میر اقتباس از مثنوی میر محمد تقی –میر




ضبط کروں میں کب تک آہ اب - چل رے خامہ ! بسم اللہ اب

کر ٹک دل کا راز نہانی - ثبت جریدہ میری زبانی

یعنی ۔ میر اک خستہء غم تھا - سرتاپا اندہ و الم تھا

تاب و توان و شکیب و تحمل - رخصت اس سے ہو گئے بالکل

سینہ فگاری سامنے آئی - بیتابی نے طاقت پائی

خواب و خورش کا نام نہ آیا - ایک گھڑی آرام نہ آیا

سوز سے چھاتی تا بہ گویا - اور پلک خوننابہ گویا

دل میں تمنا ۔ داغ جگر میں - شیون لب پر یاس نظر میں

نالے شب کو اس کے سن کر - مر گئے کتنے سر کو دھن کر

روئے و جبیں پہ خراش ناخن - داغوں سے خوں کے قامت گلبن

غم نے تو دل میں کیا ہی چھوڑا - پر میں تھا اک پکا پھوڑا

کام رہا ناکامی ہی سے - تسکین بے آرامی ہی سے

دشنہء غم سے سینہ کوچا - ناخن سے منہ سارا نوچا

دل آماجگاہ غمناکی - اور نفس اک تیر خاکی

نے طاقت نے یارا اس کو - ضعف دلی نے مارا اس کو

رنگ اڑے چہرے کا ہر دم - تھا گویا گل آخر موسم

رنگ شکستہ بس کے فسردہ - کہنے کو زندہ لیکن مردہ

دیدہ تر کے دریا قائل - ساحل خشک لبی کے سائل

ہر دم ہو ہر سمت کو جاری - خونباری سے سیل بہاری

خاک بسر آشفتہ سری سے - شور قیامت نوحہ گری سے

وادی پر جب اپنے آوے - صحرا صحرا خاک اڑاوے

سر پر اس کے سنگ ہمیشہ - جی پر عرصہ تنگ ہمیشہ

آہ سرد کرے وہ عریاں - بید سا کانپے موئے پریشاں

پامالی میں مثل جادہ - نقش قدم سا خاک افتادہ

اس کے جو پامال ہوئے سب - خار بیاباں لال ہوئے سب

جس نے دیکھا اس کو یکدم - اس نے کہا یہ بھول کے سب غم

چندے یہ ناشاد رہے گا
پر مدت تک یاد رہے گا

میر محمد تقی - میر
 
Top