سید زبیر
محفلین
اطہر پرویز کی کتاب " علی گڑھ سے علی گڑھ تک " سے اقتباس
" یہ بات اب سے بیس سال پہلے کی ہے سن چھپن کی ، میں جامعہ سے آیا تھا ۔ ذاکر صاحب نے کہا کہ علی گڑھ میں مکان ملنا آسان نہیں جہاں کہیں اور جیسے بھی سر چھپانے کی جگہ مل جائے قبضہ کرلو پھر ذاکر صاحب جامعہ چلے گئے تو یہ سمجھے کہ مکان مل گیا ہے بچوںکو اپنی گاڑی میں گاڑی میں علی گڑھ لے آئے ۔ میرے لیے پریشانی تھی 'میں نے چند روز کے لیے بچوں کو سیوہارے بھیج دیا اور اب مکان کی تلاش میں دن رات ایک کردیا وقتی طور پر 'امیر نشان' کے انسپکٹر مشرف نے سہارا دیا ۔ انسپکٹر مشرف کا ابھی ھال ہی میں انتقال ہوا ہے ۔ مشرف مرحوم ایک فرد نہیں بلکہ اپنی جگہ پر ایک " کالونی "تھے ان کے پاس بیسیوں مکان تھے یہ سارے مکان 'امیر نشان ' کہلاتے تھے اور اب تو اس کے آس پاس کا علاقہ گرلز کالج سے دودھ پور کی سڑک تک 'امیر نشان' کہلاتا ہے ۔ مشرف مرحوم کا کوئی نہ کوئی مکان ضرور خالی رہتا تھا کیوں کہ امیر نشان نام تھا کرایہ داروں کی مجبوری کا ، جہاں انہیں دوسرا مکان ملا فوراً اٹھ گئے ۔ ایک زمانے مین جذبی صاحب بھی ان کے ایک مکان میں رہتے تھے ۔ مشرف مرحوم کے مزاج میں ذرا سی اذیت پسندی تھی وہ ذرا کنجوس تھے اس لیے پیسوں کو اپنے دانتوں سے اس زور سے دباتے تھے کہ اس میں دانتوں کی جگہ بن جاتی تھی اور پھر یہ پیسہ اٹک کر رہ جاتا تھا ۔ ایک پھٹا ہوا بنیان ، ایک تہمد پہن کر ایک ٹوٹے ہوے مونڈھے پر بیٹھے رہتے اور جب اٹھتے تو اس کو اٹھوا کر احتیاط سے اندر رکھوا دیتے ۔ پیسے کے نام سے ان کی جان نکلتی تھی ان کا اپنا بیٹا اس کا شکار ہو گیا اس کو وہ چار آنے جیب خرچ دیتے تھے اس نے آٹھ آنے کا مطالبہ کیا ۔ امیر نشان کے لکھ پتی کے لیے آٹھ آنے روز بڑی رقم تھی چنانچہ وہ ناراض ہو کر فوج میں بھرتی ہوگیا وہاں اس نے ایسا کشت و خون دیکھا کہ دماغ پر اس کا اثر ہو گیا ۔ حکومت نے اسے علی گڑھ واپس بھیج دیا وہ باپ جو چار آنے نہ خرچ سکتا ہو اس کے لیے دماغی مریض کا علاج تو بہت بڑی بات تھی چنانچہ بیماری بڑھتی گئی اور اب وہ امیر نشان کی تمام عمارتوں کا وارث اس کے پھاٹک پر بھیک مانگتا نظر آتا ہے