ٹائپنگ مکمل اسکول کے کتب خانے

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے
صفحہ ۱۵۷
اس کے بعد جو نمبر بچ جائیں ان کی داخلہ رجسٹر کی مدد سے فہرست تیار کی جائے۔ اگر لائبریری میں شیلف لسٹ موجود ہے تو پھر اس فہرست کی مدد سے عام کیٹلاگ سے ہر کتاب کا طلب نمبر Call No. اس کے سامنے لکھ دیا جائے۔ اس کے بعد ان ہی کتابوں کے شیلف لسٹ پر ہر کتاب کی کیفیت پہلے طریقے کی طرح پنسل سے گُم، غیر موجود یا خارج وغیرہ لکھ دیا جائے۔ اس فہرست کتب کو رپورٹ کے ساتھ اسکول انتظامیہ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔​
Inventory سابقہ طریقے کی طرح تمام خارج شدہ اور گمشہ کتب کی فہرست انتظامیہ کو پیش کی جائے اور ان کو تلف کرنے اور قلمزد Write Off کرنے کی منظوری حاصل کی جائے۔​
رپورٹ
جانچ پڑتال ختم ہونے کے بعد لائبریرین باقاعدہ اپنی رپورٹ انتظامیہ کو پیش کرے۔ جس میں خارج شدہ، گمشدہ اور غیر موجود کتابوں کی صورتِ ھال سے آگاہ کرے۔ جِلد سازی کے لئے مطلوبہ رقم کی منظوری کی سفارش کرے۔ گمشدہ یا خارج شدہ کتابوں کی خریداری کے لئے اگر ضرورت ہو، تو مطلوبہ رقم کی منظوری کی درخواست کرے۔ کتب خانہ میں انتظامی، پیشہ ورانہ اور دیگر مسائل کا جائزہ بھی پیش کیا جائے اور ان کا مناسب حل بھی تجویز کیا جائے۔ تحریری رپورٹ کے ساتھ شماریاتی Statistical انداز میں پوری صورت حال کا جائزہ ایک صفحہ میں پیش کرنا چاہیے تا کہ ایک نظر میں ساری کیفیت معلوم ہو جائے۔​
جِلد سازی اور مرمت
کتب و رسائل مستقل استعمال سے پھٹ جاتے ہیں۔ ان کی اگر بروقت جلد سازی یا مرمت نہ کی جائے تو پوری کتاب یا رسالہ تلف ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسکول کے کتب خانے بار بار نئی کتابیں نہیں خرید سکتے۔ اس لئے ضروری ہے کہ لائبریرین کتب خانہ کے مواد پر کڑی نظر رکھے اور جو کتاب ذرا بھی مجروح نظر آئے اس کا فوراً علاج کیا جائے۔ معمولی مرمت کا سامان کتب خانہ میں رکھنا چاہیے۔ چپراسی، کلرک، مددگار طالب علم یا لائبریرین خود ایسی کتابوں کی گاہے گاہے مرمت کرتے رہیں۔ اس طرح جِلد سازی​
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے
صفحہ ۱۵۸
کا خرچ کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض کتابیں ایسی حالت میں ہوتی ہیں کہ ان کی جلد سازی اگر نہ کرائی جائے تو ان کے بالکل ضائع ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ لہذا ان کی جلد سازی ضرور کرانی چاہیے۔ بعض کتابیں نایاب یا کمیاب ہوتی ہیں ان کی جلد سازی تو خاص طور پر اعلیٰ قسم کی کرانی چاہیے۔​
اسی طرح بعض رسائل جو بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں ان کی جلد سازی الماریوں میں رکھنے سے پہلے ہی کرا دینی چاہیے۔ دیگر رسائل کی سالانہ فائل مکمل ہونے پر جلد سازی کرانی چاہیے۔​
جلد سازی کے لئے لائبریرین کو مسلسل کتابیں اور رسائل تلاش کرتے رہنا چاہیے اور ہر ماہ ایسی کتب اور رسائل کو جلد بندی کے لئے بھیج دینا چاہیے۔ جلد بندی کے لئے کتابیں بھیجنے سے قبل مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔​
1) کتابی کارڈ کتابوں سے نکال لئےجائیں اور ان کو الگ جلد سازی کی فائل میں رکھ دیا جائے۔​
2) ہر کتاب میں ایک سادہ کارڈ پر جِلد ساز کے لئے پشتہ پر درج ہونے والی ہدایات ٹائپ یا خوشخط لکھ دی جائیں۔ یعنی کتاب کا مختصر عنوان (اوپر کی طرف)، مصنف کا مختصر نام (بیچ میں)، طلب نمبر Call No. (نیچے سے ۱-۱/۲ انچ اوپر)، جو کتابیں پتلی ہوں ان پر صرف طلب نمبر (۱-۱/۲ انچ نیچے سے اوپر) جلد پر لکھوایا جائے۔ (نمونہ صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)۔​

3) اسی طرح رسالہ یا پمفلٹ کی جلد سازی کے لئے الگ الگ کارڈ بنایا جائے جس پر اس کی تفصیل یعنی رسالہ کا نام، جلد نمبر، شمارہ نمبر اور سال لکھ کر جلد ساز کی فائل میں رکھ لیا جائے اور ایک کارڈ جلد ساز کے لئے بنایا جائے جس پر رسالہ کا نام، جلد نمبر اور سال لکھ دیا جائے۔ (نمونہ صفحہ پر ملاحظہ کیجئے)۔​

جب کتابیں اور رسالے جلد بندی کے بعد واپس آئیں تو جلد سازی فائل سے ان کے کتابی کارڈز نکال کر کتابیں اور رسالے جانچے جائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جلد ساز نے ہر کتاب اور رسالہ کی جلد سازی صحیح کی ہے اور ان پر ہدایت کے مطابق تمام اندراجات صحیح لکھے یا کندہ کئے ہیں۔ اگر کسی کتاب یا رسالہ میں جلد بندی یا لکھائی میں نقص پایا جائے تو وہ جلد ساز کو واپس کر دیا جائے اور اس​
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے
صفحہ ۱۵۹
کے بل کی ادائیگی اس وقت تک نہ کی جائے جب تک وہ نقص دُور کر کے کتابیں اور رسالے نہ لے آئے۔​
تطہیر
کتابیں اور رسالے مسلسل استعمال سے بعض اوقات اتنے خراب و خستہ ہو جاتے ہیں کہ ان کی جلد سازی یا تو ناممکن ہوتی ہے یا خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ ایسی کتابیں اور رسالے جن کی اصل قیمت سے جلد سازی کی قیمت زائد ہو تو بہتر ہے کہ ان کو کتب خانہ سے خارج کر دیا جائے۔ ایسے مواد کو الگ خارج شدہ مواد کے ساتھ رکھ دیا جائے اور جب سالانہ جانچ پڑتال ہو تو ان کو بھی خارج شدہ کتابوں اور رسالوں میں شامل کر کے اسکول انتظامیہ سے قلمزد Write Off کرا کر تلف کر دیا جائے۔​
لیکن اگر کوکئی کتاب کمیاب یا نایاب ہو تو پھر اس کی جلد بندی پر جو بھی خرچ ہو اس کی جلد سازی ضرور کرا لینی چاہیے۔​
کتب خانوں میں مسلسل نئی کتابوں، رسالوں اور دیگر مواد کے اضافہ سے جگہ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی کتب خانہ میں اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ مزید الماریاں رکھی جا سکیں۔ لہذا تطہیر کا عمل جاری رکھنا پڑتا ہے۔ یعنی ایسی کتابیں اور رسالے جو گزشہ ۵ سال سے قطعی استعمال نہیں ہو رہے ہیں ان کو اسکول انتظامیہ سے اجازت لے کر خارج کر دینا چاہیے۔ لیکن اگر لائبریرین یہ خیال کرے کہ ان میں سے بعض ایسا مواد ہے جو شاید آئندہ کبھی استعمال ہو سکتا ہے تو مزید دو (۲) سال اور محفوظ رکھا جائے۔ اگر پھر بھی یہ مواد استعمال نہیں ہوتا تو خارج کر دیا جائے۔ لیکن ان میں ایسی کتب شامل نہیں ہوں گی جن کی اپنی دائمی قدر و قیمت ہو اور اسی وجہ سے وہ سالہا سال استعمال نہ ہونے کے باوجود اپنی افادیت برقرار رکھتی ہوں۔ تطہیر کے عمل میں لائبریری کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی رائے ملحوظ رکھنا چاہیے۔ کتاب یا رسالہ کے استعمال کا اندازہ یادداشت سلپ Date Due Slip تاریخ اجراء سے لگایا جا سکتا ہے کہ آخری بار کتاب یا رسالہ کب جاری کیا گیا تھا۔ اس تطہیر کے عمل سے کتب خانہ میں پُرانا مواد خارج کر کے نئے مواد کی جگہ پیدا کی جا سکتی ہے۔​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 59)

اس کے لیے اسکول انتظامیہ کو کتب خانہ کے لیے خصوصی امداد سے یہ رقم مہیا کرنا چاہیے۔
کتب خانہ کے مواد کے لیے بجٹ کا ایک نمونہ پیش کیا جارہا ہے جس کی بنیاد پر اسکول کے کتب خانے اپنا بجٹ ہر سال مرتب کرسکتے ہیں۔
نمونہ بجٹ
(طلباء ۱۲۰۰ اور اساتذہ ۶۰)​
روپے​
۱۲،۰۰۰​
۱۔ رقم برائے حوالہ جاتی و عام کتب
(بحساب دس۱۰ روپے فی طالب علم)

عام حوالہ جاتی کتب ۔۔۔۔ (۸ فی صد)
زبان و ادب اُردو ۔۔۔۔۔۔(۱۰ فی صد)
زبان و ادب انگریزی ۔۔۔(۵ فی صد)
زبان و ادب دیگر ۔۔۔۔۔(۲ فی صد)
علوم عمرانیات و تاریخ۔۔۔(۱۸ فی صد)
سائنس و ریاضیات۔۔۔۔۔(۱۸ فی صد)
حفظانِ صحت، فنونِ لطیفہ ۔۔۔(۵ فی صد)
تفریح ادب و سیاحت،
علمی کھیل وغیرہ۔
پیشہ ورانہ کتب، بجلی۔۔۔۔(۴ فی صد)
لکڑی، کشیدہ کاری، سلائی
وغیرہ
سوانح و ناول ۔۔۔۔۔۔۔(۱۰ فی صد)
دینیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۲۰ فی صد)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
عائشہ عزیز اس کتاب کے سارے پیجزز اب تقسیم ہو چکے ہیں

ایک دو لوگوں کو ریمائنڈ کروانا ہے
جیسے کہ محب علوی بھیا
خرم شہزاد خرم بھیا
محمد امین بھیا

کہ ان کو صفحات ٹیگ کیے گئے ہیں
اپیا مجھے لگتا ہے یہ بھیا لوگ مصروف ہیں ہم لوگ مل کر کردیتے ہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم شہزاد خرم بھیااا

SKKK%20-%200145.gif


SKKK%20-%200146.gif
(د) اخبارات اور رسائل بھی جاری نہین کئے جاتے ان سے کتب خانہ ہی میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔​
2۔ مواد برائے اجراء​
کتب خانہ میں حوالہ جاتی اور محصوص کتب کے علاوہ تمام کتابیں جاری کرائی جا سکتی ہیں۔ ان کتابوں کو احتیاط سے استعمال کرنا اور ان سے گھر پر استفادہ کرنا یہ ہر طالب علم اور استاد کا اخلاقی فرض ہوتا ہے۔ یہ کتابیں عموما طلباء دو ہفتوں کے لئے جاری کی جاتی ہیں۔ اساتذہ اور والدین کو ایک ماہ کے لئے جاری کی جاسکتی ہیں۔ اگر ان کتابوں کی زیادہ طلب نہ ہوتو مزید دو ہفتوں کے لئے جاری کی جاسکتی ہیں۔​
3۔ اجراء مابین کتب خانہ جات​
ایک کتب خانہ سے کتاب دوسرے کتب خانہ کو جاری کرنے کا اجراء مابین کتب خانہ جات کہتے ہیں۔ کوئی بھی کتب خانہ علمی مواد میں خود کفیل نہیں ہوسکتا۔ لٰہذا جب کبھی اساتذہ ، طلبا یا والدین کو کسی اہم کتاب کی ضرورت پڑتی ہے جو کتب خانہ میں موجود نہ ہو تو لائبریرین اپنی ذاتی معلومات اور پیشہ ورانہ تعلقات کی بنا پر دوسرے کتب خانوں سے مستعار لے کر قاری کو مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح ایک کتب خانہ صرف اپنے شہر بلکہ ملک کے تمام کتب خانوں سے کتابیں مستعار لے سکتا ہے اور اپنی کتابیں طلب کرنے پر دوسرے کتب خانوں کو جاری کر سکتا ہے۔​
4۔ اجرا کتب کے لوازمات​
ا۔ رکنیت کتب خانہ، کتب خانہ سے مواد مستعار لینے کے لئے ضروری ہے کہ تمام طلباء اساتذہ، والدین اور دیگر حضرات جن کو اسکول انتظامیہ یہ حق عطا کرنا چاہے ان کو باقاعدہ مستعیر کارڈ (یعنی لائبریری کارڈ) جاری کرنا چاہئے۔ مستعیر کارڈ طلباء کو اسکول میں داخلہ کے بعد دو رکنیت فارم یا کارڈ پُر کرنے کے بعد جاری کرنا چاہئے۔ (مستعیر کارڈ اور رکنیت کارڈ کا نمونہ صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)​
اسی طرح اساتذہ کو اسکول میں ملازمت شروع کرتے ہی رکنیت کارڈ پُر کرنے پر مستعیر کارڈ​
جاری کرنا چاہئے۔ ان بچوں کے والدین کو کتب خانہ کی رکنیت دینی چاہئے جن کے بچے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ دیگر حضرات جن کو اسکول یہ خصوصی رعایت دینا چاہے ان کو بھی رکنیت کارڈ پُر کرنے پر مستعیر کارڈ جاری کرنا چاہئے۔​
ہر مستعیر کارڈ پر نمبر شمار، نام، گھر کا پتہ، ٹیلیفوں نمبر اگر ہو ، طلبا کی کلاس وغیرہ درج کرنا چاہئے۔ رکنیت فارم / کارڈ پر دہی شمار نمبر دیا جائے جو مستعمیر کارڈ پر دیا گیا ہے۔ رکنیت کارڈ ایک نام کے اعتبار سے اور دوسرا نمبر کے اعتبار سے کتب خانہ کے دفتر میں محفوظ رکھنا چاہئے۔ تاکہ کارڈ گم ہونے کی صورت میں یا کتاب کی واپسی کی یادہانی کے لئے یہ رکنیت کارڈ کارآمد ثابت ہوسکیں۔​
مستعیر کارڈ ہر طالب علم اور دیگر حضرات کو مفت جاری کئے جائیں لیکن گم ہونے کی صورتمیں کم سے کم دس روپے جرمانہ اور دوہفتے تک کتاب کا اجراء بند کردینا چاہئے۔ تعلیمی سال ختم ہونے پر تمام طلباء سے مستعیر کارڈ اور کتابیں واپس لے لینا چاہیں۔ نئے تعلیمی سال کے شروع ہونے پر واپس آنے والے طلباء کو کارڈ واپس دے دینا چاہئں۔ اور اس پر نئی کلاس اور تعلیمی سال کا انداراج کر دینا چاہئے۔​
ب۔ طریقہ اجراء۔ بعض اسکولوں میں کتابیں جاری کرنے کے لئے رجسٹرپر اندراجات کئے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ اپنی بے شمار دقتوں کے باعث قابل عمل نہیں رہا۔ لہذا جدید طریقہ پر عمل کرنا زیادہ بہتر اور مناسب ہے جیسا کہ سابقہ باب میں کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں بتایا گیا تھا کہ ہر کتاب میں کتابی جیب کتابی کارڈ اور تاریخ نامہ لگایا جاتا ہے۔ یہی تمام اشیاء کتاب کے جاری کرنے میں استعمال کی جائیں کتاب جاری کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے​
طلباء اساتذہ ، والدین وغیرہ خود اپنی پند کی کتاب الماری سے نکال کر شعبہء اجراء یا لائبریرین کے پاس لے جائیں اور اپنا مستعمیر کارڈ پیش کریں۔ متعلقہ فرد کتاب سے کتابی کارڈ نکالے گا۔ اس پر کتاب لینے والے کا کارڈ نمبر لکھے گا۔ کتابی کارڈ، مستعمیر کارڈ اور یاداشت کی پرچی پر واپسی کی تاریخ کی مہر لگائے گا یا قلم سے لکھ دے گا۔ کتابی کارڈ اور مستعمیر کارڈ اپنے پاس رکھے لے گا اور کتاب قاری کے والے کر دے گا۔ اگر کتاب ایک سے زیادہ جاری کی جا رہی ہیں تو ہر کتابی کارڈ پر تاریخ واپسی ، مستعمیر کارڈ نمبر لکھ دیا جائے اور تاریخ نامہ پر تاریخ واپسی بھی لکھ دی جائے یا مہر لگا دی جائے۔​
ایک دن کے ددران جتنی کتابیں جاری کی گئیں ان کے کتابی کارڈ اور مستعیر کارڈ اسی دن یا اگلے دن​
 

مقدس

لائبریرین
166

قبل نہایت ضروری ہے۔

(ب) اسکول کا کتب خانہ طلباء کو تمام علمی، تفریحی مواد فراہم کرنے میں معاون و مددگار ہو اور ان کو تحقیق و تجسس کے عمل میں آگے بڑھنے میں ہدایات مہیا کرے۔
(ج) کتب خانہ کا نصابی اور غیر نصابی مواد وافر مقدار مین فراہم کرے اور تعلیمی ثقافتی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے۔
(د) کتب خانہ جدید تعلیمی تقاضوں کے چیلنج کو قبول کرے اور اساتذہ کو تمام تدریسی مواد اور سہولتیں مہیا کرے۔
(ر) کتب خانہ طلباء اور اساتذہ کے لیے معلومات حاصل کرنے اور جدید ایجادات اور ترقیات سے روشناس کرانے میں مددگار و معاون ہو۔
(ذ) کتب خانہ طلباء و اساتذہ کو اپنے ذاتی شوق و ذوق کے علمی مواد کے انتخاب کرنے ، اس کو استعمال کرنے اور عملی زندگی میں راہ ہدایت اختیار کرنے میں مددگار ہو۔

2۔ اسکول انتظامیہ

سرکاری اسکولوں میں کتب خانوں کا قیام ادارہ تعلیم کی ذمہ داری ہے ۔ اس ادارے کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر موجودہ سرکاری اسکول میں کتب خانہ کا قیام مجوزہ معیار کے مطابق کرے اور نئی اسکول کھلنے سے قبل کتب خانہ کو مکمل طور پر بنیادی حاجات سے آراستہ کرے۔ اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ ہر نظامت تعلیم میں ایک ایک "اسکول لائبریری سیکشن" کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اپنے علاقے کے تمام اسکولوں کے کتب خانوں کی منصوبہ بندی کرے اور منصوبے کے مطابق ان پر عمل درآمد کرائے اور کڑی نگرانی رکھے۔ اس کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کے کتب خانوں کو معیار کے مطابق فروغ دے سکے اور جن اسکولوں میں معیار برقرار رکھنے میں غفلت برتی جا رہی ہو ان سے جواب طلب کر سکے اور تادیبی کاروائی کر سکے۔
غیر سرکاری اسکولوں کو ادارہ تع؛یم مجوزہ معیار کے مطابق اپنے کتب خانوں کو منظم کرنے کا پابند کرے۔ اور جو اسکوں کتب خانہ کو معیار کے مطابق منظم نہ کر سکے اس کو تمام سرکاری مراعات
 

مقدس

لائبریرین
167

سے محروم کیا جائے اور اس کی منظوری کو منسوخ کر دیا جائے۔

3۔ لائبریری مشاورتی کمیٹی

تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں لائبریری مشاورتی کمیٹی کا قیام لازمی ہونا چاہیے۔ اس کمیٹی کا صدر ہیڈ ماسٹر / ہیڈ مسٹریس اور سکریٹری لائبریرین متعین کیا جائے اور ہر مضمون سے ایک استاد اس کمیٹی کے رکن کی حثیت سے شریک ہونا چاہیے۔ ابتدائی مدارس میں علاقہ کے چند مقتدر اشخاص کو بھی کمیٹی میں شامل کرنا چاہیے۔

4۔ عملہ

(ا) ایسے اسکول میں جہاں ایک ہزار تک طالبان علم موجود ہوں وہاں کتب خانہ کا عملہ مندرجہ ذیل تناسب سے ہونا چاہیے۔

* ایک کل وقت پیشہ ور لائبریرین
* ایک کل وقتی مددگار (Attandent) جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو
* ایک کل وقتی چپراسی
* چند رضاکار طلباء

(ب) ایک ہزار سے زائد طلباء کے اسکول میں

* ایک کل وقتی پیشہ ور لائبریرین
*ایک کل وقتی کلرک / ٹائپسٹ
* ایک جزو وقتی مددگار
* ایک کل وقتی چپراسی
* چند رضاکار طلباء

فی الحال عملہ کے سلسلہ میں مندرجہ بالا معیار تجویز کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر اسکول کم از کم اس معیار کو اپنائے۔ اس معیار کے حصول کے لیے ابتدا کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے
 

مقدس

لائبریرین
168

5۔ قابلیت اور صلاحیت

(ا) لائبریرین تعلیم کے لحاظ سے کم سے کم بی - اے اور علم لائبریری سائنس میں کسی جامعہ سے ڈپلوما حاصل کر چکا ہو۔
لائبریرین کو اس کی پیشہ ورانہ اور تعلیمی قابلیت اور صلاحیت کے اعتبار سے اساتذہ کے میں رکھا جائے اور اس کو ایک استاد کی حثیت سے تمام مراعات جو دیگر اساتذہ کو دی جاتی ہیں مہیا کی جائیں۔ اس کو کسی لحاظ سے بھی اساتذہ برادری سے الگ تصور نہیں کیا جائے یعنی ایک استاد کی طرح لائبریرین کو بھی ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر یا ناظم تعلیمات تک پہنچنے کا حق حاصل ہو۔

(ب) کلرک / ٹائپسٹ : کم از کم میٹرک پاس ہو اور ٹائپ کرنے کی معقول صلاحیت رکھتا ہو۔

6۔ تنخواہ

(ا) لائبریرین کو دی جانے والی تنخواہ جو ایک بی - اے ، بی ایڈ B.A. , B.Ed استاد کو دی جاتی ہے اس کے علاوہ سالانہ ترقی Increments اور تمام دیگر مراعات جو دیگر اساتذہ کو دی جاتی ہیں لائبریرین کو دی جائیں

(ب) کلرک / ٹائپسٹ کو وہی تنخواہ دی جائے جو سرکاری محکمات میں کلرک / ٹائپسٹ کو دی جاتی ہے۔

(ج) مددگار Attandent انگریزی اور اردو پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو

(د) چپراسی کو سرکاری محکمات کی طرح تنخواہ اور وردی دی جائے۔

مندرجہ بالا سفارشات کم سے کم ہیں۔ کتب خانہ کی کارکردگی بہتر سے بہتر بنانے کے لیے عملہ کو تنخواہ زیادہ بھی دی جا سکتی ہے۔ غیر سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اور عملہ کی تنخواہی اور مراعات سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہیں لہذا غیر سرکاری اسکولوں میں ان کے معیار کے مطابق لائبریری کے عملہ کو بھی وہی تنخواہیں اور مراعات دی جائیں جو اساتذہ اور دیگر عملہ کو دی جاتی ہیں
 

مقدس

لائبریرین
169

7۔ مواد

(ا) کتب ۔ اسکول کے کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد کا بنیادی ذخیرہ مندرجہ ذیل معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔

* کسی بھی کتب خانہ میں بنیادی ذخیرہ کی تعداد 5 کتب فی طالب علم اور 25 کتب فی اساتذہ ہونا چاہیے۔ اگر کسی اسکول میں طلباء کی تعداد ایک ہزار تک ہے اور اساتذہ کی تعاد 75 ہے تو طلباء کے لیے 5000 اور اساتذہ کے لیے 1875 کل تعدداد کتب 6875 ہونا چاہیے۔

* مندرجہ بالا معیار ان اسکولوں کے لیے ہے جو کتب خانہ کی ابتدا کر رہے ہیں۔ ہر اسکول کو کتب خانہ کی خدمات شروع کرنے سے پہلے کتابوب کا ذخیری اس معیار کے مطابق جمع کرنا چاہیے۔ پرانے اسکول جو کتب خانہ کی خدمات شروع کر چکے ہیں اور ان کا ذخیرہ کتب مندرجہ بالا معیار سے کم ہے تو ان کو رین سال کے اندر اس معیار پر اپنے کتب خانہ کو پہنچانا چاہیے۔ مندرجہ بالا معیار پر کتب خانہ کے ذخیرہ کو پہنچانے کے لیے اسکول انتظامیہ کو خصوصی مالی امداد دینی چاہیے۔
مجوزہ معیار پر پہنچنے کے بعد ہر اسکول کے کتب خانہ کو کم سے کم دس روپے فی طالب علم اور 50 روپے فی استاد سالانہ ذخیرہ کتب کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔

(ب) رسائل و اخبارات ۔ (Periodical and News papers) پر 50 طلباء پر ایک اور دس اساتذہ پر ایک رسالہ جاری کرنا چاہیے۔ طلباے جے لیے موضوعی اور عام بچوں کے رسالے جاری کرنے چاہیں۔ اساتذہ کے لیے تعلیمی، فنی اور ادبی معیاری رسالے جاری کرانا چاہئیں۔ ایک ہزار طلباء کے لیے اسکول میں دو اخبار اردو کے، ایک مقامی زبان میں اور ایک انگریزی میں جاری کرانا چاہئیں۔

(ج) پیشہ ورانہ مواد Professional material اساتذہ اور لائبریرین کے لیے فنی تعلیمی و تدریسی اور لائبریری سائنس پر کتابیں اور رسائل مناسب مقدار میں کتب خانہ میں ضرور
 

مقدس

لائبریرین
170

شامل کرتے رہنا چاہیے۔

(د) سمعی و بصری مواد۔ (Audiovisual material) سمعی و بصری مواد جو ملک میں دستیاب و اساتذہ اور لائبریرین باہمی مشورہ سے کتب خانہ کے لیے خریدیں اور جو مواد خود اساتذہ اور لائبریرین تیار کر سکتے ہوں ان کے لیے ضروری سامان مہیا کیا جائے۔ ان میں نقشے، گلوب، چارٹس، فلم، سلائیڈز، ماڈل، تصاویر وغیرہ شامل ہیں۔ فلم پروجیکٹر، سلائیڈز پروجیکٹر، ٹیپ ریکارڈر بھی خریدے جائیں۔

8۔ عمارت

کتب خانہ کی الگ عمارت ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگر عمارت فوری طور پر تعمیر نہ ہو سکتی ہو تو ایک بڑا ہال کتب خانہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر کتب خانہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جائے تو معمار (Architect) اور لائبریرین کو باہمی مشور ضرور کرنا چاہیے۔ کتب خانہ کی عمارت میں مندرجہ ذیل سہولتوں کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔

(ا) دارالمطالعہ میں اسکول کے طلباء کی تعداد 5% اور اساتذہ کی تعداد 25% گنجائش رکھنا چاہیے۔ یعنی اگر کسی اسکول میں 500 طلباء اور 20 اساتذہ ہیں تو 30 پڑھنے والوں کی دارالمطالعہ مین گنجائش ہونی چاہیے۔ کتب خانہ کی عمارت تعمیر کرنے سے پہلے آئندہ سالوں میں طلباء اور اساتذہ کی تعداد کے بڑھنے کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

(ب) دارالمطالعہ کے رقبہ کو 25 مربع فٹ فی قاری کے حساب سے مندرجہ ذیل اصولوں کے مطابق مقرر کرنا چاہیے۔

* کتب خانہ میں قارئیں کے لیے میز اور کرسیوں کے رکھنے اور ان کے درمیان مناسب جگہ چھوڑنے کی گنجائش رکھی جائے۔ میزوں کے درمیان 5 فٹ فاصلہ چھوڑا جائے۔ الماریوں کے درمیان اور میزوں سے الماریوں کے درمیان بھی 5 فٹ کا فاصلہ رکھنا چاہیے۔

* دار المطالعہ کی الماریوں میں کل کتابوں کی تعداد کا 4/3 رکھنے کا اہتمام ہونا چاہیے اگر
 

مقدس

لائبریرین
171

کم استعمال ہونے والی کتابوں کے لیے الگ کمرہ مہیا نہیں کیا جا سکتا تو پھر ساری کتابیں دارالمطالعہ ہی میں رکھی جائیں۔

* حوالہ جاتی کتب کے لیے خاص قسم کی الماریاں دار المظالعہ میں مناسب جگہ پر رکھی جائین اور ان کے اردگرد بھی مناسب جگہ چھوڑی جائے۔

* کتب جاری کرنے کی میز، عام کیٹلاگ، بڑی لغت، بڑے اٹلس، گلوب، نقشے اور دیگر مواد کے لیے بھی دارالمطالعہ میں جگہ کا انتظام کیا جائے۔

(ج) کمرہ اجتماع

کتب خانوں میں اکثر اجتماعات منعقد ہوتے ہیں، اساتذہ اور طلباے کا کوئی اجتماع ہو سکتا ہے۔ اساتذہ، والدین اور دیگر حضرات کا اجتماع ہو سکتا ہے۔ کسی کی تقریر ہو سکتی ہے۔ فلم دکھائی جا سکتی ہے۔ ان تمام حاجات کے لیے کتب خانہ میں الگ ایک بڑا ہال ہونا چاہیے جو دارالمطالعہ سے منسلک ہو لیکن قارئین کے مطالعہ میں اجتماعات سے خلل نہ پڑے۔
اگر ہال مہیا نہیں کیا جا سکتا تو کتب خانہ کو ہر گز اجتماعات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ کمرہ اجتماع کے لیے مندرجہ ذیل نکات پیش نظر رکھیں جائیں۔

* کمرہ اجتماع دارالمطالعہ سے منسلک ہونا چاہیے۔ اور ایک دروازہ دار المطالعہ سے کمرہ اجتماع میں ہونا چاہیے۔

* کمرہ اجتماع کا رقبہ کم سے کم 750 مربع فٹ ہونا چاہیے۔

* کمرہ اجتماع میں چند اشایء ضرور مہیا کی جانی چاہیں۔ لکری یا سیمنٹ کا اسٹیج، ایک بڑی میز، چند کرسیاں اسٹیج کے لیے۔ مناسب کرسیاں سامعین کے لیے، چاک بورڈ، اعلانات کا بورڈ اور فلم کا پردہ۔

(د) فنی کام کا کمرہ۔ (Work Room) کتب خانہ میں لائبریرین اور اس کے عملہ کے لیے ایک الگ کمرہ نہایت ضروری ہے جس میں وہ اپنا ریکارڈ رکھ سکیں اور فنی کام کر سکیں۔ اس کمرے میں کلرک، مددگار اور چپراسی کے کام کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ یہ کمرہ اتنا برا ہو کہ اس میں لائبریرین
 

مقدس

لائبریرین
172

کی میز، ریکارڈ کی کیبنٹس، شیلف لسٹ کیٹلاگ، کلرک / ٹائپسٹ لہ میز، ٹائپ رائیٹر کی میز، مددگار کی میز اور ایک زائد میز جس پر چپراسی اور رضاکار طلباء کام کر سکیں۔ اسی نسبت سے کرسیاں مہیا کی جانی چاہیں۔

(ر) سمعی و بصری مواد کا کمرہ۔ ( Listening and viewing room) ہر کتب خانہ میں ایک کمرہ سمعی و بصری مواد کے استعمال کے لیے مخصوص ہونا چاہیے جس میں طلباء اور اساتذہ اپنے مضامین پر فلم دیکھ سکیں، ٹیپ سن سکیں۔ سلائیڈز دیکھ سکیں۔ اس کمرے میں پروجیکٹرز کیسٹ پلیرز وغیرہ مہیا کرنا چاہیے۔ اگر فلم یا کیسٹ وغیرہ کسی بڑے گروپ کو دکھانا ہا سنانا ہو تو کمرہ اجتماع استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(و) کم استعمال ہونے والی کتابوں کا کمرہ۔ (Stock RooM) اگر کتب خانوں میں کتابوں کا اضافہ تجویز شدہ معیار کے مطابق کیا جاتا رہا تو 5 سے 10 سال کے عرصہ مین اتنی کتابیں جمع ہو جائیں گھی کہ جن کو دار المطالعہ میں نہیں رکھا جا سکے گا لہذا ہر کتب خانہ میں ایک ایسا کمرہ ہونا چاہیے جس مین کم استعمال ہونے والی کتابوب کو رکھا جا سکے۔ اس مین پرانے رسائل اور اخباراے جلد بندی کے بعد رکھے جا سکتے ہیں۔ یہ کمرہ دار المطالعہ سے متصل ہونا چاہیے۔ اس میں داخل ہونے کا راستہ دار المطالعہ سے ہونا چاہیے۔ اس مین مناسب روشنی اور ہوا کا انتظام ہونا چاہیے۔ یہ کمرہ اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ آئندہ مواد کے اضافے کو آسانی سے اس میں سمویا جا سکے۔

9۔ روشنی، ہوا اور سجاوٹ

روشنی: کتب خانہ میں قدرتی روشنی اور ہوا کا معقول انتظام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ بچلی کی روشنی اور بجلی کے پنکھے بھی مہیا کرنے چاہیں۔ فی الحال ہمارے کتب خانے میں آئیرکنڈیشنڈ نہیں کئے جا سکتے لیکن جن اسکول کی مالی حثیت اس کی متحمل ہو وہاں کتب خانہ کو ضرور ائیر کنڈیشن کرنا چہیے۔ اس سے قارئین کو پڑھنے اور کام کرنے کی استطاعت بڑھ جاتی ہے اور کتب خانہ کے مواد کی بھی بہتر طور پر حفاظت ہوتی ہے یعنی گرمی ، نمی، گرد و غبار کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
بجلی کے تار اور تمام سوئچ، ٹیلیفون کے تار، آگ بجھانے ولا سامان اس طرح کتب خانہ
 

مقدس

لائبریرین
173

میں مہیا کیا جائے کہ اس سے الماریوں اور دیگر سامان کے ہلانے جلانے سے خلل واقع نہ ہو۔
دارالمطالعہ کا فرش ایسے ٹائیلز کا بنایا جائے جس پر چلنے سے آواز پیدا نہ ہو/ اگر قالین بچھا دیا جائے تو نہایت مناسب ہو گا۔
کھڑکیوں اور دروازوں پر اگر خوبصورت قسم کے پردے لگا دئیے جائیں تو اس سے کتب خانہ کا اندر کا ماحول نہایت خوشگوار معلوم ہونے لگے گا۔

10۔ ساز و سامان

(ا) الماریاں: لکڑی یا لوہے کی بنوائی جا سکتی ہیں۔ آجکل اکثر کتب خانوں میں لوہے کی الماریوں کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ یہ ایسی ہونی چایہئ کہ ان کے درمیانی تختے نیچے اوپر کیے جا سکتے ہوں۔ الماریاں دونوں طرف سے کھلی ہونی چاہیں تاکہ کتابیں دونوں طرف رکھی جا سکیں۔ تفصیل باب نمبر 7 میں ملاحظہ کیجیئے۔
کھڑکیوں کے نیچے چھوٹی الماریاں رکھی جائیں جن مٰن چھوٹے بچوں کی تصویروں والی کتابیں رکھی جائیں۔ اسی مناسبت سے بچوں کے لیے چھوٹے اسٹول لکڑی کے بنوائے جائین جن پر بیٹھ کر وہ اپنی کتابیں دیکھ سکیں اور پڑھ سکیں۔
رسالوں کے لیے ایسی الماریاں بنوائی جائیں جن کے درمیانی تختے ترچھے لگے ہوں جن پر رسالوں کو اس طرح رکھا جا سکے کہ ان کو آسانی سے دیکھا جا سکے۔
لغات ، قاموس العلوم اور دیگر موٹی اور بھاری کتابوں کے لیے چھوٹی الماریاں بنوائی جائیں تاکہ ان کو آسان سے دیکھا جا سکے۔

(ب) الماریوں کی پیمائش

ابتدائی مدارس کے لیے اونچائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3 فٹ سے 4 فٹ
ثانوی // // // ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5 فٹ سے 6 فٹ
چوڑائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ 3 فٹ
 

مقدس

لائبریرین
174

گہرائی معیاری کتب کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ 9 انچ سے 12 انچ
گہرائی بڑی کتابوں کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ 13 انچ سے 16 انچ
کتابیں جاری کرنے کے کاؤنٹر کی اونچائی ۔۔۔۔۔۔۔ 30 انچ سے 42 انچ

مخصوص الماریوں کے سائز

جدید رسائل کی الماریوں کے ترچھے تختے ۔۔۔۔۔ 16 انچ
// // // // // //کی سیدھی گہرائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 12 انچ

الماریوں میں کتابوں کی گنجائش

3 فٹ میں عام کتب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 40
// حوالہ جاتی کتب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 18
// // بچوں کی کتب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 70

(ج) میزیں اور کرسیاں

خوبصورت میزیں اور کرسیاں کتب خانہ کی زینت اور زیبائش کو دوبالا کر دیتی ہیں۔ کرسیاں ایسی بنوائی جائیںجس پر بیٹھ کر قاری کو سختی کی بجائے آرام کا احساس ہو۔ میزیں اور کرسیاں اچھی لکڑی کی اور مضبوط بنوائی جائیں۔

(سائز کی تفصیل اگلے صفحے پر دیکھیئے)
 

محمد امین

لائبریرین


باب 10 مواد کتب خانہ کا اجراء


۱۴۱

باب 10 مواد کتب خانہ کا اجراء


مخصوص مواد ۱۴۴
مواد برائے اجراء
اجراء مابین کتب خانہ جات ۱۴۵
اجراء کتب کے لوازمات
کھلی اور بند الماریاں ۱۴۸
اوقاتِ کتب خانہ ۱۴۹



۱۴۳

موادِ کتب خانہ کا اجراء

کتب خانہ میں جو بھی علمی و تحقیقی مواد اکٹھا کیا جاتا ہے وہ طلباء، اساتذہ، والدین اور دیگر حضرات کی علمی معلومات میں اضافہ کرنے اور تحقیقی عمل میں جِلا پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن یہ مقصد اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب کتب خانہ کے مواد کو قارئین سے روشناس کرایا جائے اور اس کو آزادی کے ساتھ دیکھنے، پڑھنے اور جاری کرا کر گھر لے جانے کی اجازت ہو۔ اگر کتب خانہ کے مواد پر، الّا حوالہ جاتی مواد کے، پابندی لگا دی جائے یا اس کو الماریوں میں بند کر کے تالے ڈال دیے جائیں تو اس کی مثال ایسی ہی ہوگی کہ معصوم بھوکے بچوں کو کمروں میں بند کر دیا جائے اور کھانے پینے کی چیزوں کو شیشے کی الماریوں میں سجا کر ان میں تالے ڈال دیے جائیں۔ بچوں کو علم حاصل کرنے اسکول بھیجا جاتا ہے۔ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی علمی صلاحیت کو بھی بڑھاتے ہیں۔ لیکن اگر طلباء کو اساتذہ کے علم کے خزانہ اور سر چشمہ سے سیراب ہونے کا موقعہ نہ دیا جائے تو اس سے بڑا ظلم اور سزا کیا ہو سکتی ہے÷

ہمارے اکثر اسکول کے کتب خانوں میں کتابوں کی الماریوں میں تالے پڑے ہوئے ہیں۔ چند اساتذہ ان سے ناول یا اپنے ذوق کی کتابیں لے کر پڑھتے ہیں، طلباء کو تو ان کے قریب جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ تعلیمی اداروں میں اگر ماہرینَ تعلیم ہی قوم کے بچوں کو علمی ذوق و شوق اور جستجو سے محروم رکھیں تو اس سے زیادہ قوم کی کیا بد نصیبی ہوگی کہ ان کے بچے اپنے ہی اسلاف، علماء، فضلاء اور ماہرین کے فن سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ یہ بد سلوکی اسکول کے منتظمین محض اس خیال سے کرتے ہیں کہ بچے کتابیں پھاڑ نہ دیں، چوری نہ کر لیں۔ آخر یہ خیال اساتذۂ کرام کے دل میں کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ دیانت داری سے بچوں کی تعلیم و تربیت کر رہے ہیں تو ان کے شاگرد بری عادتیں کیسے اختیار کر سکتے ہیں۔ وہ اگر اپنے شاگردوں کو اپنے بچے تصور کر لیں، ان کو کتب خانہ کے استعمال کے آداب سکھائیں اور ان کے ساتھ خود کتب خانہ میں بیٹھ کر کتابوں سے استفادہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ طلباء کتب خانہ کے مواد کو نقصان پہنچا سکیں۔ آخر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی تو بچے کتب خانہ استعمال کرتے ہیں۔ وہاں اساتذہ خود اپنی کلاس کو کتب خانہ لے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کتب سے استفادہ کرتے ہیں، بلکہ طلباء کو کتب کے استعمال کا طریقہ بتاتے اور ان کے ذاتی ذوق و شوق
 
Top