اصلاح سخن :

فاخر

محفلین
حضرت قبلہ الف عین مدظلہ العالی کی نظر کرم کی درخواست کے ساتھ :
غزل
افتخاررحمانی فاخرؔ
جنوں کی درایت کا اظہار ہے یہ
روایت ، حکایت کا اظہار ہے یہ

جھکاؤجبیں کو بصد شوق الفت
خدا کی عبادت کا اظہار ہے یہ !

تری سازخوانی ہے افسوں کا درپن
کہ ’خسروؔ‘ کی صنعت کا اظہار ہے یہ

’ تری نذر ہے میرا ہرحرف ہمدم ‘ !
کہ تجھ سے عقیدت کا اظہار ہے یہ !

زمانے نے جس طرح رسوا کیا ہے
کہ مجھ سے عداوت کا اظہار ہے یہ !

لپک کر مجھےتو جگر سے لگائے !
جنوں کی حمایت کااظہار ہے یہ؟

نہیں خشک سوتے ،سخن پروری کے
’ ا سدؔ‘ کی کرامت کا اظہار ہے یہ

تفاخرنہیں شعرگوئی پہ ہم دم !
کہ تیری کرامت کا اظہار ہے یہ
 

فاخر

محفلین
بہت خوب۔ لگتا ہے پرانے شعرا کو کافی پڑھا ہے
آپ کی نوازشوں کا شکریہ !!! البتہ حضرت قبلہ الف عین صاحب مدظلہ العالی کی اصلاح کا انتظار ہے،وہ مصروف ہوں گے ؛اس لیے ہماری ادنیٰ سی معروضات پر توجہ نہیں فرمائی ، ان شاء اللہ جب وہ فارغ ہوں گے تو اس طرف بھی توجہ فرمائیں گے۔
 
حضرت قبلہ الف عین مدظلہ العالی کی نظر کرم کی درخواست کے ساتھ :
غزل
افتخاررحمانی فاخرؔ
جنوں کی درایت کا اظہار ہے یہ
روایت ، حکایت کا اظہار ہے یہ

جھکاؤجبیں کو بصد شوق الفت
خدا کی عبادت کا اظہار ہے یہ !

تری سازخوانی ہے افسوں کا درپن
کہ ’خسروؔ‘ کی صنعت کا اظہار ہے یہ

’ تری نذر ہے میرا ہرحرف ہمدم ‘ !
کہ تجھ سے عقیدت کا اظہار ہے یہ !

زمانے نے جس طرح رسوا کیا ہے
کہ مجھ سے عداوت کا اظہار ہے یہ !

لپک کر مجھےتو جگر سے لگائے !
جنوں کی حمایت کااظہار ہے یہ؟

نہیں خشک سوتے ،سخن پروری کے
’ ا سدؔ‘ کی کرامت کا اظہار ہے یہ

تفاخرنہیں شعرگوئی پہ ہم دم !
کہ تیری کرامت کا اظہار ہے یہ
افتخاررحمانی فاخر بھائی کیا بہتر نہ ہوگا کہ مطلع کے کسی ایک مصرع میں قافیہ تبدیل کردیں کہ اس کی موجودہ شکل میں دوسرے تمام اشعار کے قافیوں پر سوال اٹھیں گے۔

نیز "ساز خوانی" اور "جگر سے لگانا" جیسی تراکیب پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مطلع میں جو قافیے لائے ہیں اس سے بقیہ قافیے کمزور پڑتے ہیں ۔
نیز مطلع معنوی طور پر کسی مفہوم یعنی ایک تخیل پر سمٹتا نہیں اور اس لحاظ سے کمزور بھی ہے۔
درپن کا ہندی لفظ بھی عجیب تاثر دے رہا ہے ۔ (جیسے اعجاز بھئی کو صنم لگتاہے :)
کہ مجھ سے عداوت کا اظہار ہے یہ !
یہاں "کہ" کی نشست کمزور بلکہ نامناسب ہے ۔ آخر مصرع میں بھی یہی کمزوری ہے "کہ" والی
 

فاخر

محفلین
مطلع میں جو قافیے لائے ہیں اس سے بقیہ قافیے کمزور پڑتے ہیں ۔
نیز مطلع معنوی طور پر کسی مفہوم یعنی ایک تخیل پر سمٹتا نہیں اور اس لحاظ سے کمزور بھی ہے۔
درپن کا ہندی لفظ بھی عجیب تاثر دے رہا ہے ۔ (جیسے اعجاز بھئی کو صنم لگتاہے :)

ھا ھا ھا کیا بتاؤں ؟ اب تو’’ صنم‘‘ سے خواب میں بھی ڈر لگتا ہے۔ اس غزل میں کئی مربتہ صنم کا تکرار ہوجاتا ؛لیکن حضرت قبلہ الف عین مدظلہ کی توبیخ اور ان کے مزاج کی وجہ سے نامراد ’’صنم‘‘ کے استعمال سے کلیتہً گریز کیا گیا ہے ۔ رہی بات درپن کی تو ’’درپن‘‘ ہماری مجبوری ہے ؛کیوں کہ ہم ہندی زدہ ماحول میں جیتے ہیں اور اپنی زبان کی بقا اور تحفظ کےلیے بریانی قورمہ کے بجائے ’’دال روٹی ‘‘ کھا کر کفار سے ’’جہاد‘‘ کرتے ہیں،جب کہ نالائق مردود کفار تنہائیوں میں غالبؔ و میرؔ کے اشعار گنگناتے رہتے ہیں اورایوان میں ندافاضلی ؔ کے اشعارپڑھا کرتے ہیں۔ ہندی زدہ ماحول کی وجہ سے ’’درپن‘‘ آگیا ،اس ’درپن‘ کا استعمال اختیاری نہیں اضطراری ہے۔غور طلب ہے کہ بعض ہندی الفاظ ویسے ہیں جن سے حسن اور ’’ورندا ون‘‘ میں چرتی ہوئی غزالوں کی کشش جھلکتی ہے۔ ورنہ تو ہمیں خود ہندی زبان کے استعمال میں ’’متلی ‘‘ آنے لگ جاتی ہے۔ مجھے اس وقت سخت کوفت ہوتی ہے جب ہندی کے جملے سماعت سے مجبوراً ٹکرائے ۔ هندوستان میں چونکہ ہندی میڈیا (جرنلزم) کا غلغلہ ہے اس لیے ہندی تراکیب کو مجبوراً سہنا اور برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ طبیعت کی نفاست کا احساس نہ ہوتا تو گنہ گار اردو میں ہندی جملے پیش کرتا اسے پڑھ کر جی ہی نہیں متلائے گا ؛بلکہ ’’قے‘‘ بھی ہوجائے گی۔ خیر چلئے ! برسبیل تذکرہ معروف ہندی چینل این ڈی ٹی وی کی خبر کا ایک طویل ہندی جملہ اردو کے قالب میں پیش کرتا ہوں۔
نئی دہلی : جیسا کہ سمبھاؤنا (توقع ) جتائی (ظاہر) کئی گئی تھی ،دہلی سمیت اتر بھارت (شمالی بھارت) میں ایک بار پھر موسم نے کروٹ بدلی ہے ۔ بدھ وار (چہار شنبہ ) کو تاپ مان (درجہ حرارت) میں کچھ بڑھوتری(اضافہ) کے بعد بدھ کو دہلی سمیت این سی آر میں کئی استھانوں(مقامات) پر ہلکی بارش ہوئی، نوئیڈا میں اولے (ژالہ باری ) کی سمبھاونا (خدشہ ) ہے۔
شکر ہے کہ اس میں وہ ترکیب استعمال نہیں کی گئی ہے جو سنسکرت کی جان ہے۔ ؛ اس لیے مجھے درپن کا استعمال ’’غیر موزوں‘‘ نظر نہیں آتا ہے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بھئی ہندی الفاظ سے مجھے چڑ نہیں لیکن میں مکمل ماحول دیکھتا ہوں ۔ اگر شعر میں فارسی عربی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے اور ان کے درمیان ہندی لفظ آ جائے تو پسند نہیں ۔ دل کا درپن قبول ہے لیکن 'جذباتِ دل کا درپن' ہو تو اعتراض ہو گا۔ یہاں بھی یہی لفظ ہے ساز خوانی؟ اور افسوں اور صنعت کے الفاظ کے ساتھ ساتھ!
خلیل میاں کی بات درست ہے۔ بھائی عاطف نے بھی اشارہ کیا ہے کہ مطلع میں ایطا ہے۔ قافیہ بدل دیں۔
 

فہد اشرف

محفلین
दर्पण اس میں "ر" کا حرف تو ہے ہی نہیں شاید ۔:confused1:
افقی خط کے اوپر جو لکیر ہے وہی را ہے. اسے ریف را کہتے ہیں، تلفظ میں اس کی ادائیگی اس حرف سے پہلے کی جاتی ہے جس کے اوپر یہ لگا ہوتا ہے۔ یہ ساکن ہوتا ہے۔
दरपन
یہ درپن کیا غلط ہوگا ؟
اصل تلفظ درپنڑ ہے نون غنہ کے ساتھ لیکن اردو میں اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
 

فاخر

محفلین
दर्पण اس میں "ر" کا حرف تو ہے ہی نہیں شاید ۔:confused1:
ہے نا بھائی ! یہ رہا را کا ہم صوتی لفظ’’ र्‘‘(رَ) یہ اصل میں نصف ’’را‘‘ہے جب ملا کر لکھتے ہیں تو اس کی یہ’’ र्प ‘‘ شکل ہوتی ہے۔ جولوگ ہندی جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ۔ اب اس نصف ’’را‘‘ کو سمجھانے کے لیے ’’ہندی بال پوتھی ‘‘(ہندی زبان کا قاعدہ بغدادی) کتاب لے کر وضاحت کرنی پڑے گی۔ ھا ھا ھا ھا ھا ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہے نا بھائی ! یہ رہا را کا ہم صوتی لفظ’’ र्‘‘(رَ) یہ اصل میں نصف ’’را‘‘ہے جب ملا کر لکھتے ہیں تو اس کی یہ’’ र्प ‘‘ شکل ہوتی ہے۔ جولوگ ہندی جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ۔ اب اس نصف ’’را‘‘ کو سمجھانے کے لیے ’’ہندی بال پوتھی ‘‘(ہندی زبان کا قاعدہ بغدادی) کتاب لے کر وضاحت کرنی پڑے گی۔ ھا ھا ھا ھا ھا ۔
ہندی ،خصوصاََ لکھائی سے بہت معمولی واقفیت ہے دراصل۔
 
Top