افسانچہ-زیرِ لب

اللہ تیرا شکر ہے۔ جان بچ گئی۔۔" احمر نے بائیک سنبھالتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ پچھلے 5 ماہ میں یہ تیسری بار تھی جب اس کا موٹر سائیکل حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچا تھا۔ لیکن آج کا واقعہ انتہائی شدید نوعیت کا تھا۔ پچھلے دونوں واقعات کو تو اس نے کسی کھاتے میں نہیں رکھا تھا، پر اب کی بار وہ سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا تھا؟ اور اگر ہو رہا تھا تو ایسا کیا تھا جو اس کے اور حادثے کی بیچ آڑ بن جاتا تھا؟
سوچنے پر اسے احساس ہوا کہ بہت دن ہوئے اس نے تو کوئی ایسی خاص نیکی بھی نہیں کی تھی، وہ تو نماز بھی کبھی کبھار پڑھتا تھا، شاید ہفتے میں ایک جمعہ ہی۔۔ باقی معاملات میں بھی کوئی خاص دینداری کا مظاہرہ کرنا اس نے کبھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔
خیر، اس وقت وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ گھر پہنچ کر اس کے ذہن میں ہی نہ رہا کہ اسے اس بارے میں سوچنا تھا۔
جیسے تیسے وہ دن تو گزر گیا۔
اگلے دن صبح سے ہی گھر میں گھمسان پڑ گیا، کراچی والے تایا اپنے پورے کنبے کے ساتھ آ پہنچے تھے۔
سب سے ملنے ملانے کے بعد ناشتہ اور تیاری بھی ہوگئی۔ لیکن اسی وقت کچھ ایسا ہوا جس نے اسے کل کی نوعیت کے تمام واقعات کے متعلق اس کے سارے سوالوں کے جواب دے دیے
خلافِ معمول کالج کے لیے نکلتے ہوئے اسکی نظر ماں جی کے ہونٹوں پر پڑ گئی، جو اسکو باہر نکلتے دیکھ کر زیرِلب کچھ پڑھ رہی تھیں۔۔
 
Top