الطاف حسین کا نائن زیرو کی تقریر میں عمران کے خلاف گھٹیا زبان کا استعمال

نیرنگ خیال

لائبریرین
کتنی حیرت کی بات ہے کہ الطاف حسین چند سال برطانیہ میں رہا اور برطانوی ہو گیا۔ لیکن پاکستان میں 45 سال رہنے کے باوجود مہاجر کا مہاجر ہی رہا پاکستانی نہ بن سکا۔

کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے؟ (بزبان وڑائچ)
مجھے یاد ہے میرے دادا ابو جب پاکستان کے نام پر جذباتی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہا۔۔۔ :) اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین
وطن سے محبت کیا چیز تھی یہ اس نسل سے بہتر کون جانتا تھا۔ آج لسانی و علاقائی تعصب سے لتھڑے ذہن اس بات کو کہاں سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی تو دال روٹی ہی ان نعروں سے چل رہی ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
کیا واقعی ایسا ہی ہو گا؟ کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ "میں جو کہوں، اس کا الٹ مطلب لیا کرو۔"

نہیں ایم کیو ایم تنظیمی سطح پر واقعی اصول کی پارٹی ہے۔ کارکنان کو واقعی فارغ کر دیتے ہیں۔۔


کتنی حیرت کی بات ہے کہ الطاف حسین چند سال برطانیہ میں رہا اور برطانوی ہو گیا۔ لیکن پاکستان میں 45 سال رہنے کے باوجود مہاجر کا مہاجر ہی رہا پاکستانی نہ بن سکا۔

کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے؟ (بزبان وڑائچ)


یہ تو بھائی آپ ان سیاست دانوں اور عوام سے پوچھیں کہ جنہوں نے "مہاجروں" کو پاکستانی نہیں تسلیم کیا اور حقوق سے محروم رکھا۔ خیر میں مہاجر اور پاکستانی کی بحث پر کافی کچھ لکھ چکا ہوں محفل میں، اب دوبارہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہے کیوں کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ مہاجروں کو خود کو پاکستانی سمجھنا چاہیے اور دوسری طرف ہر زبان بولنے والا اس ملک میں اپنی اپنی قومیت پر سیاست کرتا اور اپنے حقوق حاصل کرتا ہے۔ سب سے بڑی دلیل اس میں کوٹہ سسٹم ہے۔ پہلے کوٹہ سسٹم ختم کیجیے اور "مہاجروں" کے خلاف تعصب ختم کروائیے پھر یہ بحث کیجیے گا خدا کے واسطے زیادتی نہ کیا کریں، انصاف سے بات کیا کریں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
کراچی کے مخصوص حالات کے پیش نظر عمران خان اور الطاف حسین کو محتاط رویہ اپنانا چاہیے ۔۔۔ کیا ہم ایک بار پھر کراچی میں خون خرابہ چاہتے ہیں؟ تحریک انصاف نے بہرحال اپنا وجود منوا لیا ہے اوار کراچی میں ان کی بھی سنی جا رہی ہے، لیکن عمران خان کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں اور دوسری طرف الطاف حسین بھی کھل کھلا کر میدان میں آ گئے ہیں، یہ رویے کراچی کے مخصوص حالات کے پیش نظر قطعاََ مناسب نہیں ۔۔۔
 
نہیں ایم کیو ایم تنظیمی سطح پر واقعی اصول کی پارٹی ہے۔ کارکنان کو واقعی فارغ کر دیتے ہیں۔۔
یہ تو بھائی آپ ان سیاست دانوں اور عوام سے پوچھیں کہ جنہوں نے "مہاجروں" کو پاکستانی نہیں تسلیم کیا اور حقوق سے محروم رکھا۔ خیر میں مہاجر اور پاکستانی کی بحث پر کافی کچھ لکھ چکا ہوں محفل میں، اب دوبارہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہے کیوں کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ مہاجروں کو خود کو پاکستانی سمجھنا چاہیے اور دوسری طرف ہر زبان بولنے والا اس ملک میں اپنی اپنی قومیت پر سیاست کرتا اور اپنے حقوق حاصل کرتا ہے۔ سب سے بڑی دلیل اس میں کوٹہ سسٹم ہے۔ پہلے کوٹہ سسٹم ختم کیجیے اور "مہاجروں" کے خلاف تعصب ختم کروائیے پھر یہ بحث کیجیے گا خدا کے واسطے زیادتی نہ کیا کریں، انصاف سے بات کیا کریں۔
1988ء کے انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں سے کامیابی کے بعد ایم کیو ایم نے حکومت میں شامل ہونے کیلئے پی پی پی سے 59 نکاتی معاہدے پر اتفاق کیا جس پر 2 دسمبر کو پی پی پی سندھ کے صوبائی صدر سید قائم علی شاہ اور ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق مرحوم نے دستخط کیے۔ اس سمجھوتے میں ایک نکتہ بھی ایسا نہیں تھا جس میں مہاجروں کے مسائل کی ترجمانی کی گئی ہو۔ اس میں کوٹہ سسٹم کے فوری خاتمے پر اصرار کے بجائے اس قانون کو یہ کہہ کر تحفظ فراہم کیا گیا کہ کوٹہ سسٹم پر منتخب ارکان کمیٹی غور کرے گی مذکورہ قانون 1993ء تک قبول کیا جائے گا۔ اب تو اس ’’گروپ ‘‘کے منشور میں مہاجروں کے مسائل کہیں جگہ نہیں پاتے بلکہ ان کی سیاست پلاٹوں پر قبضے اور بھتہ جمع کرنے یا پھر وزارتوں کے گرد گھوم رہی ہے ان مقاصد کیلئے ہڑتالیں، احتجاج اور سینیٹ و اسمبلیوں میں آواز اُٹھانے سے بھی نہیں چوکتے لیکن جب مہاجروں کے بنیادی مسائل کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ان کی زبانیں تالو سے لگ جاتی ہیں۔
 
اپریل 1992ء میں وفاقی شریعت عدالت نے سول ملازمین کے تبادلے‘ ترقی اور تقرری سے متعلق کوٹہ سسٹم کو اسلام کے منافی قرار دیا۔ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بیت المال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں میرٹ کی قبر پر پُر شکوہ سیاسی عمارت نہیں بنائوں گا۔‘‘ لیکن افسوس کہ اسی سال ان کی حکومت نے کوٹہ سسٹم میں مزید 20 سال کی توسیع کر دی جس وقت یہ قانون پارلیمنٹ میں پاس ہو رہا تھا اس دوران مہاجروں کے حقوق کی نمائندہ جماعت کے اراکین قومی اسمبلی ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد سے ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم کے خلاف نہ بولنے کا‘ ایسا چپ کا روزہ رکھا ہے کہ ٹوٹنے کا نام ہی لیتا۔
 
مان لیا اس کوٹاسسٹم نے ملازمتوں کے لیے مقابلے کے رجحان اور بہتر تعلیم کے حصول کے جذبے کو کم کیا جبکہ ناانصافی کو پروان چڑھایا ہے۔ ناانصافی بغاوت بن کر دہشت گردی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اس کالے قانون کی آڑ میں استیصال کیا جاتا رہا۔ جس کا کچھ اندازہ ماضی میں مرتب کردہ اس سروے رپورٹ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جو ایک انگریزی اخبار میں 17 ستمبر 1995ء کو شائع ہوئی اس کا خلاصہ یہ تھا۔
٭ اُس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کی انتظامیہ کے افسروں کی ٹیم جو سندھ کے معاملات کو چلاتی تھی اس میں ایک افسر بھی اردو بولنے والا نہیں تھا۔
٭ اُس وقت کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ بھر کے 23 اضلاع تھے ان کا ایک ایس ایس پی بھی اردو بولنے والا نہیں تھا۔
٭ اُس وقت کراچی کے 91 تھانوں میں سے صرف 4 کے سربراہ اردو بولنے والے تھے۔
٭ وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ نے صوبے میں ایک سو ایس ایس پیز اور اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیے تھے ان میں سے ایک بھی اردو بولنے والا نہیں تھا۔
اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کو ٹاسسٹم کے ذریعے اردو بولنے والوں کو کس طرح اُلٹی چُھری سے ذبح کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ یعنی سرکاری ملازمتوں میں اردو بولنے والوں کے لیے جو کوٹا مقرر ہے وہ بھی اب ان کو نہیں دیا جا رہا ہے۔
تعلیم بچائو ایکشن کمیٹی کے کنوینر انیس الرحمان اور جنرل سیکرٹری عبدالرحمان کی پریس کانفرنس جو 9 جولائی 2012 ء کو کراچی پریس کلب میں منعقد ہوئی اس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’محکمہ تعلیم‘ کراچی کی تعلیم کو تباہ کرنے کے درپے ہے‘ جس کے تحت پہلے کراچی ڈویژن کی 847 اسامیاں ختم کی گئیں پھر 116 اسکولز شہر سے دور دراز دیہی علاقوں میں منتقل کر دیے اور پھر نئی اسامیاں دوسرے اضلاع کے افراد سے بھر دی گئیں اگر تحقیقات کرائی جائیں تو ان کی اسناد‘ پی آر سی‘ ڈومیسائل‘ شناختی کارڈ بھی جعلی ہوں گے جس سے کراچی کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں اور اب کراچی کے ملازمین کی ترقی کے مواقع بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ مینڈیٹ والے کہاں ہیں؟؟
 
اس سلسلے میں سب سے اچھی اور معقول بات چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جناب مشیر عالم نے کی میرپور خاص میں کی تھی جب وہ ایک نجی لا کالج کا افتتاح کر رہے تھے انکے بقول :
کوٹہ سسٹم ایک دھوکا اور کچی آباد سمیت گوٹھ آباد اسکیم غریبوں کیخلاف ایک سازش ہے، میرٹ کو ترجیح دی جائے، تعلیمی پسماندگی کے باوجود سندھ کے نوجوان بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے مزید کہا کہ ڈگری ہولڈر پیدا ہورہے ہیں اور تعلیم سے محروم اس پسماندہ علاقے میں کوٹہ سسٹم اور تعلیم کے نام پر محرومی میں اضافہ ہوورہا ہے۔ میری چیف جسٹس کی حیثیت سے ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو صحیح پیغام دوں کہ میرٹ کو ترجیح دی جائے گی، ہم نے جوڈیشل افسران کے سلیکشن میں صرف میرٹ کو مد نظر رکھا ہے، جوڈیشل افسران کے لیے سندھ بھر سے تین ہزار امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سے 45 امیدوار جج منتخب ہوئے۔ تعلیمی پسماندگی کے باوجود سندھ کے نوجوان بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
درحقیقت دیکھا جائے تو اس سے سندھی بولنے والوں کو بھی زیادہ فائدہ نہیں ہو ا ۔
بھٹو صاحب نے دیہی سندھ سے محبت کے نام پرکوٹہ سسٹم ایجاد کیا۔ اس سے ایک جانب سندھ میں لسانی تفریق کی آگ بھڑک اٹھی اور سندھ کی وحدت کے تصور کو نقصان پہنچا اور دوسری جانب کوٹہ سسٹم نے دیہی سندھ کے نوجوانوں کے لیے افیون کا کام کیا۔ کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر خیال تھا کہ دیہی سندھ شہری سندھ سے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتا چنانچہ دیہی سندھ کے نوجوانوں کو کوٹہ سسٹم کے ذریعے شہری سندھ کے برابر لایا جائے۔ بلاشبہ عارضی اور عبوری طور پر اس سسٹم کا جواز تھا۔ لیکن اس سسٹم نے دیہی سندھ کے نوجوانون میں ایک خود اطمینانی پیدا کردی۔ انہیں محسوس ہوا کہ کوٹہ سسٹم ان کی تعلیم اور روزگار کا محافظ ہے چنانچہ انہیں محنت کرنے کی خاص ضرورت نہیں۔ اس احساس نے دیہی سندھ کی نئی نسل میں سہل انگاری پیدا کی اور اس میں لیاقت میں اضافے کی فطری استعداد کو کمزور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 20‘25 سال میں کوٹہ سسٹم سے 10‘ 15 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم ہوگیا مگر اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد ان طلبہ کی تھی جو کوٹہ سسٹم کی وجہ سے مقابلے کی اہلیت سے محروم ہوگئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوٹہ سسٹم مجرد معنوں میں سندھ سے دوستی تھا ورنہ اس نظام نے دیہی سندھ کے نوجوانوں سے جیسی دشمنی کی ہے اس کی نظیر مشکل ہی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ملک اور بین الاقوامی سطح پر مقابلے کی کیفیت میں شدت پیدا ہورہی ہے۔ اور کوٹہ سسٹم کے پروردہ نوجوان مقابلے کے امتحان میں مشکل ہی سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔
 

عسکری

معطل
اب ہم کیا کہیں ؟ کوٹہ سسٹم اچھا ہے پھر تو :grin: یار اس ملک کا کیا بنے گا صرف مجھے ہی فکر ہے کیا ؟:sad:
 

عسکری

معطل
کوئی یورپی ملک تاڑتا ہوں۔۔ وہاں بھجوا دو۔۔ :p
باقی زندگی اب یاد الہی میں بسر ہوجائے تو بہتر رہے گا۔۔۔ اس کے لیے یورپ کے علاوہ مونٹے کارلو بھی ماٹھا نہیں۔۔۔ :laughing:
مکاؤ یا لاس ویگاس بھیجوا دوں؟ دنیا میں اس سے بڑے فحاشی جوئے اور پورن کے حب ناپید ہیں اگر آپ وہاں ایک وقت نماز بھی پڑھیں گے تو بھی مومن مرد حق کہلائیں گے :grin:

macau1.jpg


las-vegas-skyline.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مکاؤ یا لاس ویگاس بھیجوا دوں؟ دنیا میں اس سے بڑے فحاشی جوئے اور پورن کے حب ناپید ہیں اگر آپ وہاں ایک وقت نماز بھی پڑھیں گے تو بھی مومن مرد حق کہلائیں گے :grin:

macau1.jpg


las-vegas-skyline.jpg
یار یاد الہی کا مطلب نماز پڑھنا نہیں ہوتا۔۔ ہر وقت خدا کو یاد رکھنا اور اس خلاق اعظم کی کاری گری کی تعریف کرنا ہوتا ہے۔۔۔ :bighug:
لہذا بس اب تیاری پکڑتے ہیں۔۔ بہت دنیا داری کر لی۔۔۔ :cowboy:
 

عسکری

معطل
یار یاد الہی کا مطلب نماز پڑھنا نہیں ہوتا۔۔ ہر وقت خدا کو یاد رکھنا اور اس خلاق اعظم کی کاری گری کی تعریف کرنا ہوتا ہے۔۔۔ :bighug:
لہذا بس اب تیاری پکڑتے ہیں۔۔ بہت دنیا داری کر لی۔۔۔ :cowboy:
نوٹ - ڈائریکٹ فلائٹ نا ہونے کے سبب آپ کی ہجرت کو منسوخ کیا جاتا ہے
 
Top