اصلاح کر کے ممنون فرماویں

محفل میں عاشقوں کے یوں وہ جناب آئے
جیسے کہ میکدے میں شب کو شراب آئے
محروم سب سے مجھ کو خدایا کیا ہوا ہے
نہ آئے وہ نہ آئے کوئی تو خواب آئے
کل شب میں دیکھتا تھا مہ چودھویں چمکتا
تم مجھ کو یاد آئے اور بے حساب آئے
محفل میں غیرکی وہ ہم کو بلا رہے تھے
دل نے کہا کہ بیٹھیں پر دے جواب آئے
گل پر نہ گنگنائے گلشن میں کوئی بلبل
گر وہ یہاں پہ آئے اور بے نقاب آئے
واعظ کو بھی تو دیکھو آئے ہیں اس گلی سے
یہ پارسا گئے تھے ہو کر خراب آئے
غیروں کے ساتھ ہنستے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
وہ میرے پاس آئے جیسے عذاب آئے
جراَت نہیں تھی ہم میں بے حوصلہ سا دل تھا
بوسہ نہ لے سکے تو پاؤں کو داب آئے
ہم معتدل نہیں ہیں کسی ایک بھی ہنر میں
چپ ہوں تو موت آئےروئیں سیلاب آئے
اس ماہ رخ کاچہرہ تم کو دکھا بھی دیں گے
کچھ وقت دو ہمیں کہ شبِ ماہ تاب آئے
اس لب کو چومنا ہے اک جوئے شیر لانا
کئی بار ہم گئے نہ کبھی کامیاب آئے
جب کم سنی میں اتنے عاشق ہیں شانؔ ان کے
تو سوچ کیا بنے گا جو ان پر شباب آئے
 
فیض صاحب کا کلام ہے
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اترے
دستِ ساقی میں آفتاب آئے
کر رہاتھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
 

الف عین

لائبریرین
اتنی لمبی غزل دیکھ کر کل چوم کر چھوڑ دی تھی

محفل میں عاشقوں کے یوں وہ جناب آئے
جیسے کہ میکدے میں شب کو شراب آئے
تشبیہ سمجھ میں نہیں آئی محفل میں عاشقوں 'کی'، محفل مونث ہے

محروم سب سے مجھ کو خدایا کیا ہوا ہے
نہ آئے وہ نہ آئے کوئی تو خواب آئے
خدایا کی وجہ سے وزن سے باہر نکل گیا 'یا رب' درست ہے
دوسرا مصرع 'نہ' در اصل نا، دو حرفی سے وزن میں آتا ہے 'وہ آئے یا نہ آئے' سے درست ہو گا

کل شب میں دیکھتا تھا مہ چودھویں چمکتا
تم مجھ کو یاد آئے اور بے حساب آئے
پہلا مصرع روانی چاہتا ہے جیسے
کل رات چودھویں کا میں چاند دیکھتا تھا

محفل میں غیرکی وہ ہم کو بلا رہے تھے
دل نے کہا کہ بیٹھیں پر دے جواب آئے
پر دے جواب؟ یہ بیانیہ پسند نہیں آیا

گل پر نہ گنگنائے گلشن میں کوئی بلبل
گر وہ یہاں پہ آئے اور بے نقاب آئے
بلبل گل پر گنگناتی ہے، یہ آج پتہ چلا
یوں کہیں
شاید نہ گنگنائے۔۔۔

واعظ کو بھی تو دیکھو آئے ہیں اس گلی سے
یہ پارسا گئے تھے ہو کر خراب آئے
ٹھیک ہے

غیروں کے ساتھ ہنستے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
وہ میرے پاس آئے جیسے عذاب آئے
روانی؟ پہلا مصرع عجز بیان کا شکار ہے
وہ میرے پاس لیکن بن کر عذاب آئے
بہتر مصرع ہو گا

جراَت نہیں تھی ہم میں بے حوصلہ سا دل تھا
بوسہ نہ لے سکے تو پاؤں کو داب آئے
درست

ہم معتدل نہیں ہیں کسی ایک بھی ہنر میں
چپ ہوں تو موت آئےروئیں سیلاب آئے

معتدل؟ کچھ اور لفظ ہونا چاہیے تھا
سیلاب بحر میں نہیں آتا

اس ماہ رخ کاچہرہ تم کو دکھا بھی دیں گے
کچھ وقت دو ہمیں کہ شبِ ماہ تاب آئے
شبِ ماہتاب وزن میں نہیں آتا

اس لب کو چومنا ہے اک جوئے شیر لانا
کئی بار ہم گئے نہ کبھی کامیاب آئے
ثانی مصرعے کی گرامر بھی گڑبڑ ہے

جب کم سنی میں اتنے عاشق ہیں شانؔ ان کے
تو سوچ کیا بنے گا جو ان پر شباب آئے
'جو' سے وزن بگڑ گیا ہے
لیکن ایسی غزل اس زمانے میں؟ لکھنؤ کے کلاسیکی شعرا کا انداز ہے
 
فیض صاحب کا کلام ہے
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اترے
دستِ ساقی میں آفتاب آئے
کر رہاتھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

اوہ اچھا!
فیض صاحب سے کبھی فیض حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ صرف حضرت غالب ،میر اور سودا سے شغف ہے۔اور انہی کے خوشہ چیں ہیں۔
 
محروم سب سے مجھ کو خدایا کیا ہوا ہے
نہ آئے وہ نہ آئے کوئی تو خواب آئے
خدایا کی وجہ سے وزن سے باہر نکل گیا 'یا رب' درست ہے
دوسرا مصرع 'نہ' در اصل نا، دو حرفی سے وزن میں آتا ہے 'وہ آئے یا نہ آئے' سے درست ہو گا
جی بہت بہتر
 
گل پر نہ گنگنائے گلشن میں کوئی بلبل
گر وہ یہاں پہ آئے اور بے نقاب آئے
بلبل گل پر گنگناتی ہے، یہ آج پتہ چلا
یوں کہیں
شاید نہ گنگنائے۔۔۔

میں تو یہی سمجھتا رہا ہوں کہ بلبل گل پر گنگناتی ہے۔مزید وضاحت اگر کر دیں تو نوازش ہوگی۔
 

الف عین

لائبریرین
میں تو یہی سمجھتا رہا ہوں کہ بلبل گل پر گنگناتی ہے۔مزید وضاحت اگر کر دیں تو نوازش ہوگی۔
شاید کہنے میں کوئی اعتراض ہے کیا؟
آج کل کے ادبی رسائل میں شاعری کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ اس قسم کی شاعری اب نہیں کی جاتی۔
 
Top