الکہف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آجکل اھلِ تصوف کی ایک بڑی مشہور اور اہم کتاب پڑھ رہا ہوں جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی عارفانہ شرح کی گَی ہے۔ کتاب کا نام ہے 'الکہف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمن الرحیم' اسکے مصنف ہیں حضرت عبدالکریم جیلی رحمتہ اللہ علیہ۔
میرا جی چاہا کہ اسکا آسان اور عام فہم ترجمہ (اپنی بساط کے مطابق) کرکے آپ کے ساتھ شئیر کیا جائے۔ ۔ ۔کتاب کے مقدمے کا ترجمہ سب سے آخر میں کروں گا انشاءاللہ۔ اس ترجمے کیلئے میرے پاس دارالکتب العلمیہ کا چھپا ہوا عربی ایڈیشن ہے اور کہیں کہیں سے مولانا تقی حیدر کاکوری کاظمی رحمتہ اللہ علیہ کے ترجمے سے بھی استفادہ کیا گیا ہے( جو تقریباّ سو سال قبل لکھا گیا تھا اور بذاتِ خود کافی پیچیدہ اور مغلق ہے)

گر قبول افتد زہے عزّ و شرف۔ ۔ ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اخبارِ نبوی میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ "جو کچھ گذشتہ آسمانی کتابوں میں نازل ہوا، وہ سب قرآن میں ہے، اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ سب سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ سب بسم اللہ الرحمن الرحیم میں موجود ہے۔" اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ " جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ سب کچھ 'باء' میں ہے اور جو کچھ 'باء' میں ہے وہ سب باء کے نیچے یعنی نقطے کے اندر ہے۔"
اور کچھ عارفین نے فرمایا کہ " عارف کی طرف سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بمنزلہِ 'کن' کے ہے جو اللہ سے صادر ہوا۔"
اور جان لو کہ بسم اللہ پر کثیر وجوہ سے کلام کیا گیا ہے۔ مثلاّ صرف و نحو اور لغت۔ اور اس میں وہ کلام بھی شامل ہے جس میں اسکے حروف کے مادّوں، انکے صیغوں، انکی طبائع، انکی ھیئتِ ترکیبی اوران خصائص پر بھی بات کی جاتی ہے جو اسکے حروف کو فاتحہ کے بقّیہ حروف کے مقابلے مین حاصل ہیں۔ اور بسم اللہ کے فوائد اور اسرارو خواص پر بھی کلام کیا گیا۔ اور ہم ان میں سے کسی بھی چیز سے منہ نہیں موڑتے لیکن ان (حروف) پر ہمارا کلام ان معنوں، اور حقائق کے ان پہلووں سے ہے جو حق سبحانہ تعالی کی بارگاہ کے لائق ہیں۔ ان باتوں میں سے کچھ باتیں ایک دوسرے میں مندرج ہیں اور ان باتوں اور کلام کے ان پہلووں سے ہمارا مقصد حق سبحانہ و تعالی کی معرفت ہے۔ اور ہم اس پاک ذات کے در پر پڑے ہوئے ہیں۔ پس اس حالت میں جو بھی تازگی اس ذات کے فیض سے ہماری سانسوں میں آتی ہے، روح الامیں اسی کو لے کر صفحہِ قلب پر اترتی ہے۔
اور جان لو کہ نقطہ جو 'ب' کے نیچے ہے، کتاب اللہ کی ہر سورت کے شروع میں آیا ہے۔ یہ اسلئے کہ حروف نقطے سے بنے ہیں۔ او جب یہ ضروری ہے کہ ہر سورت کی شروعات کسی حرف سے ہو اور کسی بھی حرف کی شروعات نقطے سے، پس اس سے یہ لازم آیا کہ کتاب اللہ کی تمام سورتوں کی ابتداء نقطہ سے ہی ہو۔ پس جب نقطہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے ذکر کیا۔۔۔ اور اسکے اور 'ب' کے درمیان ایک کامل اور مکمّل نسبت پائی جاتی ہے جسکو عنقریب ہم بیان کریں گے۔۔۔ پس اسکی وجہ سے لازم ہوا کہ 'ب' ہر سورت کے شروع میں بسملہ کی طرح آئے۔ حتّی کہ سورہ توبہ بھی کیونکہ 'ب' اسکا بھی پہلا ہی حرف ہے۔ پس اوپر بیان کی گئی حدیثِ مبارکہ کی رُو سے ضروری ہوا کہ کل قرآن اور کل سورتیں فاتحہ کے اندر ہی ہیں، اور وہی کچھ بسملہ میں، اور وہی کچھ 'ب' میں، اور وہی سب کچھ نقطے میں ہے۔ اسی طرح حق سبحانہ تعالی ہر ایک کے ساتھ اپنے کمال کو لئے ہوئے ہے جسکے نہ تو اجزاء ہی کئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی علیحدہ علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ پس نقطہ ایک اشارہ ہے اللہ تعالی کی ذات کی طرف جو اپنی مخلوق میں اپنے ظہور کے باوجود، قیمتی خزانے کی طرح پردوں کی اوٹ میں ہے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ نقطہ دیکھا تو جاتا ہے لیکن اپنے اخفاء اور مخارجِ حروف میں سے کسی بھی مخرج سے مخصوص ہونے کی قید سے منزّہ ہونے کے سبب، پڑھا نہیں جاتا۔ چونکہ تمام مخارج سے ادا ہونے والے حروف کا نفس یہ نقطہ ہی ہے، چنانچہ یہی نقطہ اپنے اس تقابل سے غیبِ احدیت کی ھویت کی خبر دیتا ہے۔
اور ایک اعتبار سے نقطہ پڑھا بھی جاتا ہے۔ 'ت' میں یہ دو مرتبہ آیا اور جب ایک اور مرتبہ آیا تو 'ث' بن گئی۔ چنانچہ قراءت نہیں کی گئی سوائے اس نقطے کے۔ کیونکہ 'ت' اور 'ث' کی صورت بغیر نقطے کے ایک ہی صورت ہے۔ لہذا جو پڑھا گیا وہ انکا نقطہ ہی تھا۔ کیونکہ 'ت' اور 'ث' نقطے سے ہٹ کر اگر اپنی ذات کے سبب ہی پڑھے جاتے تو انکی صورتیں ایک دوسرے سے الگ ہوتیں۔ اور چونکہ نقطے ہی کی وجہ سے ان میں تمیز کی جاسکتی ہے تو ان حروف میں سوائے نقطے کے اور کچھ نہیں پڑھا گیا۔ اسی طرح مخلوق سے کچھ بھی نہیں پہچانا گیا سوائے اللہ کے ۔ پس جب تم نے خلق سے اسکو پہچانا تو حقیقت میں اللہ سے ہی اسکو پہچانا۔
نقطہ بعض حروف میں دوسرے حروف کی نسبت زیادہ شدّت سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ کسی کسی حرف میں یہ زائد یعنی الگ سے ہوتا ہے تاکہ اس حرف کی تکمیل ہوسکے جیسے کہ حروفِ معجمہ۔ کیونکہ ان حروف کی تکمیل نقطے سے ہوتی ہے۔ اور بعض حروف میں یہ بعینہ موجود ہوتا ہے۔ جیسے کہ الف اور حروفِ مہملہ۔ کیونکہ دراصل یہ نقطے سے ہی مرکّب ہیں۔ لہذا الف شرف اور بزرگی میں 'ب' سے زیادہ ہے۔ کیونکہ نقطے کا ظہور الف کی ذات میں ہے ۔جبکہ 'ب' میں نقطہ صرف 'ب' کی تکمیلِ ذات کی وجہ سے متحد ہوا۔ اور یہی اتّحاد غیریت کا پتہ دیتا ہے۔ اور یہ غیریت وہی فاصلہ ہے جو حرف اور نقطے کے درمیان نظر آتا ہے۔ اور الف واحد کے قائم مقام ہے۔ لہذا الف اپنی ذات کے ساتھ تمام حروف میں ظاھر ہوا۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ 'ب' ایک لیٹا ہوا یعنی افقی الف ہے۔ اور 'ج' بھی الف ہی ہے جسکی دونوں اطراف کو خم دے دیا گیا۔ اور ' د ' الف ہے جسکو درمیان سے خم دے دیا گیا۔ جبکہ الف نقطے کے مقام پر ہے کیونکہ جب تمام حروف کی ترکیب الف سے ہے اور الف اور تمام حروف نقطے سے ہی بنے ہیں، پس نقطہ ہر حرف کیلئے بمنزلہ جوھر بسیط ہے اور حرف جسمِ مرکّب ہے۔

جاری ہے)۔ ۔ ۔ ۔
 
پس حروف کی ترکیب میں الف اپنے جسم کے ساتھ نقطے کا مقام رکھتا ہے۔جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ 'ب' الف مبسوطہ ہے۔ اور اسی طرح حقیقتِ محمّدیہ ہے کہ تمام عالم کی اسی سے تخلیق ہوئی ہے۔ جیسا کہ حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں آیا ہے کہ " اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی روح کو اپنی ذات سے پیدا کیا اور تمام عالم کو روحِ محمّد سے"۔ پس مظاہر الٰہیہ سے خلق میں محمّد ہی اپنے نام سے ظاہر ہوئے صلی اللہ علیہ وسلّم۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آپ اپنے جسم کے ساتھ عرش سے اوپر تشریف لے گئے جبکہ عرش وہ مقام ہے جہاں الرحمٰن کا استواء ہے۔
اور اگرچہ باقی حروفِ مھملہ بھی الف کی مثل ہیں جن میں نقطہ اپنی ذات کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جیسا کہ وہ الف میں ظاہر ہوا تھا لیکن الف کو ان حروف سے ایک زائد خصوصیّت بھی حاصل ہے وہ یہ کہ الف نقطے سے صرف ایک درجہ دور ہے۔ کیونکہ جب دو نقطوں کو ملایا گیا تو وہ الف بن گئے۔ پس الف نقطے سے ایک بُعد پر ہے یعنی ایک ڈائمنشن Dimension میں واقع ہے جسے لمبائی کہتے ہیں۔ کیونکہ ابعاد (Dimensions) تین ہیں لمبائی، چوڑائی اور گہرائی۔ باقی حروف میں ایک سے زیادہ Dimensions ہیں۔ مثلاّ 'ج' جسکا سرا لمبائی ہے اور گولائی گہرائی ہے۔ یا جیسے کہ 'ک' ہے جسکا سرا لمبائی ہے، اور سرے سے اگلے موڑ تک کا حصّہ چوڑائی ہے اور پہلے موڑ سے آخری موڑ تک کا حصّہ گہرائی ہے۔ سو یہ تین Dimensions ہوئیں۔ اور الف کے علاوہ باقی تمام حروف میں لازمی طور پر دو یا تین ابعاد موجود ہیں۔ جبکہ الف میں صرف ایک ہے۔ لھذا الف قرب میں نقطے کے سب سے زیادہ قریب ہوا۔ کیونکہ نقطہ بغیر کسی Dimension کے ہوتا ہے۔ پس الف کی باقی حروفِ مھملہ کے ساتھ وہی نسبت ہے جو محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کی باقی انبیاء اور کامل وارثین کے ساتھ ہے۔ لھذا الف باقی تمام حروف سے آگے بڑھ گیا۔ پس غور کرو اور اس کو سمجھو ۔
اور حروف میں کچھ ایسے ہیں جنکے اوپر نقطہ ہوتا ہے اور وہ اسکے نیچے ہوتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جسے " ما رائیت شئیاّ الّا و رائیت اللہ قبلہُ " کہا گیا ہے۔ یعنی میں نے نہیں دیکھی کوئی شئے مگر یہ کا اس سے پہلے اللہ ہی نظر آیا۔
اور ھروف میں کچھ ایسے بھی ہیں جنکے نیچے نقطہ ہوتا ہے اور وہ اس نقطے کے اوپر ہوتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جسے " ما رائیت شئیاّ الّا و رائیت اللہ بعدہ " کہا گیا ہے۔ یعنی میں نے نہیں دیکھی کوئی شئے مگر یہ کہ اس کے بعد اللہ ہی نظر آیا۔
اور اسی طرح کچھ ایسے بھی حروف ہیں کہ نقطہ انکے درمیان میں یعنی انکے اندر ہوتا ہے۔ جیسے کہ 'م' کے قلب میں سفید نقطہ اور واؤ اور اس جیسے اور۔ اور یہ وہ مقام ہے جسے " ما رائیت شئیاّ الّا و رائیت اللہ فیہ " کہتے ہیں۔ یعنی میں نے نہیں دیکھی کوئی چیز مگر یہ کہ اللہ ہی اس میں نظر آیا۔ اور اسی لئے یہ حروف جوف لئے ہوئے ہیں کیونکہ اس جوف میں وہ ظاہر ہوا ہے جو انکا غیر ہے۔ پس 'م' کا مقام ہے " ما رائیت شئیاّ " (میں نے جو بھی دیکھا) اور سفید نقطے کا مقام ہے " الّا و رائیت اللہ فیہ " (مگر یہ کہ اللہ کو اس میں دیکھا)۔
اور الف کا مقام ہے " انّ الذّین یبایعونک انّما یبایعون اللہ "۔ بےشک جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں۔ 'انّما' کے معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ بمنزلہ 'ما و الّا ' کے ہے۔ اور تقدیرِ کلام یوں بنتی ہے کہ جو تیری بیعت کرتے ہیں سوائے اللہ کے کسی کی بیعت نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ معلوم ہے کہ وہ محمّد ہی تھے جنکی بیعت کی گئی۔ پس اللہ نے گواہی دی اپنے نفس کے ساتھ کہ 'بیعت نہیں کی گئی سوائے اللہ کے' گویا کہ اس نے کہا کہ ' تو وہ نہیں جسکی محمّد ہوتے ہوئے بیعت کی گئی، بلکہ تو وہی اللہ ہے پوشیدگی میں'۔ کیونکہ وہ حقیقت میں اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور یہی معنی ہیں خلافت کے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسول یا کسی بادشاہ کے پیغامبر کیلئے یہ کہنا کس طریقے سے درست ہوتا ہے اگر وہ کسی مخالف سے کہیں کہ تم نے میری نہیں بلکہ بادشاہ کی مخالفت کی ہے۔ اور اسی طرح بادشاہ بھی ان لوگوں سے اگر کہے کہ اس شخص کو فلاں فلاں شخص نہ سمجھو بلکہ یہ میں ہی ہوں۔ اور یہ سب اسکی اطاعت پر کمربستہ کرنے کیلئے کہا جاتا ہے

(جاری ہے)
 
فصل​
عالمِ غیب۔۔۔ جس میں کوئی تفرقہ نہیں۔۔۔میں نقطہِ باء واحد ایک ہی ذات ہے۔ ہاں یہ کہ وہ 'ت' میں دو بار اور 'ث' میں تین بار ظاہر ہوا ہے۔ اس بات میں (کہ نقطہ ایک ہی ہے) اس شخص کیلئے تنبیہہ ہے جو دوئی اور شرک کا قائل ہے۔ جو اسکو دو کا دوسرا اور تین کا تیسرا کہتا ہے۔ حالانکہ ہمارے اس قول میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نقطہ ایک ہی ہے اگرچہ کئی مرتبہ ظاہر ہوا ہو۔ وہ اپنی ذات میں ایک ہی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ واحد ہے، جبکہ مشرک اس میں شرک کا تخیّل کرتا ہے۔کیونکہ مشرک جس شریک کا اپنے خیال کے مطابق اعتقاد رکھ رہا ہے، وہ تو اللہ کی مخلوق ہے۔ اور حق ہر مخلوق میں اپنے کمال کے ساتھ موجود ہے۔ پس مشرک مخلوق ہے اور جس شریک کا اعتقاد کیا گیا وہ بھی مخلوق ہے اور اعتقاد بھی مخلوق ہے۔ اور حق سبحانہ تعالیٰ ان سب مین اپنے ذاتی کمال کے ساتھ ہے جسکو نہ تو جزء جزء ہی کیا جاسکتا ہے ، نہ متعدد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی کیفیت کے ساتھ متکیف کیا جاسکتا ہے۔ وہ تو واحد ہے جسکا کوئی دوسرا نہیں۔ تم چاہے شرک کرو یا تفرید، وہ نہیں ہے مگر یہ کہ تمہاری ذات۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ نقطہ اس حیثّیت سے کہ وہ نقطہ ہے، نہ تو متعدّد ہوتا ہے اور نہ ہی اجزاء میں تقسیم ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات اس بات سے بہت بلند اور پاک ہے کہ اشخاص میں سے کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کے اجزاء میں سے کوئی جزء ہو۔ پس نقطہ عین تعداد میں بھی اپنی یگانگت کی قوّت سے غیر منقسم اور غیر متعدّد ہی پایا گیا۔
اور جان لو کہ حقیقت میں نقطہ نگاہ کے قابو میں نہیں آسکتا کیونکہ عالمِ اجسام میں جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہ قابلِ تقسیم ہے۔ اور یہ نقطہ جو شہود میں آرہا ہے دراصل اسکی حقیقت کا ایک اعتبار ہے۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جوھر ہے، فرد ہے اور ناقابلِ تقسیم ہے۔ پس جب وہ غیب الوہم سے قلم کی زبان پر اور وہاں سے عالمِ شہادت کے موجودات کی لوح پر آیا تو یہ بات مزید محکم ہوئی کہ اسکی ذات حد سے اور تقسیم سے منسوب نہیں۔ کیونکہ عالمِ کون و مکان میں۔۔۔جسکا ہم حواس سے ادراک کرسکتے ہیں۔۔۔یہ بات شاذ ہے کہ نا قابلِ تقسیم جوھر فرد، پایا جائے۔ بلکہ پایا ہی نہیں جاتا۔ پس جب یہ جوھر اس حرف کے تحت روشن ہوگیا یعنی ظاھر ہوگیا تو باوجود اسکے کہ یہ ناقابلِ تقسیم ہے، ایک اعتبار سے تقسیم ہو گیا۔ اور یہی وہ جگہ ہے جسے تشبیہہِ حق کہتے ہیں۔ اور جیسا کہ نص میں آیا ہے کہ اسکے دو ہاتھ ہیں، چہرہ ہے، اور حدیثِ عکرمہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ " میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان لڑکے کی صورت میں دیکھا جو سنہری پوشاک زیبِ تن کئے ہوئے تھا اور اسکے سر پر سونے کا تاج اور پاؤں میں سونے کے جوتے تھے"۔ سو اس مقام پر وہ اللہ ہی ہے جو ہمارے لئے اپنے حق میں نوجوان لڑکے یا کسی اور صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
کتب الجمال علیٰ جلال وجھہ
اللہ احسن کلّ شئیٍ خلقہُ​
اس نے اپنے چہرے کی جلالت پر جمال لکھ دیا ہے اور اللہ ہر تخلیق کردہ چیز سے حسین تر ہے۔
یہ حدیث اپنے پورے کمال کے ساتھ عینِ تنزیہہ میں تشبیہہ ہے۔ اسلئے کہ حق کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ منزّہ ہے۔ ( الّذی لیس کمثلہ شئیٍ و ھو السّمیع البصیر)۔ پس تشبیہہ کی قید اسکے لئے محال ہے۔ ہمیشہ اسکے لئے یہی بات ہے۔
پس جب کتاب و سنّت کی نص کے حکم سے تنزیہہ میں تشبیہہ اور تشبیہہ میں تنزیہہ ہوئی تو تمہارے لئے عالمِ غیب عالمِ شہادت کے اندر ہی ظاھر ہوا۔ اور عین عالمِ غیب میں عالمِ شہادت تم سے پوشیدہ ہوگیا۔ پس جب نقطہ تمام حروف کیلئے ہے تو تو تمام حروف نقطے میں بالقوّت پائے گئے۔ اور میرے قول بالقوّت کے معنی یہ ہیں کہ عقل کی رو سے حروف کا ثبوت نقطے میں ملا لیکن انکے وجود کا ادراک نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ نقطے سے ظاھر ہوکر واضح نہ ہوجائیں۔

(جاری ہے)
 
فصل ۔۔ نقطے اور 'ب' کی گفتگو​
نقطے نے 'ب' سے کہا کہ اے حرف میں ہی تیری اصل ہوں کیونکہ تیری ترکیب مجھ سے ہے۔ بلکہ ترکیب کے لحاظ سے تُو میری اصل ہے کیونکہ تیرا ہر ہر جزو نقطہ ہے۔ پس تُو کُل ہوئی اور میں جزو۔ کُل اصل ہوتی ہے اور جزو اسکی ایک شاخ۔ حقیقت کی رُو سے تو میں ہی اصل ہوں کیونکہ تیری ترکیب عین میری ہی ذات ہے۔ میرے اس ظہور کو خود سے وراء مت جان کہ کہیں تُو کہہ بیٹھے کہ یہ جو ظاھر ہوا ہے یہ میرا غیر ہے۔ میری تو صرف ذاتِ غیب تجھ سے وراء ہے۔ اور اگر تجھ میں میرا وجود نہ ہوتا تو میرا تیرے ساتھ یہ تعلق بھی نہ ہوتا۔ تُو کب تک اپنے عالمِ شہادت سے مجھ سے منہ موڑتی رہے گی؟ اور کب تک مجھے پسِ پشت ڈالتی رہے گی؟ اپنے غیب کو شہادت بنا ڈال اور شہادت کو غیب کردے۔ میرے تیرے ساتھ جو وحدت ہے کیا وہ ابھی تک تجھ پر واضح نہیں ہوئی؟ اگر تُو نہ ہوتی تو میں بھی 'ب' کا نقطہ نہ ہوتا۔ اور اگر میں نہ ہوتا تو تُو بھی نقطے والی نہ ہوتی۔ میں تجھے آخر کتنی مثالیں دوں کہ تُو سمجھ سکے کہ مجھے تجھ سے کیا یگانگت ہے۔ جس سے تجھے معلوم ہوجائے کہ عالمِ شہادت میں تیرا پھیلاؤ اور عالمِ غیب میں میری پوشیدگی، ہماری ایک ہی ذات کے دو اعتبارات ہیں۔ مجھ میں تیری شرکت نہیں اور تجھ میں میری شرکت نہیں۔ تُو نہیں ہے مگر یہ کہ میں۔ کیونکہ تیرا نام میرے نام پر ہے۔ کیا تُو نہیں دیکھتی کہ تیرے نام کے اجزاء میں سے پہلے جزو کا نام نقطہ ہے، دوسرے جزو کا نام نقطہ ہے اور تیسرے جزو کا نام بھی نقطہ ہی ہے۔ اور تیرے تمام اجزاء نقطے پر نقطہ ہیں۔ پس میں تُو ہے۔ تیرے لئے تجھ میں تیری انّیت نہیں ہے بلکہ میرا 'وہ ہونا' تیرا 'میں ہونا' ہے جس سے تُو 'تُو' بنا ہے۔ کاش کہ تُو اپنے آپ کے بارے میں 'میں' کہتے ہوئے میری ذات کا تخیّل کرلیتا تو میں بھی 'وہ' کہتے وقت اپنے چہرے کا تخیّل کرتا تاکہ اسوقت تُو 'میں' کو جان جاتا۔ 'میں' اور 'وہ' ایک ہی ذاتِ واحد کیلئے وضع کی گئی دو عبارتیں ہیں۔
'ب' نے کہا کہ سیّدی میں سمجھ گئی کہ تُو میری اصل ہے اور تجھے پتہ ہے کہ اصل اور فرع دو چیزیں ہیں۔ اور یہ میرا قالب جو بچھا ہوا ہے، ترکیب شدہ ہے۔ میرا اس کے بغیر کوئی وجود نہیں۔ اور تُو جوھرِ لطیف ہے جو ہر شئے میں پایا جاتا ہے۔ اور میں جسمِ کثیف ہوں کی تنگنائیِ مکان میں مقیّد ہے۔ پھر آخر مجھے وہ حقیقت کہاں سے مل سکتی ہے جو تجھے حاصل ہے؟ اور کس طرح یہ ہوسکتا ہے کہ میں تُو بن جاؤں؟ اور کیسے تیرا حکم میرا حکم ہوجائے گا؟
پس نقطے نے جواب میں کہا کہ تیرا اپنی جسمانیت کو دیکھنا اور میری روحانیت کا تخیّل کرنا، میری گُوناگُوں ھئیآت میں سے ایک ھئیت ہے اور میرے اوصاف میں سے ایک وصف ہے۔اور یہ کہ تمام متفرق حروف اور کلمات اپنے جملوں کے ساتھ میری ایک صورت ہیں۔ پھر تعدد کہاں سے آگیا؟ جب تُو جانتی ہے کہ مثلاّ دس ایک اسم ہے جو ان دونوں پانچوں کا مجموعہ ہے پھر دس کی حقیقت میں (اسم میں نہیں کیونکہ اسم علیحدہ ہیں) پانط کی غیریت کدھر سے آگئی؟ اور جب تُو اپنی تمام وجوہ سے میرے اوصاف میں سے ایک وصف ہے اور میری نسبتوں میں سے ایک نسبت ہے تو پھر تیرے اور میرے درمیان یہ دوئی کہاں سے آگئی؟ اور میرے اور تیرے درمیان یہ بحث کیسے ہوسکتی ہے جبکہ میں ہی وہ اصل ہوں جو تجھ سے مراد لی جاتی ہے اور مجھ سے مراد لی جاتی ہے۔ یہ مجموعی طور پر میری ہی ذات ہے جس میں حکمتِ الٰہیہ سے یہ رتبے ترتیب دئے گئے ہیں۔ پس اگر تُو چاہے کہ میرا تخیّل کرے تو اپنے آپ کا، تمام حروف کا اور تمام چھوٹے بڑے کلمات کا تصوّر کر اور پھر مجھے نقطہ کہہ۔ تو یہ سب مجموعہ عین میری ذات ہے۔ اور میری ذات بعینہِ یہ مجموعہ ہے۔ بلکہ تیرا ہی نفس ہے جس میں یہ سب جمع ہے۔ نا تُو ہے اور نہ وہ ہیں، بس ایک نقطہِ واحد ہے۔ یہ نہ سمجھ کہ ان میں سے کوئی تجھ جیسا ہے۔ پس اگر تُو اپنی قمیص سے میری قمیص بدل لے تو تجھے معلوم ہوجائے جو کچھ میں جانتا ہوں، تُو وہ مشاہدہ کرے جو میرے مشاہدے میں ہے، تُو وہ سنے جو میں سنتا ہوں اور تُو وہ کچھ دیکھے جو میں دیکھتا ہوں۔

(جاری ہے)
 
پس 'ب' نے اسکو جواب دیا کہ بے شک جو کچھ تونے کہا ہے وہ مجھ پر بجلی کی طرح لمحہ بھر کیلئے چمک اٹھا لیکن یہ بتا کہ مجھے اس فجر سے اسکی صبح میں جانا کیسے میسّر ہوگا؟ جبکہ تُنے کہا کہ قرب و بعد اور کیف و کم تیرے ہی وجود کے مرتبے ہیں تو جب میں نے اس بات کی اپنے مرتبے کے مطابق شہادت دی اور اس پر سرِ تسلیم خم کیا اور عالمِ شہادت کی طرف اپنا منہ موڑا اور تیرے ادب کو خود پر لازم کرلیا اور جب ملکوت میں میرے معانی جلوہ گر ہوئے تو میں نے خود کو پالیا۔ اور جب میں نے اپنے آپ سے وہ طلب کیا جو کہ تیرے لئے مخصوص ہے یعنی ہر حرف میں اپنے کمال کے ساتھ سرائیت پذیر ہونا اور حروف کا حلّ و عقد (کھولنا اور باندھنا) کرنا، تو مجھے کچھ نہ ملا ۔ پس میری ہمّت کا کانچ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اور میں تھک ہار کر واپس لوٹ آئی۔
نقطے نے جواب میں کہا کہ ہاں تُو لوٹ آئی اسلئیے کہ تُو نے اپنے نفس سے طلب کیا اس حال میں کہ تیرے نزدیک تیرا نفس میرے نفس کا غیر تھا۔ اسلئیے تجھے وہ کچھ نہ ملا جو میرے لئیے ہے۔ اگر تُو اس میں اُس 'میں' سے طلب کرتی جو کہ تجھ میں مجھ سے ہے اور جو تیری ہی ذات ہے تو تُو گھر میں اسکے دروازے سے داخل ہوتی۔ اور اُس حالت میں سوائے نقطے کے اور کسی سے وہ طلب نہ کرتی جو نقطے کیلئے ہے۔ بلکہ اس حالت میں بجز نقطہ کچھ نہ طلب کرتی جو کہ اسکو اپنے آپ سے ہی حاصل ہے۔ پس تجھ پر یہ معنی روشن ہوجاتے اگر تُو ہمارے ساتھ ہوتی۔
ھذہِ الخیام قد بدت علیٰ اطنابھا
فانزل بھا ان کنت من احبابھا۔ ۔ ۔​
یہ خیمہ نصب ہوا اپنی رسّیوں پر پس اگر تُو اس میں رہنے والوں کا عزیز ہے تو اس میں اتر۔
قف بین ھاتیک المعانی انھا
وقفت بھا الازمان فی اترابھا​
ان معنوں میں توقّف کر کہ لوگ مدتّوں ان میں ٹھرے رہے۔
ما ھند الّا من اقام علی الغضا
والبان والاثلاث فی اجنابھا۔ ۔ ۔​
وہ ھند (محبوبہ کا نام) ہی ہے جو غضا کے درختوں میں رہتی ہے جنکے ارد گرد بان اور اثل کے درخت بھی موجود ہیں۔
فانخ معطیک فی الدّیار فانھا
دار مبارکة علی اصحابھا۔ ۔ ۔​
اس دیار میں اقامت گذیں ہوجا تاکہ تجھ پر عطائیں ہوں کہ یہ گھر اپنے رہنے والوں کیلئے برکت والا ہے۔
للہ دُرّ منازل قد شرفت۔ ۔ ۔
بالساکنین و شرفو باترابھا​
واللہ کتنی پیاری منزلیں ہیں یہ جو اپنے رہائشیوں کی وجہ سے بزرگ قرار پائیں اور وہ ان منازل سے بلندیوں پر فائز ہوئے۔
لا تعرف الاغیار فی عرفانھا
مجھولة سدّت علی ابوابھا​
اغیار انکا عرفان حاصل نہیں کرسکتے کہ ان پر اسکے دروازے بند ہیں۔
النازلین بحیّھا ھم اھلھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
من بان عنھا لیس من انسابھا​
اسکی بستیوں میں اترنے والے ہی اسکے اھل ہین۔ جو اس سے دور ہوگئے انکو اس سے کوئی نسبت نہیں۔

(جاری ہے)
 
فصل​
'ب' نفس ہے۔ اور یہ ظلمانی حرف ہے۔ بسملہ میں سوائے 'ب' کے اور کوئی ظلمانی حرف نہیں آیا۔ اور ظلمانی حروف سے میری مراد (ب ج د ز ف ش ت ث خ ذ ض ظ غ) ہیں۔ کیونکہ نورانی حروف وہی ہیں جو حروفِ مقطّعات کی صورت میں کچھ سورتوں کے شروع میں آئے ہیں (ا ھ ح ط ی ک ل م ن س ع ص ق ر)۔ پس حق تعالیٰ نے ہر سورت کے شروع میں 'ب' کو رکھا کیونکہ تمہارے اور حق تعالیٰ کی پاک زات کے درمیان پہلا حجاب تمہارے وجود کی ظلمت ہی ہے۔ اور جب وہ فنا ہوگئی اور حق کے علاوہ کچھ باقی نہ رہا تو اسکے اسماء و صفات جو اسی کی طرف سے ہیں، اُس پر حجاب بن گئے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے تمام حروف نورانی ہیں سوائے 'ب' کے جسکے معنی یہ ہوئے کہ یہ تمہارا وجود ہے جو ظلمانی ہے اور باقی سب کچھ نورانی۔ اور یہیں سے 'ب' نقطے کے اوپر ایک قمیص بن گئی، کیونکہ وہ نقطے کے اوپر ہے اور قمیص تو باقی لباس کے اوپر ہی ہوتی ہے۔ پس 'ب' ایک ظلمت ہوئی جسکے وجود سے نقطے کا نور حجاب میں ہے۔ اور اسکا وجود یہی عالم ہے جو نقطے کے عالمِ جمال سے ظاھر ہوا۔ اور نقطے کا ظہور اشارے سے ماوراء ہونے میں حکمت یہ ہے کہ جو کچھ ظاھر ہوا ہے، امرِ حقیقی اس سے وراء الوراء ہے۔
جب نقطہ 'ب' کے ساتھ چمٹ گیا تو 'ب' کلامِ عرب میں الصاق یعنی چمٹنے اور وابستہ ہونے کے معنوں میں استعمال ہونے لگی۔
اور جب نقطے نے 'ب' کی جانب مدد کی نظر کی تو 'ب' کلامِ عرب میں استعانت یعنی مدد کے معنوں میں استعمال ہونے لگی۔
اور جب 'ب' پر غیب کی اندھیری رات میں اسکے شجرِ نفس کے پاس سے نارِ سعادت روشن ہوئی تو وہ اپنے اور اپنے اھل کیلئے نقطے کی آگ لینے چل پڑی۔ یا یوں کہو کہ اس نے اپنے نفس کی جانب سے اپنے نفس کیلئے اپنے نفس ہی میں ہدایت پائی۔ اور شجرِ الف۔۔۔جو اسم اللہ ہے۔۔۔کی جانب سے اسے ندا کی گئی کہ جوتے اتار دے تُو اس وادیءِ مقدّس میں ہے۔ یعنی اپنے وصف اور اپنی ذات کا چولہ اتار پھینک کہ تُو تشبیہ اور کثافت کی مورد و محلّ ہے اور تیرے لئے نقطے کی وادیءِ تقدیس میں کوئی جگہ نہیں جب تک تُو اپنی ذات کی تشبیہ اور صفات کی آلودگی سے پاک نہیں ہو جاتی۔ حتّی کہ قدس میں قدّوس کے سوا اور کچھ باقی نہ بچے۔
پس توفیق کے ہاتھ نے'ب'کی لگامیں تھام لیں اور وہ الف کے نور میں سائے کی طرح لیٹ گئی۔ کیونکہ کسی بھی شئے کا سایہ اس جیسا ہی ہوتا ہے۔ پس 'ب' کتابت کی مقدار میں اتنا ہی لیٹی ہوئی ہے جتنا کہ الف کھڑا ہوا ہے۔ پس اس نے اپنے نفس کو اس کھڑے ہوئے الف کا سایہ جانا اور جان گئی کہ اسکا وجود اس الف سے ہی قائم ہے۔ کیونکہ کسی بھی شخص کا سایہ اس شخص کے دم قدم سے ہی ہوتا ہے۔ پس 'ب' کے پڑھے جانے کی حقیقت واضح ہوگئی۔ اور اسکے وجود کی وہمیّت دور ہوگئی۔ کیونکہ سایہ بذاتِ خود کوئی وجودِ تام نہیں رکھتا۔ لیکن اسکے لئے ایک وجود تو پھر بھی ہے ہی۔ پس جب 'ب' نے فنا کے رستے سے اپنی قدر کو جان لیا تو الف نے بھی اسکو تھام کر اپنی طرف اٹھا لیا اور اپنی جگہ پر اسکو رکھ کر خود اس میں مندرج ہوگیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ بسم اللہ کی 'ب' طویل ہوگئی تاکہ وہ اس مین مندرج الف کی دلالت کرسکے۔ کیونکہ معنی کے لحاظ سے وہ الف کی خلیفہ ہے اور صورت میں اسکی طوالت الف کی ھئیت پر ہے۔ پس اسے الف کی جانب سے ھئیت بھی ملی اور معنی بھی ملے۔ اور بسم اللہ میں الف کے قائم مقام ہوگئی۔ کیونکہ بسم اللہ کے علاوہ کلامِ عرب میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تھا کہ 'ب' الف کے مقام پر کھڑی ہوجائے۔ پس دیکھ کہ کیسے 'ب' اپنا حال اور جمال دیکھ کر یہ گنگنا اٹھی کہ
و غنی لی منّی قلبی
فغنیتُ کما غنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
و کنّا حیثُ ما کانوا۔ ۔ ۔
و کانوا حیث ما کنّا۔ ۔ ۔​
میرے دل نے میری خاطر میرے ہی ذریعے نغمہ آرائی کی تو میں نے بھی اسے گیت سنائے۔ پس ہم ایسے ہی ہوگئے جیسے وہ تھے اور وہ ایسے ہوگئے جیسے ہم تھے۔

(جاری ہے)
 
الف فی نفسہ لفظ الفت سے مشتق ہے۔ بلکہ حقیقت میں الفت الف سے نکلی ہے۔ کیا تم نے علمِ صرف کے ماہرین کا اختلاف نہین دیکھا جو وہ مصدر کے فعل سے مشتق ہونے یا فعل کے مصدر سے مشتق ہونے کے بارے میں کرتے ہیں۔ جب 'ب' نے ادب کرتے ہوئے سائے کی طرح خود کو الف کے قدموں میں ٹھرایا تو الف کو 'ب' سے الفت ہوئی لہذا الف نے جود و سخاوت کرتے ہوئے اسے اپنے مقام سے نواز دیا۔ جیسے کہ ہم پہلے بیان کر آئے کہ الف اپنی صورت کے لحاظ سے تمام حروف میں موجود ہے۔ مثلاّ 'ب' ایک بچھا ہوا الف ہے، 'ج' خمدار کناروں والا الف ہے، 'د' اور 'ر' ایسے الف ہیں جو درمیان سے خم کھائے ہوئے ہیں، اور 'ش' دراصل چار الف ہیں اسکا ہر دندانہ ایک خمدار اور بچھا ہوا الف ہے۔ اور اسی طرح باقی سب حروف ہیں۔ یہ سب تو صورت تھی اور جہاں تک معنی کا تعلّق ہے تو لازمی طور الف ہر ایک حرف میں لفظی طور پر موجود ہے۔ کیونکہ جب 'ب' کے ہجے کرتے ہیں تو کہتے ہیں ب اور الف۔ اور جب 'ج' کے ہجے کرتے ہیں تو کہتے ہیں ج ی م اور اس 'ی' کی ہجے میں بھی الف آتا ہے (یاء)۔ پس الف کسی بھی حرف میں صورتاّ اور معناّ دونوں طرح سے موجود ہے۔ کیونکہ وہ عالمِ غیب کے نقطے سے عالمِ شہادت کی طرف نازل ہوا۔
ذاک ھی ھی ذاک یہ یہ
ذاک بعض ذاک ابضع۔ ۔ ۔
ذاک جبریل المعالی۔ ۔ ۔
قد تدحیٰ و تلفع۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
(وہ جو ہے وہ وہی ہے،اور یہ جو ہے یہ یہی ہے۔ وہ ٹکڑا ہے اور یہ چھوٹا ٹکڑا ہے۔ وہی جبرئیلِ عالی مرتبہ ہے جو دحیہ کلبی کی صورت میں آکر چادر اوڑھ لیتا ہے)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ" تم میں سے کسی کے بھی پاؤں میں ایسا کوئی کانٹا نہیں چبھتا جسکا درد مجھے بھی محسوس نہ ہوتا ہو"۔ یہ کہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تمام عالم کے افراد و اجزاء کے ساتھ یگانگت کو ثابت کرتا ہے۔ حتّیٰ کہ آپ ہر فرد کے نفس کی حالت اسی طرح پاتے ہیں جیسے کہ وہ فرد بذاتِ خود ۔
سوال: کیا وجہ ہے کہ الف بسم اللہ میں سے تو حذف ہوگیا لیکن 'اقراء باسم ربّک' میں حذف نہیں ہوا؟
جواب: یہ اسلئے کہ بسم اللہ میں اسم کی اضافت 'اللہ' کی طرف ہے جو کہ تمام مراتب کا جامع ہے اور کسی ایک مخصوص صفت سے مقیّد نہیں۔ جبکہ 'اقراء باسم ربّک' میں اسم کی اضافت 'رب' کی طرف ہے۔ اور لازم ہے کہ رب کیلئے کوئی بندہ ہو جسکی وہ پرورش کرے۔ پس اس مقام پر یہ محال ہے کہ 'ب' الف کے ساتھ متّحد ہو۔ کیونکی اگر بندگی نہ ہو تو ربوبیّت بھی نہ ہو۔ لیکن الوھیت کے معاملے میں یہ ہے کہ اگر عبودیت مٹ بھی جائے تو یہ نہیں مٹتی کیونکہ یہ اسم ایسے مرتبے میں ہے جس میں تمام مراتب جمع ہیں۔ پس بندے کا نہ رہنا جیسے کہ وہ نہیں تھا۔، اورذاتِ رب کی بقا جسکو کوئی زوال نہیں، الوھیت کے مرتبوں میں سے ایک مرتبہ ہے۔ پس الوھیت کبھی بھی زائل نہیں ہوگی۔ پس جب وہ باقی رہ گئی تو الف اس مقام میں 'ب' کے ساتھ متّحد ہوکر اس میں مندرج ہوگیا۔ اور کتابت اور قراءت دونوں سے ساقط ہوگیا۔ پس بسم اللہ الرحمٰن الرحیم حقیقتِ محض ہے اور اقراء باسم ربّک شریعتِ محض ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اقراء (پڑھ) ایک حکم ہے اور حکم شریعت کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے جبکہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں کسی امر اور نہی کی قید نہیں۔ پس اس پر غور کرو۔

(جاری ہے)
 
فصل
جب الفت الف سے مشتق ہوئی تو اس نے حروف کے درمیان الفت و کشش پیدا کی۔ بعض حروف کی ذات میں اس نے اپنی ذات سے الفت جگائی جیسا کہ ب ت اور ث کہ یہ سب بچھے ہوئے الف ہیں اور ہر ایک دوسرے جیسا ہے، اور بعض حروف میں الف نے لفظ کی صورت میں آکر الفت پیدا کی، مثلاّ 'خ' کو خاء کہتے ہیں تو الف ایسے حروف کے آخر میں ظاھر ہوا۔ پس یہ حروف اور پہلے والے حروف کتابت میں اور صورت میں عین الف ہی ہیں۔ صرف تلفظ میں فرق ظاھر ہوا۔ پس الف نے ان تمام حروف میں اپنی ذات اور اپنی صورت کے ذریعے باہم الفت پیدا کی۔ اور جیسے کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ الف انکی ھجّے میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح حق تعالی ہے جس نے فرمایا کہ ( لو انفقت ما فی الارض جمیعاّ ما الّفت بین قلوبھم و لٰکنّ اللہ الّف بینھم)۔ یعنی اے محمّد ۔۔۔اور جائز ہے کہ یہ خطاب تمام سننے والوں کیلئے ہو۔۔۔۔آپ اگر زمین کے تمام خزانے بھی خرچ کر دیتے تب بھی انکے دلوں کو جوڑ نہ پاتے لیکن اللہ ہی ہے جس نے اپنی قوّت و کمال سے انکے جسموں، انکی ذاتوں اور انکی صفتوں کو ایک دوسرے کیلئے مالوف کیا۔ کسی گروہ کو تو اپنی ذات سے، کسی کو اپنی صفات سے اور کسی گروہ کو اپنے افعال و ھئیآت سے باہم یکجا کیا۔ بلکہ یوں کہپنا چاہئیے کہ سب میں اپنی ذات اور جمیع صفات کے ذریعے یکجائی اور الفت پیدا کی۔
ھذا الوجود ان تعدد ظاھراّ
و حیاتکم ما فیہ الّا انتم۔ ۔​
اس وجود میں گو ظاھراّ کثرت نظر آتی ہے لیکن اسکی جانِ جاں تو فقط تم ہی ہو۔

(جاری ہے)
 
فصل​
حروف الف سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن الف کسی حرف سے وابستہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح تمام مخلوق اللہ سبحانہ کی محتاج ہے اور وہ سب جہانوں سے غنی ہے۔
کہنے والے نے کہا کہ الف میں ایس کونسی خوبی تھی کہ اسے نقطے سے اتنا قربِ عظیم حاصل ہوا اور باقی حروف میں کیا خامی تھی کہ جس نے انہیں رُو گرداں کردیا حتّیٰ کہ وہ دور ہوگئے؟ جواب میں کہا گیا کہ نقطے کی ذات کا حکم رکھنے والے مقام سے دور نہ ہونا ہی الف کی وہ خوبی تھی جسکی جزاء میں وہ نقطے کے اوصاف سے متّصف کیا گیا ( من وُجد فی رحلہِ فھو جزآؤہ۔ جسکے سامانِ سفر میں وہ پایا گیا وہ شخص ہی اس کی جزاء قرار پائے گا۔سورہ یوسف-75) ۔ ہاں اور نقطے کی ذات کا حکم رکھنے والے مقام سے قریب نہ ہونا ہی وہ خامی تھی جو باقی حروف کو لاحق ہوئی (کذٰلک کدنا لیوسفُ ما کان لیاءخذُ اخاہُ فی دین الملک۔ہم نے اس طرح یوسف کیلئے تدبیر کی ورنہ وہ بادشاہ کے قانون کی رُو سے اپنے بھائی کو حاصل نہ کر پاتے۔ سورہ یوسف-76)۔
تنبیہہ: 'ب' کے الف کے ساتھ اتّحاد میں نکتہ یہ ہے کہ اس 'ب' میں الف کا وجود ہے۔ اگر 'ب' میں الف کا وجود ھجاء کی صورت میں نہ ہوتا تو وہ متّحد نہ ہوتا۔ اور اگر الف پہلے ہوتا اور 'ب' بعد میں، تب بھی متّحد نہ ہوتا۔ کیونکہ جس وجہ سے الف باء میں موجود ہے وہ اسکا آخر ہے، جو عین الف ہے۔ لہٰذا اس وجہ کے بغیر ممکن نہ تھا کہ 'ب' کے ساتھ الف کا اتّحاد ہوجاتا۔ پس الف حقیقت میں الف ہی کے ساتھ متّحد ہوا، کیونکہ اتّحاد غیریّت کے زائل ہوجانے کو کہتے ہیں۔ اور اسی طرح تمام حروف اپنے آخر کی طرف سے الف کے ساتھ متّحد ہوتے ہیں کیونکہ الف اسی طرف موجود ہوتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کوئی بھی حرف کتابت میں الف کے ساتھ جڑ نہیں سکتا اِلّا یہ کہ حرف پہلے آئے اور الف بعد میں۔ اسکے برعکس کبھی نہیں ہوتا۔ کیونکی اس حرف کی ھجاء میں حرف کی مادّیت الف کی غیر مادّیت سے پہلے آتی ہے اور پھر الف کا مادّہ پڑھا جاتا ہے۔ یا تو فی نفسہِ جیسے کہ باء کی ہجے ہے، اور یا اس کے غیر میں (جیسے کہ جیم، سین اور نون وغیرہ کی ھجّے ہے۔) جس قدر کہ وہ حرف الف کی ھئیت، اسکی طبیعت اور اسکی رفعت سے دور یا نزدیک ہوتا ہے۔ اور اسی طرح سارے حروف ہیں کہ ان سب میں الف موجود ہے اور وہ کسی حرف سے کسی خاص وجہ سے ملصق ہوتا ہے (جڑتا ہے) اور کسی کسی حرف سے کسی دوسری وجہ سے نہیں‌جڑتا جیسے کہ د، ذ، ر،ز، و۔ یہی پانچ حروف ہیں جنکے ساتھ الف نہیں جڑتا (کتابت میں)۔ لیکن غور سے دیکھو کہ کسطرح الف اپنے پورے کمال کے ساتھ ان حروف کی لکھی ہوئی صورت میں موجود ہے۔ اسی طرح جمادات اور چوپائے ہیں کہ جب قیامت کے دن اپنے پروردگار کی طرف اٹھائے جائیں گے تو فناءِ محض سے ہمکنار کردئے جائیں گے۔ کوئی نہیں بچے گا سوائے اسکے جسکی ھویّت کی ان (جمادات و حیوانات) میں کوئی نظر نہیں۔ بخلاف انسان کے کہ جب وہ اللہ سبحانہ کی طرف لوٹے گا تو فناء کے بعد صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ھویّت ہی اس میں باقی رہ جائے گی۔ کیونکہ وجود کے اِس مرتبے کو جسے انسان کہا جاتا ہے، ھویّت کی وہ نظر حاصل ہوگی جس سے جہل کی نفی ہوجائے گی اور لذّت و تکریم اپنے کمال کے ساتھ حاصل ہوگی۔ اور اللہ کے سوا سب کچھ عدم سے ہمکنار ہوگا۔ جمادات کا معاملہ اسکے برعکس ہے کیونکہ اللہ انکو فناء کرکے انکے اجساد اور نفوس کو عدم سے ہمکنار کردے گا۔ کیونکہ دنیا میں انکو وجودِ تام حاصل نہیں تھا۔ بلکہ وہ (اللہ) ان میں ظاھر تھا اور اس نے انکو ملکیتِ وجود نہیں بخشی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے الف اُن پانچ حروف (د، ذ، ر،ز،و) میں بنفسہِ ظاھر ہے لیکن ان حروف کے ساتھ جڑتا نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جسکی وجہ سے جمادات کو دعویِٰ وجود نہیں۔ کیونکہ حرف کی تکمیل الف کے ساتھ جڑے بغیر نہیں ہوتی اگرچہ ھجّے میں وہ موجود ہو۔ کیونکہ ھجّے میں الف کا موجود ہونا ہی حرف کی عینِ حیات ہے(الف حروف کے اجساد میں حیات کی طرح جاری و ساری ہے)۔ لیکن خط میں یہ پانچ حروف الف کے ساتھ نہیں جڑتے اسلئے دعویِٰ وجود سے بری ہیں۔ اور ان پانچ حروف کے سواء جو بھی حروف ہیں وہ ملکیتِ وجود رکھتے ہیں۔ جیسے کہ انسان کہ اللہ سبحانہ نے اسے وجود بخشا جس سے وہ اپنی ذات کو دوسروں کی ذات سے ممتاز جانتا ہے اور جانتا ہے کہ اسکا ایک وجود ہے، ایک ذات ہے جو دوسروں کی ذات و وجود سے ہٹ کر ہے۔ بخلاف حیوان کے کہ اس میں اگر روح ہو بھی تو عقل نہیں۔ اور اگر عقل ہو بھی تو حافظہ نہیں جس سے کہ وہ اپنے خیال اور تصوّر میں آنے والی چیز کو محفوظ رکھ سکے۔ کیونکہ حیوان کی عقل کی غایت یہی ہے کہ وہ اس چیز کے درپئے ہوتا ہے جسکو اسکا نفس اپنی طبعی عادات و شہوات کے زیرِ اثر طلب کرتا ہے۔ اور یہ سب آناّ فاناّ ہوتا ہے بغیر کسی حافظے کے کیونکہ اگر اسکو حافظہ حاصل ہوتا تو وہ موازنہ کرکے بعض اشیاء کے مقابلے میں بعض پر حسن و خوبی یا اعلیٰ و ادنیٰ کا حکم لگا یا کرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اسکا وجود بھی وجودِ تام ہوتا۔ اور یہ بات صرف انسان اور فرشتے کو حاصل ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نےسوائے انسان کے کسی اور شئے میں اپنی ذات کی(اپنی ذات میں) تجّلی نہیں کی۔ کیونکہ انسان میں عقل اور شہوت دونوں جمع ہیں۔ اور فرشتے کیلئے حق نے فرشتے کی ذات میں تجلّی کی نہ کہ اپنی ذات میں، کیونکہ اسکے پاس صرف عقل ہے شہوت نہیں جسکے سبب وہ اس کمال سے محروم رہ گیا جس میں تشبیہ اور تنزیہہ دونوں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور حیوان کو ان دونوں میں سے کچھ بھی حاصل نہیں اور اسے انسان کی طرح ملکیتِ وجود حاصل نہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو دعویِٰ وجود ہے اور یہی حجابِ اعظم ہے جو موتِ اکبر کے بعد ہی اٹھتا ہے۔ اور موتِ اکبر تیرے وجود کے بارے میں تیرا علم زائل ہوجانا ہے جو حقائقِ توحید کے تحقق کے بعد ہوتا ہے۔ اور لازم ہے کہ اسکے بعد تمہیں وہ نظر ملے جس سے اللہ تعالیٰ نے انسان پر تجلّی کی اور اسکی نشاءت اور صورتِ ظاھرہ کو بقا حاصل ہوئی۔ اور یہ نظر اُس پہلی والی نظر سے علیحدہ ہے۔ پس اسکو سمجھو۔ اللہ ہمیں اس سارے معاملے کی تحقیق نصیب کرے بے شک وہ ہر شئے پر قادر ہے۔

(جاری ہے)
 
فصل​
الف نقطے کی قیود سے آزاد ہوا اور اسکے بعد آنے والی دوسری قیود(جیسے حروف کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلّق ہونا) سے بھی مخلصی حاصل کی۔پس اپنی عینِ ذات کے لحاظ سے اسکی کسی حرف کے ساتھ وابستگی نہیں ہے۔ اور لکھنے میں بھی الف کسی حرف کے ساتھ کوئی بندھن نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے وہ نقطے کی مانند تمام حروف میں سرائت کئے ہوئے ہے۔ پس الف اللہ کے اسماء میں سے تمام اسماءِ معرفہ کے شروع میں ثبت ہوا۔ اور وہ حق کا مظہر اور حق سے متحقّق ہے۔ بلکہ حق الف ہی ہے۔ پس نقطہ اسکے لئے ایک میزان ہوا جس سے اس نے اپنے آپ کو تولا۔ اور ان سب میں مندرج ہوگیا جن میں نقطہ مندرج ہے۔ گویا نقطہ اسکے لئے حکم ہے اور وہ اسکا محکوم۔ بلکہ حقیقت میں دوئی کی نفی کے سبب وہ نقطہ ہی ہے۔ وہ جسے الف کہا جاتا ہے نقطے کے بغیر کوئی وجود نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ نقطے کا پھیلاؤ ہے اور وہ حرف ہے جسکو نقطے نے اپنی صورت پر ظاھر کیا۔ جیسی کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہر حرف نقطے کا پھیلاؤ ہے اور تمام کلمات و حروف کی ترکیب نقطے سے ہی ہے۔ وہ ان میں متعدّد اجساد لیکن روحِ واحد کے ساتھ روشن ہوا ہے۔ اسی طرح الف مرکّب ہے کئی نقطوں سے جو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ اور نقطہ ایک کلّی ہے جو ناقابلِ تقسیم ہے اور نہ ہی یہ متعدّد ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ نقطہ اپنی تمام جزئیات میں پایا جاتا ہے لیکن فی نفسہِ متعدّد نہیں ہے۔ جیسے کہ حق تعالی نوافل کے ذریعے تقّرب حاصل کرنے والے بندے کی سماعت، بصارت، زبان اور ہاتھ ہو جاتا ہے، لیکن وہ پاک ذات بندے کی سماعت ہوتے ہوئے بصارت بھی ہوجانے سے متعدّد نہیں ہوتی۔ اور ایسے ہی وہ اجناسِ عالم کی تمام اشیاء میں اپنے کمال کے ساتھ موجود ہے لیکن اشیاء کے تعدّد کے ساتھ وہ خود متعدّد نہیں ہوتا۔ پس الف تمام حروف میں ہونے کے باوجود الگ تھلگ اکیلا اور واحد ہے۔ اور یہیں سے کہنے والے نے کہا ہے کہ الف جملہ حروف میں شامل نہیں ہے۔ یہ اسلئیے کہا کہ اسکا دعوی تھا کہ 'الانسان الکامل' اپنے غیر یعنی مخلوقات کے ضمن میں نہیں آتا۔ پس اسکو سمجھو۔
فصل​
الف کا عدد ایک ہے اور واحد ایک ایسا عدد ہے جو جملہ اعداد میں سے نہیں۔ کیونکہ عدد اسکو کہتے ہیں جس میں واحد(ایک) کی تکرار ہوتی ہے، خواہ دو مرتبہ ہو یا زیادہ۔ چنانچہ کوئی بھی عدد گنی جانے والی چیز کو مقدار کے لحاظ سے مرتبہءِ غیریّت کے اندر موسوم کرنے کے کام آتا ہے۔ اور واحد(ایک) کو فی نفسہِ غیریّت حاصل نہیں ہے یعنی اس میں اس جیسا کوئی اور نہیں، پس اس زاویے سے دیکھا جائے تو واحد عدد کی حد Definition میں نہیں آتا۔ لیکن اگر اس لحاظ سے سوچیں کہ گو فی نفسہِ اس میں‌کوئی اور غیر نہیں لیکن گننے میں تو آتا ہے اس لحاظ سے یہ عدد ہوا لیکن دوسرے اعداد کی طرح نہیں۔ جیسے کے کچھ عقلاء نے کہا ہے کہ 'اللہ ایک شئے ہے لیکن دوسری اشیاء کی طرح نہیں'۔
اور عددِ واحد میں الف کے ظاھر ہونے کا راز یہی ہے کہ وہ نقطے سے صرف ایک دوری پر واقع ہے۔ کیونکہ نقطے کی نہ تو کوئی لمبائی ہوتی ہے، نہ چوڑائی اور نہ ہی گہرائی یا اونچائی۔ پس الف کیلئے صرف ایک لمبائی ہے جسکی وجہ سے وہ خطِ مستقیم ہے۔ اور 'ب' کے عدد دو ہیں کیونکہ وہ نقطے سے دو دوریوں پر واقع ہے، لمبائی اور چوڑائی۔ اسکا سرا چوڑائی ہے اور باقی جسد لمبائی۔ اور 'ج' تین کے عدد میں ظاھر ہوا کیونکہ اس میں لمبائی، چوڑائی اور گہرائی تینوں واقع ہیں۔(گہرائی کہو یا اونچائی کیونکہ یہ دونوں مساوی ہیں صرف نسبت کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں اگر نیچے سے اوپر آئیں تو سمک یعنی اونچائی اور اگر اوپر سے نیچے جائیں تو عمق یعنی گہرائی کہا جاتا ہے۔لیکن یہ اس علّت سے یہ عددیّت میں مختلف نہیں ہوجاتے)۔ اور یہ ایک عمدہ راز ہے جسکی تعبیر بیان کرنے والا میں اوّلین شخص ہوں۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس راز کی ہم مزید شرح و بسط کر سکیں اور اگر اللہ تعالی نے چاہا تو لسانِ حقیقت میں باقی تمام حروف و اعداد کے اسرار بیان کرنے کے قابل ہوسکیں اور یہ کہ کسی بھی حرف میں ایسی کونسی مخصوص وجہ تھی جس سے وہ کسی خاص عدد سے منسوب ہوا اور اس عدد میں بھی فی نفسہِ کیا راز ہے۔
(جاری ہے)
 
'ب' عرش ہے، اور نفسِ ناطقہ بھی یہی ہے جسے بعض اعتبارات سے ایسا قلب بھی کہا گیا ہے جس میں اللہ سما جاتا ہے۔ اور نقطہ غیبِ ھویّت ہے جسے کنزِ مخفی (پوشیدہ خزانہ) کہا گیا ہے، جسکی پوشیدگی اور کنزیت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ پس 'ب' اعداد کیلئے گویا ایک مستویPlane ہے کیونکہ یہ پہلا عدد ہے اور کوئی ایسا عدد نہیں جس جس میں 'ب' موجود نہ ہو۔ اسی طرح رحمانیت ایک مستوی Plane ہے ان سات اسماء کا جو خاص ذاتی اسماء ہیں۔ اور تمام اسماء اسمِ رحمٰن کے تحت میں آتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ " قل ادعوا اللہ او ادعواالرحمٰن۔ ایّاماّ تدعوا فلہ اسماء الحسنیٰ "۔کہو کہ تم اللہ کوپکارو یا رحمٰن کو پکارو، جس کو بھی پکارو اسکےاسماءِ حسنیٰ ہیں۔ پس تمام اسماءِ حسنیٰ سے موسوم ہونے میں اسم رحمٰن ہی اسم اللہ سے اشتراک رکھتا ہے، اور اُسکے علاوہ باقی ان تمام باتوں میں اسم اللہ سے جدا ہے جن باتوں پر ہمارے نزدیک اسمیّت واقع نہیں ہوتی۔ جیسا کہ عالم بالذّات صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ 'اے اللہ میں تجھ سے ان تمام اسماء کے ذریعے سوال کرتا ہوں جنہیں تُونے اپنے غیب میں فقط اپنے لئیے مخصوص فرمایا اور جن پر تیرے سوا کوئی مطّلع نہیں ہے'۔
فصل: 'ب' کی دوئی کے معنی ہیں حق کا اپنی ذات کیلئے خلق کے مرتبہءِ ذات میں ظہور کرنا۔ اور یہ دوسری نظر ہے۔ کیونکہ حق سبحانہ و تعالیٰ کیلئے دو مشہد(Planes of View) ہیں۔ ایک مشہد احدی ذاتی ہے جس میں اللہ خلق نامی کسی بھی شئے کو نہیں دیکھتا، پس اس مشہد میں خلق کیلئے کوئی وجود نہیں ہے۔ اور دوسرا مشہد ذاتی ہے جس میں اللہ اپنی ذات کے اُس مرتبے کو دیکھتا ہے جسکا نام خلق ہے۔ اور یہ اسکی ترتیبِ ذات یعنی ذات کے مراتب قرار دینے کے لحاظ سے ہے اور اس ترتیب کو 'صفات' کہتے ہیں۔ پس 'ب' یہی دوسرا مشہد ہے جس میں اُسکے۔۔۔۔جسےرحمان کہا گیا ہے۔۔۔آثارو احکام ظاھر ہوتے ہیں۔ اور یہی 'رحمٰن' ہے جس سے مراد بارگاہِ اسماءِ خلقیہ کی مستوی(Plane) ہے یعنی اسی میں تمام اسماءِ خلقیہ آجاتے ہیں۔ اور پھر اسی مقام سے ہی یہ کہا گیا ہے کہ آدم کو صورتِ رحمٰن پر پیدا کیا گیا۔ چنانچہ صوفیہ کی اصطلاح میں انسان کو عالمِ صغیرMicrocasm اور عالم کو انسانِ کبیرMacrocasm کہا گیا ہے۔
اور جان لو کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں اصل باسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے جس کے بعد لازم ہوتا ہے کہ کوئی فعل آئے جو 'ب' سے وابستہ ہو جیسے کہ 'شروع کرتا ہوں' یا 'مدد لیتا ہوں' یا برکت طلب کرتا ہوں'۔ یا تو یہ فعل صراحتاّ بیان میں آتا ہے یا کلام میں تقدیری طور پر پایا جاتا ہے جو بسم اللہ پڑھنےوالے کے مقصد کو واضح کرتا ہے۔ جیسے بسم اللہ پڑھ کر کچھ پینا یہ دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ پڑھنے والے نے اسکے بعد کچھ پینے یا پینے میں مدد چاہنے کیلئے پڑھا کہ (اللہ کے نام سے جو رحمان اور رحیم ہے)۔۔ پس اگر کہنے والا کہے کہ بسم اللہ سے فلاں کام کرتا ہوں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ سے (باللہ) یا اللہ کی مدد سےفلاں کام کرتا ہوں۔ کیونکہ اسم مسمّیٰ کا غیر نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرما چکے ہیں کہ "سبّح اسم ربّک" اپنے رب کے نام کی تسبیح کرو۔ اور ہمارے اس قول کہ'میں اللہ سے (باللہ) یہ کام کرتا ہوں' کا مطلب یہ ہے کہ وہ سبحانہ تعالیٰ عین فاعل ہے اس فعل کا جو تجھ میں تیرے ہی ذریعے انجام دیا گیا۔ یعنی گویا تم یہ کہتے ہو کہ" میری ذاتِ ظاھری جسکا باطن وہ ہے جسے الہٰ کہا جاتا ہے اور میری ذاتِ باطنی جس کا ظاھر وہ ہے جسے الہٰ کا غیر کہتے ہیں، ان دونوں میں لپٹی ہوئی پوشیدہ الوھیت سے میں یہ کام کرتا ہوں"۔ اور اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ تمہاری خلق سے فعل کی نفی ہوتی ہے اور تمہارے حق کیلئے اسکا اثبات ہوتا ہے، اگر یہ فعلی مشہد ہو۔
اور اگر اسمائی مشہد ہو تو یہ تمہاری ذات کے 'مخلوق' نامی مرتبے کا، تمہاری ہی عین انیّت میں غلبہ و عظمت کے حامل 'خالق' نامی مرتبے کے تحت مضمحل ہوجانے کا اظہار ہے۔
اور اگر مشہد ذاتی ہو تو یہ واحدیّت کی کثرت میں تمہارے وجود کی احدیّت کا ظاھر ہونا ہے۔پس اسے سمجھو۔
اور تمہارے لئیے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہتے وقت کم از کم اس مفہوم کا (جو اوپر بیان کیا گیا) تعقّل کرلینا ضروری ہت تاکہ تم حیوانات کے زمرے سے خارج قرار دئیے جاسکو، کیونکہ کسی مفہوم و معنی کو جانے بغیر منہ سے الفاظ نکالنا درجہءِ حیوانیت میں شامل ہے۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔
 
الف کے سقوط کے بعد 'ب' کو دراز کیا گیا اور الف کے مقام پر رکھا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہ ہر حرف میں الف کی نائب اور قائم مقام ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ 'الرحمٰن' تمام اوصاف اور اسماء الحسنیٰ کے ساتھ موسوم ہونے میں اسم 'اللہ کا نائب اور قائم مقام ہے۔ پس 'اللہ' کی معرفت کیلئے مخلوق کی عقل کی رسائی 'الرحمٰن' کی بارگاہ کی حد تک ہے اور اس سے آگے مخلوق کیلئے کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ اس سے آگے احدیتِ محض ہے۔ اور اسکی یہ احدیت وہ چہرہ ہے جو کسی شئے سے فنا نہیں ہوتا۔ ارشادِ الٰہی ہے کہ" کلّ شئی ھالک الّا وجہہ۔ لہ الحکم و الیہ ترجعون" یعنی ہر شئے فنا ہونے والی ہے سوائے 'اس' کی ذات۔ اور اُسی کیلئے حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ پس تمام کُونیات (جو کچھ وجود میں آیا) اور تمام رحمانیت کی بارگہاہوں میں اُسی احدیت کیلئے حکم ہے اور وہی ہر شئے کی ذات (وجہ) ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ "فاینما تولّو فثمّ وجہُ اللہ"۔ یعنی تم جدھر بھی منہ پھیرو اسی ادھر اللہ کا چہرہ ہے۔ اور اسی معنی میں میں نے کہا ہے کہ :
ما ثمّ غیر سعاد بالنقاء اُحد۔ ۔ ۔
ھی الموارد حقاّ و ھی من یرد​
احد کے ٹیلے پر بجز سعاد(محبوبہ کا نام) اور کوئی نہیں ہے۔ منزل بھی وہی ہے راستہ بھی وہی ہے اور مسافر بھی وہی۔
ھی البقیع ھی الوعساء قاعتہُ
ھی المحصّب مِن خیف ھی البلد​
یہی بقیع ہے(خود رو جھاڑیوں والا قطعہ)، یہی نرم ریتلی زمین ہے جس پر اسکے گھر کی نچلی منزل ہے۔ یہی خیف(منیٰ کا نشیبی علاقہ) کی وادیءِ محصّب ہے اور یہی بلد(مکّہ) ہے۔
ھی النبات ھی الاجساد جامعةّ۔ ۔ ۔
ھی النفوس ھی الحیوان ھی الجمد​
نباتات، جمادات، حیوانات، نفوس اور اجسام سب کچھ یہی ہے۔
ھی الجواھر ھی الاعراض قاطبةّ
ھی النتاج، ھی الآباء ھی الولد​
جواھر و اعراض بھی یقیناّ یہی ہے اور آباءو اجداد، آل اولاد اور آثارو نتائج بھی یہی ہے۔
قل للّذین سرّوا عنّی لقصد قبا
انا قبا و فوادی ذٰلک السند۔ ۔ ۔​
جن لوگوں نے قبا کی طرف جانے کا ارادہ کیا انکو میری جانب سے کہہ دو کہ وہ اونچی زمین(قبا) میں ہی ہوں اور میرا ہی سر اس اونچائی پر ہے۔
استغفراللہ تنزیھاّ لمرتبتی
ما بین خلق و بین اللہ متّحد​
میں اللہ تعالیٰ سی اپنے مراتبِ خلق و حق کے درمیان تنزیہہ کا پردہ حائل کرنے کی التجا کرتا ہوں کیونکہ خالق و مخلوق میں کوئی اتحاد نہیں ہے۔
 
نکتہ: 'ب' اور 'س'کا بسم اللہ میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے میں ایک عمدہ راز ہے اور وہ یہ کہ 'س' کا اعداد کے مراتب میں‌چھٹا مرتبہ ہے اور وہ واحد کے مراتب میں سے چھ مراتب پر حاوی ہے۔ اور یہ شش جہات (چھ سمتیں) ہیں جن میں 'ب' ظاھر ہوئی ہے اور یہی عرش کے نام سے موسوم ہے جس میں بالجملہ تمام مخلوقات شامل ہیں۔ اور ان چھ سمتوں میں جن میں 'ب' ظاھر ہوئی ، ہر ایک میں وجہ اللہ(اللہ کا چہرہ) اپنے کمال کے ساتھ موجود ہے۔ جیسی کہ 'س' کے چھ مراتب میں سے ہر مرتبے میں واحد (ایک) اپنے پورے کمال کے ساتھ موجود ہے۔
جان لو کہ 'س' اللہ کے سِرّ (راز) سے عبارت ہے، اور وہ راز انسان ہے۔ بعض مفسّرین نے کہا کہ 'یاسین' میں یا حرفِ ندا ہے اور سین انسان ہے۔ اور یہ کلام اشارے کے باب سے ہے۔ یعنی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ "یا سین یعنی اے انسان (اے میری آنکھ کی پتلی)۔ والقرآن الحکیم" اور قرآن الحکیم عطف ہے عینِ ذاتی (میری آنکھ کی پتلی)پر، جسکی طرف انسان مضاف کیا گیا ہے۔ پس انسان سّرِ ذات اور سّرِ قرآنِ حکیم ہے۔
اور جان لو کہ قرآنِ حکیم اللہ سباحنہ و تعالٰی کی صفت ہے- قرآن کے معانی سے الوھیت کے ان اوصاف کا ادراک و تعقّل ہوتا ہے جو الٰہ کے شایانِ شان ہیں۔ اور یہ ادراک و تعقّل گویا قراءت ہے۔ ارو جہاں تک ذاتِ حق کی بات ہے، تو اسکا ادراک و تعقّل نہیں کیا جاسکتا۔اسکی وجہ یہ ہے کہ احدیتِ منزّہ اسماء کی کثرت سے وراءالوراء ہے اوریہ سنّاٹے یعنی ھُو کا عالم ہے۔ پس جتنا تم قرآن سے اللہ کی کسی صفت کے متعلق پڑھو گے جو تمہارے نفس میں ہے(یعنی وہی صفت)، تمہارے لئے اُس قراءت کے بقدر اللہ کی صفات ظاھر ہونگی۔ اسی لئے 'یٰس۔ والقرآن الحکیم' میں قرآن کے ساتھ لفظ حکیم لایا گیا۔ تاکہ یہ قراءت حکمتِ الٰہیہ کےلامتناھی مراتب کے مطابق درجہ بدرجہ ابد تک واقع ہوتی رہے جنکی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پس اللہ کے اور اسکی حکمت کے یہ مراتب عین وہ ذات ہے جو 'تُو' ہے۔ اور تیرا غیب تیری ذات میں سے جو بھی پڑھتا ہے وہ تیری شہادت کے سوا کچھ نہیں۔ اور تیرے غیب نے تیری ذات میں سے جو کچھ نہیں‌پڑھا، وہ تیرے غیب کیلئے ہے تیرے عالمِ شہادت کیلئے نہیں۔ اورعین تیرا رُخِ شہادت، عین تیرا رُخِ غیب ہے۔ پس میں حیران و سرگرداں ہوگیا جسطرح اسم 'اللہ' اپنی ذات میں متحیّر ہے کیانکہ وہ (اسم) اسکی ذات کا کامل احاطہ نہ کرپایا۔ یعنی اس میں ذات کے تمام معانی اپنے پورے کمالات کے ساتھ ظاھر نہ ہوئے کیونکہ کئی معانی ذاتِ الٰہیہمیں مستور ہیں جنکا صرف اسکو علم ہے۔ لیکن اسکے باوجود اس ذات پر اسم 'اللہ' کا اطلاق ہوا اور وہ ایک واحد ذات ہے۔ پس ہمارا یہ کہنا کہ "اسم اور مسّمٰی ایک ہی شئے ہے"، ہمارے اس قول کی نفی کرتا ہے کہ ' اسم اللہ ذات کے تمام معنی کا مکمل احاطہ نہیں کرتا"۔ چونکہ ذاتِ حق کا اجزاء میں منقسم ہونا محال ہے،لہٰذا جب اس پر اسم 'اللہ' کا اطلاق کیا گیا تو اسم نے ذات کی پوری ترجمانی کی، لیکن اگر اس نے ذات کی پوری ترجمانی اور مکمل حکایت نہیں کی تو پھر اسم اور مسمّٰی ایک ہی شئے نہ ہوئے۔ یہی بات ہے جسکی وجہ سے عقلاء حیرتِ مذموم میں غلطاں ہوئے اور اھل اللہ کو حیرتِ محمود نصیب ہوئی۔
پا جب 'اللہ' یعنی اسم اپنی ذات میں حیراں و سرگرداں ہے تو اس مقام میں بندے کی حیرت کا کیا عالم ہوگا۔ بندے کو تو بطریقِ اولٰی متحّیر ہونا چاہئیے۔
تحیّرتُ من حیرتی ممّ ھی
فقد حار فھمی فی وھمہِ​
میری حیرت نے مجھے پریشان و سرگرداں کردیا کہ یہ کیا ہے۔ پس میری فہم اپنے وہم میں ہی متحیّر رہ گئی۔
فلم ادرِ ھذا تحّیر من۔ ۔
تجاھل فھمی ام علمہِ​
پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حیرت میری فہم کے جاہل رہ جانے سے ہے یا یہ اسکا علم ہے۔
فان قلتُ جھلاّ فانّی کذوب
و ان قلتُ علماّ فمن اھلہِ؟​
پس اگر میں کہوں کہ یہ جہالت سے ہے تو میں جھوٹوں میں‌سے ہوں اور اگر کہوں کہ یہ علم سے ہے تو اس معرفت کا اھل کون ہے؟(یا اھلِ تحیّر میں سے ہوں)۔
اور انہی معنوں میں میرا ایک قصیدہ ہے جسکی یہاں جگہ نہیں۔ اس میں میں نے کہا کہ:
ااُحطت خبراّ مجملاّ مفصلاّ
بجمیع ذاتک یا جمیع صفاتہِ​
اے اُسکی تمام صفتو ! بھلا یہ تو بتاؤ کہ کیا میں‌نے تمہاری ذات کی اجمالی اور تفصیلی خبر کا احاطہ کرلیا ؟
ام جلّ وجھک ان یحاط بکُنھہ
فاحطتہُ ان لا یحاط بذاتہ۔ ۔ ۔​
یا یہ کہ تیرے چہرے کا جلال برتر ہے اس بات سے کہ اسکا احاطہ کیا جاسکے۔ پس میں نے اس بات کو اچھی طرح جان لیا کہ اس ذات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔
حاشاک من غائی و حاشا ان یکن
بک جاھلاً ویلاہ من حیراتہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
مبرّا ہے تُو کسی بھی انتہا سے، اور ایسا ہرگز نہ ہو کہ کوئی تجھ سے بالکل ناواقف رہ جائے اور اس پر اسکی حیرتوں کی طرف سے افسوس ہو۔
 
پس (یٰس۔ والقرآن الحکیم) کا مطلب یہ ہوا کہ" اے اللہ کے راز کہ جسکی قراءت نہیں کی گئی اور اے عینِ قرآن کہ جسکی اللہ کی جانب سے ذاتِ احدیت کی ترتیبِ حکمت کے تحت تلاوت کی گئی۔ (انّک من المرسلین) بیشک تُو اُس بلند اور مقدّس بارگاہ سے اِس عالمِ خلق کے تشبیہی، انسانی مرتبے کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (علٰی صراط المستقیم) اور سیدھے راستے پر ہے یعنی میری اُن سنّتوں‌پر ہے جو احدی اور قیومی ہیں یعنی جنکا قیام اپنی ذات اور جمیع عالم کے ساتھ ہے۔ (تنزیل العزیز ) اور یہ معزّز تنزیل سوائے ھیکلِ محمّدی کے اور کہیں نہیں پائی جاتی۔(الرّحیم) جب اس نے عالم پر رحم کا ارادہ کیا کہ لوگ اسکی ذات کو پاجائیں،لیکن چونکہ وہ عزیز یعنی بلند مرتبہ ہے، لہٰذا اُس نے ان لوگوں کی جنس میں تنزّل کیا۔ (لقد جاءکم من رسولٍ ) بیشک تمہاری طرف ایک رسول آیا جو تمہیں میں سے ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی راہ بتائے اور اپنے خزانہءِ جود سے لطف و عنایت کرتے ہوئے تمہیں‌اپنی طرف کھینچے۔(حریصّ علیکم عزیزُُ علیہ ما عنتّم) کیونکہ وہ تمہارے لئے بوجھ اٹھانے والا ہے اور تمہارے ذریعے تم میں کارفرما ہے۔ پس وجود تمہارے لئے نہیں بلکہ وجودِ مطلق تو اُس ذات کیلئے ہے۔ (بالمؤمنین رؤوف الرّحیم) اور رؤوف و رحیم ہے مومنیں کیلئے جو ایمان لائے کہ وہ اُنکا عین ہے۔ (فاِن تولّوا) پس اگر انکی عقلیں اپنی کثرت میں تیری احدیت کی دید کو قبول نہ کریں (فقل حسبی اللہ) تو کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے کیونکہ الوھیت جامع ہوتی ہے۔(فاینما تولّوا فثمّ وجہ اللہ) اور وہ جدھر بھی منہ پھیریں گے ادھر اللہ ہی کا چہرہ ہے، پس گواہ رہ انکے لئے کہ وہ اسکے دائیں سے اسکے بائیں کی طرف بھاگ اٹھے حالانکہ اسکے دونوں ہاتھ یمین(یعنی دائیں) ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلّم تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں خواہ مومن ہوں یا کافر، ماننے والے ہوں یا مخالف۔
ہماری زبان اثناء ِ گفتگو میں ان چھپے ہوئے امور کے بیان کی جانب بڑھ گئی جنکا افشاء نہیں کیا جاتا، لہٰذا ہم واپس اپنے مقصد یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی شرح کی جانب لوٹتے ہیں۔
 
السلام علیکم جناب احمد غزنوی صاحب سب سے پہلے تو اپ کا بہت بہت شکریہ کے اس معاملے پر اپ نے قلم اٹھایا یہ کتاب میرے پاس بھی موجود ہے اور اس کے علاوہ مصنف کی دوسری کتاب الانسان الکامل بھی میرے پاس بحمدِ تعالیٰ موجود ہے۔ جاری رکھیے بہت لطف ارہا ہے۔ والسلام اپ کا خیر خواہ روحانی بابا
 
اور جان لو کہ جب الف غیبِ احدیت سے ہے اور سین اسکا سّر ِ شہادت، تو میم سے مراد ہے وجود، جو ایک ایسی حقیقت ہے جو غیب اور شہادت دونوں کی جامع ہے۔ کیا تم نے میم کے حلقے کا جوف نہیں دیکھا کہ کیسے وہ سفید نقطے کا محلّ بنا ہوا ہے۔ اور یہ بیان پہلے گذر چکا ہے کہ نقطہ کنزِ مخفی ہے۔ پس یوں کہو کہ میم کے حلقے کا دائرہ دراصل حق ہے کہ جس میں چھپا ہوا خزانہ ظاھر ہوا ہے۔ کیا تم نے اس حدیثِ قدسی پر غور نہیں کیا کہ "میں‌ایک چُھپا ہوا خزانہ تھا، اور میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے، پس میں نے خلق کو پیدا کیا اور انہیں اپنی پہچان کرائی اور وہ میرے ذریعے مجھے پہچانتے ہیں"۔ اور اسی مقام سے اسم 'ذوالجلال' ہے اللہ تعالٰی کے اس قول میں کہ(تبارک اسم ربّک ذوالجلال والاکرام) کیونکہ اگر یہ وصف 'ربّک' کا ہوتا تو مجرور ہوتا، لیکن 'ذوالجلال' مجرور نہیں بلکہ مرفوع آیا ہے چنانچہ 'اسم' کے تابع ہے 'ربّک' کے نہیں۔ پس اس پر غور کرو۔
اور جان لو کہ 'م' روحِ محمّد ہےصلی اللہ علیہ وسلّم۔ یہ اسلئیے کہ وہ محلّ جس میں چھپا ہوا خزانہ ظاھر ہوا، عالم ہے۔ اور حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں آیا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے روحِ محمّد کو خلق کیا پھر بالترتیب اُس سے عالم کو پیدا کیا۔ پس میم کے حلقہءِ سر میں جو سفید نقطہ اور کنزِ مخفی ہے وہ عینِ محمّد ہے صلی اللہ علیہ وسلّم۔ اور آپ اس بیان کردہ وجہ سے ذاتِ عظیم اور قرآن ِ حکیم کی جامع حقیقت ہیں۔ اور اسی معنی میں میں نے کہا ہے کہ:
رسول اللہ یا مجلٰی الاُلوھہ
و یا من ذاتہُ ذاتُ النزیھہ۔ ۔ ۔​
اے اللہ کے رسول اے جلوہ گاہِ الوھیت، اور اے وہ کہ جسکی ذات پاک اور منزّہ ہے۔
ظھرت بکلِّ مظھرِّ کلِّ حسن
تستر عن عیانٍ بالبدیھہ۔ ۔ ۔ ۔​
آپ حسن کے ہر مظھر میں ظاھر ہوئے اسکے باوجود یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ آپکا حسن و جمال ہنوز پردے میں ہے۔
باوصافٍ ھی سبعُُ المثانی
و قرآنُُ ھی ذات النبیھہ۔ ۔ ۔​
اوصاف کے لحاظ سے آپ سبعِ مثانی(کنایہ ہے سورہ فاتحہ کی سات آیات یا سات صفاتِ امّہات سے) ہیں اور قرآن آپکی ذات کی خبر دے رہا ہے۔
خُصصت و کنت انت بھا حقیقاّ
حقیقتک المقدمةُ الشبیھہ۔ ۔ ۔​
آپ ہی مخصوص کئے گئے اُس حقیقت سے جو عالمِ شہادت سے مقدّم ہے اور بلاشبہ آپ ہی اس اعزاز کے مستحق تھے۔
سکنت دیار ھند و ان تعالت۔ ۔
و جلّت و قد لبست ردا المویھہ​
باوجود اسکے کہ آپ کی ذات عالی قدر اور بلند مرتبہ ہے،آپ نے دیارِ ہند(عالمِ تشبیہہ) میں سکونت اختیار کی اور شفّاف بے رنگ چادر اوڑھ لی۔
لانّک کنت قبل الکلّ حکماّ
فذاتک للذواتِ ھی الفقیھہ​
یہ اسلئے کہ آپکی ذات کو ہی محکم کیا گیا قبل ہر ایک کے، اور آپ ہی کی ذات سے سب ذاتیں واضح و عیاں ہوئیں۔
میرا ان ابیات کو گنگنانا ایک سبب سے تھا اور وہ یہ کہ ہم اصحابِ طریقت سن 799 ہجری میں اپنے شیخ اور استاد العالم قطبِ اکبر کبریتِ احمر سیّدی شرف الدّین اسماعیل بن ابراہیم الجبرتی کی مسجد میں چند راتوں کیلئے سماعِ عام کے موقع پر اکٹھے ہوئے۔ صحنِ مسجد میں شیخ کے روبرو ہمارے ایک معزّز بھائی فقیہہ احمد الحبایبی نے قرآن کی اس آیت کو پڑھا(لقد آتئیناک سبعاّ من المثانی والقرآن العظیم) پس حق تعالٰی نے مجھے وہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا اپنے سات اوصاف(یعنی حیات، علم، ارادہ، قدرت، سمع، بصر اور کلام) سے متّصف ہونے کا مشاہدہ کروایا۔ میں نے آپ کو ان اوصاف سے متصف ہونے کے بعد یوں دیکھا کہ آپ ھویتِ غیبیات میں ذاتِ غائب کا عین ہیں۔ اور قرآن عظیم کی اس آیت میں آپ کی ذات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اسکی قراءت کی کوئی انتہا و غایت نہیں‌۔ پس وارثانِ اہلِ قرآن نے اللہ تعالٰی کی ذات سے جس حقیقت کو پڑھا ہے وہ عینِ محمّد ہے صلی اللہ علیہ وسلّم۔ اسی طرف حدیث میں اشارہ ہے کہ 'اھلِ قرآن اھل اللہ ہین جو اسکے خاص بندے ہیں'۔ پس غور کرو اس پر۔ کیونکہ وہ احدیت کی غیبِ ھویت ہیں۔ اور سب رسول، انبیاء اور انکے کامل وارثین اللہ میں محمّد کی غیبِ ھویت کی قراءت کرتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلّم۔ اور اس معنی میں آپ اللہ اور عالم کے درمیان ایک واسطہ ہیں۔ اور آپکا یہ قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ" انا من اللہ والمؤمنون منّی" یعنی میں اللہ سے ہوں اور مومن مجھ سے ہیں۔ پس اسکو اچھی طرح سمجھو۔
 
اور جان لو کہ میم کے عدد چالیس ہیں۔ اور کسی بھی شئے کے اعتدال میں کمال اسی عدد سے ہوتا ہے۔ اور یہ رب سبحانہ و تعالٰی کی میقات(مقرر کردہ معیاد) ہے۔ اور اس عدد کے میقات ہونے کے معنی یہ ہیں کہ یہ ان چالیس مراتبِ وجود کے موافق ہیں جن کے بعد وہی مرتبہ آجاتا ہے جو سب سے پہلا تھا۔
پہلا مرتبہ: ذاتِ ساذج ہے یعنی ایسی ذات جو ہر نقش سے عاری، ہر تعیّن سے مبرّا اور ماورائے شعور ہے۔
دوسرا مرتبہ: عُماء ہے۔ یعنی گہرا بادل جسکے اندر کیا ہے کچھ پتہ نہیں۔ معرفت کی زبان میں عُماء عبارت ہے اللہ کی کنہہِ ذات سے۔
تیسرا مرتبہ: احدیت ہے اور یہ عبارت ہے اُس ذاتِ محض سے جس میں خزانے مخفی ہیں۔
چوتھا مرتبہ: واحدیت ہے جو کہ اسماء و صفات میں ذات کا پہلا تنزّل ہے۔
پانچواں مرتبہ: الوھیت ہے جو وجود کے تمام اعلٰی و ادنٰی مراتب کو محیط ہے۔
چھٹا مرتبہ: رحمانیت ہے اور یہ وجود کے اعلٰی مراتب سے متّصف ہے۔
ساتواں مرتبہ: ربوبیت ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جو بندے یعنی مربوب(جس کی پرورش کی جائے) کا تقاضا کرتا ہے اور اسی مرتبے سے خلق ظاھر ہوئی۔
آٹھواں مرتبہ: عرش ہے جسے جسمِ کلّی بھی کہتے ہیں۔
نواں مرتبہ: قلمِ اعلِی ہے جسے عقلِ اوّل بھی کہا جاتا ہے۔
دسواں مرتبہ: لوحِ محفوظ ہے جو کہ نفسِ کلّی ہے۔
گیارھواں مرتبہ: کرسی ہے جسے عقلِ کلّی بھی کہتے ہیں اور قلب بھی۔
بارھواں مرتبہ: ھیولٰی۔
تیرھواں مرتبہ: ھباء۔
چودھواں مرتبہ: عناصر کا فلک۔
پندھرواں مرتبہ: فلکِ اطلس۔
سولھواں مرتبہ: فلکِ بروج۔
سترھواں مرتبہ: فلکِ زحل۔
اٹھارواں مرتبہ: فلکِ مشتری۔
انیسواں مرتبہ: فلکِ مریخ۔
بیسواں مرتبہ: فلکِ شمس۔
اکیسواں مرتبہ: فلکِ عطارد۔
بائیسواں مرتبہ: فلکِ زہرہ۔
تئیسواں مرتبہ: فلکِ قمر۔
چوبیسواں مرتبہ: فلکِ نار۔
پچیسواں مرتبہ: فلکِ باد۔
چھبیسوں مرتبہ: فلکِ آب۔
ستائیسواں مرتبہ: فلکِ خاک۔
اٹھائیسواں مرتبہ: فلکِ مولدات۔
انتیسواں مرتبہ: فلکِ جوھر بسیط ۔
تیسواں مرتبہ: فلکِ عرضِ لازم۔
اکتیسواں مرتبہ: مرکبات۔
بتیسواں مرتبہ: جمادات ۔
تینتیسواں مرتبہ: نباتات۔
چونتیسواں مرتبہ: حیوانات۔
پینتیسواں مرتبہ: انسان۔
چھتیسواں مرتبہ: عالمِ صور و اشکال جس سے دنیا ملحق ہے۔
سینتیسواں مرتبہ: عالمِ معانی جس سے برزخ ملحق ہے۔
اڑتیسواں مرتبہ: عالمِ حقائق جس سے آخرت و قیامت ملحق ہے۔
انتالیسواں مرتبہ: جنت و دوزخ۔
چالیسواں مرتبہ: کثیبِ ابیض(سفید ریت کا ٹیلہ) جس کی طرف اھلِ جنت دیدارِ الٰی کیلئے لیجائے جائیں گے۔ اور اللہ تعالٰی جلوا نما ہونگے۔ اسکے بعد کچھ نہیں سوائے پہلے مرتبے کے یعنی ذاتِ محض۔
پس یہ عدد اشیاء کی اصل ہے اور اسی عدد کے موافق عالمِ انسانی کی پہلی ہستی ہعنی آدم علیہ السلام کی مٹّی کو خمیر کیا گیا۔ اور یہ عدد مراتبِ اعداد میں چوتھا مرتبہ رکھتا ہے۔ کیونکہ عالم بحیثیتِ مجموعی چار انواع میں منقسم ہے یعنی قدیم و حدیث اور لطیف و کثیف۔ ان چار کے علاوہ اور مرتبے نہیں ہوسکتے۔ اور یہی چاروں مراتب جمع ہوکر عین میمِ محمّد ہوئے۔ جس کے بارے میں ہم نے پہلے کہا کہ وہ جمیعِ وجود ہے۔ اس عدد پر بہت کلام کیا گیا ہے طبائع اور عناصر کے لحاظ سے اور بہت کچھ متفرق طور پر لکھا بھی گیا ہے۔ لیکن دل میں اگر بصیرت ہو تو اشارہ ہی کافی ہے۔ کیونکہ کسی شئے کا نام وہ علامت ہوتی ہے جس سے اس شئے کو دوسری شئے سے ممتاز کیا جاتا ہے اور علامت کا حامل شخص اس سخص سے علیحدہ و ممتاز ہوتا ہے جس میں وہ علامت نہ ہو۔
 
اسکے نام 'اللہ' کی اصل 'الالٰہ' ہے۔ لیکن پڑھنے میں آنے سے دوسرا الف ساقط ہوگیا اور لام کا ادغام ہونے سے یہ کلمہ'اللہ' بن گیا۔ لیکن اسکی اصل سات ہی حروف ہیں جن میں سے چھ لکھنے میں آتے ہیں اور آخر میں 'ہ' کے اشباع سے واؤ ظاھر ہوئی ہے جو لکھنے میں نہیں آتی۔ اور جیسے کہ تم ابھی دیکھو گے کہ یہ سات حروف(ا ل ا ل ا ہ و) دراصل وہی سات اُمہات صفات ہیں(حیات، ارادہ، علم، قدرت، سمع، بصر، کلام) ‌جو الوھیت کے معنی ہیں:
1- پہلا الف عین اسکا اسمِ حیّ ہے۔ کیا تم تمام وجود میں اللہ کی حیات کو سرائیت کئے ہوئے نہیں دیکھتے؟ اور ہم تمام حروف میں الف کا سریان تم پر واضح کرچکے ہیں۔
2- پہلا لام ارادہ ہے جو حق تعالٰی کی وہ توجّہ ہے جس سے عالم ظہور پذیر ہوا۔ جیسا کہ حدیث نے اشارہ کیا کہ 'میں ایک خزانہ تھا جس سے کوئی واقف نہیں تھا پس میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے'۔ اور یہ چاہنا ارادے کے سوا اور کچھ نہیں۔
3- دوسرا الف قدرت ہے، جو تمام موجوداتِ کونیہ میں جاری و ساری ہے۔ کیونکہ موجوداتِ کونیہ(کُن کے تحت وجود میں آنے والے) قدرت ہی کی حکمرانی کے تحت آتے ہیں۔
4- دوسرا لام علم ہے جو اللہ تعالٰی کا جمال ہے جو اسکی ذات اور اسکی مخلوقات کے ساتھ تعلق پذیر ہے۔ پس 'ل' کا وہ حصہ جو سیدھا کھڑا ہے اللہ کے اُس علم کا محل ہے جو اسکی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اور 'ل' کا وہ حصہ جو نیم دائرے کی قوس ہے، اللہ کے اپنی مخلوقات سے متعلقہ علم کا مقام ہے۔ اور یہ پورا حرف فی نفسہ علمِ جامع ہے۔
5- دوسرا الف ہے جو سننے والے کی سماعت ہے۔ کہا گیا کہ (و انّ من شئی الّا یسبّح بحمدہ) یعنی کوئی ایسی شئے نہیں جو اسکی حمد سے تسبیح نہ پڑہتی ہو۔
6- 'ہ' ہے یعنی اللہ کی بصر۔ 'ہ' کا دائرہ اُسکے غیبِ محیط کی پُتلی ہے جس سے وہ تمام عالم کی طرف نظر کرتا ہے۔ اور عالم 'ہ' کے دائرے میں موجود سفیدی ہے۔ اور اِس میں اس بات کی خبر ہے کہ عالم کیلئے وجود نہیں ہے سوائے اللہ کی اُس نظر کے جو اسکی جانب ہے۔ اگر وہ عالم سے اپنی نظر ہٹا لے تو تمام عالم فناءِ محض سے ہمکنار ہوجائے۔ اسی طرح اگر 'ہ' کا دائرہ نقطے کے گرد نہ ہوتا تو اسکا وجود بھی نہ ہوتا۔ اور وہ اپنے اس وجود کے ساتھ اپنی حالتِ عدم پر برقرار ہے۔ کیونکہ یہ سفیدی 'ہ' کے دائرہ بنانے سے پہلے بھی موجود تھی اور دائرہ بنانے کے بعد بھی موجود ہے۔ اسی طرھ عالم اللہ کے ساتھ اُسی حالت پر ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ کے خلق کرنے سے پہلے تھا۔ پس اسکو سمجھو اور اس عجیب و غریب راز میں غور و فکر کرو۔ اور میں نے تم سے باہر کی جس بات کاذکر کیا ہے اسکا موازنہ اُس بات سے کرو جو تمہاری ذات کے اندر ہے۔ کیونکہ میرا مقصد اس سے یہی ہے کہ تمہیں سعادت حاصل ہو اور تم اس بات کا وقوع اپنے اندر دیکھ سکو۔
7- 'و' ہے جسکا عدد چھٹے مرتبے میں‌ظاھر ہوا۔ اور یہ وہ معنی ہے جو اللہ کے کلام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ چھ سمتوں کی انتہاء و غایت عرشِ رحمانی ہے جو تمام سمتوں سے منسوب ہے اور یہ سب بارگاہِ کُن سے منسوب ہے۔(اور کُن یعنی 'ہوجا' اللہ کا کلام ہے)۔ پس جس طرح اللہ کے کلام کی کوئی انتہا نہیں اسی طرح ممکن کی بھی کوئی انتہا نہیں جو مخلوقات ہیں اور محیطِ عرش کے تحت میں آتی ہیں اور کُن سے ممکن ہوئی ہیں۔ پس دیکھو کہ کسطرح واجب الوجود کا لا انتہاء ہونا بعینہ ممکن میں ظاھر ہوا جسکے لئے وجود و عدم دونوں جائز ہیں۔
پس یہ سات اسماء اسمی طور پر بھی اور ذاتی طور پر بھی 'اللہ' ہی کے معنی و صورت ہیں، اسکے سوا کچھ نہیں۔ یہی ہیں وہ۔
 
اور اس اسم کے حوالے سے لوگوں میں اختلاف رونما ہوا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ مشتق ہے ' أله يأله ألهاٌ 'سے 'عبد یعبد عبادة ' کے اعتبار سے۔ انہوں نے مصدر کو اسم بنالیا معبود کیلئے اور یہ کہا کہ لفظ الٰہ تھا اس میں لام اور الف معرفہ کیلئے زائد ہوا تو اللہ کہلایا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ أله عشق کے معنوں میں ہے۔ پس الٰہ عشق کا مصدر ہے۔
اور کچھ نے کہا کہ یہ اسم جامد غیر مشتق ہے اور اسکی اصل أله نہیں بلکہ یہ اپنے حال پر ہے اور واجب الوجود جس نے اس عالم کی اختراع کی ہے اسکے لئیے بمنزلہ عَلم (علامت، جھنڈا) ہے۔ اور وہ یہ پانچ حروف (ا ل ل ا ھ) ہی ہیں۔ اور یہی ہمارا بھی مذہب ہے۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ کیونکہ اللہ عالم سے غنی ہے اسلئے حق تعالٰی عالم کی تخلیق سے پہلے ہی اس اسم سے موسوم تھا۔ بخلاف اپنے اسم رحمٰن کے، کیونکہ اسکی (رحمٰن کی) نظر مرحوم (جس پر رحم کیا گیا) میں رحمانیت کے اچر کے ظہور سے تعلق پذیر رہتی ہے۔ اس اعتبار سے لازمی طور پر حق تعالٰی وجود کے ظاہر میں یا اپنے علم کے باطن میں اس (مرحوم) کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اور اسی طرح باقی رحمانی اسماء ہیں یعنی رب، خالق، معطی، واہب اور منتقم وغیرہ۔ اور روحانی اسماء سے میری مراد وہ اسماء ہیں جو اپنے اثر کے ظہور کیلئے مؤثر کو طلب کرتے ہیں۔ جیسے علم کیلئے معلوم درکار ہوتا ہے۔ اور کلمہ کن (ہو جا) ہونے والی شئے کو طلب کرتا ہے۔اور اسی طرح السمیع، البصیر، القدیر، المرید اور المتکلم ہیں۔ پس یہ اور ان جیسے اور اسماء رحمانی اسماء ہیں۔ اور اس سے پہلے یہ بیان ہوچکا ہے کہ الرحمٰن وہی اللہ ہے جسکی نظر عرش اور ان تمام اشیاء کیلئے ہے جن پر عرش محیط ہے۔
بخلاف اسکے اسم اللہ کے کیونکہ وہ ذات کیلئے عَلم (یعنی علامت) ہے۔ وہ ذات جو ہر ھویت کی ھویت، ہر انیت کی انیت اور ہر انانیت کی انانیت ہے۔ اور اس میں کسی اعتبار سے تقیید نہیں۔ اور نہ ہی اسکا تقیید کسی اعتبار سے عدم ہوسکتاہے۔ وہ کسی بھی شئے اور اسکی ضد کی جامع ہے۔ اسی لئے کہنے والے نے کہا کہ اللہ عین ہے وجود کا اور عدم کا بھی۔
اس میں ایک باریک راز کی بات ہے کیونکہ اسکا کہنا کہ 'وہ عین ہے وجود کا' یہ تو ظاہر سی بات ہے لیکن 'عین ہے عدم کا'، یہ باریک سا راز ہے جس پر اہل اللہ میں سے اپنے مقامات کے کاملین کے سوا کوئی مطلع نہیں ہوسکتا، یا پھر وہ شخص جس پر یہ دشواری اس مقام کے حصول سے پہلے ہی آسان کر دی گئی ہو۔ پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ جس بات کو چھیڑ بیٹیں ہیں اس پر کلام کریں۔ اور یہ ان وجوہ میں سے ایک وجہ ہے جنکی بناء پر اسم عدم کا اطلاق حق تعالٰی پر کرنا صحیح قرار پاتا ہے اسکے کمال اور وجوب کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے۔ بلند و برتر ہے وہ ذات۔
 
Top