الوداع پیارے گھر :: نظم:: از محمد خلیل الرحمٰن

الوداع پیارے گھر
( رابرٹ لوئی اسٹیونسن کی نظم سے ماخوذ)


گھوڑا گاڑی ہمارے لیے آگئی ، ہم تو تیار ہی تھے کھڑے
سارے بچے لپک کر قریب آگئے ، پہلے چڑھنے لگے سب بڑے
باری بچوں کی آئی تو سب چڑھ گئے اور سیٹوں کی خاطر لڑے
تب بڑوں نے ہمیں گود میں یوں چڑھایا کہ بچے بڑے ہنس پڑے

الوداع پیارے گھر الوداع پیارے گھر الوداع پیارے گھر الوداع
الوداع الوداع الوداع

پہلے گھر کو کیا الوداع اور پھر باغ کو اور کھیتوں کو بھی
اُس بڑے گیٹ کو بھی کیا الوداع جس پہ جھولے تھے جھولے کبھی
اپنے گودام کو بھی کیا الوداع جس پہ چھوڑ آئے سیڑھی ابھی
الوداع گھاس کے لان کو بھی جہاں ملکے کھیلے تھے بچے سبھی

الوداع پیارے گھر الوداع پیارے گھر الوداع پیارے گھر الوداع

الوداع الوداع الوداع

ڈال دی اِک نظر اُس اٹاری پہ بھی جس پہ مکڑی کے جالے بھی تھے
اُس کے پہلو میں تھا آم کا اِک درخت، اُس پہ گھر بھی ہمارے سجے
آخرِ کار چابک کی آواز سے دونوں گھوڑے مچلنے لگے
کوچواں کا ہوا جب اشارہ تو دونوں ٹپک ٹپ، ٹپک ٹپ چلے
الوداع پیارے گھر الوداع پیارے گھر الوداع پیارے گھر الوداع

الوداع الوداع الوداع
The coach is at the door at last;
The eager children, mounting fast
And kissing hands, in chorus sing:
Good-bye, good-bye, to everything!

To house and garden, field and lawn,
The meadow-gates we swang upon,
To pump and stable, tree and swing,
Good-bye, good-bye, to everything!

And fare you well for evermore,
O ladder at the hayloft door,
O hayloft where the cobwebs cling,
Good-bye, good-bye, to everything!

Crack goes the whip, and off we go;
The trees and houses smaller grow;
Last, round the woody turn we sing:
Good-bye, good-bye, to everything!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوب.۔ آزاد ترجمہ ہے ورنہ ستیوینسن نے تو سب کو ہی الوداع کہا تھا، گھر کی ہر شے کو!
قوافی میں ایک مصرع گڑبڑ ہے ذرا۔ کو بھی، جو کُبی تقطیع ہوتا ہے، کَبی، سَبی یعنی فتحہ والے کبھی، سبھی کے ساتھ کو بھی نہیں باندھ سکتے
 
Top