صبح جادو بکھیرتی ہوئی نمودار ہوتی ہے ۔
ہر فرد کے لیے اس میں ایک الگ طرح کا جادو ہوتا ہے اور وہ اس میں اپنے مقصد کا جادو تلاش کرتا ہے
محنت کشوں ،مزدوروں ،نوکر پیشہ ،طلبہ، تاجر ہر طبقہ کے لیے صبح میں ایک اپنا منفرد جادو نہاں ہوتا ہے۔
لیکن صبح کبھی بھی جمی کے لیے جادو سی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
وہ تو رات کا راجہ تھا ۔اس کا دل چاہتا تھا اکثر اس کی زادگی میں صرف زندگی بھر کی رات ہی رہے تو بھی یہ اس کے لیے خوشی کی بات ہے ۔وہ اسی میں خوش رہے گا اور جشن منائی گا۔ وہ اس رات کی صبح کا کبھی انتظار نہیں کرے گا۔اسے کبھی صبح کا انتظار نہیں ہوتا تھا۔ صبح کی آمد اس پر ایک بیزاری سے کیفیت طاری کرتی تھی۔ اور اسے محسوس ہوتا تھا صبح نہیں آتی ہے ایک عفریت آتا ہے۔ اس کی خواہشوں ،ارمانوں، احساسات، چستی ،پھرتی ،شگفتگی کا خون چوسنے کے لیے ۔
دن کے نکلنے پر اسے وہی ساری کام کرنا پڑیں گے جو اسے پسند نہیں ہے۔ اس کے آزادی سلب ہوجائے گی وہ غلام بن جائے گا اور ایک غلام کی طرح رات کے آنے تک وہ کام کرتا رہے گا جو اس کے ذمہ ہے۔
دن اس کے لیے غلامی کا پیغام لے کر آتا ہے تو رات اس کی آزادی کا سندیش۔
باربار وہ اس دن کو کوستا تھا جب اس نے اپنے چاچا کے کہنے پر پنجاب چھوڑنے اور اس چھوٹے سے گاؤں میں چاچا کا کاروبار سنبھالنے کی حامی بھری تھی۔
اس کے حامی سن کر تو اس کے چاچا کرتار سنگھ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑگئی تھی۔ اس نے اپنے چاچا کے چہرے پر جو اطمینان کی لہر دیکھی تھی وہ لہر اس نے اپنے باپ اقبال سنگھ کے چہرے پر اس دن دیکھی تھی جس دن اس کی بڑی بہن کا بیاہ ہواتھا۔ ایک فرمان کی ادائیگی کے بعد دل کو قلبی سکون ملتا ہے اور چہرے پر جو اطمینان کے تاثرات ابھرتے وہی تاثرات کرتار سنگھ کے چہرے پر تھے۔
’’پُترا۔ ۔ ۔ آج تونے میری سب سے بڑی مشکل آسان کردی ۔ ۔ ۔ ورنا میں تو مایوس ہوکر اپنا سارا کاروبار گھر بار فروحت کرکے پنجاب کا رخ کرنے والا تھا۔ لیکن اب جب تونے وہ کاروبار سنبھالنے کی حامی بھرلی ہے میں ساری فکروں سے آزاد ہوگیا ہوں۔ بیس سال سے میں نے جو کاروبار جما رکھا ہے وہ آگے چلتا رہے گا اور کس کے کام آئے گا۔ کسی کے کیوں میرے اپنے خون کے ہی کام آئے گا ۔اس کاروبار کی بدولت میں ے یہاں پنجاب میں اتنی زمین جائداد بنالی ہے کہ مجھے اب زندگی بھر کوئی اور کام کرنا نہیں پڑے گا ۔لیکن آج میں اپنا وہ کاروبار تمہارے حوالے کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں جس طرح محنت سے میں نے ۲۰ سال تک کاروبار اتنا دھن کمایا ہے اور اس قابل ہوگیا کہ مجھے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے تو بھی محنت سے اپنے کاروبار کو پھیلا اور اس سے اتنا پیسہ کماکر تو بھی ایک دن آئے گا وہ سار اکاروبار کسی اور کے حوالے کرکے اپنے وطن اپنے گاؤں آنے کے قابل ہوجائے ۔‘‘اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ خوشی اقبال سنگھ کو ہوئی تھی۔ وہ جاکر کرتار سنگھ سے لپٹ گیا تھا۔
کرتارے ۔ ۔ ۔ آج تونے اپنے بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کردیا ۔میری سب سے بڑی فکر دور کردی ۔جسمندر کو دھندے سے لگادیا کام سے لگادیا۔ میں رات دن اس کی فکر میں رہتا تھا یہ لڑکا کام دھندا کرے گا بھی یا پھر زندگی بھر آوارگیاں کرتارہے گا۔ کئی سالوں سے اسے سمجھارہاتھا تو پڑھتا لکھتا تو نہیں ہے۔ پڑھنے لکھنے کے نام پر کیوں اپنا وقت اور میرے پیسے برباد کررہا ہے۔ یہ پڑھنا لکھنا چھوڑ کر کوئی کام دھندہ کر۔ مگر یہ مانتا ہی نہیں تھا۔ اسے پڑھنے لکھنے کے نام پر آوارگیاں کرنی جو ملتی تھی ۔مگر تونے اسے کام دھندا کرنے پر راضی کرکے میری سب سے بڑی فکر دور کردی ۔گھر سے دور رہے گا تو آوارگیاں بھی دور ہوجائی گی اور دھندے میں بھی دل لگے گا۔
باپ اور چاچا اس کی حامی پر جشن منارہے تھے۔ لیکن وہ خود ایک تذبذب میں تھا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کس سحر کے تحت اس نے اپنا گھر ،گاؤں ،وطن چھوڑکر اکیلے کام کرنے کے لیے ہزاروں میل دور جانا قبول کرلیا تھا ۔اس کے دوستوں نے سنا تو اس کے اس فیصلے پر حیرت میں پڑگئے۔ اور وہ بھی پنجاب سے ہزاروں میل دور گجرات ۔ ۔ ۔ اپنے چاچا کا کاروبار سنبھالنے کے لیے ۔
’’ہاں۔ ۔ ۔ صحیح سنا ہے ۔اس نے جواب دیا تھا۔ ‘‘
’’اوے۔ ۔ ۔ تو وہاں ہمارے بنا رہ سکے گا ؟‘‘
’’اب زندگی تم لوگوں کے ساتھ آوارگیاں کرتے تو نہیں گذرسکتی ہے۔سوچتا ہوں واہ گرو نے ایک موقع دیا کچھ کرنے کا اور کچھ کردیکھانے کا اسے کیوں گنوادوں۔ان آوارگیوں کے سہارے تو زندگی گذرنے سے رہی۔ روزروز پاپاجی کی باتیں سننی پڑتی ہیں ماں کی جھڑکیاں سہنی پڑتی ہیں۔ بڑی بہنیں جب بھی آتی ہیں لکچر بگھارتی ہیں۔ بھائی بات بات پر غصہ ہوکر گالیاں دینے لگتا ہے۔ بس اب یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔ سوچتا ہو اس ماحول سے کچھ دنوں کے لیے دور چلا جاؤں ۔اگر واہ گرو نے اس دھندے میں رزق لکھا ہے اور گجرات کا دانہ ہانی میری تقدیر میں ہے تو مجھے جانا ہی پڑے گا ۔ اور جس دن وہاں کا دانہ ہانی اٹھ جائے گا میں اوپس گاؤں آجاؤں گا۔‘‘
اس کی اس بات سے سب خاموش ہوگئے تھے۔
’’اوے جسمندر ۔ ۔ ۔ ہم تیرے دوست ہیں دشمن نہیں ۔تیری ترقی سے ہم خوش ہوں گے ۔ ہماپنے مفاد کے لیے تیری زندگی برباد نہیں ہونے دیں گے ۔آج تجھے کچھ کرنے کا موقع ملا ہے تو جا۔ کچھ کردکھا ۔ہماری دعائیں یرے ساتھ ہے۔ دوستی تعلقات اپنی کچھ دنوں تک تیری یاد ستائی تیری کمی محسوس ہوگی پھرہم بھی زندگی کی الجھنوں میں گھِر کر تجھے بھول کر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں گے۔ ‘‘
’’جمی ۔ ۔ ۔ وہاں جاکر ہمیں بھول نہ جانا ۔‘‘
’’ارے تو میں ہمیشہ کے لیے گاؤں چھوڑ کر تھوڑی جارہاہوں ۔سال چھ مہینے مے بیساکھی پر آتارہوں گا۔‘‘
دوستوں اور گاؤں کو چھوڑنا اسے بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔لیکن اس نے گاؤں ،گھر چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ پھر وہ گاؤں چھوڑنے والا پہلا فرد نہیں تھا۔ ہر گھر خاندان کے کئی کئی افراد گاؤں سے باہر تھے۔ کوئی ٹرک چلاتا تھا جس کی وجہ سے مہینوں گھر ،گاؤں سے دور رہتا تھا ۔کوئی فوج میں تھا صرف چھٹیوں میں گھر آپاتاتھا ۔کچھ غیر ممالک میں جاکر بس گئے تھے جس کی وجہ سے وہ صرف پانچ دس سالوں میں ہی گاؤں آپاتے تھے۔ نوکری کے سلسلے میں جو لوگ ملک کے مختلف حصوں میں گئے تھے انھوں نے انہی حصوں کو اپنا وطن بنالیا تھا اور گاؤں اور گاؤں کو بھول گئے تھے صرف شادی بیاہ، موت مٹی کے موقع پر گاؤں آتے تھے۔
اس کے چاچا کی طرح جن لوگوں نے دوسرے شہروں اور ریاستوں میں دھندہ شروع کرلیا تھا وہ لوگ بھی گاؤں کے مہمان کی طرح آتے تھے ۔کل سے اس کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا۔ویسے بھی گاؤں میں اس کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ پڑھائی کے نام پر وہ پانچ سالوں سے ایف وائے آرٹ کا طالب علم تھا ۔ اس کے پتا اور گھر والوں کو پورا یقین تھا رہ کبھی گریجویشن پورا نہیں کرپائے گا ۔اس کا کالج گاؤں سے دس کلومیٹر دور تھا ۔روزانہ سویرے وہ کالج جاتا ۔کبھی دوپہر تک گاؤں واپس آجاتا تو کبھی شام کو اوپس آتا۔ کبھی دل آیا تو جاتا ہی نہیں ۔دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا ۔ایک دوست جگیرے کی ہوٹل تھی۔ تمام دوست اس ہوٹل میں بیٹھا کرتے تھے۔ جگیرے کے چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے ۔یا پھر پورا دن وہاں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہتے یا شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ آئے دن ان کی شرارتوں کی شکایتیں ان کے گھر کو پہونچتی رہتی تھی۔ شرارتیں معصوم ہوتی تو لوگ نظر انداز بھی کردیتے لیکن اب وہ بچے نہیں رہے تھے بڑے ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان شرارتوں کا انداز بھی بدل گیا تھا ۔وہ گاؤں کی لڑکیوں کو چھیڑتے رہتے تھے ۔کبھی معاملہ نوک چھونک تک ہوتا تو کبھی چھیڑ چھاڑ تک ۔ ۔ ۔ کبھی معاملہ دل کا ہوتا۔ ۔ ۔ تو کبھی عزت کا ۔تمام دوستوں کا کسی نہ کسی سے دل لگا تھا۔ لیکن صرف اس کا دل کسی پر نہیں آیا تھا ۔اس سے دل لگانے والی کئی تھیں۔ لیکن س کی نظر میں ان کے اس جذبے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
دوستوں کے دلوں کا معاملہ دلوں سے بڑھ کر جسموں تک پہونچ گیا تھا ۔اور وہاں سے آگے بڑھ کر شادی کے بندھن تک ۔کچھ معاملے درمیان میں ادھورے رہ گئے تھے ۔لڑکیوں کی کہیں اور شادیاں ہوگئی تھی۔ اور پنجاب کی روایتی رومانی داستانوں میں کچھ اور داستانوں کا افسانہ ہوگیا تھا۔
اب وہ ٹوٹے ہوئے دل ان کی یاد میں آہیں بھرتے اورشراب سے اپنا غم غلط کرتے تھے ۔ اس طرح غم غلط کرتے کرتے انھوں نے باقی دوستوں کو بھی شراب کا عادی بنادیا تھا۔ ان میں ایک وہ بھی تھا ۔
وہ شراب کا عادی تو نہیں ہوا تھا۔لیکن راب پینے لگ گیا تھا۔ اور اکثر دوستوں کا ساتھ دینے کے لے ان کے ساتھ شراب پیتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے اس کا شراب پینا گھر والوں کے لے تشویش کی بات تو ہوئی ۔اس لیے وہ سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے کہ اس سے قبل کہ جسمندر سنگھ شراب کا عادی بن کر اپنی زندگی تباہ کرلے۔ اس لیے یہ لت چھڑانے کا کوئی طریقہ سوچنا چاہیے۔
آسان راستہ یہ تھا کہ اس کی پڑھائی چھڑاکر اسے کسی کام سے لگادیا جائے ۔لیکن اسے کس کام پر لگایا جائے ۔کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کالج پڑھتا لڑکا کھیتوں میں سو کام نہیں کرسکتا ۔ ورنہ کھیتوں میں تو ہمیشہ آدمیوں کی کمی رہتی تھی۔
اچانک اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا ۔اور اس کے چاچا کرتار سنگھ گاؤں آگیا۔ کرتار سنگھ بیس سال قبل کاروبار کے سلسلے میں گاؤں سے گیا تھا۔ اس نے گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں نوٹیا میں موٹر سائیکل ،کار ٹریکٹر کے پرزوں کی دوکان ڈالی تھی۔
اس گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں میں اس نوعیت کی کوئی دوکان نہیں تھی ۔ اس لیے اس کی دوکان و کاروبار چل نکلا اور اس نے بیس سالوں میں بہت پیسہ کمایا۔
وہ سال میں ایک آدھ ماہ کے لیے گاؤں آتا تھا تو دوکان نوکروں کے بھروسے چھوڑ آتا تھا۔اس کا کاروبار پھلتا پھولتا گیا۔ آس پاس اور کئی دکانیں کھل گئی۔ لیکن کرتار سنگھ کے کاوبار پرکوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ اس نے ہول سیل میں ان دکانوں کو کل پرزے سپلائی کرنا شروع کردئیے تھے۔ جس کی وجہ سے اس کے زمین اور جائیداد میں اضافہ ہوتا گیا اس کے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھتے کالج میں پہنچ گئے۔ بٹیاں شادی کے لائق ہوگئیں اور انھیں اچھے گھروں سے رشتے آنے لگے۔
اچانک طویل بیماری کے بعد کرتار سنگھ کی گھروالی اور اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے کرتار سنگھ ٹوٹ گیا۔ ابھی تک گاؤں میں گھر کو اس کی چاچی نے سنبھال رکھا تھا۔ لیکن چاچی کے انتقال کے بعد گھر سنبھالنے والا کوئی نہیں رہا تو کرتار سنگھ کو فکر دامن گیر ہونے لگی۔