ترجمہ تکمیل کو پہنچا۔ الحمد للہ
موڈریٹر حضرات سے درخواست ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس مقدمے کو کتاب کے آغاذ میں لگا دیں۔ شکریہ۔
 
السلام علیکم جناب محمود غزنوی صاحب
الکہف والرقیم کو بنظر عمیق پڑھنے کے بعد ہم اس کو دوبارہ ادھر تصویری شکل میں پیش کررہے ہیں۔
نوٹ: جو الفاظ سرخ رنگ(احمر) کی روشنائی سے لکھے گئے ہیں وہ املا کی غلطیاں ہیں جو میرے فاضل دوست کی تحریر کی روانی کا شاخسانہ ہیں۔
نیلے رنگ (ارزق)کی روشنائی سے لکھا گیا مواد ہماری شامل کردہ ہے جو کہ دوران مطالعہ ہمارے ذہن کی لوح پر روشن ہوتا رہا تو ہم نے مناسب خیال کیا کہ آآپ لوگوں کو بھی اس سے محظوظ ہونا چاہیئے ہے۔ والسلام rohaani_babaa
11883623-f1c
 
محمود احمد غزنوی ہم نے کوشش کی ہے لیکن تصاویر اس فورم پر نہیں نظر آرہی ہیں ہم نے یہ تصاویر divshare.com پر اپلوڈ کی ہیں ہم یہ اس کا لنک دے رہے ہیں موڈیٹر حضرات سے گزارش ہے کہ ان کو ادھر منتقل کردیں شکریہ
1. http://www.divshare.com/download/11883623-f1c
2. http://www.divshare.com/download/11883780-55d
3. http://www.divshare.com/download/11883787-e90
4. http://www.divshare.com/download/11883789-1ae
5. http://www.divshare.com/download/11883792-8a1
6. http://www.divshare.com/download/11883920-3fb
7. http://www.divshare.com/download/11883923-d2d
8. http://www.divshare.com/download/11887307-8cb
9. http://www.divshare.com/download/11887308-f02
10. http://www.divshare.com/download/11887309-d37
11. http://www.divshare.com/download/11887310-36c
12. http://www.divshare.com/download/11887313-3fc
13. http://www.divshare.com/download/11887314-c27
14. http://www.divshare.com/download/11887315-c8f
15. http://www.divshare.com/download/11887316-b6d
16. http://www.divshare.com/download/11887317-511
17. http://www.divshare.com/download/11887319-804
18. http://www.divshare.com/download/11887321-63e
19. http://www.divshare.com/download/11887322-be5
20. http://www.divshare.com/download/11887329-d15
21. http://www.divshare.com/download/11887332-d98
22. http://www.divshare.com/download/11887333-1ee
23. http://www.divshare.com/download/11887334-307
24. http://www.divshare.com/download/11887337-e30
25. http://www.divshare.com/download/11887340-263
26. http://www.divshare.com/download/11887346-057
27. http://www.divshare.com/download/11887348-28c
28. http://www.divshare.com/download/11887349-a32
29. http://www.divshare.com/download/11887351-09c
30. http://www.divshare.com/download/11887353-c00
31. http://www.divshare.com/download/11887354-cf2
32. http://www.divshare.com/download/11887356-abd
33. http://www.divshare.com/download/11887359-e61
34. http://www.divshare.com/download/11887364-4d9
35. http://www.divshare.com/download/11887366-78b
36. http://www.divshare.com/download/11887368-c51
37. http://www.divshare.com/download/11887371-de8
38. http://www.divshare.com/download/11887374-587
39. http://www.divshare.com/download/11887376-5b8
 
میں نے ڈاونلوڈ تو کرلیا ہے لیکن زوم کرکے پڑھا نہیں جاتا۔ ۔ اگر آپ اسے بٹ میپ امیج کی بجائے ورڈ سےسیدھا پی ڈی ایف فارمیٹ میں کنورٹ کردیتے تو بہت بہتر ہوتا۔
 
محمود احمد غزنوی صاحب اس لنک پر سے ان پیج اردو کی شکل میں فائل موجود ہے آپ اتار لیجیو لیکن پھر اس کو ادھر منتقل ضرور کرنا اور دوسری بات یہ کہ جو فورم ہم اپنی نازک مزاجی کے ہاتھوں چھوڑ چکے ہیں ادھر بھی اس کو منتقل کردیجیو آپ کو مکمل اختیار عطا کیا جاتا ہے۔
http://rapidshare.com/files/404870469/alkhefwo_raqeem_legal.inp
 

الف عین

لائبریرین
بھئی محمود، یہ کس کا ترجمہ ہے؟ یہاں تو تم نے کیا ہے، یہ روحانی بابا کے پاس کس کا ہے؟ وہ فائل تو میں نے ڈاؤن لوڈ کی ہے لیکن اس میں مترجم کا نام نہیں ہے۔
 
الف عین صاحب آپ نے پورے پیغام کو پڑھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ محمود احمد غزنوی نے کیا تحریر کیا ہے اور ہم نے کیا تحریر کیا ہے بلکہ بہتر ہوگا کہ آپ پوسٹ نمبر 29 کو ژرف نگاہی سے پڑھیو۔
 
بھئی محمود، یہ کس کا ترجمہ ہے؟ یہاں تو تم نے کیا ہے، یہ روحانی بابا کے پاس کس کا ہے؟ وہ فائل تو میں نے ڈاؤن لوڈ کی ہے لیکن اس میں مترجم کا نام نہیں ہے۔
سر جی ترجمہ تو اس عاجز کا ہی ہے، روحانی بابا صاحب نے ایک دو جگہوں پر حاشیے میں (نیلے رنگ میں) اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تعجب یوں ہوا کہ پھر ان پیج فائل روحانی بابا کے پاس کیسے پہنچی؟ کیا تم نے ہی پہلے ان پیج میں ٹائپ کیا تھا محمود؟
 
Top