الطاف حسین حالی

رضوان

محفلین
کوئي محرم نہيں ملتا جہاں ميں
مجھے کہنا ہے کچھ اپني زبان ميں

قفس ميں جي نہيں لگتا کسي طور
لگا دے آگ کوئي آشياں ميں

کوئي دن بوالہوس بھي شاد ہو ليں
دھرا کيا ہے اشارات نہاں ميں

کہيں انجام آپہنچا وفا کا
گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں ميں

نيا ہے ليجئے جب نام اس کا
بہت وسعت ہے ميري داستاں ميں

دلِ پُر درد سے کچھ کام لوں گا
اگر فرصت ملي مجھ کو جہاں ميں

بہت جي خوش ہوا حالي سے مل کر
ابھي کچھ باقي ہيں جہاں ميں
 

رضوان

محفلین
جب سے سني ہے تيري حقيقت چين نہيں اک آن ہميں
اب نہ سنيں گے ذکر کسي کا آگے کو ہوئے کان ہميں

صحرا ميں کچھ بکريوں کو قصاب چراتا پھرتا تھا
ديکھ کے اس کو سارے تمہارے آگئے ياد احسان ہميں

ياں تو بدولت زہد و ورع کے نبھ گئي خاصي عزت سے
بن نہ پڑا پر کل کے لئے جو کرنا تھا سمان ہميں

سُر تھے وہي اور تال وہي پر راگني کچھ بے وقت سي تھي
غل تو بہت ياروں نے مچايا، پر گئے اکثر مان ہميں

غير سے اب وہ بير نہيں اور يار سے اب وہ پيار نہيں
بس کوئي دن کا اب حالي ياں سمجھو تم مہمان ہميں
 

رضوان

محفلین
درد دل کو دوا سے کيا مطلب
کيميا کو طلاء سے کيا مطلب

جو کريں گے بھريں گے خود واعظ
تم کو ميري خطا سے کيا مطلب

جن کے معبود حور و غلماں ہيں
ان کو زاہد خدا سے کيا مطلب

کام سے مدومي ہے انساں کي
زبد يا اتقا سے کيا مطلب

صوفي شہر با صفا ہے اگر
ہو ہماري بلا سے کيا مطلب

نگہت مے پہ عاشق ہيں جو حالي
ان کو درد و صفا سے کيا مطلب
 

رضوان

محفلین
دل کو کس طرح سمجھئے کہ وہي ہے يہ دل
وہ اميديں ہيں نہ ارماں وہ امنگيں نہ چاؤ

يار کو يار سمجھتا ہے نہ تو غير کو غير
تو تو اچھا ہے مگر تيرے برے ہيں برتاؤ

دوست ہوں جس کے ہزاروں وہ کسي کا نہیں دوست
سچ بتا تجھ کو کسي سے بھي ہے دنيا ميں لگاؤ

تو وہي برق جہاں سوز ہے بن خواہ نہ بن
ہے برابر ترا بے ساختہ پن اور بناؤ

ہو گيا ذکر قيامت تو اجيرن واعظ
باتيں کچھ اور کرو قصہ کوئي اور سناؤ

تجھ کو اے ابر بلا ديکھ کے جي جھوٹ گيا
ايک ہي بار تم اے بادلو اس طرح نہ چھاؤ

پہنچ اے خضر کہ ہے وقت مددگاري کا
ڈگمگاتي ہے بہت دير سے منجدھار ميں ناؤ
 

رضوان

محفلین
کاٹيے دن زندگي کے ان يگانوں کي طرح
جو سدا رہتے ہيں چوکس پاسبانوں کي طرح

منزل دنيا می ہيں پا در رکاب آٹھوں پہر
رہتے ہيں مہماں سرا میں مہمانوں کي طرح

سعي سے اکتاتے اور محنت سے کتراتے نہيں
جھيلتے ہيں سختيوں کو سخت جانوں کي طرح

شادماني ميں گزرے اپنے آپے سے نہيں
غم میں رہتے ہيں شگفتہ شادمانوں کي طرح

رکھتے ہيں تمکين جواني ميں بڑھاپے سے سوا
رہتے ہيں چونچال پيري میں جوانوں کي طرح

پاتے ہیں اپنوں ميں غيروں سے سوا بيگانگي
پر بھلا تکتے ہيں ايک اک کا يگانوں کي طرح

آس کھيتي کے پنپنے کي انہیں ہو يا نہ ہو
ہيں اسے پاني ديئے جاتے کسانوں کي طرح

ان کے غصے ميں ہے دلسوزي ملامت ميں ہے پيار
مہرباني کرتے ہيں نا مہربانوں کي طرح

کام سے کام اپنے ان کو گو ہو عالم نکتہ چيں
رہتے ہيں بتيس دانتوں ميں زبانوں کي طرح

طعن سن سن احمقوں کے ہنستے ہيں ديوانہ وار
دن بسر کرتے ہين ديوانوں ميں سيانوں کي طرح

کيجئے کيا حالي نہ کيجئے سادگي گر اختيار
بولنا آئے نہ جب رنگيں بيانوں کي طرح
 

رضوان

محفلین
نفس دعوي بے گناہي کا سدا کرتا رہا
گرچہ اترے جي سے دل اکثر ابا کرتا رہ

حق نے احسان نہ کي اور ميں نے کفراں ميں کمي
وہ عطا کرتا رہا اور ميں خطا کرتا رہ

چوريوں سے ديدہ دل کي نہ شرمايا کبھي
چپکے چپکے نفس خائم کا کہا کرتا رہ

طعنوں کي زد سے بچ بچ کر چلا راہ خطا
وار ان کا اس لئے اکثر خطا کرتا رہ

نفس ميں جو ناروں خواہش ہوئي پيدا کبھي
اس کو حيلے دل سے گھڑ گھڑ کر روا کرتا رہ

منہ نہ ديکھيں دوست پھر ميرا اگر جانيں کہ میں
ان سے کيا کہتا رہا اور آپ کا کيا کرتا رہ

تھا نہ استحقاق تحسين پر سني تحسيں سدا
حق ہے جو دوں ہمتي کا وہ ادا کرتا رہ

شہرت اپني جس قدر بڑھتي گئ آفاق ميں
کبر نفس اتنا ہي ياں نشوونما کرتا رہ

ايک عالم سے وفا کي تو نے اے حالي مگر
نفس پر اپنے سدا ظالم جفا کرتا رہ
 

رضوان

محفلین
قبضہ ہو دلوں پر کيا اور اس سے سوا تيرا
اک بندہ نا فرماں ہے حمد سرا تيرا

گو سب سے مقدم ہے حق تيرا ادا کرنا
بندے سے مگر ہو گا حق کيونکر ادا تيرا

محرم بھي ہے ايسا جيسا کہ ہے نا محرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر بھيد کھلا تيرا

جچتا نہيں نظروں ميں ياں خلعت سلطاني
کملي ميں مگن اپني رہتا ہے گدا تيرا

عظمت تيري مانے بن کچھ بھي نہيں آتي ياں
ہيں خيرہ و سرکش بھي دم بھرتے سدا تيرا

تو ہي نظر آتا ہے ہر شے پہ محيط ان کو
جو رنج و مصيبت ميں کرتے ہيں گلہ تيرا

نشہ ميں وہ احساں کے سر شار ہيں اور بيخود
جو شکر نہيں کرتے نعمت پہ ادا تيرا

آفاق ميں پھيلے گي کب تک نہ مہک تيري
گھر گھر لئے پھرتي ہے پيغام صبا تيرا

ہر بول ترا دل سے ٹکڑا کے گزرتا ہے
کچھ رنگ بياں ہے سب سے جدا تيرا
 

رضوان

محفلین
عمر شايد نہ کرے آج وفا
کانٹا ہے شب تنہائي کا

ايک دن راہ پہ جا پہنچے ہم
شوق تھا باديہ پيمائي کا

کچھ تو ہےقدر تماشائي کي
ہے جو يہ شوق خود آرائي کا

يہي انجام تھا اے فصل خزاں
گل و بلبل کي شناسائي کا

محتسب عذر بہت ہيں ليکن
اذن ہم کو نہيں گويائي کا

ہوں گے حالي سے بہت آوارہ
گھر ابھي دور ہے رسوائي کا
 

رضوان

محفلین
يہ غم نہيں ہے وہ جسے کوئي بٹا سکے
غمخواري اپني رہنے دے اے غمگسار بس

ڈر ہے دلوں کے ساتھ اميديں بھي پس نہ جائيں
اے آسپائے گردش ليل و نہار بس

ديں غير دشمني کا ہماري خيال چھوڑ
ياں دشمني کے واسطے کافي ہيں يار بس

آتا نہيں نظر کہ يہ ہو رات اب سحر
کي نيند کيوں حرام اے انتظار بس
تھوڑي سي رات اور کہاني بہت بڑي
حالي نکل سکيں گے نہ دل کے بخار بس
 

رضوان

محفلین
يا ہو گئے ہيں ہم ہي کچھ اور آج کل
يا زمانہ ہي گيا يا رب بدل

اب لگائو پود کچھ اپني نئي
لا چکے پودے بہت اگلوں کے پھل

ديکھئے نبھتا ہے کب تک پاس وضع
ہم نہ بدلے اور گيا عالم بدل

کوششوں ميں کچھ مزا آتا نہيں
وقت کوشش کا گيا شايد نکل

اب سنو حالي کے نوحے عمر بھر
ہو چکا ہنگامہ مدع و غزل
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ سخنور (فرخ صاحب)

آگے بڑھے نہ قصۂ عشقِ بتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کھُلے رازداں سے ہم

اب بھاگتے ہیں سایۂ عشقِ بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

خود رفتگیِ شب کا مزا بھولتا نہیں
آئے ہیں آج آپ میں یارب کہاں سے ہم

دردِ فراق و رشکِ عدو تک گراں نہیں
تنگ آگئے ہیں اپنے دلِ شادماں سے ہم

جنت میں تُو نہیں اگر اے زخمِ تیغِ عشق
بدلیں گے تجھ کو زندگئ جاوداں سے ہم

لینے دو چین کوئی دم اے منکر و نکیر
آئے ہیں آج چھوٹ کے قیدِ گراں سے ہم

ہنستے ہیں اس کے گریۂ بے اختیار پر
بھولے ہیں بات کہہ کے کوئی رازداں سے ہم

اب شوق سے بگاڑ کی باتیں کیا کرو
کچھ پا گئے ہیں آپ کے طرزِ بیاں سے ہم

دلکش ہے ایک قطعۂ صحرا ہے راہ میں
ملتے ہیں جا کے دیکھیے کب کارواں سے ہم

لذّت ترے کلام میں آئی کہاں سے یہ
پوچھیں گے جا کے حالیِ جادو بیاں سے ہم
 

محمد وارث

لائبریرین
اصل پوسٹ

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں

یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
 

محمد وارث

لائبریرین
اصل پوسٹ

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت

اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت

دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت

واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت

شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت

رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت
 
Top