نبیل
تکنیکی معاون
آج جرمن نیوز ویب سائٹ پر اس بارے میں خبر پڑھی۔ بعد میں ڈوئچے ویلے پر بھی اس کے بارے میں رپورٹ نظر آئی جس میں کافی نئی باتوں کا ذکر تھا۔ اس سے پہلے کہ باقی لوگ اس پر جذباتی تبصروں کا آغاز کر دیں، اس کے بارے میں مختلف جگہ سے پڑھ لینا بہتر رہے گا۔
ڈوئچے ویلے پر خبر کا ربط۔۔
ڈوئچے ویلے پر خبر کا ربط۔۔
لائپزش میں قائم جرمنی کی وفاقی انتظامی عدالت نے ایک مسلمان طالب علم کی جانب سے برلن کے ایک اسکول میں نماز کی ادائیگی کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس اسکول میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا۔
عدالت نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ صرف اس مقدمے میں بیان کیے گئے مخصوص حالات پر ہی نافذ ہوتا ہے اور اسے اسکول کے مخصوص حالات کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔
تاہم عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ آئین عبادت کے حق کی ضمانت دیتا ہے، حتیٰ کہ اسکول میں بھی۔
بتایا گیا ہے کہ اس اسکول میں پانچ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان طلبا ہیں، جو ماضی میں بعض طالب علموں کے طریقہ نماز پر اعتراض کر چکے ہیں، جس کی وجہ سے اسکول میں نقصِ امن کا خطرہ ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد اس طالب علم کو اپنے ہائی اسکول کے برآمدے میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، حتیٰ کے دورانِ وقفہ بھی۔
عدالتی بیان میں کہا گیا: ’’عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسکول کے برآمدے میں نماز کی ادائیگی سے اشتعال کا خطرہ ہے، جس کا اسکول کی کمیونٹی کو پہلے سے ہی سامنا ہے۔‘‘