اقبال کی ایک فارسی غزل کا منظوم ترجمہ

نه تو اندر حرم گنجی نه در بتخانه می‌آیی
ولیکن سوی مشتاقان چه مشتاقانه می‌آیی

حرم میں تم سماتے ہو نہ در بتخانہ آتے ہو
سوئے عشاق لیکن کیا ہی مشتاقانہ آتے ہو

قدم بی‌باک‌تر نه در حریم جان مشتاقان
تو صاحبخانه‌ای آخر چرا دزدانه می‌آیی

قدم رکھو دلیرانہ کہ تم ہو صاحبِ خانہ
حریمِ جانِ مشتاقاں میں کیوں دزدانہ آتے ہو

به غارت می‌بری سرمایهٔ تسبیح‌خوانان را
به شبخون دل زناریان ترکانه می‌آیی

تمھی سرمایۂ تسبیح خواناں کرتے ہو غارت
بہ شبخونِ دلِ زناریاں ترکانہ آتے ہو

گهی صد لشکر انگیزی که خون دوستان ریزی
گهی در انجمن با شیشه و پیمانه می‌آیی

کبھی سو لشکروں سے دوستوں کا خوں بہاتے ہو
کبھی محفل میں لے کر شیشہ و پیمانہ آتے ہو

تو بر نخل کلیمی بی‌محابا شعله می‌ریزی
تو بر شمع یتیمی صورت پروانه می‌آیی

کلیمی کے شجر پر آگ برساتے ہو بے پروا
تمھی شمعِ یتیمی پر بنے پروانہ آتے ہو

بیا اقبال جامی از خمستان خودی در کش
تو از میخانهٔ مغرب ز خود بیگانه می‌آیی

خودی کے خم کدے سے آؤ لو اقبال اک ساغر
کہ غربی میکدے سے خود سے تم بیگانہ آتے ہو
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! ریحان ، اچھا ترجمہ کیا ہے آپ نے۔ بحر بھی اقبال ہی کی استعمال کی ہے اور قافیہ ردیف بھی وہی رکھے ہیں ۔ محنت کی داد نہ دینا ظلم ہوگا ۔ سو بہت داد۔
ایک دو باتیں البتہ بطور نقد و نظر عرض کروں گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اشعار کا لفظی ترجمہ تو ہوگیا لیکن اشعارکی روح اردو قالب میں نہیں آسکی ۔ اقبال کی اس غزل کےاشعار عشقِ حقیقی پر مبنی ہیں۔ ان میں خدا ( اور فارسی کی روایتی شاعری میں موجود وحدت الوجود کے تصور ) سے خطاب ہے ۔ آخری شعر میں تو براہِ راست صاف خدا کے تعلق سے موسیٰ اور محمد علیھما السلام کا ذکر ہے۔ آپ نے شاید ردیف/وزن کی سہولت کے لیے ترجمے میں "تم ۔۔۔۔ آتے ہو " کا پیرایہ استعمال کیا لیکن ایسا کرنے سے اشعار میں بے لطفی پیدا ہوگئی۔ وجہ یہ کہ اردو میں خدا کے لیے "تو" کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، تم اور تمھی کے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔ یہ الفاظ محبوبِ مجازی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

دوسری بات کچھ مصرعوں کے ترجمے سے متعلق ہے۔
حرم میں تم سماتے ہو نہ در بتخانہ آتے ہو
یہ مصرع ٹھیک نہیں ۔اضافت کے ساتھ "درِ بتخانہ آتے ہو" تو پھر بھی قافیے اوروزن کی مجبوری کے باعث کچھ گوارا کیا جاسکتا ہے لیکن در بتخانہ آنا تو اردو نہیں ہے ۔ اردو میں "در آنا" کا محاورہ لفظ میں کے ساتھ مستعمل ہے یعنی بتخانے میں در آنا ، کمرے میں در آنا ، تحریر میں در آنا وغیرہ۔
کبھی سو لشکروں سے دوستوں کا خوں بہاتے ہو
صد لشکر انگیزی یا صد لشکر کشی تو اردو کے لحاظ سے فصیح ہے لیکن اس کا ترجمہ سو لشکروں ٹھیک نہیں ۔ یہاں اگر سو لشکروں کے بجائے " کبھی لشکر کشی سے دوستوں کا خوں بہاتے ہو" کہیں تو اردو محاورے کے زیادہ قریب ہوجائے گا۔
بہ شبخونِ دلِ زناریاں ترکانہ آتے ہو
یہ مصرع صاف نہیں ہے اور معروف اردو سے بہت دور بھی لگ رہا ہے ۔ اس کے بجائے "دلِ زناریاں میں تم ہی معشوقانہ آتے ہو" کیسا رہے گا۔ تم ہی کی خامی کو میری رائے میں برداشت کیا جاسکتا ہے ۔
کلیمی کے شجر پر آگ برساتے ہو بے پروا
کلیمی کے شجر کی ترکیب اور بے پروا کے الفاظ مجھے مصرع کے شایانِ شان نہیں لگے۔یہ مصرعِ ثانی کی زبان سے میل نہیں کھاتے۔ نیز شعلہ ریزی کا ترجمہ یہاں آگ برساتے ہو درست نہیں ۔ اردو میں آگ برسانا قہر اور عذاب کا مفہوم دیتا ہے جبکہ اقبال کے مصرعے میں تجلی ، جلوہ ریزی ، بجلی گرانا یا برق گرانا مقصود ہے۔" تمھی بجلی گراتے ہو کبھی نخلِ کلیمی پر" کیسا رہے گا؟

ریحان ، بطور قاری یہ میری ناقص رائے ہے۔ جس سے آپ کا متفق ہونا قطعی ضروری نہیں۔
 
توجہ پر ممنون ہوں ظہیر بھائی.
" تمھی بجلی گراتے ہو کبھی نخلِ کلیمی پر" کیسا رہے گا؟
یہ خوب ہے.

تمھی بجلی گراتے ہو کبھی نخلِ کلیمی پر
کبھی شمعِ یتیمی پر بنے پروانہ آتے ہو
بہ شبخونِ دلِ زناریاں ترکانہ آتے ہو
'دلِ زناریاں لینے کو بھی ترکانہ آتے ہو' ایک صورت ہو سکتی ہے.

کبھی سو لشکروں سے دوستوں کا خوں بہاتے ہو
'کبھی لشکر لیے کرتے ہو یاروں کی ہی خوں ریزی' شاید زیادہ مناسب ہو.
یہ مصرع ٹھیک نہیں ۔اضافت کے ساتھ "درِ بتخانہ آتے ہو" تو پھر بھی قافیے اوروزن کی مجبوری کے باعث کچھ گوارا کیا جاسکتا ہے لیکن در بتخانہ آنا تو اردو نہیں ہے ۔
اس کے اردو ہونے میں تو شک نہیں ہے، میر کا شعر ہے:

بھلا تم نقد ِدل لے کر ہمیں دشمن گنو اب تو
کبھو کچھ ہم بھی کر لیں گے حساب دوستاں در دِل

پھر بھی اسے بہتر یقینی طور پر کیا جا سکتا ہے، 'سماتے تم حرم میں نے درِ بتخانہ آتے ہو' کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ تعقید کا شکار رہے گا.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
'دلِ زناریاں لینے کو بھی ترکانہ آتے ہو' ایک صورت ہو سکتی ہے.
یہ خوب ہے!
'کبھی لشکر لیے کرتے ہو یاروں کی ہی خوں ریزی' شاید زیادہ مناسب ہو.
یہ اچھا ہے ، ریحان بھائی! لیکن میں دوستوں اور یاروں کو ہم مفہوم نہیں سمجھتا ۔ دوستاں کا لفظ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہیے جبکہ یاروں کا مفہوم محدود ہوجاتا ہے ۔ بالخصوص جب بات عشقِ حقیقی سے متعلق ہورہی ہو تو ذاتی طور پر میں یاروں کے بجائے دوستوں کے لفظ کو ترجیح دوں گا۔
اس کے اردو ہونے میں تو شک نہیں ہے، میر کا شعر ہے:

بھلا تم نقد ِدل لے کر ہمیں دشمن گنو اب تو
کبھو کچھ ہم بھی کر لیں گے حساب دوستاں در دِل
ریحان بھائی ، یہاں آپ دو بالکل ہی مختلف باتوں کو خلط کر گئے ہیں۔ میرؔ نے اپنے مصرع میں فارسی کی مشہور مثل "حسابِ دوستاں در دل" استعمال کی ہے ۔ اردو میں عربی اور فارسی کی جو ضرب الامثال اور کہاوتیں مستعمل ہوگئی ہیں وہ تو جوں کی توں اسی صورت میں بولی اور لکھی جاتی ہیں ۔ ان میں تصرف نہیں کیا جاتا۔
میرا تبصرہ تو یہ تھا کہ جب(کسی عمارت میں ) آتے ہو کا فعل استعمال کیا گیا ہے تو بتخانہ کی ترکیب بھی اس فعل کی نسبت سے استعمال ہوگی ۔ مثلاً تم سرِ بتخانہ آتے ہو، تم برسرِ بتخانہ آتے ہو، تم بتخانے میں در آتے ہو ، تم درِ بتخانہ پر آتے ہو وغیرہ ۔ لیکن " تم دربتخانہ آتے ہو" کو کس طرح درست کہا جاسکتا ہے؟
پھر بھی اسے بہتر یقینی طور پر کیا جا سکتا ہے، 'سماتے تم حرم میں نے درِ بتخانہ آتے ہو' کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ تعقید کا شکار رہے گا.
میری ناقص رائے میں تو "درِ بتخانہ آتے ہو "بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ درِ بتخانہ کے معنی تو بتخانے کا دروازہ ہیں۔ جو بات یہاں بیان کرنا مقصود ہے اس کے لیے اردو میں " سرِبتخانہ آتے ہو ۔۔ یا پھر۔۔برسرِ بتخانہ آتے ہو" مستعمل ہے۔ ہم درِ مقتل آتے ہیں۔۔ یا ۔۔وہ درِ مسجد آتے ہیں ظاہر ہے درست نہیں ہیں۔ ان مواقع پر اردو میں سرِ مقتل اور سرِ مسجد مستعمل ہیں۔
 
Top