الاؤ۔ ایم مبین

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

الف عین

لائبریرین
کبھی کبھی صبح کی پہلی کرن اپنے ساتھ منحوس واقعات کی منادی لے کر آتی ہیں۔ اس دن وہ جلدی جاگا لیکن اسے ماحول کچھ بوجھل بوجھل سا لگ رہا تھا۔ اسے چاوں طرف وحشت سی چھاتی محسوس ہورہی تھی۔ معمول کے مطابق مدھو آئی۔ اس سے کچھ دیر اس نے باتیں کیں ۔اور بس میں بیٹھ کر چلی گئی ۔ لیکن اسے مدھو کے ملنے سے کوئی مسرت نہیں ہوئی۔ ایک عجیب سی اداسی میں اس نے خود کو لپٹا ہوا محسوس کیا۔ ذہن پر ایک بوجھ سا تھا۔ بوجھ تو دودنوں سے اس کے ذہن پر تھا۔ اس نے دو ٹوک مہندر سے کہہ دیا تھا وہ مدھو سے پیار کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ اسے دھمکی دے کر گیا تھا اس سے پہلے مدھو مہندر کو دوٹوک کہہ چکی تھی ۔

دو دنوں تک مہندر نے کچھ نہیں کیاتھا۔ دل میں ایک دہشت سی لگی تھی۔ ہر لمحہ ڈر لگا رہتا تھا کہ مہندر کوئی انتقا کاروائی کرے گا۔ لیکن مہندر کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس بات پروہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتے تھے کہ مہندر نے شکست تسلیم کرلی ہے ۔اب وہ ان کے راستے میں نہیں آئے گا۔

خدشہ تو دونوں کو لگا ہوا تھا کہ مہندر اتنی جلدی اپنی شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ ان پر کوئی وار کرنے کے لیے اپنی ساری طاقت کو یکجا کر رہا ہوگا۔ نہ تو مہندر اس کے بعد اس کے پاس آیا تھا نہ اس نے مدھو کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے خاموشی نے انھیں ایک عجیب سے الجھن میں مبتلا کر دیا تھا ۔ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہورہی تھی۔ ایسے میں صبح تو اُداس ،وحشت ناک محسوس کرکے وہ ڈرگیا۔ اس کا دل باربار کہنے لگا آج تو کوئی بہت ہی عجیب بات ہونے والی ہے۔ اس کے لیے کوئی عجیب وحشت ناک اور کوئی بات کیا ہوسکتی تھی۔ یہی کہ مہندر انتقامی کاروائی کے تحت ان پر حملہ کرے گا۔یہ حملہ کس روپ میں ہوسکتا ہے انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا اور نہ وہ اس سلسلے میں کوئی اندازہ لگا پارہے تھے۔

وہ دوکان میں بیٹھا اس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔’’جمی ٹی وی پر نیوز دیکھی ۔‘‘ دوسری طرف جاوید تھا۔

’’میرے گھر یا دوکان میں ٹی وی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’اوہو ‘‘جاوید کی تشویش آمیز آواز سنائی دی ۔’’دہشت بھری خبر ہے۔‘‘

’’کیسی بری خبر ‘‘ جاوید کی بات سن کر اس کابھی دل دھڑک اٹھا ۔

’’کار سیوک ایودھیا سے واپس آرہے ۷۰ کے قریب کارسیوکوں کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ جس ٹرین سابرمتی ایکسپریس سے وہ واپس آرہے تھے۔ ان کے ڈبہ پر گودھرا کے قریب حملہ کرکے ان کے ڈبوں میں آگ لگادی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ ڈبہ میں ہی جل کر مرگئے۔ ‘‘

’’اوہو‘‘یہ سن کر اس کا بھی دل دھڑک اٹھا ۔

’’یہ واقعہ گجرات میں ہوا ہے۔ گجرات جہاں فرقہ پرستی عروج پر ہے۔ گودھرا یہاں سے قریب ہے۔ ٹرین احمدآباد آنے والی تھی۔ اب شام کو وہ لاشوں کو لے کر احمد آباد پہنچے گی۔ ٹی وی چینل کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ٹرین پر حملہ کرنے والے اور ہمارے سیوکوں کو زندہ جلانے والے مسلمان تھے۔ ‘‘

’’یہ تو بہت بری بات ہے جاوید بھائی۔‘‘

’’اتنی بری کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ٹی وی چینل پر باربار جلی ہوئی ٹرین کا ڈبہ بتایا جارہا ہے۔ جلی ہوئی لاشیں دکھائی جارہی ہیں۔ لیڈروں کے بھڑکانے والے بیانات آرہے ہیں۔ اس کا اثر صرف گجرات بلکہ سارے ہندوستان پر پڑے گا ۔ آج یا کل کیا ہوگا خدا ہی خیر کرے ‘‘جاوید نے کہا۔

’’آپ کیا کریں گے؟‘‘

’’کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ میں بعد میں فون کرتا ہوں ۔‘‘کہہ کر جاوید نے فون رکھ دیا۔

تھوڑی دیر میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی تھی کہ گودھرا میں کارسیوکوں کو مسلمانوں نے زندہ جلادیا۔ رام بھکتوں پردلانہ حملہ کرکے انھیں زندہ جلادیا گیا۔ مرنے والوں میں بچے بھی تھے اور عورتیں بھی۔ پر کوئی اس بات کی مزمت کررہا تھا۔تو یہ کچھ لوگ اس خبر کو سن کر غصے میں اول فول بک رہے تھے۔

’’کارسیوکوں پر حملہ کرنے والے فرار ہیں‘‘

’’کارسیوکوں کا قاتلوں کو بخشانہ جائے‘‘

’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون‘‘

’’کارسیوک امر ہے‘‘

’’بدلہ لیا جائے‘‘

’’گودھرا کا بدلہ لیا جائے ‘‘

’’پورے گاؤں کو گودھرا بنا دیا جائے‘‘

’’ان کے گھروں اور محلوں کو سابرمتی ایک پریس کی بوگیاں بنادی جائے‘‘

’’جئے شری رام ‘‘

’’جئے بجرنگ بلی‘‘

’’قبرستان پہنچادو‘‘

’’پاکستان پہنچادو‘‘

’’زندہ جلادو۔ ۔ ۔ چھوڑو نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون۔ ۔ ۔ آگ کا بدلہ ۔ ۔ ۔ آگ ‘‘

ہر کسی کے منہ بس یہی باتیں تھیں۔ دل کو دہلادینے والے۔ ۔ ۔ نفرت بھرے نعرے گاؤں کی فضا میں گونج رہے تھے۔ نوجوان لڑکے ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے ،ترشول لیے، ماتھے پر بھگواپٹیاں باندھے اشتعال انگیز نعرے لگاتے پھر رہے تھے۔

’’تمہارے قاتلوں کو نہیں چھوڑیں گے ‘‘

’’ایک بدلے میں دس کو ختم کریں گے‘‘

’’قبرستان بنادیں گے‘‘

’’جلا کر راکھ کردیں گے‘‘
 

الف عین

لائبریرین
دیکھتے ہی دیکھتے سارے گاؤں کا کاروبار بند ہوگیا ۔لوگ سڑکوں پر آٹھ آٹھ دس دس کے مجموعہ میں جمع ہوکر ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ سب کے چہرے غصے سے تنے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ جو لوگ شانت تھے ۔لیڈر قسم کے لوگ اپنی زہریلی اشتعال انگیز تقریروں سے ان کی خون کو بھی کھولا رہے تھے۔

لوگ ٹی وی سے چپکے تھے۔ ٹی وی پر پل پل نئے انداز کی خبریں دی جارہی تھیں۔ ہر بار ایک نئی خبر نئے انداز میں آکر اشتعال پھیلاتی ۔ بار بار ٹرین کے جلے ہوئے ڈبوں کو کھایا جارہا تھا۔ جلی ہوئی لاشوں کو دکھایا جارہا تھا ۔ اس واردات میں جو لوگ مارے گئے ان کے رشتہ داروں سے انٹر ویو لیا جارہا تھاانٹر ویو دینے والے انٹر ویو میں اشتعال انگیز باتیں کرتے ۔ ۔ ۔ بدلہ لینے کی باتیں کرتیں۔ ۔ ۔ خون کا بدلہ خون کی باتیں ۔ ۔ ۔ تباہ کرنے والوں کو تباہ کرنے کی باتیں۔ ۔ ۔ لیڈر ان باتوں کو قلابے آسمانوں سے جوڑتے۔ اسے دہشت گردی کاواقعہ کہا جاتا ۔ ۔ ۔ تو کبھی فرقہ پرستی کے زہر کی دین۔ ۔ ۔ کبھی نفرت کی آگ کے الاؤ کا انجام ۔ ۔ ۔ آر ایس ایس ،بجرنگ دل، وشوہندو پریشد، بی جے پی ساری تنظیمیں ایک ہوگئی تھیں۔ سب ایک آواز میں بات کررہے تھے۔ یہ بس دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ وہ بہت پہلے دوکان بند کرچکا تھا۔ اور دواکن بند کرکے گاؤں کی سیر کو نکلا تھا۔ گاؤں میں جو مناظر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔اسے محسوس کررہا تھا ۔دور سے ایک بگولہ تیزی سے گاؤں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب اس بات کا انتظار ہے کب وہ گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور کس طرح گاؤں کو نیست و نابود کرے گا۔ گاؤں میں میٹنگیں جارہی تھیں۔ جلوس نکل رہے تھے۔ جلوس کے شرکا نفرت انگیز ،اشتعار انگیز فرقہ پرستی کے زہر میں نعرے لگارہے تھے۔ اپنے ہاتھوں میں پکڑی تلواریں اور ترشول کو چمکا رہے تھے۔

یہ جلوس میں مہندر پیش پیش تھا ۔وہ ننگی تلوار ہاتھوں میں لیے اسے لہراتا نفرت انگیز نعرے لگاتا لوگو کو بھڑکارہا تھا۔اس پر نظر پڑنتے ہی وہ کچھ زیادہ ہی غضبناک ہوجاتا ۔اور اپنے ہاتھوں میں پکڑی ترشول ، یاتلوار کو کچھ زیادہ ہب تیزی سے لہرانے لگتا۔ جیسے اس سے کہہ رہا ہو ۔وقت آنے پر تم اس تلوار ، ترشول کا سب سے پہلا شکار ہوتے۔

اس سے یہ مناظر زیادہ دیر دیکھے نہیں گئے۔وہ واپس گھر آیا ۔اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن دن میں بھلا نیند آسکتی تھی۔ جب سارے گاؤں کو ایک پر ہول سناٹے نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور وہ رہ رہ کر نفرت انگیز ،اشتعال انگیز ،فرقہ پرستی کے زہر میں بجھے نعرے اس سناٹے کے سینے کو چیر رہے ہو۔

ہر نعرے چیخ ،شور کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں۔ نفرت کی آگ کا الاؤ جل چکا تھا۔ یہ آگ اب کس کو جلائے گی؟ کیا کیا غضب ڈھائے گی؟ بس ایک ہی سوال ذہن میں تھا۔






٭
 

الف عین

لائبریرین
رات بڑی بھیانک تھی۔ سارے گاؤں کو ایک پرہول سناٹے نیاپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا۔ لیکن ایسا محسوس ہورہاتھا گاؤں کے ہر گھر سے ایک شور اٹھ رہا ہے ۔ سارے گاؤں پر وحشت طاری تھی۔ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ ماحول میں بہت کچھ کھول رہا ہے۔ ایک لاوے کی طرح۔ ۔ ۔ ایک آتش فشاں کی طرح۔ ۔ ۔ پتہ نہیں کب یہ پھٹ پڑے اور پھٹ کر باہر آجائے او راپنے ساتھ، اپنے راستے میں آنے والی ہر شئے کو جلا کر راکھ کردے۔ اس کی تپش ہر کوئی محسوس کررہا تھا۔

اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ آج دن بھر ٹی وی پر جو مناظر دکھائے گئے تھے اسے لگا ذہنوں میں زہر انڈیلا جارہا ہے۔الاؤ کی لکڑیوں میں تیل ڈالاجارہاہے۔ اور اب الاؤ پوری طرح تیار ہے۔بس اسے آگ بتانے کی دیر ہے۔ اور ایسی آگ بھڑے گی شاید بھی بجھ سکے ۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا۔ یہ گاؤں کیا ۔ ۔ ۔ پورا گجرات۔ ۔ ۔ پورا بھارت ۔ ۔ ۔ اس آگ سے نہیں بچ سکتا۔ وہ اپنے آپ کو بھی اس ماحول میں محفوظ ہے ۔ وہ ایک غیر وابستہ شخص ہے۔ دونوں فرقوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے دونوں فرقوں کے لیے بے ضرر ہے ۔کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ اس کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ لیکن ایک دشمن ہے۔ مہندر بھائی پٹیل ۔اوریہ ایسا دشمن ہے جو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اسے ۱۰۰ آدمیوں سے جتنا خطرہ نہیں ہوسکتا تھا ۔مہندر سے اسے خطرہ محسوس ہورہا تھا۔ و حالات کا فائدہ اٹھاکر اس سے اپنی دشمنی کا حساب چکا سکتا ہے۔ اس لیے اسے اپنی حفاظت کا انتظام کرنا چاہیے۔ اگر مہندر اس پر حملہ کرے تو اسے پورا یقین تھا وہ پانچ مہندروں سے اکیلا مقابلہ کرسکتا ہے۔ لیکن اسے ڈر تھا ۔ ۔ ۔ مہندر اکیلا اس پر حملہ نہیں کرے گا۔ و اپنے گرگوں کے ساتھ اس پر حملہ کرے گا۔ ایسی صورت میں خود کو بچانا اس کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ مہندر جن جن تنظیموں سے وابستہ تھا وہ تمام تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی تھی اور انھوں نے اس قتل عام کے خلاف ’’بھارت بند‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ بی جے پی،آ رایس ایس، وشوہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا سبھی اس بند میں شامل تھیں۔ اور یہ طے تھا بند کامیاب ہونے والا ہے۔

آج بھی دن بھر سارا کاروبار بند ہی رہا۔ کل تو مکمل طور پر بند رہے گا۔ اس بند کی سیاست سے کیا حاصل ہونے والا ہے۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔اس نے اپنے بچپن میں پنجاب میں اس طرح کا بند کئی بار دیکھے تھے۔ جب بھی کوئی آدمی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا جاتا اس کے خلاف اسی طرح کا بند پکارے جاتے تھے۔ بند ناکام بھی ہوتے تھے اورکامیاب بھی ۔لیکن ان سے حاصل کچھ نہیں ہوپاتا تھا نہ مرنے والوں کو نہ مارنے والوں کو۔ اس لیے اسے بند کے نام سے نفرت تھی۔ بہت دنوں کے بعد وہ اسی طرح کا بند کل دیکھنے والا تھا۔ وہ جو ایک غیر وابستہ شخص تھا اس بند سے اتنا خوفزدہ تھا۔ جولوگ اس واقعہ سے وابستہ تھے ان کا کیا حال ہوگا؟اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا گاؤں کے حالات کا جائزہ لیا جائے۔ رات کے ساڑھے دس بجے رہے تھے۔ اکیلے اس طرح گاؤ ں میں نکلنے سے اسے پہلی بار خوف محسوس ہورہا تھا۔ لیکن ہمت کرکے وہ نکل پڑا۔

گاؤں پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لیکن جگہ جگہ دس دس بیس بیس کو ٹولیوں میں گول بیٹھے تھے۔ صلاح و مشورہ کررہے تھے۔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ چونک پڑے ۔ مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگتے پھر جب انھیں محسوس ہوتا یہ ان کے لیے بے ضرر آدمی ہے تو پھراپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ۔منصوبوں اور سرگوشیوں میں ۔

وہ جاوید سے مل کر اس کی حالت جاننا چاہتا تھا۔ مسلم محلوں کی صورت حال دیکھنا چاہتا تھا۔ ۱۵،۲۰ ہزار کی آبادی میں مسلم آبادی مشکل سے ۵۰۰ کے لگ بھگ ہوتی تقریباً ۵۰ ،۶۰ گھر وہ بھی گاؤں ایک کونے میں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ خوف و دہشت سے سمٹے ہوتے ہوہوگے۔محلہ کے نکڑ پر لوگوں کا ایک ہجوم پہرہ دے رہا تھا۔ اسے آتا دیکھ سب چونک پڑے اور انھوں نے اسے گھیر لیا۔

’’ارے جمی ۔ ۔ ۔ تم اتنی رات گئے یہاں کیسے آئے؟‘‘ جاوید اسے دیکھ کر بھیڑ کو چیرتا ہوا اس کے پاس آیا۔

’’آپ کی ،اورآپ کے محلے کی صورت حال کا جائزہ لینے آیا ہوں ۔ ۔ ۔ جاوید بھائی ‘‘اس نے کہا۔

’’ابھی توسب ٹھیک ہے۔ لیکن جو حالات ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کل کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ ‘‘جاوید مایوسی سے بولا۔

’’کیا مطلب؟‘‘وہ بولا ’’آپ کے کہنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘

’’کل کیاہوسکتا ہے کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا‘‘

’’اگر خطرہ ہے تو آپ لوگ اس گاؤں کو چھوڑدیں‘‘

’’گاؤں چھوڑ کر کہا جائیں ۔چاورں طر خطرہ منڈلارہا ہے۔ میں نے آس پاس کے تمام شہروں کی رپورٹیں جمع کرلی ہے۔ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا ہے رہاں بھی وہی ماحول ہے۔ خطرہ ان پر بھی منڈلارہا ہے تو بھلا وہ ہمیں پناہ کیا دیں گے۔ ہم لوگ سینکڑوں سالوں سے اس گاؤں میں آباد ہیں۔ آج تک اس گاؤں کی یہ روایت رہی ہے کہ سارا ہندوستان سلگتا رہا لیکن یہاںکچھ نہیں ہوا۔ خدا کرے یہ روایت قائم رہے ۔ہم اپنی طور پراپنی حفاظت کے لیے ہمارے پاس لکڑیاں بھی نہیں ہے ۔ کچھ دن قبل تلاشی کے نام پر وہ بھی پولیس ضبط کرکے لے جاچکی ہے۔ ‘‘ جاوید بولا ۔

اس نے تمام لوگوں کی طرف دیکھا۔ ہر چہرے پر خوف لہرا رہا تھا۔ آنکھوں میں بے بسی چھائی ہوئی تھی۔ خطروں کے خدشات سے چہرہ تنا ہوا تھا۔

’’جاوید بھائی دن بھر ہم ایک ایک کے چہرے کو پڑھتے رہے ۔کل تک جو ہمارے یار تھے آج ان کی آنکھیں بھی بدلی بدلی ہیں۔ ہر کوئی مہندر کے رنگ میں رنگ گیا اور مہندر کی بولی بولنے لگا ہے۔یہ آثار اچھے نہیں ہیں۔ ‘‘ایک آدمی بولا۔

’’گذشتہ دنوں اس گاؤں میں وہ س کچھ ہوا جو گذشتہ سو سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ ایسا لگ رہاہے جیسے یہ سب پہلے سے طے تھا۔منظم طور پر اس بات کی پوری تیاری کی جارہی تھی ۔ ‘‘دوسرآدمی بولا۔

’’تو ہم کیا کریں؟‘‘

’’ہم حملہ نہیں کرسکتے تو بچاؤ بھی نہیں کرسکتے ۔بچاؤ کے لیے ہمایر پاس لاٹھیاں بھی تو نہیںہے۔‘‘

’’اللہ بہت بڑا ہے ۔وہ سب ٹھیک کردے گا۔‘‘

’’ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے ۔لیکن اس کے بندو پر نہیں۔‘‘

وہ لوگ آپس میں باتیں کررہے تھے اور وہ تماشائی بنا چپ چاپ ایک دوسرے کے چہروں کو دیکھ رہا تھا۔

’’دیکھتے ہونی کو کوئی ٹال سکتا۔اگر اوپر والے نے یہ ہمارے مقدر میں لکھ دیا ہے تو یہ ہوکر رہے اگ دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ اور اپنے اندر اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت جمع کرنی چاہیے ورنا وقت کے آئے گا ہم کچھ بھی نہیں کرپائیں گے۔ صرف جھوٹے خوف کی وجہ سے ہماری جانیں جائیں گی۔ ‘‘جاوید ہر کسی کودلاسہ دے رہا تھا۔

تھوڑی دیر رک ک وہ وہاں سے واپس دوکان کی طرف چل دیا۔ اس بار لوٹا تو چوک پر اسے کئی لوگوں نے گھیر لیا۔
 

الف عین

لائبریرین
’’کیوں سردارجی کہاں سے آرہے ہو؟‘‘

’’مسلمانوں کے محلے سے آرہے ہونا؟‘‘

’’کیا چل رہا وہاں؟‘‘

’’سنا ہے وہاں پاکستان سے ہتھیار آگئے ہیں۔ پورے محلے کا بچہ بچہ مہلک ہتھیاروں سے لیس ہے ۔کل وہ اس گاؤں پر حملہ کردیں گے اور اس گاؤں کا ایک آدمی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ ‘‘کسی نے کہاں۔

’’ان کی پاس پاکستان سے ہتھیار کہاں سے آسکتے ہیں۔ ان کے پاس تو اپنی حفاظت کے لیے لاٹھیاں بھی نہیں ہے۔ ہتھیار توآپ لوگوں کے پاس ہے۔ پاکستان کے ہتھیار کا سوشہ چھوڑ کرآپ لوگوں کو اپنی حفاظت کے لیے مسلح کردیا گیا ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا آپ ان ہتھیاروں سے اپنی حفاظت کریں گے یا حملہ کریں گے ‘‘و ہ بولا۔

’’سالا یہ بھی ان کا طرف دار لگتا ہے۔‘‘کسی نے اس کی بات سن کرجل کر کہا۔

’’دیکھیے واں ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہ لوگ تو خود ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ ‘‘اس نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔

واپس آکر وہ بستر پر لیٹ گیا۔ لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ایسی حالت میں بھلا کسے نیند آسکتی تھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے چاروں طرف ایک الاؤ دہک رہا ہے۔ گاؤں کے چاروں طرف ایک الاؤں دہکا ہوا ہے۔جس کی آگ آگے بڑھ رہی ہے۔ گاؤں کو ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے ۔




٭
 

الف عین

لائبریرین
صبح کے ساتھ بند کا آغاز ہوا تھا۔ بند بڑی عجیب ڈھنگ کا تھا۔ اس نے پہلی بار اس طرح کا بند دیکھا تھا کاروبار تو سب بند تھا۔ لیکن گاؤں کاہر فرد سڑک پر تھا۔ سڑکوں پر جگہ جگہ سینکڑوں کی تعداد میں میں لوگ مجمع کی شکل میں کھڑے تھے۔یابیٹھے تھے۔ اس دن کی اخبارات کی سرخیاں پڑھ کر سنائی جارہی تھیں۔ نیتا قسم کے لوگ فرقہ پرستی کے زہر میں الجھی تقریرں کررہے تھے۔ ٹیلی فون اور موبائل پر دوسرے شہروں سے خبریں موصول ہو رہی تھی۔ ٹی وی پر اس بند کی خبریں بتائی جارہی تھی۔ باربار جلتی ٹرین کے ڈبے ،جلی ہوئی لاشیں، مرنے والوں کے رشتہ داروں کے اشتعال انگیز بینات، لیڈروں کے زہریلے ،اشتعال انگیز تبصرے اور جگہ جگہ بند کے اثرات کا لائیو ٹیلی کاسٹ۔ ۔ ۔ ہاتھوں میں ننگی تلواریں۔ ترشول،ماتھے پر بھگوا کپڑا باندھے اشتعال انگیز نعرے لگاتے سڑکوں سے گذرنے والے جلوس کی تقریرں ۔

اچانک جلوس کی نظر سڑک کے کنارے بنے ایک کیبن پر پڑتی ہے جس پر لکھا ہے فیروز الیکٹرک ورکس۔ جلوس اس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ کیبن الٹ دیا جاتا ہے کیبن کے چیزوں کو پیروں سے کچلا جاتا ہے۔ توڑا جاتا ہے۔ سڑک کے وسط میں آکر اسے آگ لگادی جاتی ہے۔

ایک آٹو رکشا پر ’’ھذا من فضل ربی‘‘لکھا ہے۔ اسے بیچ سڑک پر الٹ دیا جاتا ہے۔ اس پر پیٹرول چھڑک کر اس پر آگ لگادی جاتی ہے۔

ایک گذرتی ہوئی جیپ کو روکا جاتا ہے۔ اس پر ۷۸۶ لکھا ہے۔ اس کے ڈرائیورکو جیپ کے نیچے اتار ا جاتا ہے اورپورا مجمع اس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ کچھ لوگ جیپ کو الٹ دیتے ہیں۔ اوراس پر پیٹرول چھڑک کر اس میں آگ لگادیتے ہیں۔جیپ کے زخمی ڈراےؤر کواس جلتی ہوئی جیپ میں ڈال دیا جاتا ہے۔

سینکڑوں لوگوں کا ٹولہ بند دوکانوں کے نام دیکھ دیکھ کر انھیں توڑتے پھوڑتے ہیں۔ ان کا سامان لوٹتے ہیں اور سامان کو سڑک کے وسط میں لاکر آ لگادیتے ہیں۔ دوکانوں پر پیٹرول چھڑک کر ان پر آگ لگائی جارہی ہے۔

یہ تمام مناظر ٹی وی پر دکھائے جاہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ان کا کام مناظر کو دکھاکر ایک طرح سے اشارہ دیا جارہا ہے۔ اور لوگ اس اشارے کو سمجھ رہے تھے۔ اور پھر ہر جگہ اسی طرح کے واقعات دہرائے جانے لگے۔ چوک پر جمع لوگوں کی بھیڑ نے ایک اشتعال انگیز فلک شگاف نعرہ لگایا ۔

’’ہر ہر مہادیو‘‘

’’جئے بجرنگ بلی‘‘

’’جی شری رام ‘‘

اور دوسرے ہی لمحہ پورا مجمع چوک کی دوکانوں پر ٹوٹ پڑا۔ کچھ لوگ چھوٹی چھوٹی دوکانوں پر ٹوٹ پڑے تو باقی بڑے مجمع نے سیف ہوٹل اور اقصیٰ کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کو نشانہ بنایا۔ لوہے کی سلاخوں سے سیل سیف ہوٹل کے شٹروں کو توڑا گیا ۔اور ان ہی لوہے کی سلاخوں سے ہوٹل کا سامان توڑا پھوڑا جانے لا۔ لکڑیوں کے سامان کو سڑک کے درمیان لاکر آگ لگائی جانے لگی۔ ہوٹل میں تیل چھڑک کر اسے آگ لگادی گئی ۔کچھ قیمتی سامان لٹیروں کے ہاتھ لگ گیا وہ اسے لوٹ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف لے جانے لگے۔ وہ دوکان سے جیسے ہی چوک کی طرف آیا تھا اس نے سب سے پہلے یہ مناظر دیکھے تھے۔

سیف ہوٹل تو جل رہی تھی۔ اب اقصیٰ کمپیوٹرس کو توڑنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس کے دل میں آیا کے وہ آگے بڑھ کر مجمع کو ایسا کرنے سے روکے لیکن ہزاروں افراد پر مشتمل مجمع کو و ہ اکیلا کیسے روک سکتا تھا۔

لوہے کی سلاخوں سے شٹر توڑ دےئے گئے۔ تھے۔ اب ان سلاخوں سے اندر کی کانچ اور فرنیچرتوڑا جارہا تھا۔ کمپیوٹر کے مانیٹر اور سی پی یو سروں پر اٹھا کر زمین پر پٹخا جارہا تھا ۔ اور انھیں پیروں تلے روندہ جارہا تھا۔ لوہے کی سلاخوں سے ان پر ضرب لگا کر ان کے ٹکڑے کیے جارہے تھے۔ ایک ۔ ۔ ۔ دو۔ ۔ ۔ تین ۔ ۔ ۔ چار ۔ ۔ ۔ دس ۔ ۔ ۔ بیس ۔ ۔ ۔ پچیس۔ ۔ ۔ سارے کمپیوٹر س بتاہ کردئے گئے تھے۔ سارا سامان نیست و نابود کیاجاچکا تھا۔ جاوید کے آفس کو تہس نہس کیا جارہا تھا۔ سامان جمع کرکے سڑک کے وسط میں لے جایاجارہا تھا۔ اور ان پر پیٹرول تیل انڈیل کر اس میں آگ لگائی جارہی تھی۔ پھر پورے کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کے سامان پر تیل چھڑک کر اس میں آگ لگادی گئی۔

اقصیٰ انسٹی ٹیوٹ جل رہا تھا۔ وہ انسٹی ٹیوٹ جو علم کا گھر تھا۔ جہاں گاؤں کے بچے کمپیوٹر کا علم سیکھتے تھے۔ جو ساری دنیا میں بسے گاؤں کے لوگوں سے رابطہ کا ایک مرکز تھا۔ جہاں انٹرنیٹ کے ذریعے ،ایمیل اور چیٹنگ کے ذریعے لوگ غیر ممالک میں آباد اپنے رشتہ داروں ،عزیزوں سے پل بھر میں رابطہ قائم کرکے خیالات کا تبادلہ کرتے تھے۔ اسی رابطہ کے مرکز کو جلا کر خاک کردیا گیا تھا۔ کوئی بھی روکنے والا نہیں تھا۔

دوتین دنوں تک پورا گاؤں پولیس کی چھاؤنی بنا ہوا تھا۔ لیکن اس وقت کوئی بھی قانون کا رکھوالا سڑک پر دکھائی نہیں دے رہا تھا جو مجمع کو ایسا کرنے سے روکے۔ چوک کی مسلمانوں کی چھوٹی بڑی دوکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور انھیں نیست و نابود کرکے جلاکر خاک کرکے مجمع اشتعال انگیز نعرے لگاتا آگے بڑھا۔ اس کا رخ مسلمانوں کے محلے کی طرف تھا۔ راستہ میں جو بھی مسلمان دکھائی دیتا مجمع نعرے لگاتا اسپر ٹوٹ پڑتا۔ اسے تلواروں اور ترشول سے چھید کر ایک لمحے میں ہی لاش میں تبدیل کردیا جاتا تھا۔ راستہ میں جو اکادکا مسلمان کے مکانام ملتے مجمع اس پر پڑتا ۔دروازے توڑکر ان کے مکینوں کو باہر نکالا جاتا اور انھیں ترشولوں کی نوک پر لے لیا جاتا ۔ عورتوں ،لڑکیوں پر کئی وحشی ٹوٹ پڑتے ۔معصوم چھوٹے بچوں کو فٹبال کی طرح ہوا میں اچھالا جاتا ۔گھروں کو آگ لگادی جاتی۔ اور پھر اس آگ میں ترشول سے چھلنی جمسوں کو جھونک دیا جاتا ۔معصوم بچوں کو ترشول کی نوک پر روک کر انھیں آگ میں اچھالا دیا جاتا تھا۔ مجمع جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا ۔ اپنے پیچھے آگ، خون، لاشوں کو چھوڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔

مسلمانوں کے محلے کے پاس پہنچ کر مجمع رک گیا۔نکڑ پر سو کے قریب مسلمان ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے کھڑے تھے۔ ان کے مدمقابل ۲ہزار سے زائد کا مجمع تھا۔ اس کو دیکھ کر ہی سب کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ لیکن سامنا تو کرنا تھا۔ دونوں طرف سے پتھراؤشروع ہوگیا۔ سامنے سے چالیس پچاس پتھر آئے تو ادھر سے سو دو سو پتھر ان کی طرف بڑھے ۔ پتھراؤ میں کئی لوگ زخمی ہوکر میدان چھوڑگئے۔ باقی پر مجمع اس طرح ٹوٹا جیسے گدھ کسی لاش پر ٹوٹتے ہیں۔ دوبدو مقابلے کا نظارہ ہی نہۃیں تھا۔ ایک ایک آدمی کو بیس بیس، پچیس پچیس آدمیوں نے گھیر رکھا تھا۔ اوراس پرچاروں طرف سے لاٹھیاں، تلواروں اور ترشولوں سے حملہ ہورہا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس کی لاش زمین پر گری تو اس کے مردہ جسم میں ترشولوں اور تلواروں کو گاڑ کر فتح کا جشن منایا جاتا ۔تھوڑی دیر بعد کوئی بھی مقابلہ کرنے والا نکڑ پر نہیں بچا تھا۔ تمام مقابلہ کرنے والوں کی یا تو لاشیں وہاں پڑی تھیں یا پھر زخمی ۃوکر وہ جا بچا کر بھاگ گئے تھے۔

اب مجمع پورے محلے پر ٹوٹ پڑا تھا۔ ایک ایک گھر پر سوسو سے زائد افراد ٹوٹو پڑے ۔ دروازے توڑے جاتے ۔مکان کے مکینوں کو مکان سے باہر کھینچ نکالا جاتا ۔ان کو ترشولوں سے چھلنی کردیا جاتا ۔ بچوں کو ترشولوں پر اچھالا جاتا۔عورتوں اور لڑکیوں پر بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑتے۔

چاروں طرف شور،شیطانی نعروں کی گونج ،عورتوں کی چیخ و پکار ،بچوں کے رونے کی آواز ، مرنے والوں کی آخری چیخیں گونج رہی تھی۔ جو دروازے نہیں ٹوٹ پاتے ۔ان مکانوں پر تیل چھڑک کر انھیں آگ لگادی جاتی۔ جوان عورتوں اور بچوں کو سرے عام ننگا کرکے ان سے زنا کیا جاتا ۔مجمع وحشی بنا۔ اس منظر سے لطف اندوز ہوکر شیطانی قہقہے لگاتا۔ حاملہ عورتوں ک پیٹوں کو چاک کرکے ان سے نو زائید بچوں کو نکال کر آگ میں جھونک دیا جاتا۔

سب گھر کر رہ گئے تھے۔ ان سے بچنا محال تھا۔ گھروں میں آگ لگائی جارہی تھی۔ جلتے گھروں میں لوگ زندہ جل رہے تھے۔ گھٹ کر مررہے تھے۔ جو گول جان بچانے کے لیے جلتے گھروں سے باہر آنے کی کوشش کرتے انھیں ترشول کی نوک سے جلتے گھروں میں واپس ڈھکیلا جاتا۔ عجیب منظر تھا۔ ایسا منظر تو فلموں میں بھی آج تک دکھایا نہیں گیاتھا۔ہلاکوں اورچنگیز پر بنائی فلموں میں بھی اس طرح کے مناظر دھکانے کی جرأت دنیا کے کسی فلم ڈائریکٹر نے نہیں کی تھی۔

وہ مناظر اپنی آنکھوں سے پورا مجمع دیکھ رہا تھا۔ لیکن کسی کا دل نہیں پگھل رہا تھا ،نہ کسی کے چہرے پر اپنے ان گھناؤنے کاموں کی وجہ سے مذامت کی پرچھائی لہرارہی تھیں۔ وحشت کا ننگا ناچ ناچ کر وہ ایک روحانی مسرت حاصل کررہے تھے۔جیساانھیں عبادت کرکے ایک ازلی سکون مل رہا ہو۔ ان کے چہروں پر رحشیاہ فاتح جذبہ رقص کررہا تھا۔ آدھا مجمع گھروں کو جلانے اور لوگوں کو لاشوں میں تبدیل کرنے میں مصروف تھا تو باقی آدھے مجمع نے مسجد پر دھاوا بول دیا۔

مسجد کے پیش امام اور موذن کی لا شیں بس سے پہلے گریں اوران کے خون سے مسجد کا فرش سیراب ہونے لگا۔ اس کے مسجد کو تباہ کیا جانے لگا مسجد کے نقش و نگار تو مسخ کیا جانے لگا۔ مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ اور اس کے ممبر پر ہنومان جی کی مورتی رکھ دی گئی۔ کسی نے ایک گھنٹا لاکر ٹوٹی ہوئی مسجد میں باندھ دیا۔ زور ور سے گھنٹا بجایا جانے لا۔ اور ہنومان چالیسا پڑھاجانے لگا اور آرتی گائی جانے لگی۔ اور ہنومان کی پوجا کی جانے لگی۔
 

الف عین

لائبریرین
اس کے بعد ایک حصہ پیر بابا کی درگاہ کی طرف بڑھا۔ درگاہ ویران تھی۔ جو کوئی بھی درگاہ پر رہتا تھا وہ وہاں سے بھاگ گیا تھا۔ مجمع نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے بیلچوں ،کدالوں سے درگاہ کو مسمار کرنا شروع کردیا جس کسی مکان کو مسمار کیا جاتا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے درگاہ مسمار کردی گئی۔درگاہ مسمار کرکے زمین بنادی گئی۔ جیسے وہاں کبھی درگاہ کانام ونشان نہ رہا ہو۔

وہ اپنی انکھوں سے یہ ہیبت ناک مناظر دیکھ رہاتھا۔ وہ مجمع کے ساتھ ساتھ تھا۔ لیکن ایک تماشائی کی طرح ۔کئی مناظر تو ایسے بھی آئے کے اس کی آنکھوں میں ان مناظر کو دیکھنے کی تاب نہ رہی ۔اس نے اپنی آنکھوں بند کرلیں یا پھر وہ وہاں سے واپس جانے لگا۔ لیکن مجمع میں شامل لوگوں نے اسے روک لیا۔

’’سردارجی۔ ۔ ۔ اتنی جلدی گھبراگئے ۔سکھ تو شیر ہوتے ہیں۔ اپنے ناموں کے آگے شیر کا نام لگاتے ہیں۔ لیکن تم تو گیڈر ثابت ہوئے۔ہم جو کررہے ہیں تم اسے دیکھ نہیں پارہے ہو۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ارے ہم گھاس پتّہ کھانے والے جنھوں نے کبھی ماس اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ اور تم تو اپنی کرپان سے ایک جھٹکے سے بکرے کا سر الگ کرتے ہو۔ تم نہیں یہ سب دیکھ پارہے ہو؟ ‘‘

ان کے علاوہ کئی طرح کے رقیق طعنے ۔اورکوئی موقع ہوتا تو وہ غصے میں اپنی کرپان نکال کر ان پر ٹوٹ پڑتا۔ لیکن اس نے ضبط سے کام لیا۔ یہ موقع ایسا نہیں تھا ک جذبات سے کام لیاجائے۔ اگر اس نے جذبات سے کام لیا تو اس کا انجام بھی وہی ہونے والا تھا جو اب تک سینکڑوں لوگوں کا ہوچکاتھا ۔لیکن کہاں تک بھاگتا ۔چاروں طرف وحشی پھیلے ہوئے تھے۔ اس طرح کی کئی شیطانی ٹولیاں شیطان کو خوش کرنے کے لیے شیطانی کاموں میں مصروف تھی۔ ہر ٹولی مارکاٹ کررہی تھی۔ لاشیں گرارہی تھی۔ گھروں کو جلارہی تھی۔ لوٹ مار کررہی تھی۔ آگ میں لاشیں گرارہی تھی۔ گھروںکو جلا رہی تھی۔ لوٹ مار کررہی تھی۔ آگ میں لوگوں کو زندہ جلا رہی تھی۔ عورتوں کی عصمت دری کررہی تھیں۔ بوڑھیوں کو ننگا کرکے بے عزت کیا جارہا تھا۔

سارا گاؤں وحشی ہوگیا تھا۔ وحشت کا ننگا ناچ ناچنے والوں میں اگر سارا گاؤں شامل نہیں تھا تو سارا گاؤں تماشائی تو بنا ہوا تھا۔گاؤں کے کسی بھی فرد میں ہمت نہیں تھی کہ ان وحشیوں کو ایسا کرنے سے روکے۔ نہ کسی کے دل میں ایسا جذبہ پیدا ہورہا تھا کہ یہ انسانیت سوز واقعات کے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے اڑجائے۔

سڑکوں پر جگہ جگہ مسخ شدہ ،زخمی خوردہ لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔ جلتے گھروں سے گوشت کے جلنے کی بدبو اٹھ رہی تھی جو اس بات کی ثبوت تھا کہ اس آگ میں انسانی جسم جل رہے ہیں۔ جب وہ لاشوں کو غور سے دیکھتا تو اسے وہ چہرے شناسا سے لگتے ۔

’’ارے یہ لڑکا تو رکشا چلاتا تھا۔ ۔ ۔ یہ تو سڑک ڈرائیور ہے۔ اکثر گریس یا آئل لینے کے لیے میری دوکان پر آتا تھا۔ ۔ ۔ ارے یہ تو اس دوکان کا مالک ہے۔ ۔ ۔ ارے یہ لڑکا روزانہ میرے سامنے اسکول جاتا تھا۔ ۔ ۔ اس بوڑھے کو اکثر میں نے پیر بابا کے مزار پر بیٹھا ہوا دیکھا ہوں ۔ ۔ ۔ یہ بوڑھی عورت تو گلیوں میں جامن اور دوسرے دوسرے پھل بیچی کرتی تھی۔ ۔ ۔ یہ عورت تو پاگل ہے پاگلوں کی طرح سارے گاؤں میں گھومتی رہتی تھی۔

جلے ہوئے گھر اور دوکانیں بھی اپنی کہانیاں کہتے تھے۔ اس دوکان پرتازہ دودھ ملتا تھا۔ ۔ ۔ یہ دوکان کرانے کی دوکان تھی۔ ۔ ۔ یہ اسٹیشنری کی دوکان تھی۔ ۔ ۔ یہاں یہ اسکول کی کتابیں اور کاپیاں ملتی تھی۔ ۔ ۔ اس چائے کی ہوٹل کی چائے بڑی مشہور تھی۔ ۔ ۔ لوگ اس ہوٹل کی چائے پینے دوردور سے آتے تھے۔

لاشوں اور جلے ہوئے گھروں اور دوکانوں کو دیکھتے ہوئے اس پرایک بڑی ہی عجیب سی بے چینی اور وحشت چھائی ہوئی تھی۔ وہ صرف ایک فرد کے بارے میں جاننا چاہتا تھا ۔جاوید ۔ ۔ ۔ جاوید کہا ںہے۔ وہ اس کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ اس وحشیانہ تانڈو میں اسے جاوید کہیں دکھائی نہیں دیا تھا۔ کیاوہ کسی جلتے ہوئے گھر میں جل کر ختم ہوگیایا پھر کسی طرح اپنی جان بچا کر اس گاؤں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ لوگوں کی باتوں سے تو پتہ چل رہا تھا بہت کم لوگ اپنی جانیں بچا کر بھاگ پائے ہیں۔

ایک جیپ کا قصہ ہر کسی کی زبان پر تھا ۔ایک آدمی اپنی جیپ میں اپنے پورے خاندان کو لے کر گاؤں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن دوسرے گاؤں ک سرحد پر دھر لیاگیا ۔اور وہاں پھر بھی وحشت کا ننگا ناچ ناچنے والے وحشیوں نے اس کے سارے خاندان کو ختم کرکے جیپ میں آگ لگادی اسے زند جلا دیا۔

اگر جاوید کسی طرح گاؤں سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوا تو وہ وحشیوں سے کہاں کہاں بچ سکے پائے گا ۔چاروں طرف تو وحشی پھیلے ہوئے تھے۔ لیکن اس کی یہ تمام امیدیں دھری کی دھری رہ گئی۔ اسے سڑک کے درمیان ایک لاش دکھائی دیں۔ جو منہ کے بل پڑی تھی۔ اسے اس لاش کے کپڑے کچھ شناسا سے محسوس ہوئے اس نے جیسے ہی اس لاش کو سیدھا کیا اس کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکل گئی۔ ’’جاوید بھائی‘‘ یہ جاوید کی لاش تھی۔ اس کا سارا جسم ترشولوں سے چھلنی تھا۔ اور پورے جسم پر تلوارکے گھاؤ تھے۔ چہر پر کرب کے تاثرات ،جیسے مرنے سے پہلے اس نے کڑا مقابلہ کیا ہواور کڑی اذیت سہی ہو۔ جس کے لیے وہ اپنی دوکان سے نکل کر ان وحشیوں کے ساتھ تماشائی بنا ان کی وحشت کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ اس آدمی کی لاش اس کے سامنے تھی ۔و ہ لاش کے پاس بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔آتے جاتے لوگ اسے روتا دیکھ کر کھڑے ہوجاتے اور کبھی حیرت سے لاش کو تو کبھی اس کو دیکھنے لگتے۔

پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ جاوید کی لاش کے پاس بیٹھا آنسو بہاتا رہا۔ پھر اٹھ کر بوجھل قدموں سے چپ چاپ اپنی دوکان کی طرف چل دیا۔



٭
 

الف عین

لائبریرین
مدھو اپنے سہ منزلہ مکان کے تیسرے منزل کی گیلری میں کھڑی گاؤں میں جاری آگ اور خون کے کھیل کو دیکھ رہی تھی۔ سارے گاؤں پر دھوئیں کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ جو لمحہ لمحہ گہرے ہوتے جارہے تھے۔ فلک شگاف وحشیانہ نعروں ، درد تکلیف ، بے بسی میں ڈوبتی چیخوں ، آہ و پکار سے ماحول میں ایک بے ہنگامہ شور پیدا ہورہا تھا۔ کئی ٹولیاں ہاتھوں میں ننگی تلواریں ، ترشول لیے وحشیانہ نعرے لگاتے گلیوں سے گذررہے تھے اور مار کاٹ کررہے تھے۔

اس مکان کے آپ پاس کئی مکانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ تو کئی مکانوں سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ ماحول میں بسی انسانی گوشت کے جلنے کی بدبو اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ اس آگ میں پتہ نہیں کتنے انسانی جسم جل رہے ہیں۔ لو گ وحشیوں کی طرح نہتے اکلوتے انسانوں پر ٹوٹ پڑتے اور اَن کی اَن میں جیتے جاگتے انسان کو مردہ لاش میں تبدیل کردیتے ۔ اس نے اپنی آنکھوں سے ایسے خوفناک مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اگر وہ کسی زخمی بھی دیکھ لیتی تو اس کے جسم میں بہتا خون دیکھ کر اسے چکر آنے لگتے تھے۔لیکن وہی اپنی آنکھوں سے لاشوں کو سڑکوں پر گرتی دیکھ رہی تھی۔ انسانوں کو آگ میں زندہ جلتی دیکھ رہی تھیں ۔اپنی آنکھوں سے عورتوں کے عصمتیں تاراج ہوتی دیکھ رہی تھی۔

وحشی درندے بربربیت کا ننگا ناچ رہے رہے تھے۔ ان کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہر ٹولی کے ساتھ مہندر بھائی پٹیل تھا۔ ہر خون خرابے ،آتش زنی میں وہ پیش پیش تھا۔ اس کے کالے کرتوت کو دیکھ کر اس کے دل میں مہندر کے لیے نفرت بڑھتی جارہی تھی۔ اس کا دل جان رہا تھا وہ بھی اپنے ہاتھوں میں کوئی تلوار یا ترشول اٹھائے اور اس تلوار یا ترشول سے مہندر کا سر قلم کردے۔ یاترشول سے مہندر کے سارے جسم کو چھید کر اسے تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے زندہ چھوڑ دے۔

اس کے ماں باپ نیچے منزل پرتھے۔ اس کے پورے مکان میں وہی تین افراد تھے۔ وہ اور اس کے ماں باپ ایک بہن کی شادی ہوگئی تھی اور بھائی باہر رہتے تھا۔ یہ ہنگامہ شروع ہوا تو اس کے پتاجی نے اسے اوپر جانے کے لیے کہا اور خود نچلی منزل پر دروازہ بند کرکے کھڑکیوں سے اس خونی ہنگامے کو دیکھنے لگے۔

’’کیوں۔ ۔ ۔ زندگی میں پہلی بار اس قسم کے نظارے دیکھ رہی ہو نا؟ دیکھا آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں کتنا مزہ آتا ہے۔‘‘ اچانک آواز سن کر وہ چونک پڑی۔

وہ اس طرح تیزی سے مڑی جیسے کسی بچھو نے اسے ڈنک لیاہو۔ پلٹنے سے قبل اس نے جو اندازہ لگایا تھا وہ اندازہ مجسم اس کے سامنے تھا۔ اس کے سامنے مہندر بھائی پٹیل کھڑا تھا۔ ’’تم ؟‘‘وہ اسے نفرت سے دیکھتی بولی۔

’’ہاں ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ دیکھا میرا کھیل ۔ ۔ ۔ ان ملچھ مسلمانوں سے چن چن کر بدلے لے رہا ہوں۔ ‘‘مہندر شیطانی ہنسی ہنستا ہوا بولا۔

’’شیطان کے پاس طاقت بہت ہوتی ہے لیکن جب اس کا وقت آتا ہے تو ایک معمولی بچہ بھی اسے اس کے انجام کو پہنچا دیتا ہے۔ ‘‘

’’میری طاقت امر ہے۔ کتنی تنظیمیں ہیں میرے ساتھ۔میری طاقت کی کوئی انتہا نہیں۔ بی جے پی،آر ایس ایس ، بجرنگ دل، وشوہندو پریشد سب میرے غلام ہیں۔ میرے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ میرے ایک اشارے پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔‘‘

’’تم یہ بتاؤ یہاں کیوں آئے ‘‘وہ نفرت سے بولی۔

’’تمہیں یہ سمجھانے کے تم اس سردارجی کا خیال اپنے دل سے نکال کر میری ہوجاؤ۔ ورنا میں توتمہیں پاکر رہوں گا تمہارے اس سردارجی کا وہ حشر کروں گا کہ اسے سن کر دنیا کانپ اٹھے گی۔ ‘‘مہندر بولا ۔

’’مرنے کے بعد بھی میں تمہارے بارے میں سوچ نہیں سکتی تو جیتے جی تمہارے بارے میں کیا سوچوں گی۔اور جیتے جی تو چھوڑومرنے کے بعد بھی میرے دل سے جمی کا خیال نکال نہیں سکتا۔ یہ جسم ،روح میرا سب کچھ جمی کا ہے۔ میرے جسم ، روح ہر چیز پر جمی کا حق ہے۔ تمہارے جیسے کُتے اسے چھو بھی نہیں سکتے۔ ‘‘

’’ضد نہ کرو مان جاؤ۔ ۔ ۔ مجھے غصہ مت دلاؤ۔ ۔ ۔ ورنا ۔ ۔ ۔ جمی کو تمہاری زندگی سے س طرح نکالا جائے مجھے خوب اچھی طرح آتا ہے۔ جس جمی پر تمہیں اتنا ناز ہے ، فخر ہے ۔ ۔ ۔ وہ جمی تمہاری زندگی سے اس طرح نکل جائے گا کہ تمہاری صورت پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’جیتے جی تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مہندر ۔ ۔ ۔ جیتے جی تو ہم ایک دوسرے سے جدا نانہیں ہوسکتے شاید موت ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردے ۔تم ہم دونوں کو جدا ہی کرنا چاہتے ہونا ۔ ۔ ۔ تو آؤ۔ ۔ ۔ میرا لگا گھونٹ دو۔ ۔ ۔ اپنے ترشول ، تلوار میری جان لے لو۔ تمہاری تمنا پوری ہوجائے گی۔ میں اور جمی جدا ہوجائیں گے۔ ‘‘وہ بولی۔

’’میں تم دونوں کو اس طرح جدا نہیں کروں گا۔‘‘مہندر زہریلی ہنسی ہنستا ہوا بولا۔ ’’تم دونوں کو کچھ اس طرح جدا کروں گا کہ تم دونوں زندہ تو رہوگے لیکن ایک دوسرے کو اپنی صورت دکھانے کے قابل نہیں رہوگے ۔تاحیات ایک دوسرے کی صورت دیکھنا بھی پسند نہیں کرو گے ۔آج جو ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھارہے ہو۔ ۔ ۔ خواب دیکھ رہے ہو۔ ۔ ۔ اس کے بعد ایک دوسرے کی پرچھائی سے بھی نفرت کرنے لگوگے ۔ ‘‘

’’پانی میں لکڑی مارنے سے پانی جدا نہیں ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مہندر ۔ ۔ ۔ سکو تو ہمیں جدا کرنے کے لیے تمہارے پاس جو بھ ترکیب ہے آزما لو۔ جو ستم ہم پر کرنا ہے کرلو۔ پھر بھی ہم ایک دوسرے کے ہی رہیں گے۔ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ ‘‘

اس کی بات سن کر مہندر کے چہرے پرغصے کے تاثرات ابھر آئے۔ ’’مجھے پتے تھا تمہارا یہی جواب ہوگا۔ تم اس سردارجی کے پیچھے ایسی دیوانی ہوئی ہو کہ تمہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔ اس لیے میں پورے انتظام سے آیا ہوں۔تمہارے ماں باپ کو میں نے نیچے کے کمرے میں بند کردیا ہوں۔ اب کوئی بھی اوپر نہیں آسکتا ۔ اگر تم چیخو چلاؤ بھی تو تمہاری مدد کو کوئی نہیں آنے والا ۔ کیوں کہ چاروں طرف چیخیں ہی چیخیں بکھری ہوئی ہیں۔ اب میں تمہارے ساتھ سہاگ رات مناؤں گا۔ تمہارے جسم سے کھیلوں گا ۔تمہارے جسم کے ایک ایک حصے سے لذت حاصل کروں گا۔ اور تمہیں کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رکھوں گا۔ اور اس کے بعد پھر میں اپنی زندگی کے اسی سب سے زیادہ لذت ناک تجربہ کا ایک ایک لفظ جاکر تمہارے عاشق جمی کو سناؤں گا ۔ تم ہی سوچو ۔میرے اس لذت ناک تجربے کی روداد سن کر تمہارے عاشق کے دل پر کیا بیتے گی۔ تمہارے جسم کے جس حصے کو چھونے کی کوشش کرے گا۔ وہاں اسے میرا چہرہ دکھائی دیگا ۔وہ حصہ اسے میری لذت کی داستان کی کہانی سنائے گا۔ آہا۔ ۔ ۔ آہا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’نہیں ‘‘مہندر کی بات سن کر وہ کانپ اٹھی ۔تم ایسا نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ تم ایسا نہیں کرسکتے۔

’’میں ایسا ہی کرنے آیا ہوں ایسا کرنے کے بعد تم جمی کے قابل نہیں رہوگی۔ جمی تمہاری صورت دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ اس کے بعد تم میرے پیرو پر گر کر خود کو اپنانے کی بھیک مانگوں گی۔ اور میں تمہیں اپناؤ۔ں گا ۔لیکن تمہیں اپنی بیاہتا بناکر نہیں رکھوں گا ۔ رکھیل بنا کر رکھوں گا اور زندگی بھر تمہارے جسم سے کھیلتا رہوں گا۔ ‘‘ کہہ کر وہ اس پر ٹوٹ پڑا۔

’’نہیں ‘‘وہ چیخی۔لیکن اس کی چیخ کو سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ’’بچاؤ۔ ۔ ۔ بچاؤ۔ ۔ ۔ ‘‘اس نے مدد کے لیے لوگوں کو پکارا۔ لیکن جب چاروں طرف لوگ خود عصمتیں لوٹنے میں مصروف تھے کو بھلا اس کی عصمت بچانے اس کی مدد کو کون آتا ۔

اس کے اور مہندرکے درمیان چھینا جھپٹی جارہی تھی۔ ہر چھینا جھپٹی کے ساتھ اس کے جسم سے ایک کپڑا اترتا تھا،یا تارتار ہوتا تھا۔ وہ کسی وحشی درندے کی چنگل میں پھنسی ہرنی کی طرح ادھر اُدھر دوڑ رتی پھر رہی تھی۔ اس کے جسم سے کپڑے کم سے کم ہوتے جارہے تھے۔ اس کا جوان مدھ ماتا شریر مہندر کے جسم میں ہوس کی آگ بھڑکا کر اور اسے دیوانہ کررہا تھا۔

آخر وہ بے بس ہوکر ٹوٹ گئی۔ مہندر کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا اور اس کے جسم کو نوچنے لگا۔ وہ اس کے جسم کے ایک ایک انگ کو نوچ رہا تھا۔





٭
 

الف عین

لائبریرین
دن بھر رات بھر وحشت کا ننگا ناچ جاری رہا۔ جوہولناک واقعات وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس سے بھی زیادہ وحشت ناک واقعات ہوتے تھے جن کو سن کر کلیجہ کانپ اٹھتا تھا۔ رات سناٹے کو چیر کر بے بسوں کی دردبھری چیخیں فضا کے سینے میں دفن ہوتی رہیں۔ دھوئیں کے بادل سارے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لیے رہے۔ جگہ جگہ سے آگ کی لپٹیں اٹھتی دکھائی دے رہی ۔رات بھر وہ سونہیں سکا۔

گیلری میں کھڑا اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گاؤں کو دیکھتا رہا۔ کبھی دل گھبرا جاتا تو آکر بستر پر لیٹ جاتا۔ لیکن پھر بھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے زندگی میں ایسا منظر پہلی بار دیکھا تھا۔ اس نے اپنے بزرگوں سے ایسے مناظر کی کہانیاں سنی تھیں۔ لیکن یہ مناظر تو ان سے بھی زیادہ ہولناک تھے۔ انسانوں کی جان لینے کے لیے ایسے ایسے وحشیانہ طریقوں کا استعمال کیا گیا تھا ۔ جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

پو ٹھنے کے بعد بھی دھماکے، چیخیں گونجتی رہی۔ وہ بستر پر لیٹا تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دستک سن کر اس کا دل دہل اٹھا۔ ایسے ماحول میں ایسے ماحول میں کون اس سے ملنے کے لیے آسکتا ہے ؟ کانپتے دل سے اس نے دروازہ کھولا تو دروازے میں مدھو کو کھڑی دیکھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا۔

’’مدھو تم ؟ اس وقت یہاں ؟‘‘

مدھو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اندر آئی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’مدھو کیا بات ہے کیا ہوا ؟ ‘‘وہ مدھو کوروتا دیکھ کر گھبرا گیا۔ اور اس سے پوچھنے لگا۔ مدھو نے اس بار بھی اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ اور اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپاتے دہاڑے مار مار کر روتی رہی۔ ’’مدھو کیا بات ہے تم بتاتی کیوں نہیں ؟ ‘‘ مدھو کا رونا دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں ۔اور آنکھوں کے سامنے ااندھیرا چھاتا جارہا تھا۔ ’’تم اس وقت ایسے حالات میں یہاں آئی ہو؟ تمہیں ایسے حالات میں تو اپنے گھر سے بھی باہرنہیں نکلنا چاہیے تھا۔ سارا گاؤں وحشیوں سے بھرا پرا ہے ۔سارا گاؤں وحشی درندہ بن گیا ہے۔ کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہے۔ ‘‘

’’جمی ۔ ۔ ۔ میں لٹ گئی۔ ۔ ۔ میں برباد ہوگئی ۔میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ ایک درندے نے مجھے کسی قابل نہیں چھوڑا ۔‘‘وہ زورزور سے دہاڑے مارمار کر رونے لگی ۔

اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔اور آنکھوں کے سامنے کا اندھیرا کچھ زیادہ ہی گہرا ہوگیا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا مدھو کیا کہہ رہی ہے۔ یا کیا کہنا چاہتی ہے۔

’’مدھو تم کیا کہہ رہی ہو۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ‘‘

’’جمی ۔ ۔ ۔ مجھے مہندر نے برباد کردیا۔ اس نے میرے ساتھ ریپ کیا ہے۔ میری عصمت دری کی ہے۔ یہ کہہ کرکہ اب میں تمہارے قابل نہیں رہوں گی ۔اس کے بعد تم میری طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھو گے۔ ‘‘ مدھو روتی ہوئی بولی۔

اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بارود خانے کی سادی بارود اس کے دماغ میں پھٹ پڑی ہے۔ ساری گاؤں میں لگی آگ اس کے وجود میں آکر سماگئی ہے۔ اس کے ذہن میں مسلسل دھماکے ہورہے تھے۔ اور وجودجل رہا تھا۔ آنکھیں دہک رہی تھیں۔ اور ان دہکتی آنکھوں سے وہ اس منظر کو دیکھ رہا تھاجسے مدھو نے بیان کیا تھا۔

’’جمی ۔ ۔ ۔ مہندر بہت کمینہ ہے۔ سارے گاؤں میں اس نے آگ لگائی ۔ ۔ ۔ ہر ذلیل گھناؤنا کام کیا ۔ ۔ ۔ اور آخر میں مجھے بھی نہیں چھوڑا ۔میرے ماں باپ کو اس نے ایک کمرے میں بد کردیا اور اوپر چلا آیا۔ میں بہت چیخی چلائی ۔میں نے مدد کے لیے سارے گاؤں کا بلایا ۔ ۔ ۔ لیکن جب سارا گاؤں چیخوں میں ڈوبا ہو ۔ ۔ ۔ ہر کوئی مدد کو بلارہا ہو تو پھر کون میری مدد کو آئے گا؟ میرے ماں باپ بے بسی سے میرے لٹنے کا تماشہ دیکھتے رہے ۔جب سینکڑوں عصمتیں لٹی ہو۔ اگر میری بھی لٹی تو اس سے کسی کوکیا فرق پڑتا ہے۔ اس ذلیل کا ایک ہی مقصد تھا تم یہ سب جاننے کے بعدمجھے ٹھکرادو ۔ میراغرور ٹوٹ جائے میں دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں۔ میں اس کی نہ ہوسکی تو تمہاری بھی نہ ہوسکوں ۔‘‘

وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھ لمحوں قبل تک وہ اتنے جوش اور غصے میں بھرا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھاوہ ابھی مہندر کے گھر پہنچ جاتے اور اپنی کرپان سے مہندر کے ٹکڑے ٹکڑے کردے۔ لیکن پھر جیسے اس پر برف پڑگئی۔ وہ مدھو کے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر تھرکتی بے بسی کو دیکھ رہا تھا۔ مدھو کے آنسودیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ اس کے چہرے کی بے بسی اس پر ہوئے ظلم کی داستان سنارہی تھی۔ ایک عورت کی عصمت اس کا سب سے قیمتی زیور ہوتی ہے وہ اس گہنے کو ساری دنیا سے بچاکر رکھتی ہے۔ اپنے محبوب ،اپنے شوہر پر نچھا ور کرنے کے لیے ،ایک عورت کے لیے اپنے دیوتاکے قدموں میں چڑھاوا چھڑانے کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ اگراس سے اس کا وہی قیمتی زیور کوئی زبردستی اس چھین لے تو اس عورت کے دل پر کیا گذرے گی ۔اس کا اندازہ لگانا دنیا کے کسی بھی مرد کے لیے بہت مشکل کام تھا ۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن وہ مدھو کے درد کو محسوس کررہا تھا۔ اسے خود لگ رہا تھا اس سے اس کی سب سے قیمتی چیز چھین لی گئی ہے۔ اس کی جو زندگی کا حاصل تھا وہی حاصل اس سے چھین لیاگیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو مدھو کی طرح بے بس محسوس کررہا تھا۔ جذبات سے مغلوب اٹھا اور اسے اپنے آپ پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا۔اور وہ بھی مدھو کی طرح اپنے دونوں ہاتھ سے اپنا چہرہ چھپا کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ رونے لگا۔

اسے روتا دیکھ کر مدھو کا بھی دل بھر آیا اور وہ بھی دہاڑیں مارمارکر رونے لگی۔ اور شدت جذبات سے بے قابو ہوکر اس سے لپیٹ گئی۔ اور وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹے رونے لگے۔ ایک دوسرے سے لپٹے پتہ نہیں وہ کتنے دیر تک روتے رہے۔

مدھو کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ اور اس کا گلا رندھ گیا۔ اس کی بھی ہچکیاں بندھ گئی اور گلا بھر آ یا ۔ کافی دیر کے بعد وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے اور دو کونوں میں بیٹھ کر بے وجہ کبھی چھت اور کبھی فرش کو دیکھتے پتہ نہیں کیا کیا سوچنے لگے۔دنوں ایک دوسرے سے نہ کوئی بات کررہے تھے اور نہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ نہ ان کے منہ سے ایک لفظ نکل رہا تھا۔ سسکیاں رک گئی تھیں۔ گلا رندھا ہوا تھا۔ لیکن آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

بہت دیر بعد وہ بولا ’’مدھو ۔ ۔ ۔ حالات بہت خراب ہے۔ ایسے حالات میں تمہاری جیسی لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا ٹھیک نہیں ہے ۔ایک درندے مہندر کے ہاتھوں تم تباہ تو ہوئی ہو۔ چاروں طرف ہزاروں مہندر بکھرے ہوئے ہیں۔ہر آدمی مہندر کی طرح جانور بن گیا ہے۔ جس طرح مہندر نے درندگی کا مظاہرہ کرکے حالات کا فائدہ کر اپنے من کی مراد حاصل کرلی ہے۔ میں نہیں چاہتا ہوں کہ کوئی اور مہدر کی طرح حالات کا فائدہ اٹھاکر تم سے اپنے دل کی مراد پوری کرلے۔ ۔ ۔ تم گھر جاؤ۔ اس طوفان کو تھمنے دو اس کے بعد سوچیں گے کہ حالات کا کس طرح مقابلہ اور سامنا کرنا ہے۔ اور ہمیں اب کیا کرنا ہے۔ ‘‘

’’جمی ۔ ۔ ۔ یہ میری تم سے آخری ملاقات ہے۔ ابمیں کبھی تم سے سامنا نہیں کروں گی۔ تم مجھے بھول جاؤ۔ ۔ ۔ میرا خیال بھی اب دل میں نہیں لانا۔سوچنا تمہاری زندگی میں کوئی مدھو نام کی لڑکی آئی ہی نہیں تھی۔ میرے پیچھے اپنی زندگی برباد نہیں کرنا۔ کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کرکے اپنا گھر بسا لینا۔ ‘‘سسکتی ہوئی مدھو بولی۔

’’یہ کیا کہہ رہی ہو۔ ۔ ۔ مدھو ‘‘وہ تڑپ اٹھا ’’تم میری روح ہو ۔ ۔ ۔ میری جان ہو۔ ۔ ۔ تمہارے بغیر میں اپنی زندگی کاتصور ہی نہیں کرسکتا ۔نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی۔ یہ طوفان تو ایک معمولی ہواکا جھونکا تھا۔ جو گذرگیا یہ طوفان تو دور اس طرح کے ہزاروں طوفان بھی ہمیں اے دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے ۔تم میری ہو۔ ۔ ۔ میری رہو گی ۔ ۔ ۔ ہر حال میں ۔ ۔ ۔ ہر حال میں۔ ۔ ۔ ‘‘

’’نہیں جمی ۔ ۔ ۔ اب میں تمہاری نہیں ہوسکتی۔ ۔ ۔ میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔ مجھے بھول جاؤ۔ ۔ ۔ مجھے بھول جاؤ۔ ۔ ۔ ‘‘کہتی سسکتی ہوئی مدھو اٹھی اور تیزی سے کمرے کے باہر نکل گئی۔

وہ اسے آوازیں دیتا رہ گیا۔ اور وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ گیلری میں آیا تو اس نے دیکھا ۔ ۔ ۔ وہ سسکتی گاؤں کی طرف جارہی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ اس سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اوپھر اس کی آنکھ سے اوجھل ہوگئی۔




٭
 

الف عین

لائبریرین
کبھی لگتا طوفان تھم گیا۔ او رکبھی لگتا یہ تو آغاز تھا ۔ابھی عروج باقی ہے۔ گاؤں کا طوفان تھم بھی گیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رہا تھا۔ چاروں طرف طوفان اٹھا ہوا تھا۔ آس پاس کے سارے گاؤں ،علاقے جل رہے تھے۔ ہر جگہ وہی مناظر تھے جو نوٹیا میں دیکھے گئے تھے۔ وہی واقعات دہرائے جارہے تھے۔ جو نوٹیا میں پیش آئے تھے۔

ہر گاؤں میں ایک مہندر پٹیل سا راکشس موجود تھا۔ گاؤں میں ایک بھی مسلمان نہیں بچاتھا۔ یا تو وہ آگ میں جل کر مر گئے تھے۔ یا ان کی بے وارث لاشیں گاؤں کی سڑکوں پر سڑ چکی تھیں۔ یا پھر وہ جان بچاکر کسی طرح گاؤں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اور قریبی شہر کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں کسمپرسی کی زندگی گذاررہے تھے۔

پورے گاؤں پر ایک پر ہول سناٹا تھا۔ ہر چہرہ تنا ہوا تھا۔ تنے ہوئے چہرے پر نہ تو پشیمانی کا تاثرات تھے اور نہ ہی فاتحانہ جذبات مستقبل کے خوف سے ایک تناؤ ہر ایک کسی کے چہرے پر تھا۔ مہندر بھائی پٹیل جیسے لوگوں کے چہروں پر فاتحانہ تاثرات تھے۔ اور وہ ایک ایک لمحہ کا جشن منارہے تھے۔ لوگوں کو جمع کرکے تقریرں کرتے۔ اپنے کارنامے سناتے اور ان کو ان کے کارناموں پر مبارکباد دیتے اعلان کرتے ۔

’’یہ اکھنڈ بھارت کی راہ میں پہلا قدم ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’چل پڑے ہیں۔ ۔ ۔ اب منزل دور نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

’’آج گجرات ۔ ۔ ۔ کل دوسری ریاست۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ملک میں ایک بھی ۔ ۔ ۔ ملچھ نہیں بچے گا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’مسلمان یا تو قبرستان جائیں گے۔ ۔ ۔ یاپاکستان ۔ ۔ ۔ ‘‘

اب گاؤں میں دھیرے دھیرے خاکی وردیاں دکھائی دینے لگی تھیں۔ اخبار کے رپورٹر اور ٹی وی چینل کے کیمرہ مین آنے لگے تھے۔لیکن ان کو جو کچھ ہوا اس کی کہانی سنانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ پناہ گزیں کیمپوں سے لوگوں کی کہانیاں سن کر آتے اور ان کے لیے جلے گھروں کی منظر کشی کرکے خبریں بناتے۔

گاؤں کے لوگوں کے زبانوں پر جیسے تالے لگے ہوئے تھے ۔ان کو سختی سے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی زبان نہ کھولے ۔ ۔ ۔ اگر کسی نے زبان کھولی تو اس سے سختی سے پیش آیا جائے گا۔پریس رپورٹر لوگوں سے پوچھتے کہ کیا اس گاؤں میں اس طرح کے واقعات ہوئے توجواب میں وہ خاموش رہتے یا کچھ گھاگ قسم کے لوگ اس بات کو جھٹلاتے کہتے یہ گاؤں کے شریف لوگوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

اس کا دل چاہتا کہ وہ کیمرے سامنے جاکر کھڑا ہوجائے اور جو کچھ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،جو کچھ اپنے کانوں سے سنا ،جو کچھ اس گاؤں میں ہوا اس کا ایک ایک لفظ سنادے۔ لیکن وہ خوفزدہ تھا۔ اس ڈر تھا اگراس نے سچائی بیان کی ،زبان کھولی تو اس کا انجام بھی جاوید سا ہوگا۔

چاروں طرف وحشی بکھرے پڑے تھے۔ وہ وحشیوں سے کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ اس لیے ایک کونے میں دبکے رہنے میں ہی اس کو عافیت محسوس ہورہی تھی۔ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔ وحشی دندناتے سارے گاؤں میں آزاد گھوم رہے تھے۔ ان کے چہروں پر فاتحانہ چمک تھی۔ اور آنکھوں میں وحشی ارادے ۔ شریف لوگ ان کو دیکھتے تو ان کے کارناموں کو یاد کرکے سہم جاتے تھے ۔اور ادب سے انھیں سلام کرکے آگے بڑھ جاتے تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ لوگوں کے دلوں میں ڈر ،دہشت ،خوف کی علامت بن گئے تھے۔ سیاسی لیڈر آتے ۔مگر مچھ کے آنسو بہاتے، دھواں دھارتقریریں کرتے ۔ قاتلوں، مجرموں کو نہ بخشنے کا غزم کرتے اور واپس چلے جاتے۔ قاتل، مجرم، وحشی ان کے خلاف نعرے لگاتے۔ وحشت ،درندگی، پائندہ باد کے نعرے لگاتے ۔اپنے کارناموں کے تاریخ کے سنہرے اوراق قرار دیتے۔ ایسا لگتا تھا جیسے دنیا سے انصاف ، رواداری، سچائی ،خلوص ،محبت اٹھ گئی تھی۔ بس چاروں طرف نفرت ،زہر ،فرقہ پرستی چھائی تھی۔ ایک الاؤ دہکا ہوا تھا ۔جس کی تپش چاروں طرف پھیلی تھی۔

دوتین دن سے اس نے دوکان نہیں کھولی تھی۔ رگھو اور راجو بھی کام پر نہیں آرہے تھے۔ اس دن وہ آئے بھی تو اس نے انھیں گھر بھیج دیا۔ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہوئے تھے۔ جب حالت دست ہوجائیں گے تو دوکان کھولوں گا۔ دوکان کھول کر بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ نہ کوئی گاہک آنے والا تھا نہ دھندہ ہونے والا تھا۔ سارا وجود غم کا صحرا بنا ہوا تھا۔ کتنے غم تھے ان کا شمار کرنا مشکل تھا۔ گاؤں میںہونے والے واقعات کا غم ،جاویدکی موت کا غم ۔ ۔ ۔ اور اب سب سے بڑھ کر مدھو کی بربادی کا غم۔ ۔ ۔ مہندر کی درندگی کا احساس ۔ ۔ ۔ ان باتوں کو یا کرکے کبھی خون کھول اٹھتا تو کبھی وجود پر ایک بے بسی چھاجاتی اور دل خون کے آنسو رونے لگتا ۔

وہ افسردہ سا دوکان کے باہر کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسی وقت سامنے سے مہندر پٹیل فاتحانہ انداز میں چلتا ہوا آیا۔ ’’کہوسردارجی کیسے ہو؟تم بچ گئے؟ بڑی بات ہے ؟ مجھ سے دشمنی لے کر بھی زندہ ہو۔ ۔ ۔ ورنا پورے گاؤں میں میرا کوئی بھی دشمن زندہ نہیں بچا ہے۔ ‘‘

اس نے کوئی جواب نہیں دیا سر اٹھا کر خالی نظروں سے مہندر کو دیکھا۔

’’اوہو ۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ شاید تمہیں اصلی بات تو معلوم ہی نہیں ہوئی ۔سچ مچ تمہیں اس بات کا پتہ نہیں چلا ہوگا۔ ورنا ان آنکھوں میں یہ خالی پن نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ آگ ہوتی۔ ۔ ۔ مدھو سے بہت پیار کرتے ہونا؟مدھو بھی پیار کرتی ہے تمہیں۔ مدھو جو میری ہے۔ جس پر صرف مہندر پٹیل کا حق ہے۔ وہ مدھو تمہاری ہوگئی تھی۔ اور تم پر اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیار تھی۔ مہندر پٹیل کو ٹھکرا کر ۔ ۔ ۔ ‘‘

مہندر رک گیا اور اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کرنے لا۔ وہ خالی خالی نظروں سے اسے گھورے جارہا تھا۔

’’لیکن اب مدھو تمہاری نہیں رہے گی۔ مدھو اگر عزت درا باپ کی بیٹی ہوگی تو تمہارے قریب بھی نہیں پھٹکے گی۔ اور مدھو کی اصلیت جان کر تو تم مدھو کی صورت دیکھنا بھی قبول نہیں کروگے ۔ ۔ ۔ اب مدھو زندگی بھر ایک رنڈی بن کر زندہ رہے گی۔ ایک رنڈی جس کو میں جب چاہوں تب استعمال کروں گا۔ ‘‘

مہندر کی بات سن کر اس کے کانوں کی رگیں پھڑکنے لگیں۔

’’شاید تمہیں معلوم نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مدھو کے ساتھ میں سہاگ رات منا چکا ہوں۔ مدھو کے کنوارے پن کو میں ختم کرچکا ہوں۔ مدھو کی جوانی کا ذائقہ سب سے پہلے میں نے چکھا ہے۔اب وہ باسی ہے۔ تم باسی کھانا کھاؤگے؟۔ ۔ ۔ کھاؤ۔ ۔ ۔ اگر تم مدھو کو اپنا بھی لو ۔ ۔ ۔ تو مجھے کوئی فرق نہۃیں پڑے گا۔ ۔ ۔ وہ میرا باسی۔ ۔ ۔ جھوٹا چھوڑا ہوا کھانا ہے۔ جسے تم زندگی بھر کھاتے رہوگے۔ ۔ ۔ تو سردارجی ۔ ۔ ۔ میرا جھوٹا کھانا پسند کروگے ؟ ۔ ۔ ۔ کرلو مدھو سے شادی۔ ۔ ۔ لیکن اس کے ساتھ سہاگ رات تو میں منا چکا ہوں ۔ ۔ ۔ اس کے ایک ایک انگ سے کھیل چکا ہوں۔ ۔ ۔ اس کے جسم کا ایک ایک حصہ اپنی آنکھوں سے برہنہ دیکھ چکا ہوں۔ ۔ ۔ اسے بھوگ چکا ہوں ۔ ۔ ۔ آہا ۔ ۔ ۔ آہا ۔ ۔ ۔ آہا۔ ۔ ۔ جاؤ میری جھوٹی چھوڑی مدھو کو بھوگو۔ ۔ ۔ آہا ۔ ۔ ۔ آہا۔ ۔ ۔ ‘‘
 

الف عین

لائبریرین
’’مہندر ‘‘اچانک اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی ’’کمینے میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ۔ ۔ تونے میری مدھو کو برباد کیا ۔ ۔ ۔ میں چپ رہا ۔ ۔ ۔ اب تو اسے ذلیل کررہا ہے۔ تو زندگی بھر اس طرح میری مدھو کو ذلیل کرتا رہے گا ۔ اس لیے اب میں تجھے زندہ ہی نہیں چھوڑوں گا۔ ۔ ۔ بولے سونہال۔ ۔ ۔ ‘‘کہتے ہوئے اس نے کرپان نکالی اور مہندر کی طرف لپکا۔

مہندر اس نئی سچویشن سے گھبراگیا تھا۔ مہندر نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جمی اس طرح کا کوئی قدم اٹھائے گا۔ اس کے ہاتھوں میں ننگی کرپان تھی اور وہ کرپان لہراتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔

’’نہیں ‘‘چیختا ہوا وہ گاؤں کی طرف بھاگا۔ عجیب منظر تھا۔ مہندر جان بچاکر کتوں کی طرح بھاگ رہا تھا۔ اور جمی اس کے پیچھے ہاتھ میں ننگی کرپان لیے دوڑریا تھا۔ جو بھی اس منظر کو دیکھتا ۔ خوفزدہ ہوکر ایک طرف ہٹ جاتا ۔اور دونوں کو راستہ دے دیتا۔ جیسے ہی مہندر اس کے قریب آتا وہ اپنی کرپان سے اس پر وار کرتا ۔مہندر چیخ کرگرتا۔ لیکن ا سے پہلے کہ وہ اس پر دوسرا وار کرے مہندر پوری طاقت یکجا کرکے اٹھ کھڑے ہوتا اور بھاگ جاتا ۔ جمی پھر اس کے پیچھے ننگی کرپان لے کر دوڑتا۔

جہاں موقع ملتا وہ کرپان سے مہندر کے جسم پر وار کرتا ۔مہندر سر سے پیر تک خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ لوگوں نے اس سے بھی ہولناک مناظر دیکھے تھے ۔لیکن ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ کل کا یودھا بے بس ،بے یاروں مددگار اپنی جان بچاے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ کل تک جو لوگوں کی موت کا بنا ہوا تھا آج موت اس کا تعاقب کررہی تھی۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ جمی کو روکے ۔

جمی اپنی کرپان سے مہندر پر وار کیے جارہاتھا۔ آخر زخموں کی تاب نہ لاکر مہندر زمین پر گر پڑا۔ خون میں لت پت مہندر آخری بار تڑپااور پھر ساکت ہوگیا۔ نڈھال ہوکر جمی کرپان کا سہارا لے کر زمین پر بیٹھ گیا ۔اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

لوگ اس کے سینکڑوں میٹر دور دائرے کی شکل میں کھڑے اسے خوف سے دیکھ رہے تھے۔ کسی میں اس کے قریب آنے کی ہمت نہیں تھی۔

وہ مسلسل رورہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنّف کی اجازت سے
ان پیج سے تبدیلی اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
تدوین اور اصلاحِ کتابت: جویریہ مسعود
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top