اس غزل پہ نظر کیجیے سب احباب اور رائے کا اظہار کریں

عدیل احمد

محفلین
دیکھو سجی ہے ظلم کے اب بعد بھی ہستی مری
سن لو بہت ہی قیمتی ہے جاں نہیں سستی مری

برباد کرنے کو چلے تھے یار مجھ کو ہی مرے
وہ دیکھ کر گھبرا گئے پہلے سے ہی سختی مری

اک کھیل کھیلا تھا رقیبوں نے مگر ناکام رے
ہو ہی نہیں پائی کبھی کم عشق کی مستی مری

جو آ رہی تھی رات رونے کی مرے گھر سے صدا
آسیب اس کو سمجھ بیٹھی ہے سنو بستی مری

کچھ نہ بگاڑا مشکلوں کے اس سمندر نے مرا
پر ڈھوب ساحل پہ گئی ہے دیکھیے کشتی مری

یہ ظلم اتنے ہو گئے کے ہوش ہم کو نہ رہی
کے دیکھ گویا کہ رہا ہوں لاش کو سجتی مری

کیوں جل رہے ہیں لوگ احمد عشق ہے جو آپ سے
کہ کر رہے ہیں یہ خدا سے جو طلب پستی مری
 

عدیل احمد

محفلین
اس پہ بھی نظر کیجیے
غزل
تم نہیں سمجھے مرا غم آج بھی
رو رہے ہیں دیکھ لے ہم آج بھی
پاس میرے آکے اوجھل ہو گئے
ٹوٹتا ہے یہ مرا دم آج بھی
ہے پرانا درد بھی جو کیسے مٹے
ہو نہیں پایا ہے یہ کم آج بھی
جو ستم کرتے رہے ہنس کر سہا
سلسلہ جاتا نہیں تھام آج بھی
تم کہاں سمجھو گے حالے دل صنم
جان دل کی آنکھ ہے نم آج بھی
چل کہیں اب دور احمد ہم چلیں
تک رہا ہے ایک عالم آج بھی
 

الف عین

لائبریرین
دوسری غزل دوسری لڑی میں دیکھ چکا ہوں۔
پہلی غزل میں سختی، سجتی اور کشتی قوافی غلط ہیں۔
وزن درست ہے تقریباً۔مگر بات بنی نہیں ہے۔
شاعری خوب پڑھیں، مستند شعرا کا کلام، پھر شاعری شروع کریں۔
 
Top