مہمان اس ہفتے کی مہمان "محفل کی مانو"

تعبیر

محفلین
ایسے ہی کیوں رہیں، اس میں ترقی کیوں نہ کریں؟
وہ نا شمشاد بھائی اللہ تعالیٰ سے ابھی اتنی اچھی دوستی نہیں ہوئی ہے نا کہ وہ میری ساری دعائیں مانے :p
آپ صحیح کہتے ہیں کہ دعا دل کھول کر دینے چائیے
نین ہمیشہ خوش اور آباد رہیں اور اللہ آپ کو روز بروز اتنی خوشیاں دے کہ آپکی یہ مسکراہٹیں بڑھتی جایئں۔آمین یا رب العالمین :praying:
 
1) عائشہ عزیز کے بارے میں آپ کا پہلا تاثر کیا تھا؟ پہلے تاثر سے لےکر اب تک آپ نے ان کو کیسا پایا ہے؟ وہی پہلے والا تاثر ہے یا رائے بدل چکی ہے؟
عائشہ بٹیا جانی کے ساتھ پہلا تاثر جیسی کبھی کوئی بات ہی نہیں رہی۔ یہ ننھی پری ہیں ہماری، بھلا اپنی ننھی پریوں کے بارے میں بھی کوئی پہلی، دوسری یا آخری رائے ہوتی ہے کسی کی؟۔۔۔ ۔۔۔ یقین نہیں آتا آپ کو؟ ٹھیک ہے آپ ہماری عائشہ بٹیا جانی سے پوچھ لیں کہ ان کے کتنے بھائی ہیں؟ اس فہرست میں ہمارا نام موجود ملے گا۔ اب بھی یقین نہیں آتا؟۔۔۔ چلیں ایک قصہ سنیں! :) :) :)

بہت دنوں کی بات ہے۔ سائبر نگری میں ایک ننھی پری اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ ننھی پری کو اپنے بھیا سے ایک دن کوئی بات منوانی تھی جبکہ بھیا تفریحاً ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔ کوئی حربہ کامیاب ہوتا نہ پا کر ننھی پری نے کہا "بھیا! آپ فلاں کام کر دیں ورنہ ہم آپ سے نہیں بولتے۔۔۔ مسکرائیں گے بھی نہیں۔۔۔ اور ہم آپ کی بہنا بھی نہیں۔۔۔ اور بٹیا بھی نہیں۔۔۔ ہاں نہیں تو!!!" ۔۔۔ ۔۔۔ ایک طویل خاموشی کے بعد جب بھیا کی جانب سے ننھی پری کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو بھیا بھیا کی گردان شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب بھائی کا جواب موصول ہوا تو شکایت کی گئی کہ اتنی دفعہ آواز دی اور جواب کیوں نہیں دیا؟ بھائی نے کہا کہ بٹیا رانی! ہم ذرا منہ دھونے چلے گئے تھے۔۔۔ ۔۔۔کیوں؟۔۔۔ ۔۔۔ بس وہ اسکرین پر بکھری تحریریں تیرنے لگی تھیں اور نگاہوں کی گرفت میں نہیں آ رہی تھیں۔۔۔ ۔۔۔ یعنی۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔ آپ رو رہے تھے؟ کیوں؟۔۔۔ ۔۔۔ کچھ خاص بات نہیں تھی بیٹا، بس یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بہنیں اپنے بھائیوں کو یہ دھمکی بھی دے سکتی ہیں کہ وہ ان کی بہنا نہیں!۔۔۔ ۔۔۔ بھیا! آپ کا بھی حال نہیں۔ ہم تو جھوٹ موٹ کی دھمکی دے رہے تھے بابا۔۔۔ بھلا ایسا کہیں ہوتا ہے؟۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ راوی اس قصے کا اختتام کچھ یوں قلمبند کرتا ہے کہ اس روز تو منتوں، معذرتوں اور مزید دھمکیوں کی مدد سے بھیا کو مسکرانے پر مجبور کر دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد کئی روز تک وہ ننھی پری اس بات کو لے کر ملول رہیں اور چپکے چپکے روتی رہیں۔

خیر یہ سب تو قصے کہانیوں کی باتیں ہیں۔ ورنہ سچ تو بس اتنا ہے کہ وہ دن گزرنا محال ہوتا ہے جس روز ننھی پری اپنے بھیا کو (ہزاروں طریقوں سے) تنگ نہ کر لیں اور اس کے بعد یہ نہ پوچھ لیں کہ بھیا، ہم نے آپ کو تنگ تو نہیں کیا اور اس کے بعد بھیا یہ نہ کہہ دیں کہ نہیں پگلی بٹیا جانی! بھلا کوئی بھیا اپنی ننھی پری سے تنگ ہوتے ہیں کبھی؟ اور پھر اس پر ننھی پری یہ نہ کہہ دیں کہ آآآآآآں آپ آخر تنگ کیوں نہیں ہوتے؟ اور پھر بھیا یہ نہ کہہ دیں کہ دلاری بٹیا جانی! آپ تنگ کرنے میں کامیاب رہیں۔ اور اس کے بعد ننھی پری یہ نہ کہہ دیں کہ ہاااااااا! بھیا ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کہ بھیا اپنی بٹیا سے تنگ ہو جائیں؟۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ذرا سوچیں! ہے کوئی جائے پناہ اور راہ فرار؟ :) :) :)
 
2) پہلی دفعہ عائشہ سے جان پہچان/بات چیت کا آغاز کب اور کیسے ہوا یا ابھی تک بات چیت کا آغاز نہیں ہوا؟
پھر وہی الٹا سوال! ہم نے کہا تو کہ عائشہ بٹیا رانی ہماری دلاری پری ہیں اور ہمیشہ سے ہیں۔ افف!!! ہم نے کہا ہمیشہ سے یعنی ہمیشہ سے۔۔۔ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا؟۔۔۔ اچھا تو ایک اور قصہ سنیں۔۔۔ :) :) :)

بہت دنوں کی بات ہے۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ننھی پری اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ ننھی پری کی اولین ذمہ داریوں میں، گھر کو اپنی پیاری پیاری شرارتوں اور مسکانوں سے معطر رکھنا تھا جبکہ بھیا کا کام تھا کہ اسکول سے واپسی پر گھر کی اکلوتی بھینس کو چرانے لے جانا اور تالاب میں نہلا کر واپس لانا۔ ننھی پری کو لگتا تھا کہ بھیا ان کو زیادہ وقت نہیں دیتے اور ان کے ساتھ کھیلنے کے بجائے اسکول سے لوٹ کر بھینس چرانے چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، ننھی پری کو ضد لگ گئی کہ بھیا کے ساتھ بھینس چرانے جانا ہے۔ گھر میں سبھی نے لاکھ سمجھایا لیکن ان کو نہ ماننا تھا نہ مانیں۔ خیر تھک ہار کر یہ طے پایا گیا کہ اتنی بضد ہیں تو آج ساتھ لیے چلتے ہیں لیکن شام کو جلدی لوٹ آئیں گے۔ ایک رومال میں دو روٹیاں، کچے آم کی چٹنی اور کچے پیاز کی پوٹلی باندھی۔ اس بوتل میں صراحی سے نکال کر پانی بھرا جس کی گردن پر دھاگے سے چھلا بنا کر باندھ دیا گیا تھا کہ لٹکانے میں سہولت ہو۔ دھوپ تیز تھی اور ننھی پری ساتھ تھیں اس لیے پرانی چھتری بھی ساتھ لے لی جس میں جا بجا کپڑا پھٹ رہا تھا اور دو ایک تیلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں پھر بھی دھوپ سے راحت ملتی تھی۔ چھتری کو موچی کی دوکان پر مرمت کے لیے دینے کی ضرورت تھی لیکن بارش کا موسم ابھی دور تھا۔ القصہ بھینس کی گردن کو کھونٹے سے بندھی رسی سے آزاد کیا، کھانے کی پوٹلی اور پانی کی بوتل کو چھتری کے مڑے ہوئے ہتھے میں لٹکایا، ایک ہاتھ میں چھتری اور لاٹھی سنبھالی اور دوسرے ہاتھ میں ننھی پری کی انگلیاں تھام کر بھینس کے پیچھے چل پڑے۔ آج روز کی طرح کوئی کتاب ساتھ لے جانے کی بھی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ بھیا کے ساتھ ننھی پری جو تھیں۔

یوں تو گرمی کا موسم تھا اور گھاس خال خال ہی نظر آتی تھی لیکن کھیت کی منڈیروں کے اطراف اتنی گھاس تھی کہ بھینسیں چر سکتیں۔ بھیا اپنی ننھی پری کے ساتھ ارہر کے کھیت کے پاس والی منڈیر پر سائے میں بیٹھے اسکول کے قصے سنا رہے تھے۔ بھینس چرتے چرتے ذرا دور چلی گئی تو دونوں بھائی بہن اٹھ کر آگے جا بیٹھے۔ ننھی پری آخر تھیں تو ننھی سی ہی، اس پر دھوپ کی تمازت اور اتنی دیر تک پیدل چلنے کے باعث تھکان ان کے چہرے سے مترشح تھی۔ بھیا نے پوٹلی کھولی اور اپنی ننھی منی سی دلاری سی بہن کو روٹیاں کھلائیں، بوتل سے پانی پلایا، اپنی پگڑی کھول کر منڈیر پر بچھا دی اور ننھی پری سے اس پر سو جانے کو کہا۔ ارہر کی چھاؤں کچھ اتنی گھنی نہ تھی اس لیے دھوپ چھن چھن کر ننھی پری کے بالوں اور گالوں پر پڑ رہی تھی۔ لہٰذا بھیا نے چھتری کھول کر ننھی پری کے سرھانے رکھ دیا اور وہ ہوا سے اڑ نہ جائے اس لیے اس کے ہتھے پر مٹی کے دھیلے رکھ دیے۔ ننھی پری سو گئیں اور بھیا بار بار بھینس کو ہانک کر آس پاس ہی رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔

شام ڈھلنے لگی تھی اور کچھ دیر میں گھر واپس جانے کا وقت ہو رہا تھا کہ تبھی ایک جنگی طیارہ سطح زمین کے انتہائی قریب سے چنگھاڑیں مارتا ہوا گذرا جس سے خوف زدہ ہو کر ننھی پری اٹھ بیٹھیں اور چیخ کر پاس بیٹھے بھیا سے لپٹ گئیں۔ ادھر بھینس بدک کر بگ ٹٹ ایک طرف کو منہ اٹھائے بھاگی۔ بھیا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ ایسے میں بھینس کو سنبھالیں یا ننھی پری کو؟ ان کو تنہا گھر واپس جانے کو بھی نہیں کہہ سکتے تھے لہٰذا چھتری کو کھیت کی منڈیر کے پاس چھپایا، ننھی پری کو گود میں اٹھا کر کندھوں پر لٹایا اور لاٹھی لے کر بھینس کے پیچھے پیچھے بھاگے۔ بھینس تھی کہ بھاگی ہی چلی جا رہی تھی حتیٰ کہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ننھی پری کو گود میں سنبھال کر دوڑنے کے باعث بھیا کی ٹانگیں اور ہاتھ جواب دے رہے تھے۔ سورج غروب ہو چلا تھا اور اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ بالآخر تھک ہار کر ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے اور پریشان سی گھبرائی ہوئی ننھی پری کہنے لگیں کہ بھیا اب گھر واپس چلیں ہمیں اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اور آپ تھک بھی گئے ہیں۔ اب جو بھیا نے غور کیا تو پایا کہ اپنے گاؤں سے کوسوں دور چار گاؤوں کا فاصلہ طے کر آئے ہیں اور واپس گھر پہونچنے میں کم از کم ایک گھنٹہ ضرور لگے گا۔ حسن اتفاق چاندنی رات تھی اور آسمان بھی صاف تھا اس لیے راستوں کا تعین آسان تھا۔ خیر واپسی کا قصد کیا اور بھیا نے ننھی پری سے کہا کہ بیٹا آپ کچھ دور پیدل چل سکیں تو اچھا ہوگا اس کے بعد ہم آپ کو گود میں اٹھا لیں گے۔

ابھی کچھ دور ہی لوٹے تھے کہ ایک تالاب کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا کہ تالاب کے پانی کی سطح مرتعش ہے اور اس پر چاندنی رقصاں ہے۔ ذرا غور سے دیکھا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کیوں کہ اپنی بھینس کو اس ملگجے اندھیرے میں دور سے پہچان سکتے تھے۔ بھیا کی آہٹ پا کر بھینس جلدی سے کنارے آ گئی اور مانوس سی آواز نکالی۔ بقیہ واپسی کا سفر بھینس کی پیٹھ پر سواری کر کے طے ہوا۔ ننھی پری اور بھیا آگے پیچھے بھینس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے اور بھینس سبک خرامی کرتے ہوئے گاؤں کی جانب چل پڑی۔ اس کی چال کے جھولے میں ننھی پری کو نیند آتے دیر نہیں لگی لیکن وہ بھیا کے بازؤں میں تھیں اس لیے گرنے کا امکان نہیں تھا۔ سارے راستے بھیا یہی دعا کرتے آئے کہ ایسے میں کوئی اور طیارہ نہ گذر جائے کہ اس دفعہ بھینس بدکی تو ان کی ہڈیوں کو بھی خطرہ تھا۔ گاؤں سے کچھ فاصلے پر تھے جب محسوس ہوا کہ بھیا کو کچھ لوگ آوازیں دے کر بلا رہے ہیں اور گاؤں کی جانب سے ٹارچوں کی روشنیاں اندھرے میں سوراخ کر رہی ہیں۔ پھر بھیا نے ہتھیلیوں کو منہ کے پاس رکھ کر جوابی آواز لگائی اور لوگ ٹارچوں سمیت آواز کی جانب بڑھنے لگے۔ گھر پہونچ کر پتا چلا کہ لوگ بے حد پریشان تھے، محلے کے کچھ لوگ آس پاس کے گاؤں میں ڈھونڈنے چلے گئے تھے۔ گھر میں سبھی رو رہے تھے اور سارا گاؤں اتنی رات تک اکٹھا تھا۔ امی جان نے بڑھ کر ننھی پری کو کلیجے سے لگایا اور بھیا کو اس بات پر ڈانٹ پڑی کہ بھینس کو اس کے حال پر چھوڑ کر گھر کیوں نہیں بھاگ آئے۔۔۔ ۔۔۔ اب وہ کسی کو کیا بتاتے کہ کس کو خبر تھی، بھینس اتنی دور چلی جائے گی۔ :) :) :)
 
3) آپکو عائشہ کی کون سی عادت سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے؟ (انکی پسندیدہ عادت) یا انکی شخصیت میں سب سے دلچسپ کیا لگتا ہے؟
ہماری ننھی پری کی تو ساری ہی عادتیں اتنی پیاری ہیں۔ افف اتنا بھی نہیں پتا کہ پریاں خود بھی پیاری ہوتی ہیں اور ان کی تمام عادتیں بھی۔ نانی اماں کہتی ہیں کہ پریوں کو اللہ نے کائنات میں خوشیاں اور مسکانیں بکھیرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب نانی اماں کہتی ہیں تو ٹھیک ہی کہتی ہوں گی۔ ہمیں تو اپنی ننھی پری کی شرارتیں بے حد پسند ہیں جو وہ بھیا کی مسکان کے لیے یا پھر ان کو تنگ کرنے کے لیے کرتی رہتی ہیں۔ یعنی اس دفعہ بھی یقین نہیں آیا؟ خیر ان کی شرارتوں کے ایک نہیں بے شمار قصے ہیں۔۔۔ کوئی بھی سن لیں۔ :) :) :)

بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ننھی پری اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ دونوں ساتھ کھاتے، ساتھ پیتے، ساتھ سوتے، ساتھ اٹھتے، ساتھ کھیلتے، ساتھ کودتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، دونوں آمنے سامنے چارپائی پر بیٹھے، درمیان میں ایلمونیم کی ایک طشتری میں دال، چاول اور سبزی کا ملغوبہ بنا کر کھا رہے تھے۔ طشتری کے درمیان انگلی سے ایک لکیر کھینچ دی گئی تھی تا کہ اپنے اپنے حصے کا کھانا کھائیں۔ چارپائی کے کنارے جہاں رسیوں کے درمیان فاصلہ قدرے زیادہ تھا وہاں پانی بھرا ایک گلاس رسیوں کے خلا میں پھنسا رکھا تھا۔ ننھی پری نے بھیا سے گلاس نکالنے کو کہا اور تھوڑا سا پانی پی کر اس کو درمیان میں رکھ دیا اور شرارتاً چارپائی سے نیچے کود گئیں۔ اس کے باعث گلاس لڑھک کر سردی میں بھیا کے کپڑے بھگو گیا اور کچھ پانی طشتری میں بھی آ رہا۔ خوشی کے مارے تالیاں بجاتے ہوئے ننھی پری پھر سے چارپائی پر چڑھ کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں کہ بھیا کیا ہوا؟۔۔۔ ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔۔۔ ہم کو تو کچھ بھی نہیں پتا۔۔۔ چونکہ بھیا بڑے تھے اس لیے ان کی جانب چارپائی میں جھول بھی زیادہ تھا لہٰذا طشتری میں گرا اضافی پانی ان کی جانب آ گیا تھا۔ یعنی یہ سارا پانی بھی اب بھیا کو ہی زیب شکن کرنا تھا۔​

کچھ دیر بعد ننھی پری کا جی بھر گیا جبکہ ان کے حصے میں ابھی کافی کھانا تھا لہٰذا جھک کر نوالے اٹھاتے ہوئے نصف سے زائد نوالہ بھیا کے حصے میں گرا دیتیں۔ کبھی اوپر انگلی سے اشارہ کر کے کہتیں کہ بھیا ادھر دیکھیے تتلی، اور بھیا نگاہیں اٹھا کرتتلی ڈھونڈتے تب تک کافی سارا کھانا طشتری میں بھیا کے حصے کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا۔ اسی پر بس نہیں، آخر کار یہاں تک نوبت آ گئی کہ سارا کھانا پھر سے خلط ملط کر کے ذرا سا اپنی جانب رکھ کر باقی بھیا کی طرف دھکیل کر طشتری میں نئی لکیر کھینچ دی اور نعرہ لگایا کہ وہ تو تقریباً کھا چکیں۔ لہٰذا اب بھیا کی خیریت اسی میں تھی کہ وہ جیسے تیسے جلدی سے سارا کھانا ختم کر لیں۔ ورنہ ہوتا یہ کہ کھانے سے فارغ ہونے کے فوراً بعد ننھی پری شور مچاتیں کہ بھیا ہمارا ہاتھ دھلائیں، بھیا ہمارا ہاتھ دھلائیں۔۔۔ اور ذرا سی تاخیر بھیا کے کپڑوں سے ننھی پری کے ہاتھوں کی صفائی کی شکل میں سامنے آتی۔ :) :) :)
 
4) کچھ ایسا خاص جو آپ نے عائشہ کی شخصیت سے سیکھا ہے؟
اسی بات کا تو افسوس ہے کہ کچھ سیکھ نہیں سکے حالانکہ ننھی پری کی شخصیت بے شمار نمایاں خصوصیات سے پر ہے۔ کئی دفعہ ننھی پری اپنے بھیا کو دانش و بینش ( یہاں دانش پرویز اور بینش میم مراد نہیں) کی بہت ساری باتیں بتاتی اور سکھاتی بھی رہتی ہیں۔ مثلاً ایک دفعہ بنجاروں کے ایک قبیلے کو اپنے ساز و سامان سمیت اونٹوں پر سوار جاتے دیکھا تو ایک اونٹ کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ بھیا وہ دیکھیے وہ شتر مرغ ہے، غور کرنے پر پتا چلا کہ اس اونٹ کی پیٹھ پر دیگر سامانوں کے ساتھ مرغ کا ڈربہ بھی بندھا تھا۔ ننھی پری نے ایک دفعہ یہ بھی سکھایا کہ گلاب کے پھول اور جامن کے سیاہ پھلوں کو ایک ساتھ پیس کر کس درجہ حرارت پر کتنی دیر تک پکایا جائے کہ وہ گلاب جامن بن جائیں۔ ویسے ننھی پری کی شخصیت میں ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ ان کو مشکل اردو آتی ہے خاص کر جب بے پر کی اڑانے پر آئیں تو ان کے قلم کا کوئی جواب نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ بغیر قصہ سنے آپ کو یقین نہیں آئے گا۔۔۔ تو یہ لیجیے ایک قصہ سنیے۔ :) :) :)

کچھ زیادہ پرانی بات نہیں۔۔۔ محفل نگری میں ایک ننھی پری اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ بھیا کو تو خیر کچھ خاص اردو نہیں آتی تھی لیکن ننھی پری کے دیگر کئی بھیاؤں کو انتہائی مشکل اردو آتی تھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ننھی پری نے مشکل اردو لغات کے نام سے ایک لغت تصنیف کی اور اس کی مدد سے دقیق و ثقیل قسم کی اردو سے لبریز مراسلوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر مشکل اردو بولنے والے تمام بھیاؤں کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے۔ ابھی وہ اپنے اڑے ہوئے طوطوں کا غم مناتے یا ان کی تلاش میں نکلتے تب تک ننھی پری نے اپنے پر نکال کر پھرپھرائے اور بے پر کی اڑانے والے بھیا کے دھاگے میں جا کر بے طرح پر اڑائے۔

حال ہی میں یہ واقعہ بھی ظہور پذیر ہوا کہ مبارکباد کے دھاگوں میں بے انتہا برکت دیکھ کر انتہائی شگفتہ انداز میں ایسی پر دار اور سلیس اردو میں لوگوں کی خبر گیری کی کہ سارے مبارک باد باز لوگ صف بستہ ایک سُر میں کف خجالت ملتے ہوئے پائے گئے۔ وہ تو بعد میں علم ہوا کہ وہ کف خجالت نہیں مل رہے تھے بلکہ خارش کے باعث کف کھجالت مل رہے تھے۔ :) :) :)
 
5) مہمان شخصیت کے لیے کوئی پیغام، سوال، مشورہ/ رائے؟
ہم تنگ آ گئے ہیں یہ مہمان، مہمان سن کر۔۔۔ ننھی پری مہمان نہیں ہیں بلکہ ہماری بٹیا رانی ہیں۔۔۔ کتنی دفعہ بتائیں آخر؟ ایک مشاورت تو کرنی ہے لیکن اس کے پیچھے بھی ایک لمبی کہانی ہے۔ خیر آپ قصہ سنیے۔۔۔ :) :) :)

بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ننھی پری اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ آس پاس کے گاؤں میں ننھی پری کی بے شمار سہیلیاں رہتی تھیں۔ گاؤں کے قریب ہی ایک جنگل تھا جس میں بہت سارے جانور رہتے تھے۔ انھیں جانوروں میں بھولو خرگوش، سنہری لومڑی، کالو بھالو، نقلچی بندر اور سیانا سیار ننھی پری کے اچھے دوستوں میں سے تھے۔ سریلی کوئل ننھی پری کو نعت پڑھنے کا ریاض کراتی تھیں اور بھیا اپنی ننھی پری کے ساتھ صبح صبح تلاوت کرتے تھے۔ ہر ہفتے منگل کی شب ننھی پری، ان کے بھیا ، ان کی سہیلیاں اور سارے جانور اجلاس منعقد کرتے جس میں جنگل اور اطراف کے مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا، کوئی خوش خبری ہوتی تو اس کا بیان ہوتا اور کسی کے ساتھ کوئی مشکل درپیش ہوتی تو اس کا مقدمہ بھی ہوتا پھر دیر رات تک جشن کا سماں رہتا۔ سال میں ایک دفعہ پورے ہفتے سالانہ جشن منایا جاتا۔۔۔ ایک منگل سے دوسرے منگل تک اور یوں پورے آٹھ روز جنگل میں منگل رہتا۔

پھر وہ دن بھی دیکھنے کو ملا جب انٹرنیٹ کی آندھی آئی اور ننھی پری، ان کے بھیا، ان کی تمام سہیلیاں غرض کہ سب کے سب کرہ ارض پر جا بجا اڑ کر جا پڑے۔ پھر انٹرنیٹ کی آندھی ذرا تھمی تو ننھی پری کے تار تار گوشہ احباب کے کچھ لوگ تاروں سے جڑے اور کچھ بے تار جڑے۔ ننھی پری، ان کے بھیا، ان کی ساری سہیلیاں اور جنگل کے سبھی دوست جانور ہر منگل کی رات بے چین ہو اٹھتے ہیں اور جی کرتا ہے کہ عالمی سطح پر پریوں کا ایک اجلاس ہو۔۔۔ مشاورت یہ کرنی ہے کہ وہ اجلاس کب، کہاں اور کیسے ہو؟ :) :) :)
 
6) اور کچھ خاص جو کہنا یا پوچھنا چاہیں ( کوئی ایسی بات/فرمائش جو آپ نے ابھی تک نہ کہی ہو؟)
فرمائشیں تو ننھی پریاں کرتی ہیں۔۔۔ کبھی آئس کریم کی، کبھی چاکلیٹ کی تو کبھی گھمانے لے چلنے کی۔ بھیا تو بس مسکان کی فرمائش کر سکتے ہیں۔ ویسے ایک بات جاننی ہے ہمیں لیکن وہ بات کیا ہے اس کے پیچھے ایک قصہ ہے جو کچھ یوں ہے۔۔۔ :) :) :)

بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک ننھی پری اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ بھیا نوکری پیشہ تھے جبکہ ننھی پری تو بس ننھی سی ہی تھیں۔ ننھی پری کا کمرہ بھیا کے کمرے سے متصل تھا اور درمیانی دیوار میں بھیا کے کمرے کی الماری تھی۔ سننے میں آیا ہے کہ اس الماری کے پیچھے دیوار میں ایک شگاف تھا جس کے اوپر ننھی پری کے کمرے میں ایک پینٹنگ کا فریم ٹنگا ہوا تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ رات کسی پہر ننھی پری کی آنکھ کھلتی تھی اور وہ پینٹنگ کے فریم کے نیچے تپائی رکھ کر اس پر کھڑی ہو جاتیں، فریم کو ایک جانب سرکا کر شگاف میں ہاتھ ڈالتیں اور بند الماری سے بھیا کا بٹوہ نکال کر اپنے بسر پر آ بیٹھتیں۔ اپنے سرھانے کی دراز سے ایک چھوٹا سا نقرئی ترازو نکالتیں اور بٹوے میں سے اخراجات کی فہرست کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھتیں اور نقد رقومات کو دوسرے پلڑے میں۔ اس طرح رقومات کے پلڑے میں سے اضافی رقم تب تک نکال کر علیحدہ رکھتی رہتیں جب تک کہ دونوں پلڑے برابر نہ ہو جائیں۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اخراجات کا پلڑہ دستیاب نقد سے بھاری ہو۔ اس کے بعد وہ بٹوا اسی شگاف کے راستے اپنی جگہ چلا جاتا، تصویری فریم اپنی جگہ واپس آ جاتی، تپائی دوسری دیوار کے پاس چلی جاتی اور ترازو سرہانے دراز میں۔ وہ اضافی رقم کہاں جاتی یہ آج تک علم نہ ہو سکا۔ بعض حاسدین کا خیال تھا کہ وہ نقدی در اصل چاکلیٹ اور آئس کریم بن کر ننھی پری کے منہ میں پگھل جاتی تھی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، بھیا آفس سے لوٹے تو خلاف معمول ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ ننھی پری نے دروازے پر جا کر بھیا کو سلام کر کے استقبال تو کیا لیکن بھیا کے چہرے کا بدلا ہوا رنگ اور پیشانی پر کبھی نظر نہ آنے والی اجنبی لکیریں دیکھ کر ننھی پری نے اپنا برسوں پرانا معمول توڑ دیا اور اس روز بھیا کی جیب میں ٹافی کی تلاش میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ اس روز بہت ساری باتیں پہلی بار ہوئیں، مثلاً یہ بھی کہ بھیا نے پہلی بار خود سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ننھی پری کو ان کی چاکلیٹ دی جو کہ آفس سے واپسی پر بھیا پر واجب الادا نہیں بلکہ ننھی پری کے لیے واجب الوصول ہوتی تھی۔ رات پھر ہوئی، ننھی پری بستر سے پھر نکلیں، تپائی بھی سرکی، فوٹو فریم بھی سرکا، دیوار کے شگاف سے بٹوا بھی برامد ہوا، دراز سے نقرئی ترازو بھی نکلا اور اخراجات کی پرچیاں و نقدی رقومات بھی اپنے اپنے پلڑے میں گئیں۔۔۔ سب کچھ بدستور ہوا لیکن ایک چیز خلاف معمول تھی۔ آج اخراجات کی پرچیوں میں کوئی چیز اتنی وزنی تھی کہ دستیاب نقدی وزن میں اس کے آس پاس بھی کہیں نہیں تھی۔۔۔ ۔۔۔ صبح بھیا نے الماری کھولی تو بٹوا نظر نہیں آ رہا تھا کیوں کہ الماری کی ایک دراز پوری طرح نقدی سے بھری ہوئی تھی جس کے نیچے بٹوا کہیں دب گیا تھا۔ ساتھ ایک پرچی تھی جس پر کچھ دھندلے دھندلے الفاظ تحریر تھے۔۔۔ ۔۔۔ "اگر شام میں آفس سے لوٹتے ہوئے جیب میں ٹافی یا چاکلیٹ رکھنے کی رسم نہیں ٹوٹ سکتی تو پھر بٹوے میں جمع و خرچ کا میزان کیسے بگڑ سکتا ہے؟"

بس ہمیں اس رات کا معجزہ جاننا ہے جس کی بابت ہم نے اب تک کبھی دریافت نہیں کیا۔ :) :) :)
 
7) عائشہ کے اوتار، پیغامات کے بارے میں آپ کی کوئی رائے، پسندیدگی یا کوئی الجھن اور آپ انہیں محفل کےکن سیکشنز/زمروں میں زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں وغیرہ؟
ننھی پری کے ہر پیغام میں ان کے مزاج کی شگفتگی اور معصومیت جھلکتی ہے۔ الجھن اس بات کی ہے کہ ہم ان کی طرح سلیس مگر مشکل اردو لکھنا کب اور کیسے سیکھ سکیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ننھی پری کی بے پر کی اڑانے کی عادت مزید پختہ ہو جائے۔ رہا سوال ان کے اوتار کا تو اس کا اپنا الگ قصہ ہے۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ :) :) :)

کچھ زیادہ پرانی بات نہیں۔۔۔ تین دور دراز کے علیحدہ علیحدہ نگروں میں ایک ننھی پری، ان کی ان سے بھی زیادہ ننھی سی بھتیجی اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ ننھی پری کی بھتیجی اپنے بابا جانی سے ویڈیو کے ساتھ گفتگو کرتی تھیں جبکہ اپنی پھوپھی جان سے محض آواز کی مدد سے گفتگو کرتی تھیں۔ جہاں وہ اپنے بابا جانی سے بات کرتے ہوئے اپنے ہی مکے سے اپنے گالوں کا غبارہ پھلا کر پھوڑتیں اور بابا جانی کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلتیں وہیں پھوپھی جان سے بات کرتے ہوئے ان کو ہمیشہ اسکرین پر ایک ایسی بلی نظر آتیں جن کو خدا نے محض سیاہ، سفید اور گلابی رنگوں سے نوازا تھا۔ ہر مناظرے کے دوران پس منظر میں ایسا ہی نظارہ ہونے کے باعث نظریات میں یہ تبدیلی نظر آئی کی وہ سیاہ چمکیلی آنکھوں والی بلی کو ہی اپنی پھوپھی سمجھنے لگیں۔ :) :) :)
 

فاتح

لائبریرین
عائشہ عزیز
1)۔عائشہ عزیز کے بارے میں آپ کا پہلا تاثر کیا تھا؟ پہلے تاثر سے لےکر اب تک آپ نے ان کو کیسا پایا ہے ؟وہی پہلے والا تاثر ہے یا رائے بدل چکی ہے ؟؟؟
پہلا تاثر یہی تھا کہ انتہائی معصوم اور پیار کرنے والی بچی ہے۔ اور اس چھوٹی سی بہن کے لیے میرا تاثر اب بھی یہی ہے بلکہ پہلے کی نسبت پختہ ترہو چکا ہے۔
2)۔ پہلی دفعہ عائشہ سے جان پہچان/بات چیت کا آغاز کب اور کیسے ہوا یا ابھی تک بات چیت کا آغاز نہیں ہوا ؟؟؟
مختلف دھاگوں میں مختلف موضوعات پر اس کے معصومانہ سوالات کے سلسلے میں بات چیت ہوتی چلی آئی ہے۔
3 )۔ آپکوعائشہ کی کون سی عادت سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے؟(انکی پسندیدہ عادت)یا انکی شخصیت میں سب سے دلچسپ کیا لگتا ہے؟؟
خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہنا یعنی تنقید سے پریشان ہوئے بغیر۔

4)۔ کچھ ایسا خاص جو آپ نے عائشہ کی شخصیت سے سیکھا ہے (مہمان شخصیت سے ابتک کیا سیکھا /کیا سبق سیکھا)
سب سے اخلاق سے بات کرنا۔

5)۔ مہمان شخصیت کے لیے کوئی پیغام ، سوال ،مشورہ/ رائے
کیپ اٹ اپ

6)۔اور کچھ خاص جو کہنا یا پوچھنا چاہیں ( کوئی ایسی بات/ فرمائش جو آپ نے ابھی تک نہ کہی ہو )
ایسا کچھ نہیں کہ یہاں کہنا پوچھنا پڑے۔ :)

7)عائشہ کے اوتار ، پیغامات کے بارے میں آپ کی کوئی رائے، پسندیدگی یا کوئی الجھن اور آپ انہیں محفل کےکن سیکشنز/زمروں میں زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں وغیرہ؟؟؟
اوتار کے بارے میں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی پیاری پیاری بلیاں کہاں سے لے آتی ہے یہ۔ :)
 
Top