اسلام اور غلامی

کیا اسلام نے غلامی کو ممنوع قرار دیا؟

  • ہاں

    Votes: 9 69.2%
  • نہیں

    Votes: 4 30.8%

  • Total voters
    13

سپینوزا

محفلین
فاروق سرور نے کہ کہ اسلام نے غلامی کو ختم کیا۔ محب علوی نے کہا کہ بےشک پول کھول لو یہاں معلوم ہو جائے گا۔ سو میں نے پول کھولا مگر یہاں تو کوئی بندہ بشر ہی نہیں جو یہ کہے کہ اسلام غلامی سے منع کرتا ہے۔

تو جناب آپ لوگ بتائیں کہ کیا غلامی بری چیز ہے یا اچھی؟
 
غلامی اچھی ہے اگر اللہ اور اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہو۔
غلامی بری ہے اگر شیطان اور اپنے نفس کی ہو۔
 
اسلام غلامی کو برا سمجھتا ہے اور اس سے انسانیت کو نجات دلاتا ہے ، غیر جانبداری سے کوئی دیکھے تو اس سے یہ نکتہ چھپا نہیں رہ سکتا البتہ کسی کو اگر اسلام کو برا ثابت کرنا ہے تو پھر دنیا بھر کی خرابیوں کو اسلام میں ڈھونڈنا آجکل فیشن ہے اور نظر آتا ہے کہ عرصہ تک یہ فیشن ان رہے گا۔
 

فاتح

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اس عالمانہ و دانشورانہ گفتگو کے لیے ایک دھاگا ہی کافی تھا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
منصور حلاج، ہو سکتا ہے کہ آپ نے واقعی محب کے مشورے پر عمل کیا ہو لیکن میں بھی یہی گزارش کروں گا کہ اس موضوع کو انہی تھریڈز تک محدود رکھیں۔
شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ارے منصور حلاج صاحب یہ آپ کدھر چل نکلے، اپنے سوچ کے گھوڑے کن میدانوں میں دوڑانے لگے۔ جس غلامی کے موضوع کو آپ نے چھیڑا ہے وہ دنیا سے مٹ چکی۔ غلام اور آقا، مسلمان تھے یا غیر مسلمان سب خاک کا رزق کا ہو چکے۔ آپ تو کتابی باتوں کے ہی ہو رہے۔

آپ ذرا ایک نظر موجودہ غلاموں اور انکے آقاؤں پر تو ڈالیے محترم، یہ وہ غلام ہیں جو جیتے جی زندہ درگور ہیں، جو اپنی غلامی کا بوجھ اٹھائے چل پھر رہے ہیں۔ یہ ہمارے نظام کے غلام ہیں، وہ نظام جو انکی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیتا ہے۔ وہ غلام جو ہاتھ میں بیلچہ لیے سارا دن کسی چوک میں اس امید پر بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کا کوئی آقا آ کر ان کو خریدے تو ان کے گھر شام کو چولہا جلے۔ جو ملوں، کاخانوں، فیکڑیوں، کھیتوں اور بھٹوں میں سارا دن خون پسینہ ایک کرتے ہیں تو انکے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہتا ہے۔

یہ وہ آقا ہیں جن کا کوئی مذہب، کوئی ایمان، کوئی رنگ، کوئی نسل نہیں ہے۔ نوٹ کے اوپر خواہ جناح کی فوٹو ہو یا گاندھی کی، شاہ فیصل کی ہو یا جارج واشنگٹن کی، اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ وہ غلامی اور آقائیت کا سلسلہ ہے جو مغرب میں تو پورے طور سے نافذ ہے سو اپنی تمام مکروہات کے ساتھ اپنے فوائد بھی لیے ہوئے ہے۔ انکے آقا جانتے ہیں کہ اگر اپنے غلاموں کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے سے زیادہ دیں گے تو یہ ہماری چیزیں خریدیں گے۔

لیکن یقین مانیئے جس ملک میں میں آباد ہوں وہاں یہ نظام اپنی "ادھ کچی" حالت میں صرف اور صرف اپنی مکروہات کے ساتھ ہے۔ جہاں صرف سرمایہ دار اور جاگیر دار کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح روٹی کا آخری نوالہ بھی غلاموں کے منہ سے چھین لے۔ یہاں ملوں کے مالکان مصنعوعی قلت پیدا کرکے اشیاء صرف کی قیمتیوں میں من مرضی کا اضافہ کر لیتے ہیں۔

معذرت خواہ ہوں کہ آپکے موضوع سے ہٹ گیا لیکن یقین مانیے مجھے آپ کا موضوع مردہ لگتا ہے، ضرورت تو اس اصل غلامی اور اسکو ختم کرنے کی ہے، لیکن شاید یہ فقط خام خیالی ہے، شاید۔

۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
اسلام نے بے شک غلامی کو ختم کیا ہے

کیسے یہ تمام دنیا کے سامنے ہے

اسلام کے اوائل ہی میں اسلام کا علم لے کر چلنے والوں نے غلاموں کو آزاد کرانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک ایک فرد نے کئی کئی غلام آزاد کرائے

شارع اسلام نے ہر ہر موقع پر یہ حکم دیا
غلاموں کو آزاد کراو

ہر ہر کفارہ میں گردن آزاد کرانے کا حکم دیا گیا

اگر کسی نے ظہار کیا تو اس کو غلام آزاد کرانے کا حکم دیا کسی نے کوئی اور گناہ کیا تو اسے غلام آزاد کرانے کا حکم دیا

غرضے اگر دانشمندی سے فیصلہ کیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اسلام نے غلامی کو ختم کیا

اور اسلام نے تو انسان کو نسلی اور معاشرتی برتری جتانے سے بھی منع کیا ہے چہ جائے کہ غلامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

دوست

محفلین
یار جو سمجھنا ہے سمجھ لو تم۔ تمہارے خیال میں‌ یہ کام جارج واشنگٹن یا کسی مغربی مفکر نے کیا تھا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بدتمیز کے ساتھ تمہارا کئی صفحوں پر مشتمل متھا لگانا پڑھتا رہتا ہوں سمجھ ہی نہیں آتی بات کیا ہورہی ہے۔ پتا نہیں لوگ موجودہ مسائل کو لے کر کیوں نہیں بیٹھتے دو دو سو سال پرانی باتیں لے کر ٹکریں مارتے رہتے ہیں ایک دوسرے کو۔ جس کا نہ کوئی نتیجہ نا فائدہ ایویں وقت اور توانائی کی بربادی۔
 

سپینوزا

محفلین
اسلام نے بے شک غلامی کو ختم کیا ہے

کیسے یہ تمام دنیا کے سامنے ہے

اسلام کے اوائل ہی میں اسلام کا علم لے کر چلنے والوں نے غلاموں کو آزاد کرانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک ایک فرد نے کئی کئی غلام آزاد کرائے

جی ہاں کچھ غلام آزاد کئے اور کچھ نئے بنائے مگر غلامی ختم کبھی نہیں کی۔
 

سپینوزا

محفلین
یار جو سمجھنا ہے سمجھ لو تم۔ تمہارے خیال میں‌ یہ کام جارج واشنگٹن یا کسی مغربی مفکر نے کیا تھا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

اگر تم نے تاریخ پڑھی ہوتی تو تمہیں معلوم ہوتا کہ جارج واشنگٹن نے تو امریکہ میں بھی غلامی ختم نہیں کی تھی بلکہ اس کے اپنے غلام تھے۔ مرتے وقت وصیت کر گیا کہ جب اس کی بیوی مارتھا مر جائے تو جارج کے غلام آزاد کر دیئے جائیں۔ اور بس!

رہی بات پرانی باتوں پر وقت ضایع کرنے کی تو ماضی کو سمجھے بغیر مستقبل کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
 
منصور، اسلام ایک مذہب ہے جس کی کتاب قرآن ہے۔ مسلمان ایک قوم ہیں، جن کی کوشش یہ رہی ہے کہ کس طرح وہ اپنی روایات کو قرآن سے ثابت کردیں۔ چونکہ قرآن کی بنیاد پر کوئی حکومت مسلمانوں نہیں قائم کی، لہذا کبھی یہ ضروری نہیں رہا کہ جن اصولوں کو قرآن بیان کرتا ہے ان کو کسی طور بھی ملکی قوانین میں شامل کیا جاتا۔

قرآن کو اور مسلمانوں کے اعمال کو ایک سمجھنابذات خود سب سے بڑا کنفیوژن ہے۔ یہ کنفیوژن اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے مسلمانوں کے اعمال پر انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کا تڑکا یعنی بگھار لگایا جائے۔عام مسلمان بھی آج بھی عام انسانوں‌کی لکھی ہوئی کتابوں اور قوانین پر عمل پیرا ہے۔ اور قرآن کو بند کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ سکہ بند ملا اپنے خیالات کو ثابت کرنے کے لئے روایات، اجماع وغیرہ سب لے آتے ہیں لیکن قرآن نہیں لاتے۔ کیوں؟ اور پھر منظق کا ایسا تانا بانا بنتے ہیں کہ لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ قرآن کے علاوہ ہر کتاب پر ایمان ایمان لے آتے ہیں۔

آپ نے قرآنی احکامات نہیں بلکہ قرآن کے اصولوں سے مشابہت رکھنے والا آئین دیکھنا ہے تویہاں دیکھئے۔۔۔ جس زمانے میں یہ آئین لکھا گیا، قانون کی بہت کم کتب دستیاب تھیں اور اس آئین کے لکھنے والوں میں کم از کم چار کے پاس قرآن تھا اور قرآن سے قوانین کے حوالے دیتے رہے۔

کہ جب تک قران جیسے اصول کسی آئین کا حصہ نہیں ‌ہونگے، اس ملک کے باشندے اس پر عمل بھی نہیں کریں گے اور جب عمل نہیں کریں گے تو غلام آزاد بھی نہیں کریں گے۔ نلکہ ایسی دریافتیں کرتے رہیں گے جو قرآن سے مزید دور لے جائے۔
 

سپینوزا

محفلین
منصور، اسلام ایک مذہب ہے جس کی کتاب قرآن ہے۔ مسلمان ایک قوم ہیں، جن کی کوشش یہ رہی ہے کہ کس طرح وہ اپنی روایات کو قرآن سے ثابت کردیں۔ چونکہ قرآن کی بنیاد پر کوئی حکومت مسلمانوں نہیں قائم کی، لہذا کبھی یہ ضروری نہیں رہا کہ جن اصولوں کو قرآن بیان کرتا ہے ان کو کسی طور بھی ملکی قوانین میں شامل کیا جاتا۔

622 سے 632 عیسوی؟ 632 سے 634؟ 634 سے 644؟ 644 سے 656؟ 656 سے 661؟ کیا یہ حکومتیں بھی قرآن کی بنیاد پر نہیں تھیں؟

اگر بالفرض آپ کی بات کو مان بھی لیا جائے تو اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا اسلام انتہائی impractical ہے جو دنیا مین کبھی موجود ہی نہ تھا۔

آپ نے قرآنی احکامات نہیں بلکہ قرآن کے اصولوں سے مشابہت رکھنے والا آئین دیکھنا ہے تویہاں دیکھئے۔۔۔ جس زمانے میں یہ آئین لکھا گیا، قانون کی بہت کم کتب دستیاب تھیں اور اس آئین کے لکھنے والوں میں کم از کم چار کے پاس قرآن تھا اور قرآن سے قوانین کے حوالے دیتے رہے۔

مجھے خود یہ آئین پسند ہے مگر آپ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اس آئین کے لکھنے والوں میں کتنے غلاموں کے مالک تھے اور کتنوں کے اپنی لونڈیوں سے جنسی تعلقات تھے۔
 
622 سے 632 عیسوی؟ 632 سے 634؟ 634 سے 644؟ 644 سے 656؟ 656 سے 661؟
کیا یہ حکومتیں بھی قرآن کی بنیاد پر نہیں تھیں؟
اگر بالفرض آپ کی بات کو مان بھی لیا جائے تو اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا اسلام انتہائی impractical ہے جو دنیا مین کبھی موجود ہی نہ تھا۔
یہ حکومتیں کچھ قران اور کچھ اپنی قدروں اور روایات پر مشتمل تھیں۔ اجتماعی سوچوں میں تبدیلیاں بتدریج آتی ہیں۔ تھوڑا تھوڑا اچھا ہوتے ہوتے بہت کچھ اچھا ہوجاتا ہے۔ بہتر اور نیک خیالات کو جنم دیجئے، نتائج بہتر پرآمد ہونگے۔ اس اصول پر ہی قرآن نے غلامی کو برا قرار دیا۔ اور سوچوں میں اس کی بنیاد رکھی۔ یک لخت گلامی ختم کرنے کے اپنے سماجی مسائل واضح تھے۔ اگر چند ہزار یا چند لاکھ مرد و عورتیں آزادی پاکر اپنا پیٹ‌نہ پال سکتے تو عورتیں جسم بیچتیں اور مرد ڈاکہ ڈالتے۔ اسی لئے واضح‌الفاظ میں اس کا علاج کیا گیا۔ کچھ شماجی تبدیلیاں یک لخت نہیں لائی جاسکتیں۔ اس سلسلے میں‌ بلیک اینڈ‌وہائیٹ سوچ کی نسبت شیڈز آف گرے والی سوچ زیادہ بہتر رہتی ہے۔ کہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ بتدریج تبدیلی لائی جائے۔

مجھے خود یہ آئین پسند ہے مگر آپ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اس آئین کے لکھنے والوں میں کتنے غلاموں کے مالک تھے اور کتنوں کے اپنی لونڈیوں سے جنسی تعلقات تھے۔
لوگوں کے ذاتی اعمال سے زیادہ اہمیت ان قوانین کی ہے جو ان لوگوں نے اس وقت کے مروجہ روایتوں کے خلاف ترتیب دئے، جس نے ایک بہتر معاشرے کو جنم دیا۔ کہ وہ لوگ تو چلے گئے لیکن آزادی کی بنیاد رکھ گئے۔ ان کے اعمال کے وہ خود ذمہ دار تھے۔ لیکن آج ان کے ملک میں ان کی اپنی سنت پر عمل نہیں ہوسکتا، لیکن ان کے دئے ہوئے قانون پر عمل ہورہا ہے ۔ چاہے وہ باہمی مشاورت ہو یا شخصی آزادی۔

آپ ایک کلاس سوشیالوجی، سوکس اور ہسٹری کی مزید لے لیجئے۔ اس سلسلے میں سوچنے میں مدد ملے گی۔

والسلام
 

خرم

محفلین
جی ہاں کچھ غلام آزاد کئے اور کچھ نئے بنائے مگر غلامی ختم کبھی نہیں کی۔

میرے ناقص خیال میں اسلام نے غلامی کو حرام نہیں قرار دیا ہاں غلاموں کو آزاد کرنے کی تحریک دی اور اس طرح بتدریج غلامی کو ختم کرنے کو پروموٹ کیا اور غلاموں کی آزادی کو دینی افعال کا کفارہ بنایا۔
 

ظفری

لائبریرین
منصور حلاج کے ہر دھاگے پر مسلسل بے مقصد بحث رواں ہے ۔ حتی الامکان یہی کوشش ہوتی ہے کہ موصوف کے ٹاپک سے بچا جائے ۔ مگر کوئی نہ کوئی بات اس حوالے سے سامنے آجاتی ہے کہ اس کا جواب دینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ مگر اس بار میری یہ دو چار سطریں دیگر صاحبان کے لیئے ہیں جو " اسلام اور غلامی " کے اس دھاگے پر موجود ہیں ۔

یہ بات تاریخ سے بہت واضع ہے کہ اسلام سے پہلے غلاموں کی کیا حالت تھی ۔ مگر غلاموں کے لیئے اسلام نے بہت سے حقوق قائم کر دیئے ۔اور ان کے لیئے آزادی کی راہیں بھی کھولیں گئیں ۔ اور ایک تحریک پیدا کی گئی جس کے ذریعے لوگوں کو یہ ترغیب دی گئی کہ وہ غلاموں کو آزاد کر دیں ۔ اور پھر بعد کے ادوار میں مسلمانوں کو اقتدار جب حاصل ہوا تو غلامی کے اس انسٹیٹوشن کو ختم کرنے کے لیئے بہت سے اقدامات کیئے گئے ۔ اور ضروری قانون سازی بھی کی گئی ۔ لیکن ۔۔۔۔ اس دوران کسی شخص کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ جو قاعدہ اور قانون پہلے سے چلا آرہا ہے اس کو توڑ دیا جائے ( شاید اسی وجہ سے موصوف حلاج نے اسلام کو غلامی کے حوالے سے نشانہ بنایا ہے کہ اسلام نے غلامی کی ایک دم سے بیج کنی کیوں نہیں کی ۔ ) ۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ جو اسلام کے صحیح تشخص کو سمجھتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ " اسلام انقلاب کے لفظ کو پسند نہیں کرتا ۔ بلکہ وہ اصلاح کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کے نظم وضبط کو قائم رکھ کر بتدریج اس میں تبدیلیاں پیدا کی جائیں ۔ اور اس طرح ایک فرد بھی اپنی اصلاح کرے اور ایک معاشرہ خود کو بھی بہتر کرے ۔ اسلام ، تعلیم و تربیت کے ذریعے سے انسانی ذہنوں کا شعور بہتر کرنے سے تبدیلی کا علمبردار ہے ۔ اور یہ تبدیلی وہ ہمہ وقت چاہتا ہے ۔ لہذا ٰ اسلام نے غلامی کو انقلاب سے ختم کرنے کے بجائے اقدار اورعفو و درگذر کے ذریعے غلاموں کے لیئے ان کی زندگیاں نہ صرف آسان کیں بلکہ ان کے لیئے آزادی کے مواقع بھی اس طرح پیدا کیئے کہ معاشرے میں غیر محسوس طریقے سے غلامی کا رحجان جاتا رہے ۔

ہزاروں سال سے لوگوں کے ذہن پر پڑی اس غلامی کی پرانی رسم کی مضبوط گرہیں اسلام نے بہت آہستگی اور سلیقے سے دور کیں ۔ اسلام کے اوائل دور میں چونکہ اس رسم کا بہت اثر تھا ۔ چنانچہ لوگوں نے اس رسم کو کچھ عرصہ جاری رکھا مگر بعد میں بعض اقدامات ، قوانین اور پھر اسلامی تعلیم و تربیت سے اس رسم کا خاتمہ ہوگیا ۔اب کوئی یہ واویلا مچاتا ہے تو مچاتا رہے کہ مسلمان حکمرانوں نے غلام کیوں رکھےکیونکہ اسلام کو غلامی کی جس طرح بیج کنی کرنی تھی سو اس نے بلکل ویسے ہی کی اور آج میرا خیال نہیں کہ اس دنیا میں اب آقا اور غلام کا رشتہ باقی رہا ہو ۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
اسلام نے تو اپني ابتداء کے ساتھ ہي يہ نعرہ لگا کر کہ تمام انسان برابر ہيں ۔۔ غلامي کي بنياد کو ختم کر ديا تھا ۔۔ کيا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے پاس موجود غلام کو آزادي دے کر متبنہ نہيں بنا ليا تھا ؟

کيا حضرت ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ نے کتنے ہي غلام آزاد نہيں کيے ؟

کيا بلال حبشي کو سيدنا بلال کہہ کر اعلي ترين مقام عطا نہيں کيا گيا؟

اسلام نے بتدريج لوگوں کے مزاجوں کو تبديل کيا ہے ۔۔ اگر اسلام پہلے دن ہي يہ نعرہ لگا ديتا کہ غلاموں کو آزاد کرو تو معاشرہ اسے کبھي بھي قبول نہ کرتا ۔۔
اس ليے اسلام نے بتدريج غلامي کو ختم کيا ہے ۔۔ اس کے ليے وہ آيات حجت ہيں کہ جن ميں ہر جرم کے بدلے غلام آزاد کرنے کا حکم ديا گيا ہے ۔۔ غلام آزاد کرنے والے کے ليے کتنے ہي اجرو ثواب کي بشارتيں دي گئيں ہيں ۔
يہ سب کيا ہے ؟؟
کيا اس سے يہ واضح نہيں ہو جاتا کہ اسلام نے غلامي کو جڑ سے اکھاڑا ہے ۔۔
جب اسلام نے يہ کہہ ديا کہ سب برابر ہيں تو پھر غلامي کا تو تصور ہي باقي نہيں رہا ۔۔

اسلام صرف خدا کي غلامي کا حکم ديتا ہے ۔۔
 

رند

محفلین
السلام علیکم
اپنی جہالت کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہوں انسان کسی کا غلام نہیں ہاں مذہب اپنی مذہبی شخصیات اور مزہبی خدا کی غلامی کا کہتا ہے اسلام بھی ایک مذہب ہے اس نے بھی غلامی کی اجازت دی ہے لیکن اس لیے دی ہے کہ اس وقت دنیا میں غلامی کا رواج تھا غلاموں کی خرید فروحت معیشت و انتظام ریاست کا اہم جزو تھی اسلام نے جو کوئی بھی حکم دیا ایک دم سے نہیں دیا بلکہ درجہ بہ درجہ دیا غلامی کے خاتمے کے لیے بھی اسلام نے ایک دم یہ نہیں کہا غلام ختم بلکہ درجہ بہ درجہ افراد کی ایسی تربیت کی کہ وہ خود ہی غلام خرید خرید کر آزاد کرنے لگے میں ایک جاہل شخص ہوں پتہ نہیں اتنا بھی کیسے اور کیا لکھ دیا ایک بار ایک کتاب میں اس کے بارے میں پڑھا تھا آپ بھی " اسلام نے غلامی کی اجازت کیوں دی؟" کا جواب درجہ زیل لنک میں جاکر پڑھ لیں شکریہ
اسلام اور جدید ذہن کے شہبات
 
Top