اقبالِ لاہوری کے خانوادے سے تاجکستانی سفیر کی ملاقات

حسان خان

لائبریرین
پاکستان میں تاجکستان کے سفیر شیر علی جانانوف مشرق کے عظیم شاعر و مفکر محمد اقبالِ لاہوری کے خانوادے سے ملاقات کے لیے گئے۔ وزارتِ امورِ خارجۂ تاجکستان کے دفترِ مطبوعات کی اطلاع کے مطابق، شیر علی جانانوف نے چھ اکتوبر کو شہرِ لاہور کے دورے کے دوران محمد اقبال کے رشتے داروں، بالخصوص اُن کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال سے ملاقات کی۔
تاجک سفیر نے جاوید اقبال کے ساتھ اس ہم نشینی میں اُنہیں اُن کے والد کی چند تازہ نشر شدہ کتابیں، از جملہ 'کلیاتِ فارسیِ اقبال'، 'جاوید نامہ' اور اُن کی بزرگ فلسفی-فقہی تصنیفات میں سے ایک 'احیائے فکرِ دینی در اسلام'، کہ جو تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کی ہدایت پر دوشنبہ میں شائع ہوئی تھیں، تحفے کے طور پر پیش کیں۔
محد اقبالِ لاہوری کا شمار انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز کے ادبیات کے درجۂ اول کے شاعروں کے زمرے میں ہوتا ہے، کہ جنہوں نے اپنی فطری استعداد اور اپنے سخن کے اعجاز سے شعرِ عجم کو نَفَس تازہ بخشا ہے۔ اُنہوں نے زبانِ فارسی کو سرزمینِ ہند و پاکستان میں از سرِ نو زندہ کیا اور مسلمانوں اور بالعموم دنیا کے ستم دیدہ لوگوں کو آزادی کا پیام پہنچایا۔ اقبال نے اس عظیم کارنامے کے وسیلے سے اپنا نام جریدۂ عالَم میں ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا۔
اسلام آباد میں تاجکستان کے سفیر شیر علی جانانوف گذشتہ ہفتے کے اواخر میں ایک رسمی سفر کے تحت پاکستان کے شہر لاہور گئے تھے۔ اُنہوں نے اس سفر کے دوران جامعۂ پنجاب کا بھی دورہ کیا اور اُس کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر کامران سے ملاقات انجام دی۔ اس ملاقات میں جانبَین نے دونوں ملکوں کے مکاتبِ عالی کے مابین تعاون کی ترقی کے مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ فکر کیا۔ یہ جامعۂ مذکور اس ملک کی بڑی درسگاہوں میں سے ایک ہے جس کی تاسیس سال ۱۸۸۲ء میں ہوئی تھی۔

1381327304_safiri-dar-mehmonii-pisari-ikbol.jpg


(منبع: تاجک اخبار 'آزادگان')
تاریخ: ۹ اکتوبر ۲۰۱۳ء

======================
یہ خبر ویسے تو اب پرانی ہو گئی ہے، لیکن مجھے یہ کل ہی نظر آئی تھی، سو اسے اردو میں ترجمہ کر کے پیش کر دیا تاکہ پاکستان اور فارسی گو ملک تاجکستان کے مابین لسانی و ثقافتی روابط کو نمایاں کیا جا سکے۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
بہت شکریہ، حسان خان جی۔
آپ کی رپورٹ ہمارے علم میں خوشگوار اضافہ ہے۔
علامہ مرحوم کی نسبت سے ایران میں لاہور کا نام بھی لوگوں میں عام ہے۔ لیکن اگر جائے پیدائش کا خیال کیا جائے تو کیا انہیں 'اقبال سیالکوٹی' نہیں کہا جانا چاہئے؟
 

حسان خان

لائبریرین
لیکن اگر جائے پیدائش کا خیال کیا جائے تو کیا انہیں 'اقبال سیالکوٹی' نہیں کہا جانا چاہئے؟
جی، اگر جائے پیدائش کا خیال رکھا جائے تو اصولاً تو 'اقبال سیالکوٹی' کہنا چاہیے، لیکن فارسی کے ادبی حلقوں میں وہ 'اقبال لاہوری' کے نام سے معروف ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اقبال کی زندگی کا بڑا حصہ لاہور میں گذرا تھا۔
 
فارسی کے ادبی حلقوں میں وہ 'اقبال لاہوری' کے نام سے معروف ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اقبال کی زندگی کا بڑا حصہ لاہور میں گذرا تھا۔
آخری آرام گاہ چونکہ لاہور ہے یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے!
اول نہ سہی آخرتولاہور میں گزرا ہے اس مناسبت سے لاہوری
 
Top