میر اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا از میر تقی میر

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو اُن نے ، مروت کو کیا ہوا

اُمیدوارِ وعدہٴ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا

کب تک قطلمِ آہ بھلا مرگ کے تئیں
کچھ پیش آیا واقعہِ رحمت کو کیا ہوا

اُس کے آگے پر ایسے گئی دل سے ہم نشین
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا

بخشش نے مجھ کو ابرکرم کیا جمال
اے چشم جوش اشکِ ندامت کو کیا ہوا

جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتہ ستم تری غیرت کو کیا ہوا

تھی صعب عاشقی کی ہدایت ہی میر پر
کیا جانیئے کہ حالِ نہایت کو کیا ہوا
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ جناب خوبصورت غزل ارسال فرمانے کیلیے۔

اس عہد میں ایسی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو اُن نے ، مروت کو کیا ہوا

مطلع کے پہلے مصرع میں کچھ گڑ بڑ ہے کوئی لفظ رہ گیا ہے شاید اور اسی طرھ پانچویں شعر کے پہلے مصرعے میں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شکریہ جناب خوبصورت غزل ارسال فرمانے کیلیے۔

مطلع کے پہلے مصرع میں کچھ گڑ بڑ ہے کوئی لفظ رہ گیا ہے شاید اور اسی طرھ پانچویں شعر کے پہلے مصرعے میں۔

پہلے کے متعلق تو معلوم نہیں لیکن پانچواں مصرعہ یوں بھی لکھا دیکھا ھے اک دو جگہ
"بخشش نے مجھ کو ابراکرم کیا جمل"
لیکن میرے پاس فی الوقت کوئی ذریعہ نہیں تصدیق کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس غزل کا مطلع یہ ہے۔
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو اُن نے مروّت کو کیا ہوا

اور دوسرا شعر بھی غلط درج ہے
اُمیدوار، وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا

یہی غزل میرے دوست محمد جواد کی آواز میں سنیے۔

 
Top