اصلاح فرما دیں۔ فعولن

زلفی شاہ

لائبریرین
خطا کار ہوں میں سزا مانگتا ہوں
سزاوار ہوکر عطا مانگتا ہوں
گناہوں پہ اپنے مسلسل ہمیشہ
کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں
سنا ہے پسند ہیں گنہ گار اس کو
گنہ کر کے اس کی رضا مانگتا ہوں
نگاہِ مکرر حرام ہے گنہ ہے
بصارت میں میری حیا مانگتا ہوں
مہد سے لحد تک اسی کی طلب میں
تڑپ کر اسی سے جزا مانگتا ہوں
مسیحا بنوں میں جہاں میں تمہیں سے
عطا ہو وہ دستِ شفا مانگتا ہوں
سلامت رہو تم قیامت تلک یوں
میں اللہ سے بس یہ دعا مانگتا ہوں
تجسس پہ اپنی میں حیران ہوں کہ
سیہ رات میں ضیاء مانگتا ہوں
وہ مشتاقِ دیدار ہیں میتوں کے
میں مرتے سمے چشمِ وا مانگتا ہوں
جو شامل کیا ہے اسیروں میں زلفی
قفس بھی میں گیسو نما مانگتا ہوں
 
اساتذہ سے معزرت کے ساتھ، ذرا سی مشق کے طور پرکوشش کرتا ہوں

متقارب مثمن سالم
خطا کار ہوں میں سزا مانگتا ہوں
سزاوار ہوکر عطا مانگتا ہوں
گناہوں پہ اپنے مسلسل ہمیشہ
کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں
سنا ہے پسند ہیں گنہ گار اس کو
گنہ کر کے اس کی رضا مانگتا ہوں
نگاہِ مکرر گنہ ہے خطا ہے
بصارت میں میری حیا مانگتا ہوں
مہد سے لحد تک اسی کی طلب میں
تڑپ کر اسی سے جزا مانگتا ہوں
مسیحا بنوں میں جہاں میں کرم کر
عطا ہو وہ دستِ شفا مانگتا ہوں
سلامت رہو تم قیامت تلک یوں
خدایا یہ بس میں دعا مانگتا ہوں
تجسس پہ اپنے میں حیران ہوں کہ
سیہ رات میں بھی ضیاء مانگتا ہوں
وہ مشتاقِ دیدار ہیں میتوں کے
اُٹھا لے مجھے پھر دعا مانگتا ہوں
جو شامل کیا ہے اسیروں میں زلفی
قفس بھی میں گیسو نما مانگتا ہوں
لیجیے جناب اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں آُ بھی اور میں بھی
خاکسار
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اغلاط کی نشان دہی تو عزیزی اظہر نے کر دی ہے۔ (لیکن یہ رواں نہیں ’خدایا یہ بس میں دعا مانگتا ہوں’۔ اس سے تو زلفی کا ہی درست تھا) بہر حال مزید تفصیل سے بعد میں دیکھتا ہوں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
کچھ اغلاط کی نشان دہی تو عزیزی اظہر نے کر دی ہے۔ (لیکن یہ رواں نہیں ’خدایا یہ بس میں دعا مانگتا ہوں’۔ اس سے تو زلفی کا ہی درست تھا) بہر حال مزید تفصیل سے بعد میں دیکھتا ہوں۔
سر، اگر یوں ہو تو کیسا ؟
خدا سے یہی میں دعا مانگتا ہوں
 

ایم اے راجا

محفلین
اور یہ شعر
وہ مشتاقِ دیدار ہیں میتوں کے
اُٹھا لے مجھے پھر دعا مانگتا ہوں
اگر یوں ہو تو ؟​
وہ مشتاقِ دیدار ہیں میتوں کے
اُٹھا لے مجھےبھی، دعا مانگتا ہوں
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سلامت رہو تم قیامت تلک یوں
خدا سے یہی میں دعا مانگتا ہوں
سر ایم اے راجا صاحب بہت بہت شکریہ آپ کے مصرع ثانی نے اس شعر کو مکمل اور خوبصورت بنا دیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ اچھا خیال ہے کہ بالکل مبتدی شعراء کے کلام کی اصلاح آپس میں ہی کچھ تجربہ کار شعراء کر لیا کریں، تو اساتذہ پر کم بار پڑے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
چلو، بغیر یہاں دوسروں کی اصلاح کی مدد لئے پوری غزل کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔

خطا کار ہوں میں سزا مانگتا ہوں
سزاوار ہو کر عطا مانگتا ہوں
//عطا مانگی نہیں جاتی، دعا مانگی جاتی ہے کہ کچھ عطا ہو۔ ویسے میں نے یہ استعمال بھی دیکھا ہے عطا کا، لیکن سند نہیں دے سکتا۔

گناہوں پہ اپنے مسلسل ہمیشہ
کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں
//اس شعر کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو پچھلے شعر کا تھا، وہی قافیہ بھی ہے، کیا ضرورت ہے اس کی؟ ویسے پہلے مصرع میں مسلسل اور ہمیشہ دونوں الفاظ کی ضرورت نہیں، یہ حشو میں آتا ہے۔

سنا ہے پسند ہیں گنہ گار اس کو
گنہ کر کے اس کی رضا مانگتا ہوں
// اس میں Factual غلطی ہے میاں۔ گنہ گار اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، توبہ کرنے والے پسند ہیں، گناہوں پر شرمندہ ہونے والے پسند ہیں۔ تکنیکی طور پر ’پسند‘ کی دال ساقط ہو رہی ہے۔ ’پسن‘ تقطیع کرنا جائز نہیں۔

نگاہِ مکرر حرام ہے گنہ ہے/نگاہِ مکرر گنہ ہے خطا ہے
بصارت میں میری حیا مانگتا ہوں
//نا محرم کی بات تو یہاں آئی ہی نہیں؟۔ ویسے ہی نگاہ مکرر ہو (یا نکاح مکرر!!!) حرام نہیں۔ اس لئے پہلا مصرع تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے مصرع میں ’میری‘ کی جگہ ’اپنی‘ کر دو تو بہتر ہے۔

مہد سے لحد تک اسی کی طلب میں
تڑپ کر اسی سے جزا مانگتا ہوں
//کس عمل کی جزا مانگتے ہو، عمل کا ذکر تو ہوا ہی نہیں۔ اور مہد سے لحد تک کس شے کی طلب ہے، یہ بھی پتہ نہیں چلا!!

مسیحا بنوں میں جہاں میں تمہیں سے/مسیحا بنوں میں جہاں میں کرم کر
عطا ہو وہ دستِ شفا مانگتا ہوں
//’عطا ہو‘ یہاں بھی موجود ہے!!، پہلے مصرع میں بھی ’تمہیں سے‘ بھی غیر ضروری ہے، اور ‘کرم کر‘ بھی زائد۔ اس کو یوں کر دو تو کیسا رہے
جہاں کی مسیحائی کرنے کے قابل
بنا دے، وہ دستِ شفا چاہتا ہوں

سلامت رہو تم قیامت تلک یوں
میں اللہ سے بس یہ دعا مانگتا ہوں
//’تم‘ کون؟ یہ مبہم ہے، بہر حال اگر درست ہو، تو بھی پہلے مصرع میں محاورے کے حساب سے ’ہی‘ کی کمی ہے، جس کی اس طرح اصلاح ہو سکتی ہے
سلامت رہو تا قیامت یوں ہی تم

تجسس پہ اپنی میں حیران ہوں کہ
سیہ رات میں ضیاء مانگتا ہوں/سیہ رات میں بھی ضیاء مانگتا ہوں
//یہ شعر بھی واضح نہیں، تجسس کیوں؟ تجسس تو ویسے بھی قرآن کی رو سے نا پسندیدہ ہے ۔ ضیا یا روشنی رات میں نا ممکن تو نہیں، بجلی کی ایجاد کے بعد، ہاں کسی اندھیری رات میں سورج کی خواہش ناممکن ہے ۔ اور نا ممکن بات کا تصور کرنا تجسس میں شامل نہیں، یہ محض خواہش ہے۔ اس کو پھر کہو۔

وہ مشتاقِ دیدار ہیں میتوں کے
میں مرتے سمے چشمِ وا مانگتا ہوں/اُٹھا لے مجھے پھر دعا مانگتا ہوں
// چشم وا کیوں، کیا اپنی لاش کو دیکھنا چاہتے ہو؟ دوسرا مصرع تو واضح بھی نہیں ہوتا۔ اس شعر کو بھی واضح کرو اور پھر کہو۔

جو شامل کیا ہے اسیروں میں زلفی
قفس بھی میں گیسو نما مانگتا ہوں
//درست۔ تکنیکی غلطی کوئی نہیں۔
 
Top