اقتباسات اعجاز عبید کی کتاب " اللہ میاں کے مہمان " سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
اعجاز عبید کی کتاب " اللہ میاں کے مہمان " سے اقتباس

داستان چپّل کی ، لکھانی سے باٹا تک

" ہم اتنے دن سے باٹا کی وہی پرانی چپّل پہنے جا رہے تھے جس کے انگوٹھے کی دو تین بار سلائی کروا چکے تھے۔ سوچا تھا سفر میں اسی کو چلنے دیں گے، مکّہ پہنچ کر اسے رخصت کر دیں گے۔ مگر 29/ کی صبح ہی یہ چپّل پھر ٹوٹ گئی، ہم کسی طرح شام تک گھسیٹتے رہے۔ حرم کے نیک ارادے سے ہم نے "لکھانی" کی سب سے مہنگی والی 58 روپئے کی کم وزن ہوائی چپّل خریدی تھی۔ سوچ رہے تھے کہ اسے ابھی نہ نکالیں، آس پاس گھوم کر دیکھتے رہے کہ کوئی موچی ہو تو وہی چپّل پھر سلوا لیں۔ مگر بنگلور کے ڈکنسن روڈ پر یا تو کوئی موچی بیٹھتا نہیں تھا، یا بیٹھتا بھی تھا تو ہمارا (یا پھر، خدا کرے، کسی اور کا) نام سن کر بھاگ لیا تھا۔ آخر یہ چپّل ہم نے حج کیمپ کے ہمارے نِمرہ ہال کی نذر کر دی۔ پاسپورٹ وغیرہ کے مطالعے کے بعد نہا دھو کر باہر نکلے تو یہی نئی چپّل پہن لی۔ اب کیوں کہ چپّل کی داستان لکھ رہے ہیں (اور کافی مدّت کے بعد جب بہت کچھ مزید واقع ہو چکا ہے) اس لئے یہ لکھ دیں کہ اس چپّل نے بھی ہمارا ساتھ محض 25۔26 گھنٹے ہی دیا کہ مکۃ المکرّمہ آنے کے بعد حرم کے پہلے ہی دورے میں داغِ مفارقت دے گئی۔
ہم نے مولانا عبدالکریم پاریکھ کی کتاب "حج کا ساتھی" میں پڑھا تھا کہ ایسے موقعوں پر مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور نہ ضرورت ہے کہ آپ رقم خرچ کر کے بار بار چپّل خریدتے رہیں۔ حرم میں جب چپّلیں زیادہ جمع ہو جاتی ہیں یا ان کا ڈھیر راستے میں حائل ہو جاتا ہے تو حرم کے صفائی کرنے والے ملازمین دروازوں کے باہر یا کوڑے دانوں میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ کو بھی چپّل نہ ملے تو جہاں لا وارث چپّلوں کے ڈھیر نظر آئیں، آپ کوئی بھی چپّل نکال کر پہن لیجئے۔ ہمارے ساتھ جو مظہر صاحب تھے، انھوں نے بھی یہی مشورہ دیا بلکہ ایک ڈھیر کی طرف اشارہ بھی کیا۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو اس بہانے ہندوستانی چپّل کے بدلے میں کوئی عمدہ، باہر کی، مطلب " اِمپورٹیڈ" چپّل مل جائے گی چین، جاپان یا سنگاپور وغیرہ کی۔ مگر اس ڈھیر میں دیکھا تو کوئی جوڑا مکمل نہ تھا جو ہمارے پیروں میں آتا۔ لے دے کر ایک جوڑ چپّل ایسی تھی جسے "زوجین" کہا جا سکتا تھا۔ بلکہ زوجین ہی تھیں یہ چپّلیں۔ اس وقت تو ہم نے اندھیرے میں بغیر دیکھے ہی پہن لیں، بعد میں قیام گاہ میں آ کر دیکھا تو یہ چپلیں باٹا کی تھیں۔
(پس تحریر:لکھتے وقت ہم کو غلط فہمی تھی کہ باٹا کی چپّلیں صرف ہندوستانی ہوتی ہیں۔ لیکن بعد میں پاکستانیوں کو بھی باٹا کی چپّلیں پہنے دیکھا اور جدّہ میں باٹا کی کچھ چپّلوں کے ڈبّوں پر "میڈ ان سایپرس" Made in Cyprus))بھی لکھا دیکھا۔ چنانچہ پتہ چلا کہ باٹا کی چپّلوں پر ہندوستان کا ہی ٹھیکہ (حیدرآبادی زبان میں "گتّہ")نہیں ہے۔ اس وقت چپّل پاکر ہم کو مایوسی ہوئی تھی ۔ بعد میں خوش بھی ہو لئے کہ ممکن ہے کہ یہ چپّل قبرص یا کہیں اور کی ہو۔بہر حال یہ چپّل بھی، اگرچہ سلامت تھی اور پورے قیام کے دوران ہمارا ساتھ نبھاتی رہی ، مگر ہم وطن واپس آتے وقت مکّے کی عمارت میں چھوڑ آئے، جان بوجھ کر۔) "
 

تلمیذ

لائبریرین
کافی دنوں کے بعد تشریف لائے ہیں، محترم۔
ایک اچھے اقتباس میں شریک کرنے کا شکریہ۔ یہ تجربہ بیشتر حاجیوں کو ہو چکا ہے۔ تاہم، اس کا ایک حل یہ بھی دیکھنے میں آیاتھا کہ بعض لوگ موٹے کپڑے کا ایک زپ ولا تھیلا سلوا کر گلے میں لٹکائے رکھتے تھے جس میں وہ حرم شریف کے اندر جاتے ہوئے اپنی چپلیں ڈال لیتے تھے۔ ان کا یہ اقدام کس حد تک جائز یا احسن تھا یہ بات قابل توجہ و بحث ہے۔
 
چاچو کی یہ مکمل کتاب یہاں سے ڈاون لوڈ کی جا سکتی ہے ۔میں نے ڈاون لوڈ کر لیا ہے ۔ابھی دو چارصفحے پڑھے بھی ۔مزے کی چیز ہے ۔چاچو اسقدر مزاح بھی لکھتے ہیں مجھے پتہ نہیں تھا ۔بہت اچھے چاچو ہم بھی سیکھ ہی جائیں گے آپ سے ۔
 
Top