اسلام اور تصوف

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

میں نے سوچا ہے کہ برادران باذوق اور شاکرالقادری کی ایک ایک بات مان لی جائے۔ اس تھریڈ کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذیلی زمرہ تصوف کے لیے مختص کر دیا جائے گا۔

والسلام
 

خرم

محفلین
اللہ آپ کو خوش رکھے نبیل بھائی۔ دھاگہ کا مقفل کیا جانا بہت گراں گزر رہا تھا۔
 
السلام علیکم
1 درحقیقت دین اسلام اور علوم قرآن، تفسیر، فقہ ، حدیث،الکلام، عقیدہ، لغہ، میں تعلق ہے عرض اور جوہر یا پھر کل اور جزو کا۔ یا یوں سمجھیے رنگ اور کپڑے کا۔ رنگ عرض ہے اور کپڑا جوہر۔ یہا ں میں عرض اور جوہر کی بھی تعریف کر دوں۔ عرض وہ چیز ہے جو جو دوسری چیز کی وجہ سے قائم ہو اور جوہر وہ جو بذات خود قائم ہے۔
2 تصوف بھی دیگر علوم کی طرح دین اسلام کا ایک عرض ہے۔ جسطرح مسائل شرعیہ کا علم، علم ِ فقہ ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کی تدوین وغیرہ کا تعلق علم حدیث سے ہے، علم الکلام نام ہے عقلی طور پر دین اسلام کے تحفظ کا اسی طرح تزکیہ نفس اور معرفت الٰہی کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششیں عموما تصوف کے نام سے معروف ہیں۔
3 جیسا کہ نماز ، صلوۃ کا مترادف ہے ویسے ہی تصوف احسان کا مترادف ہے اور احسان ایک شرعی اصطلاح ہے اور معرفت الٰہی کی انتہا کا ایک نام۔
4 چنانچہ تصوف شریعت محمدیہ سے الگ کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی صوفیا کرام ہی کسی اور جہاں کی مخلوق ہیں بلکہ تصوف وراثت نبوت کا ایک مستقل شعبہ ہے اور صوفیا کرام وراثت نبوت کے امین اور اس عظیم الشان شعبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہیں۔
5 اگر حرف خوانی کا ہی نام صرف علم ہوتا اور اگر اسی سے اصلاح اور تزکیہ ہو جاتا تو امام غزالی کو نظامیہ چھوڑ کر مارے مارے پھرنےا ور المنقذ من الضلال میں اپنی سرگزشت لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
۔۔۔۔

باذوق نے کہا:
شاکرالقادری نے کہا:
آخري بات
ميرا موقف شروع سے اب تك يہ رہا ہے كہ تصوف ايك عملي طريقہ ہے جس كے ذريعہ اصلاح نفس تصفيہ اخلاق اور شريعت مطہرہ كے احكام و اعمال كے حقيقي اور باطني فوائد كا حصول ممكن ہے
اگر آپ كو اس طريقہ اور اس لائحہ عمل كے خلاف بحث كرنا ہے تو مييں حاضر ہوں

محترم شاکر القادری صاحب !
اس دھاگے کی ایک حالیہ پوسٹ میں ایک صاحب نے صحیح کہا کہ بار بار سوالات دہرائے جاتے ہیں اور اسی طرح جوابات بھی ۔
میں بھی اس معاملے میں خود کو بےبس و مجبور پاتا ہوں ۔
آپ دیکھ لیں کہ آپ بار بار تصوف کو وہ عملی طریقہ ثابت کرنے پر مصر ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے احکام و اعمال سے وابستہ ہے ۔
جبکہ میں نے بہت پہلے کہا تھا کہ :
----
دینِ اسلام کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا فلسفہ یا نظریہ یا طریقہ لے آتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کو بتاتا ہے ۔ لیکن کن باتوں سے اس کی خصوصیات ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے الگ ہٹ کر واضح ہوتی ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اگر پوچھا جائے کہ نام کیوں الگ ہے تو جواب ملے گا کہ نام سے کیا ہوتا ہے ، کام تو سارا ہی وہی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔
بھائی جب آپ قرآن و سنت کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں تو نئے نام گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟

اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شریعتِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے مکمل اور کافی ہے اور کتاب و سنت میں بھی زندگی گزارنے کے لئے مہد سے لحد تک ایک ایک لمحہ کے لئے ہدایات موجود ہیں تو پھر اس میں ’طریقت‘ یا ’تصوف‘ کے نام سے اضافہ کی گنجائش کہاں سے پیدا کر لی گئی ؟؟؟
اگر طریقت اخلاص فی العبادت کا نام ہے تو کیا شریعت میں پہلے یہ عنصر موجود نہیں تھا ؟
اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد اور وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے ؟؟؟


سوال یہ نہیں ہے کہ : دینِ تصوف یا دینِ طریقت کی کون سی اہم بنیادیں ہیں ؟
بلکہ یہ ہے کہ : دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ یا عملی طریقہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔
منطقی اعتبار سے یہ معاملہ اس لیے بھی زیرِ بحث آئے گا کہ ۔۔۔ فرقے فرقے بننے والی چیزوں سے قرآن واضح طور پر منع فرماتا ہے ۔

----
اس سوال کا جواب آج تک کسی نے نہیں دیا بلکہ اس کے موازنے میں دوسرے سوالات (مثلاََ : علم و اصول حدیث ، شرعی و تدبیری امور کی ایجاد وغیرہ) کھڑے کر کے بحث کو ایک دوسرا رخ دے دیا گیا ۔
اس سوال کا جواب آج تک کسی نے نہیں دیا بلکہ اس کے موازنے میں دوسرے سوالات (مثلاََ : علم و اصول حدیث ، شرعی و تدبیری امور کی ایجاد وغیرہ) کھڑے کر کے بحث کو ایک دوسرا رخ دے دیا گیا ۔
محترم آپ كو غلط فہمي ہوئي ہے كہ اس سوال كا جواب كسي نے نہيں ديا اس جوال كا جواب بہت پہلے محترم ابن حسن دے چكے ہيں صحابہ كا زمانہ اور تھا ان كو براہ راست نبي اكرم كي صحبت ميسر تھي اور وہ براہ راست آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے فيض ياب ہوتے تھے اور جہاں تك اخلاص فيي العمل اور اخلاص في الايومان كي بات ہے تو صحابہ كي ايماني كيفيت بھي يكساں نہيں تھي كچھ ايسے تھے كہ انہيں اذيتيں دے كر قريب المرگ كر ديا جاتا ليكن وہ اللہ اور رسول كے خلاف كلمہ كہنے كے ليے تيار نہ ہوتے كچھ ايسے تھے جو معراج كےے واقع كي بلا سوچے سمجھے تصديق كر كے صديق كا لقب پا گئے اور كچھ ايسے بھي تھے كہ شب ہجرت بستر مرگ كو پھولوں كي سيج سمجھ كر آرام و سكون سے سوتے رہہے اس كے برعكس كچھ ايسے بھي تھے جنہيں مولفين القلوب كہا گيا اور اموال غنائم ميں انہيں كئي گنا زيادہ حصہ ديا گيا كہ ايمان ان كے دلوں ميں راسخ ہو جائے ۔۔۔۔۔
خيرالقرن كے بعد جب اخلاص في العمل كي كمي ہو گئي تو اس كو پيدا كرنے كے ليے عبادات اور رياضات كا سہارا ليا گيا اور يہ عملي طريقہ تصوف كے نام سے مشہور ہوگيا
آپ كو يہ بھي بتايا جا چكا ہے كہ
صرف تصوف كا لفظ ہي نہيں بلكہ اس طريقہ عمل اور اس كے عاملين كو بيسيوں دوسرے ناموں سے مختلف علاقوں ميں پكارا گيا اور يہ مشہور ہوئے اس كے باوجود آپ اسي بات پر اٹے ہوئے ہيں
كسي بات كو رپيٹ كرنے اسے جلي حروف ميں لكھنے يا اسے سرخي كي شكل دينے كي ضرورت اسي ليے محسوس ہوتي ہے مخالف و مقابل كي توجہ مطلوب ہوتي ہے
ليكن يہاں تو يہ ديكھا گيا ہے كہ پہلے تو بات كو دائيں بائيں كرنے كي كوشش كي جاتي ہے
اور اگر ايسا نہ ہو سكے تو آئين بائيں شائيں شروع كر دي جاتي ہے
صاحب آپ جب تك اہم باتوں كو در خور اعتنا نہيں سمجھيں گے ہم تو آپ كو ياد دلاتے رہيں گے
 

چنچل

محفلین
السلام علیکم !
میں نے اس تمام بحث کو کہیں کہیں سے مفصل اور کہیں کہیں سے سرسری طور پر پڑھا ہے ۔اور اس کے نتیجے میں محترم باذوق صاحب سے چند سوالات کرنا چاہوں گی جو کہ انھی کی عبارات سے میرے ذہن میں پیدا ہوئے ۔آپ سب لوگ حیران نہ ہوں مجھے بہت عرصہ پہلے سے محترم جناب باذوق صاحب سے شناسائی حاصل ہے اور میں انکے علم کی پرانی مداح ہوں۔طریقہ کار میر ا یہی ہوگا کہ پہلے انکی مذکورہ عبارت نقل کروں گی پھر اپنا سوال۔۔۔۔

انسانی عقل محدود ہے ۔
[جب کوئی انسان شریعتِ اسلامی پر ایمان لاتا ہے تو مسلمان کہلاتا ہے ۔
ایمان لانے کے بعد ۔۔۔ عقل ، وحی کے تابع ہو جاتی ہے ۔
اور وحی ۔۔۔ وہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جلی حالت (قرآن) میں بھی نازل ہوئی اور خفی حالت (حدیث) میں بھی !
لہذا ‌ایک مسلمان ۔۔۔ قرآن و حدیث کی شریعت کا پابند ہے ۔۔۔ کسی دوسرے فلسفے ، منطق ، گرامر یا علم الکلام کا نہیں
میرا سوال یہاں کہ اگر مسلمان صرف قرآن و سنت ہی کا پاپند ہے تو پھر تمام مکاتب فکر کے مدارس میں جتنے بھی دیگر علوم پڑھائے جاتے ہیں ان سب کو قرآن و حدیث سے پہلے کیوں پڑھایا جاتا ہے میری مراد علم صرف و نحو اور اس قسم کے دیگر علوم کی طرف ہے ان کو کیوں پہلے پڑھایا جاتا ہے اور دورہ حدیث آخر میں کیوں رکھا جاتا ہے قرآن و سنت سے پہلے یہ علوم کیوں سکھائے جاتے ہیں۔۔۔ یعنی ان علوم کو قرآن و حدیث پر مقدم کیوں کیا جاتا ہے؟
تصوف ۔۔۔ کو قرآن و حدیث سے ثابت کر دیا جائے !

امام ابن تیمیہ ، ابن القیم وغیرہ وغیرہ کی علمی و دینی حیثیت سر آنکھوں پر !
لیکن یہ بات تو ہم تمام مانتے ہیں کہ سوائے انبیاء کے ، کوئی انسان معصوم نہیں ۔
اگر تصوف خیرالقرون سے ثابت ہوتا تو ۔۔۔ آج ہم کسی نہ کسی صحابی کو صوفی یا صوفی اعظم کا لقب ضرور دیتے
دنیا کا ایک معروف قاعدہ ایک یہ ہے کہ ۔۔۔ کوئی بھی فلسفہ یا نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کی حقانیت کی دلیل بھی اسی سے طلب کی جاتی ہے جو اس نظریے کو پیش فرماتا
اس سے آپکی کیا مراد ہے ؟ آیا تصوف کی لغوی مباحث کو قرآن و سنت سے ثابت کرنا یا پھر تعلیمات تصوف کو ؟
پھر آپ نے کہا کہ اگر تصوف خیر القرون سے ثابت ہوتا تو پھر ہم آج کسی نہ کسی صحابی کو صوف یا صوفی اعظم کا لقب ضرور دیتے ۔۔یہ بالکل ایسے ہی جیسے آجکل لوگ اپنے مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ ڈھیروں القابات لگا دیتے مگر کسی نے یہ نہیں کہا آج تک کہ اگر یہ القابات خیر القرون سے ایک مسلمان کے ساتھ لگانا ثابت ہوتے تو کسی نا کسی صحابی کو خطیب اعظم مدینہ شریف یا علامہ مولانا شیخ الحدیث والتفسیر وغیرہ وغیرہ ضرور پکارا جاتا ۔صحابہ کے لیے شرف صحابیت سے بڑھ کر اور کوئی شرف ہے ہی نہیں اس لیے ان کے ساتھ اس قسم کے القابات نہیں لگائے جاتے وگرنہ صحابہ میں بھی شیخ الحدیث والتفسیر ہوئے ہیں۔سوال میرا یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک کسی بھی اصطلاح کے استعمال کے لیے اس اصطلاح کا بعینہ خیرالقروں سے ثابت ہونا ضروری ہے اگر ہے تو اس کی کیا دلیل ہے قرآن و سنت یا پھر اقوال صحابہ سے ثابت کریں۔
رہی بات جو آپ نے دنیا کا مشھور قاعدہ بتایا تو وعرض ہے کہ دنیا کے قاعدے آپکو مبارک لیکن شریعت کا مشھور اور متداول قاعدہ یہ ہے کہ ہمیشہ حرمت کی دلیل طلب کی جاتی ہے کیوں کہ اصل تمام اشیاء میں جمہور کے نزدیک حلت و اباحت ہے لہذا قانوں یہ ہے کہ جس کا بھی جو دعوی ہو وہ اس کی دلیل پیش کرئے مثلا اگر کوئی شخص یہ دعوی کرئے کہ فلاں میرا مقروض ہے تو اب مقروض سے یہ مطالبہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنا مقروض نہ ہونا ثابت کرئے کیونکہ یہ دعوٰی خلاف اصل ہے وجہ اس کی یہ کہ اصلا ماں کے پیٹ سے کوئی بھی مقروض نہیں پیدا ہوتا ۔ اس لیے اب آپ کا یہ دعوٰ ی ہے کہ تصوف غیر اسلامی ہے تو آپ اسے اب ثابت بھی کریں اور دیگر احباب کا یہ دعوی ہے کہ تصوف کی تعلیمات اسلامی ہی ہیں تو وہ اپنا ثبوت دیں گے۔
اس سائٹ کے ’تصوف‘ والے صفحے پر جتنے بھی دلائل ہیں ۔۔۔ سب کے سب ذاتی تشریحات ہیں ، قرآن یا حدیث سے ایک بھی ٹھوس دلیل موجود نہیں ! اصحابِ صفہ کی جو تعریف اس مضمون میں کی گئی ہے ، اس کے مقابلے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ’اصحابِ صفہ اور تصوف کی حقیقت‘ بھی پڑھ کر دیکھ لی جائے ۔۔۔ دو طرفہ دلائل سے واقفیت حاصل ہو جائے گی
بلا شبہ آپکی بات سر انکھوں پر کہ سب کی سب زاتی تشریحات ہیں قرآن و سنت سے ایک بھی دلیل نہیں مگر یہ کیا کہ آپ خود بھی فورا اپنے دیے گئے اصول سے منحرف ہوگئے اور پینترا بدل کر دعوت یہ دی کہ ابن تیمیہ کی بیان کردہ اصحاب صفہ کی تعریف بھی پڑھ کردیکھ لی جائے کیوں ؟ کیا وہ زاتی تشریح نہیں ؟ یا پھر آپ کے نزدیک ابن تیمیہ کی زاتی رائے خود قرآن و سنت ہی ہے؟
خاکسار نے اب تک کی بحث میں ۔۔۔ تصوف کو نہ تو سراسر غلط قرار دیا ہے اور نہ صحیح ۔
تو آخر خاکسار صاحب کہنا کیا چاہ رہے ہیں یہ تو واضح کردیں تاکہ ہم جیسے کم علموں کا کم از کم بھلا تو ہوجائے؟
جو بات عین دین کے طور پر پیش کی جائے تو اس کا ثبوت بھی خیر القرون سے پیش کیا جانا لازمی ہے کیونکہ فرمانِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق اسلام کا بہترین دور وہی رہا ہے
جناب کا یہ اصول خود ساختہ ہے اور بذات خود محتاج دلیل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث فقط زمانہ نبوی کی عظمت افضلیتً مقصود ہے ناکہ یہ حدیث کوئی شرعی اصول یا ضابطہ بیان کر رہی ہے ، اور شرعی اصول و ضابطہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کو قرآن و سنت پر پیش کرو اگر موافق آئے تو اپنا اور اگر مخالف آئے تو چھوڑ دو۔اور اگر جناب کو اپنے بیان کردہ قاعدہ ہی پر اصرار ہے تو پھر پہلے خود کسی آیت یا حدیث سے یہ قاعدہ ثابت کریں۔
باذوق کی کوششیں ۔۔۔ ’خالص اسلام‘ کا دفاع ہے کہ اسلام کو عقلیت ، علم الکلام ، تصوف ، رہبانیت وغیرہ جیسے فلسفوں کی نہ تو خیرالقرون میں ضرورت تھی اور نہ آج ہے !
آج اگر ضرورت ہے تو صرف اور صرف ’قرآن اور حدیث‘ کی واضح ترین تعلیمات کی
اسے آپ کی مراد کیا ان علوم و فنوں کی مطلق نفی ہے یا۔۔۔؟اگر مطلق ہے تو پھر آپکی سوچ پر سوائے انا للہ وانا علیہ راجعون کہ اور کیا پڑھا جاسکتا ہے۔۔اگر اسلام کا ناطہ مطلق عقل سے توڑ دیا جائے تو پھر علم حدیث کا جو مشھو ر اصول درایت ہے اس کو کس کھاتے میں ڈالیں گے آپ اور اس کے علاوہ بھی جتنے علوم و فنون ہیں ان سب کے اصول و قواعد ہیں وہ سب عقلی اور نقلی معیارات کو سامنے رکھ کر ہی ترتیب دیئے گئے ہیں۔اور اگر آپکی اس مراد ان علوم کو قرآن و سنت کے مقابلے میں ترجیح دینے سے تو معاف کیجیئے گا ایسا یہان کسی نے کچھ نہیں کہا یہ سب علوم و فنون درجے کے اعتبار سے بعد ہی میں آئیں گے۔
حالانکہ قرآن میں بیان ہے :
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
(اردو ترجمہ = مولانا جونا گڑھی) :
ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام ) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ، ہاں رہبانیت ( ترک دنیا ) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے ۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی ، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے ، انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں ۔

اس آیت میں اتباع اور ابتداع کے الفاظ پر غور کیجئے ۔ رہبانیت کو اللہ تعالیٰ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے جبکہ اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا ۔ اللہ نے جو حکم دیا تھا وہ اتباع کا تھا
معاف کیجیے گا اس آیت سے جو مفھوم آپ نے لیا ہے وہ سراسر نظم قرآن کے مخالف ہے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گی کہ نہ صرف نظم قرآن کے مخالف ہے بلکہ اعجاز قرآن کے بھی مخالف ہے کیونکہ اس آیت میں صراحتا ایک ایسی چیز کی مشروعیت کا اعلان کیا جارہا ہے جو کہ امت عیسوی کی اپنی ایجاد کردہ تھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم نہیں تھا اور اسی سے آپ لوگوں کے بیان کردہ قاعدہ بدعت کی نفی بھی ہوتی ہے اور یہ آیت صاف اعلان کررہی کہ جو چیز امت عیسوی نے خود ایجاد کی تھی اور اس پر جتنے لوگوں نے اخلاص کے ساتھ عمل کیا تھا اللہ پاک نے ان کو اس کا اجر بھی دیا اور معاف کیجیے گا بدعت سئیہ پر کوئی اجر تو درکنار خود اس کا وجود ہی اسلام کے لیے خطرناک ہے۔آیت میں رھبانیت کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اس کی فرضیت کی نفی کی گئی ہے جیسا کہ ماکتبنھا کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے آپ دیکھیے آیت کے الفاظ کیسے واشگاف انداز میں ہمارے مقصود کا اعلان کررہے ہیں۔۔ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میںرہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔
فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔
تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔
فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھمکےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔

پھر بعض ایسے اعمال بھی ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان میں کامل رہنمائی نہیں فرمائی

ایسے جو بھی اعمال ہیں وہ بہرحال شرعی اعمال نہیں ہیں ۔ کیونکہ شریعت تو نبی کریم (ص) کی زندگی ہی میں مکمل ہو گئی تھی ۔ اور ایسا دعویٰ تو ایک کافر ہی کر سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھوری شریعت چھوڑ کر گئے ہیں
آپکا یہ خود ساختہ قانوں بھی محتاج دلیل ہے اور قرآن و سنت کے صریحا مخالف ہے بلکہ اس سے اسلام کے مشھور اصول اجتھاد کی نفی لازم آتی ہے
کہ اگر شریعت کے مکمل ہوجانے سے یہی مراد لے لی جائے کہ آج کے بعد کوئی بھی نیا مسئلہ پیش ہی نہیں آسکتا یا اگر پیش آبھی جائے تو اس کا لازمی حل سنت میں مذکور ہوگا ایسا سوچنا اور سمجھنا اسلامی اصولوں سے روگرادنی کے مترادف ہے کیونکہ شریعت کے مکمل ہوجانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس میں ہر ہر مسئلہ کا بعینہ حل تفصیلا مذکور ہوگیا ہے بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شریعت نے اپنے تمام اصول تم پر مکمل کردیے ہیں اب قیامت تک کے مسائل کا حل تمہیں انھی اصولوں پر چل کر تلاش کرنا ہوگا اور یہ اصول اپنے اندر اتنے جامع اور وسیع ہیں کہ قیامت تک کے لیے کوئی بھی نیا مسئلہ ایسا تمہیں نہیں پیش آسکتا کہ جس کا حل ان پر چل کر نا تلاش کرسکو اسی مفسرین نے لکھا کہ جب یہ آیت الیوم اکملت لکم المائدہ 3 ۔۔۔ آئی تو اس کے بعد حلال و حرام کے باب میں کوئی ایک بھی آیت نہ اتری یعنی یہ آیت احکام حلال و حرام کے باب میں آخری آیت نہ کے مطلق آخری آیت ۔لہذا شریعت کے مکمل ہوجانے کے ہرگز یہ معنٰی نہیں کہ اب قیامت تک کہ مسائل اس میں مذکور ہو چکے لہذا تمہیں جو بھی مسئلہ پیش آئے تم قرآن و سنت اٹھا کردیکھ لینا آگر اس میں مذکور ہوا تو ٹھیک ورنہ خلاف شریعت سمجھ لینا۔ کیونکہ اس طرح سمجھ لینے سے اسلام کے آفاقی اصولوں کی عمارت ہی زمیں بوس ہوجائے گی اور پھر اجتھاد اجماع اور قیاس کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا بلکہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا کیا مصداق رہ جائے گا جب انھوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو صاف فرمایا کہ کہ لم تجدکہ اگر تو قرآن میں نا پائے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک میں ہر ہر مسئلہ کا بعینہ حل موجود یا مذکور نہیںاور اسی طرح حدیث کے بارے میں بھی فرمایا کہ لم تجد کہ اگر تو وہان بھی نہ پائے تو ۔۔۔۔ اب آپ کے اصول کے مطابق تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اے معاذ ہر مسئلہ کا حل قرآن و سنت میں ہے لہذا اگر تو کسی مسئلہ کا حل ان دونوں میں نا پائے تو وہ خلاف شریعت ہوگا لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ حضرت معاذ کی خود سے اجتھاد والی بات کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ دعا بھی دی یہ جہاں اجتھاد کی اجازت تھی وہیں اس بات کی طرف اشارہ بھی تھا کہ بہت سے ایسے مسائل ہوں گے کہ جن کا براہ راست حل تمہیں قرآن و سنت سے نہ ملے گا اور جب کبھی کوئی ایسا مسئلہ آجائے کہ جس کا براہ راست حل تمہیں قرآن و سنت سے نہ ملے تو اسے محض نیا کہہ کر اور غیر شرعی کہہ کر جھٹلا نہ دینا بلکہ اجتھاد کرنا اور قرآن و سنت کے مطابق لے تو اپنا لینا اور اگر مخالف لگے تو رد کردیان۔۔ وما علینا الا البلاغ
 

حسن نظامی

لائبریرین
چنچل بہت خوب لکھا آپ نے ۔۔ دیکھتے ہیں باذوق صاحب کیا فرماتے ہیں ۔۔ ویسے یہ تمام باتیں پہلے بھی کئی بار ان سے کی جا چکی ہیں ۔۔ مگر نتیجہ ۔۔ وہی ۔۔
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم !
معاف کیجیے گا اس آیت سے جو مفھوم آپ نے لیا ہے وہ سراسر نظم قرآن کے مخالف ہے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گی کہ نہ صرف نظم قرآن کے مخالف ہے بلکہ اعجاز قرآن کے بھی مخالف ہے کیونکہ اس آیت میں صراحتا ایک ایسی چیز کی مشروعیت کا اعلان کیا جارہا ہے جو کہ امت عیسوی کی اپنی ایجاد کردہ تھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم نہیں تھا اور اسی سے آپ لوگوں کے بیان کردہ قاعدہ بدعت کی نفی بھی ہوتی ہے اور یہ آیت صاف اعلان کررہی کہ جو چیز امت عیسوی نے خود ایجاد کی تھی اور اس پر جتنے لوگوں نے اخلاص کے ساتھ عمل کیا تھا اللہ پاک نے ان کو اس کا اجر بھی دیا اور معاف کیجیے گا بدعت سئیہ پر کوئی اجر تو درکنار خود اس کا وجود ہی اسلام کے لیے خطرناک ہے۔آیت میں رھبانیت کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اس کی فرضیت کی نفی کی گئی ہے جیسا کہ ماکتبنھا کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے آپ دیکھیے آیت کے الفاظ کیسے واشگاف انداز میں ہمارے مقصود کا اعلان کررہے ہیں۔۔ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میںرہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔
فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔
تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔
فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھمکےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔

وعلیکم السلام۔
میری نظر ابھی کل ہی پڑی ہے اس پوسٹ‌ پر۔ کوشش کروں گا کہ وقت نکال کر وقفہ وقفہ سے جواب دوں۔
ویسے درج بالا اقتباس کا جواب حاضر ہے۔
درج بالا اقتباس چنچل صاحبہ کی اپنی تحریر نہیں ہے۔ اگر گوگل سرچ کر لیں تو مزید دو تین فورمز پر یہی تحریر لفظ بہ لفظ آپ کو مل جائے گی۔ مسعود صاحب کے فورم "پیغام" پر جناب "آبی ٹو کول" صاحب کے قلم سے راقم نے یہی تحریر پڑھی تو اصل تحریر کے بارے میں دریافت کیا تھا
یہاں اپنے ایک جواب میں آبی ٹو کول صاحب نے اعتراف فرمایا ہے کہ اس تحریر کا زیادہ تر حصہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی کتاب "کتاب البدعة" سے ماخوذ ہے۔
تو قارئین ، واضح ہو کہ درج بالا (اقتباس) تشریح ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ہے۔ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ کون اس تشریح سے اتفاق کرتا ہے اور کون اختلاف۔
ہماری غرض تو صرف اتنی ہے کہ اس تشریح کو بھی سامنے لائیں جو معروف مفسرین سے ماخوذ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید
ترجمہ۔پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
ذیل کی ساری بحث سورہ الحدید کی آیت نمبر 27 پر مبنی ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نے اس آیت کو "بدعت" کے خلاف پیش کیا ہے ، مگر مقالہ نگار کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اجماع کو یکسر نظرانداز کر کے اجماع کے عین مخالف راہ کو منتخب کیا ہے۔ راقم کے علم اور مطالعے کے مطابق ، تقریباً یہی تشریح ، ایک مکتبِ فکر کی مشہور کتاب "جاءالحق" میں مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی نے عرصہ قبل کی تھی اور جس کے جواب میں کئی علماء کرام نے مختلف کتابوں میں اس غلط تفسیر/تشریح کی نشاندہی کر رکھی ہے۔
بہرحال ہمارا سب سے پہلا اعتراض تو آیت کے ترجمہ پر ہے جو یوں کیا گیا ہے‫:
پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاں مگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ "جملہ تقاضوں" کے الفاظ جس قرآنی الفاظ کا ترجمہ ہیں ان کی نشاندہی کی جائے ورنہ خطرہ ہے قرآن کے ترجمے میں تحریفِ معنوی کا الزام سر نہ آ جائے۔
ہم ذیل میں مختلف مکاتبِ فکر کے پانچ اردو ترجمے پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو بھی کچھ اندازہ ہو کہ کس طرح من مانے ترجمے کے ذریعے اپنے موقف کی تائید میں تحریفِ معنوی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
( سورة الحديد : 57 ، آیت : 27 )


احمد رضا خان فاضل بریلوی
پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیروؤں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے الله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں
محمود الحسن دیوبندی
پھر پیچھے بھیجے اُن کے قدموں پر اپنے رسول ، اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ، مریم کے بیٹے کو اور اس کو ہم نے دی انجیل ، اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی ، اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی ، ہم نے نہیں لکھا تھا یہ اُن پر ، مگر کیا چاہنے کو اللہ کی رضامندی ، پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا ، پھر دیا ہم نے اُن لوگوں کو جو اُن میں ایماندار تھے اُن کا بدلہ اور بہت اُن میں نافرمان ہیں
فتح محمد جالندھری
پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریم (ع) کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی۔ اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیئے تھا نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں
سید مودودی
ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے ، اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم (ع) کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی ، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا۔ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی ، ہم نے اُسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا ، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
محمد جوناگڑھی
ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پےدرپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ہاں رہبانیت (ترکِ دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی ، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔
===
فاضل مقالہ نگار کے ترجمہ اور تشریح پر اعتراض تو بعد میں کیا جائے گا ۔۔۔ فی الحال ہم اس تناقض کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو الفاظ کی ہیرا پھیری میں چھپایا گیا ہے۔
کہا گیا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے مبتدعین کو اجر و ثواب دیا۔
سوال یہ ہے کہ انہیں کس چیز کا اجر ملا؟ بدعت کی ایجاد پر یا بدعت پر عمل کرنے پر؟ مقالہ میں تو لکھا ہے کہ بدعت پر عمل کرنے کا اجر دیا گیا۔
حالانکہ قرآن کی اسی آیت کی تشریح کے ذیل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ : اس بدعت (رھبانیت) پر تو انہوں نے عمل ہی نہیں کیا جیسا کہ آپ خود احمد رضا خان فاضل بریلوی کے ترجمہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ ‫:
پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا
اس کے باوجود مقالہ نگار کی ضد ہے کہ مبتدعین کو اجر ملا ہے۔ تو اسی آیت کے آخر میں جو اللہ تعالیٰ نے
وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
کہہ کر مذمت کی ہے وہ کن لوگوں کے متعلق ہے؟ کیونکہ فسق کا فتویٰ تو کسی دین کے فرض اور واجب رکن کے ترک پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ خود اسی مکتبِ فکر کے علماء نے لکھا ہے کہ

بدعات کے ساتھ فرض و واجب کا سا معاملہ کرنا بدعتِ سئیہ ہے۔
(بحوالہ : شرح صحیح مسلم ۔ غلام رسول سعیدی)۔

لہذا ثابت ہوا کہ مبتدعین کو اجر ملنے کا جو مفہوم پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مرضی کا خودساختہ مفہوم ہے ، آیت کا سیاق و سباق تو ایسے مفہوم کی قطعاً تائید نہیں کرتا۔

درحقیقت ۔۔۔ اجر ملنے کی جو بات آیتِ مقدسہ کے درج ذیل ٹکڑے میں کی گئی ہے ‫:
فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ
مفسرین کرام کے مطابق ، اس کا تعلق "ابتدعوھا" سے نہیں بلکہ
وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ
سے ہے۔ اور آیتِ قرآنی کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خالص اتباع کی اور دینِ عیسوی پر چلے اور نیک اعمال بجا لائے اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کر کے ایمان والوں میں شامل ہوئے ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اجر سے نوازا۔ مکمل تفصیل و تشریح کے لیے "تفسیر ابن کثیر" ملاحظہ فرمائیں۔
آیتِ قرآنی کے اس مفہوم کی تائید میں لیجئے ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔

قرآن میں ایک دوسرے مقام پر بھی فرمایا گیا ہے ‫:
سب ایک سے نہیں کتابیوں میں ، کچھ وہ ہیں کہ حق پر قائم ہیں اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں رات کی گھڑیوں میں اور سجدہ کرتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں، اور یہ لوگ لائق ہیں
(سورہ آل عمران ، 113 اور 114)۔ (ترجمہ : احمد رضا خان فاضل بریلوی)۔

اور یہی مضمون سورہ الحدید کی اگلی آیت (28) میں بیان ہوا ہے کہ اگر تم محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لاؤ گے تو دوہرا اجر پاؤ گے ، ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا اور دوسرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کرنے کا۔ اس آیت کی تفسیر میں امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہلِ کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا ۔۔۔۔ (بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب العلم ، باب تعلیم الرجل امتہ و اھلہ)۔

تمام مفسرین کرام نے "اجرھم" کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ ۔۔۔
اجر ان لوگوں کو ملا جو دینِ عیسوی پر قائم رہے نہ کہ متدعین کو۔

احناف کی دو تفسیروں سے اسی حقیقت کا ثبوت ملاحظہ کیجئے ‫:
يريد : أهل الرحمة والرأفة الذين اتبعوا عيسى
اجر ان لوگوں کو ملا جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمت و رافت ڈالی تھی جو عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے تھے
تفسیر الکشاف (علامہ زمخشری‫)
ج:4 ، ص:382

أي أهل الرأفة والرحمة الذين اتبعوا عيسى عليه السلام و الذين آمنوا بمحمد صلى الله عليه وسلّم
اجر ان لوگوں کو ملا جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمت و رافت ڈالی تھی اور دینِ عیسوی کے متبع تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے
تفسیر مدارک التنزیل (علامہ نسفی حنفی‫)
ج:6 ، ص:225

شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔
درج بالا اقتباس میں یہ وضاحت مطلوب ہے کہ : سورہ الحدید کی متذکرہ آیت سے کیسے یا کس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ رہبانیت کو اللہ تعالیٰ نے سند قبولیت سے نوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی؟
آخر کس مفسر نے ایسا فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت والی "بدعت" کو سند قبولیت سے نوازا؟
ہاں ، اگر قرآن کی من مانی تشریح کرنا ہی مقصود ہے تو پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہاں پر صرف وہ حدیث یاد دلانا کافی ہوگا جس میں : قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی تفسیر ۔۔۔ ابن کثیر ، فتح القدیر، قرطبی ، جلالین ، طبری ، بغوی ، مجاہد ، ابن ابی حاتم ، مقاتل ، خازن ۔۔۔وغیرہ دیکھ لیں ، کسی میں بھی ایسا قطعاً دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت والی "بدعت" کو سند قبولیت سے نوازا ہو ‫!
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ثبوت دیجئے ورنہ من مانی تشریح سے اللہ کے لیے باز آ جائیے۔
آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ مفسرین حضرات نے رہبانیت کی اس بدعت کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

حوالہ : 1

اللہ تعالیٰ کے فرمان : إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ
میں دو قول ہیں۔
اول : اس بدعت سے ان کا مقصود رضائے الٰہی تھا۔
دوم : ہم نے ان پر اسے (بدعت کو) واجب نہ کیا تھا بلکہ فرض تو ان پر رضائے الٰہی کا حصول تھا۔
حوالہ : تفسیر ابن کثیر ، جلد:5 ، ص:509 اور تفسیر طبری بحوالہ متذکرہ آیۃ۔
دوسرے معنی کو تسلیم کیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ رہبانیت والی بدعت کی نکیر کی جا رہی ہے اور جو اصل فرض (شریعتِ حقہ پر چل کر رضائے الٰہی کا حصول) ہے اس کو بیان کیا جا رہا ہے۔
اگر بالفرض مفسرین کے بیان کردہ اس دوسرے معنی کو نہ مانا جائے تب بھی یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بدعت (رھبانیت) کو سندِ قبولیت عطا کی ہو۔ بلکہ تمام مفسرین کے مطابق یہاں اس آیت میں مبتدعین کے دلی خیال اور ایجادِ بدعت کی وجہ اور دین میں اختراعات کا پسِ منظر بیان کیا جا رہا ہے کہ شریعت سازی میں ان کی نیت فقط رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ (مکمل تفصیل کے لیے "تفسیر ابن کثیر" ملاحظہ فرمائیں)۔
اور یہ اعتراف تو ہم بھی کریں گے کہ مبتدعین کے عوام سادہ لوح ہوتے ہیں ، وہ ان بدعات کو "دین" سمجھ کر کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصود اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔
اور یہیں سے ہمارا اصولی اور بنیادی اختلاف شروع ہوتا ہے۔

حوالہ : 2

رهبانية { ابتَدَعُوهَا } أي أخرجوها من عند أنفسهم ونذروها
رهبانية ابتَدَعُوهَا کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے (دین میں چند چیزیں) نکالیں ااور ان کی نذر و منت مانگی۔
حوالہ : تفسیر مدارک التنزیل (علامہ نسفی حنفی‫) ، ج:6 ، ص:225۔

اس تفسیر سے یہ بات ثابت ہوئی کہ انہوں نے جان کو مشقت میں ڈال کر عبادت کرنے کی ایک ایسی نذر مانی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا اور جان کو مشقت میں ڈالنے والی نذر ماننا "بدعت" ہے اور اس کے کرنے سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اپنی جانوں پر سختی مت کرو ورنہ تم پر بھی سختی ہوگی کیونکہ بعض لوگوں نے سختی کی تھی اپنی جانوں پر تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی ، تو یہ سختی ان کی نشانیوں میں سے باقی ہے ان کے گرجاؤں اور عبادت خانوں میں ، رہبانیت جو انہوں نے خود ایجاد کی جس کو ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔
ابو داؤد ، كتاب الادب ، باب : في الحسد ، حدیث : 4906
اس حدیث نے آیت قرآنی کا مفہوم واضح کر دیا کہ تکالیف شاقہ کی نذر ماننے کی انہوں نے جو بدعت ایجاد کی تھی ، بانیِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اور تو اور ۔۔۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے سختی نہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 185 )

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
تمہارے دین میں اس (اللہ) نے تنگی نہیں کی
( سورة الحج : 22 ، آیت : 78 )

الغرض سابقہ امتوں کے مبتدعین کے بدعی اعمال کے نقش قدم پر چلنے سے اللہ تعالیٰ اور رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے۔
اور منع فرمانے کے باوجود جو شخص ان کی پیروی کرے اور ان کے عمل سے حجت لائے گا وہ نادان ، جاہل اور گمراہ ہوگا ، العیاذباللہ۔

وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔
اس اقتباس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شریعت میں مداخلت کی اجازتِ عام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا : کیا عقائد یا عبادات میں کچھ چیزیں ایسی بھی چھوٹ گئی ہیں جو قرون ثلاثہ میں تو نہ رہیں مگر اب ہمیں ان کو شریعت میں داخل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟؟
اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ عبادات اور عقائد کے کچھ معاملات کھلے چھوڑ دئے گئے ہیں تاکہ بعد کی نسلیں ان میں اضافہ کر سکیں؟؟
کیا ایسی تشریح قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟؟
اس کا ایک دوسرا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ ہمیں قرون ثلاثہ کی عظیم ہستیوں پر اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
عبادت کے جس کسی طریقے کو آج ہم مستحسن سمجھ کر نیک نیتی سے شریعت میں داخل کر لیں تو کیا یہی طریقہ صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین کو نہیں سوجھا ہوگا؟؟
حالانکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن میں فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا (سورہ الذاریات)۔ تو کیا قرآن کو سب سے زیادہ بہتر جاننے والی قرون ثلاثہ کی عظیم و مبارک ہستیاں عبادت کے ایک ایک چھوٹے سے چھوٹے طریقہ کو نہیں جانتی تھیں؟؟ کیا کوئی ایک طریقۂ عبادت ایسا بھی چھوٹ گیا ہے کہ چودہ سو سال بعد ہمیں اس کا خیال آیا ہو؟؟
ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جو ایسا خیال بھی دل میں لائیں۔

اور اللہ ہی ہم تمام کو ہدایت دینے والا ہے ‫!!

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
محترمی آپ ساری باتوں کو چھوڑیے ۔۔

کیا آپ کو چنچل کے درج بالا اقتباس پر اعتراض ہے ۔۔ اگر ہے تو مضبوط دلیل پیش کریں ۔۔

رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔
 

ابن محمد جی

محفلین
باذوق بھائی
السلام علیکم!
ٳمام ٲحمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
الحافظ الذہبی
الامام بن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ
الحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ
الحافظ بن رجب الحنبلی رحمہ اللہ
الامام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ
ان تمام کے اقوال تصوف کے بارے میں پڑھ لیں تو شاید آپ ماننے کو تیار ہوجائیں کہ تصوف بھی ایک حقیقت ہے۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ کی:
مدارج السالکین شرح منازل السائرین
عدۃ الصابرین وذخیرۃ الشاکرین
حادی الٲرواح ٳلي بلاد الٲفراح
کا مطالعہ کریں۔

الذیل علی طبقات الحنابلۃ لابن رجب الحنبلي میں ابن القیم رحمہ اللہ کا ترجمہ دیکھیں
نیز محمد مسلم الغنیمی کی کتاب (ابن قیم الجوزیہ) مل سکے تو ضرور پڑھیں۔

الذیل علی طبقات الحنابلۃ ابن رجب الحنبلی پہلی جلد صفحہ ۵۰ میں ایک جگہ ابن القیم رحمہ اللہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

۔ ۔ ۔ ۔ وکان علی حظ تام من العربیۃ ومعرفۃ الاحادیث والانساب والتواریخ ٳماما کاملا فی التفسیر والتذکیر حسن السیرۃ والطریقۃ فی التصوف، ومباشرۃ التصوف ومعاشرۃ الاصحاب الصوفیۃ۔
مظہر السنۃ داعیا الیہا محرضا علیہا غیر مشتغل بکسب الاسباب والضیاع والعقار والتوغل فی الدنیا مکتفیا بما یباسط بہ المریدین والاتباع من اہل مجلسہ فی السنۃ مرۃ ٲو مرتین حاکما علیہا حکما نافذا بما کان یحتاج ٳلیہ ہو واصحابہ من السنۃ ٳلی السنۃ علی رٲس الملٲ۔ ۔ ۔ ۔

اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف تصوف کے بارے میں آپ مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (جمع وترتیب عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمی النجدی الحنبلي وساعدہ ابنہ محمد وفقہما اللہ الطبعۃ الاولی سنۃ ۱۳۸۱ ہجری بمطبعۃ الریاض مجلد ۱۱ صفحہ ۵ پر مفصل فتوی پڑھیں
ان شاء اللہ تشفی بخش جواب مل جائے گا۔

اب ان حضرات کے اقوال تم ہم رد نہیں کر سکتے نا باذوق بھائی!

الجنید البغدادی
الحسن البصری
رابعہ بصریہ
رحمہم اللہ اجمعین کو ہم کس دائرے میں شمار کریں؟

ان باتوں کو نقل کرنے کا مقصد ہرگز بحث ومباحثہ نہیں کرنا اور نہ ہی بندے کا علم اتنا ہے کہ بحث وجدال میں پڑے۔ اور نہ ہی میں جنگ وجدال میں پڑنے والوں میں سے ہوں اس لئے معذرت چاہوں گا۔ ذہن میں یہ باتیں آئیں تو لکھ ڈالیں۔۔۔
والسلام خیر ختام
ان میں سے ج کتابیں نیٹ پر دوتیاب ہیں انکا لنک دےدے۔اللہ آپکا بھلا کریں
 

x boy

محفلین
آئے ہائے یہ کیا کیا باتیں ہوگئیں اور ہم پیچھے رہ گئے،
انجوائے گائیز،
اپنی ذندگی کو اللہ کے خضور پیش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپناؤ، شادیاں کروں گنجائش ہوتو، بچے پیدا کرو اور انکا حق ادا کرو،
ماں باپ کی خدمت، رمضان کے روزے، زکواۃ ، حج استطاعت ہوتو، رشتہ داروں کے حقوق ، غیروں کے حقوق دیگر ہر حقوق العباد کا خیال،
کرینگے تو یہ جنگلوں میں اسلام کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اللہ عرش پر ہے اور ہم سب کی رہنمائی کرتا ہے ماننے والوں کو بھی دیتا ہے
نہ ماننے والوں کو بھی، باطل کی رسی کو دراس کیے ہے موقع دے رہا ہے حق کی طرف مڑنے کے لئے،
خوب پیسے کماؤ ، لائف انجوائے اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے کرو، پیر فقیر بننے کی ضرورت نہیں،
آذان کی آواز کے ساتھ رکوع اور سجدے کرنے والوں کے ساتھ رکوع اور سجود کرو، فرقہ بندی سے دور رہو لیکن کی حق کی بات کرنے سے نہیں ڈرو،
اگر جان کے لالے ہیں تو چپ چاپ برا سمجھ کر دور رہو۔
میں تصوف کا قائل نہیں ہوں، نہ کسی پیر و مرشد کےہاتھ پیر چومتا ہوں، نہ انکوں الٹے ہاتھ سے لینڈکروسر لینے کے لئے مالی مدد کرتا ہوں
اور بھی دکھ ہیں اس زمانے میں پڑوس، گلی، محلے میں بہت کم آمدنی والے لوگ ہیں بڑی مشکل سے گزربسر ہورہی ہے انکے کام آئے
بجائے اسکے کہ جنگل میں چلہ کاٹیں، وقت اور حالات سے مقابلہ کریں
 

ابن محمد جی

محفلین
آئے ہائے یہ کیا کیا باتیں ہوگئیں اور ہم پیچھے رہ گئے،
انجوائے گائیز،
اپنی ذندگی کو اللہ کے خضور پیش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپناؤ، شادیاں کروں گنجائش ہوتو، بچے پیدا کرو اور انکا حق ادا کرو،
ماں باپ کی خدمت، رمضان کے روزے، زکواۃ ، حج استطاعت ہوتو، رشتہ داروں کے حقوق ، غیروں کے حقوق دیگر ہر حقوق العباد کا خیال،
کرینگے تو یہ جنگلوں میں اسلام کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اللہ عرش پر ہے اور ہم سب کی رہنمائی کرتا ہے ماننے والوں کو بھی دیتا ہے
نہ ماننے والوں کو بھی، باطل کی رسی کو دراس کیے ہے موقع دے رہا ہے حق کی طرف مڑنے کے لئے،
خوب پیسے کماؤ ، لائف انجوائے اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے کرو، پیر فقیر بننے کی ضرورت نہیں،
آذان کی آواز کے ساتھ رکوع اور سجدے کرنے والوں کے ساتھ رکوع اور سجود کرو، فرقہ بندی سے دور رہو لیکن کی حق کی بات کرنے سے نہیں ڈرو،
اگر جان کے لالے ہیں تو چپ چاپ برا سمجھ کر دور رہو۔
میں تصوف کا قائل نہیں ہوں، نہ کسی پیر و مرشد کےہاتھ پیر چومتا ہوں، نہ انکوں الٹے ہاتھ سے لینڈکروسر لینے کے لئے مالی مدد کرتا ہوں
اور بھی دکھ ہیں اس زمانے میں پڑوس، گلی، محلے میں بہت کم آمدنی والے لوگ ہیں بڑی مشکل سے گزربسر ہورہی ہے انکے کام آئے
بجائے اسکے کہ جنگل میں چلہ کاٹیں، وقت اور حالات سے مقابلہ کریں
حقیقت میں تصوف کے نام پر خرافات ہیں دیکھے
تصوف کیا نہیں
 

حافظ احمد

محفلین
مجھے تصوف کے ماخذ سے دل چسپی ہے۔ وہ کون سی آیات یا احادیث ہیں جن کو تصوف کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ میں نے یہ بھی پڑھا ھے کہ شاہ ولی اللہ یا جنید بغدادی رح نے فرمایا کہ یہ علم ھم نے یہ علم ایسے حاصل کیا جیسے کہ ایک خربوزہ سورج کی روشنی سے نشوونما پاتا ہے۔ نا سورج کو پتا ہوتا ہے کہ وہ خربوزے کو فیض پہنچا رھا ھے اور نہ خربوزے کو پتا ہوتا ہے کہ وہ سورج سے فیض حاصل کر رہا ھوتا ہے۔ آیا یہ بات صحیح ہے۔ اور حدیث لم یبق من النبوت الا المبشرات کے ھوتے ھوئے کسی کے الہام کی کیا حیثیت ہے۔
 

حافظ احمد

محفلین
دوسرا نقطہ نظر

اپنا مراسلہ پیش کرنے سے قبل میں ایک بار پھر یہ بات دہراؤں گا کہ ۔۔۔
تصوف کو منجانب اللہ و رسول ۔۔۔ جو لوگ ثابت کرنے کے درپے ہیں ۔۔۔ یہ ذمہ داری انہی کی ہے کہ وہ قرآن و سنت یا پھر اجماعِ صحابہ سے اس کو ثابت کریں ۔

تصوف پر اب تک جس نقطۂ نظر سے تحقیق پیش کی گئی ہے ۔۔۔ اس سے ہٹ کر ایک دوسرا نقطۂ نظر ذیل میں بیان کیا گیا ہے ۔
اور ہر دو نقاطِ نظر سے اتفاق یا اختلاف قاری کا حق ہے !
====

‫" تصوف " ۔۔۔ ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے جس کا عربی لغت میں کوئی وجود نہیں ! اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی میں خود صوفیاء کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لفظ کا کون سا مفہوم صحیح ہے جس کی رعایت سے اس کے حامل کو ’صوفی‘ کہا جاتا ہے؟؟؟
اس کے علاوہ چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیثِ بنوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اور اس سے متعلق سارا فلسفہ اسلام کے خلاف اور ایک ایسی ’بدعت‘ ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی بنیاد نہیں ہے ۔

صوفیاء کے نزدیک تصوف ، اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اخلاق رذیلہ سے پھیرنے اور اخلاق حمیدہ یعنی زہد و علم صبر و اخلاص اور صدق و صفا جیسے خصائل حسنہ پر آمادہ کرنے کا نام ہے جس سے دنیا و آخرت میں کامرانی نصیب ہو ۔

تصوف کا لفظ ’صوف‘ سے بناہے جس کے معنی اُون کے ہیں ۔ مراد اس سے وہ درویش اور اللہ ترس بندگان اللہ ہیں جو دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے کنارہ کش ہو کر یادِ اللہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ موٹا چھوٹا پہنتے ہیں اور جیسا بھی کھانے کو مل جائے اس سے اپنا پیٹ پھر لیتے ہیں ۔

لفظ ’صوفی‘ کی اہل تصوف نے بہت سی توجیہات کی ہیں جن میں چند یہ ہیں ‫:

1۔ ابو محمد عبدالغنی بن سعید الحافظ رحمہ اللہ نے فرمایا ‫:
جب ولید بن قاسم سے لفظ ’صوفی‘ کی نسبت کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا کہ ‫:
زمانہ جاہلیت میں ایک شخص تھا جس کا نام غوث بن مرّ اور لقب ’صوفا‘ تھا ۔ اس کا کام ایامِ حج میں لوگوں کو حج کرانا اور ان کو عرفات سے منٰی اور منٰی سے مکہ جانے کی اجازت دنیا تھا ۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری اس کی اولاد میں منتقل ہوگئی ۔ ان سے عدوان نے لے لی اور کافی عرصہ عدوان کی اولاد میں یہ ذمہ داری باقی رہی ۔ پھر ان سے یہ منصب قریش نے حاصل کر لیا۔ غوث بن مرّ پہلا فرد ہے جیسے اس کی ماں نے بیت اللہ کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا ۔ ابن سائب الکلبی کا بیان ہے کہ اس کی ماں کا کوئی لڑکا نہیں جیتا تھا ۔ اس نے نذر مانی کہ اگر اس کا فرزند زندہ رہا تو اس کے سرپر ’صوف‘ باندھ کر اس کو کعبہ کی خدمت کے لئے وقف کردے گی ۔ چنانچہ اس نے نذرپوری کی ۔ بعد میں اس لڑکے کا نام ’صوفہ‘ پڑ گیا اور اس کی اولاد بھی ’صوفہ‘ کہلائی ۔ اس کے بعد سے جو لوگ بھی اللہ کے واسطے دنیا چھوڑ کر کعبہ کی خدمت سے منسلک ہوگئے انہیں بھی لوگ اسی مناسبت سے ’صوفیہ‘ کہنے لگے ۔
( بحوالہ : تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ، باب 10 ، صوفیوں پر تلبیس ابلیس کا بیان )

2۔ کچھ لوگ تصوف کو ’اہل صفہ‘ کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لئے کہ جس طرح اہل صفہ دنیاداری اور فکر معاش سے علیحدہ ہوکر ، دین کے حصول کی خاطر فقر و فاقہ کو اپنائے ہوئے تھے ، اسی طرح اہل تصوف بھی مال و عیال سے دامن چھڑا کر ’اصلاح باطن‘ کی غرض سے خانقاہوں اور جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں ۔
علامہ ابن جوزی (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ : اُن ’اہل صفہ‘ نے ضرورت کے تحت مسجد میں قیام کیا اور جتنی ضرورت تھی اتنا صدقہ کھایا ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دے کر ان کو مستغنی کر دیا تو یہ لوگ نکل کر چلے گئے ۔ ’صوفی‘ کی نسبت ’اہل صفہ‘ کی طرف اسی سبب غلط ہے ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ’صفی‘ کہا جاتا ۔

3۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی لیا گیا ہے ’صوفانہ‘ سے جو ایک خوشنما اور خود رو جنگلی ساگ ہے جو چھوٹے چھوٹے پتوں کی شکل کا ہوتا ہے ۔ اہل تصوف بھی جنگل کے ساگ پات پر گزارہ کر لیتے ہیں اس لئے انہیں صوفی کہا جاتا ہے ۔ مگر یہ بھی غلطی ہے ، کیونکہ اگر اس طرف نسبت ہوتی تو ’صوفانی‘ کہا جاتا ۔

4۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ صوفی منسوب ہے ’صوفۃ القضا‘ کی طرف یعنی وہ چند بال جو گدی کے آخر میں جمتے ہیں گویا صوفی حق کی طرف متوجہ اور خلق کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہے ۔

( مذکورہ بالا 3 تعریفات بحوالہ : تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ، باب 10 ، فصل :2 )

ابوریحان البیرونی کا خیال ہے کہ ’صوفی‘ کا مادۂ اشتقاق ایک یونانی لفظ ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے :
سوفی بمعنی فلاسفر ہے کیونکہ یونانی لفظ ’سوف‘ بمعنی فلسفہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی زبان میں ’فیلسوف‘ کو ’فلاسفا‘ کہا جاتا ہے ، یعنی فلسفہ کا دلدادہ ۔ چونکہ اہل اسلام میں ایک جماعت ایسی تھی جو ان کے مسلک سے قریب تھی اس بناء پر ان کا نام بھی ’صوفی‘ پڑ گیا ۔
(بحوالہ : کتاب الہند ، ابوریحان البیرونی ، صفحہ 16)

( ۔۔۔۔ جاری ہے ! )
 

x boy

محفلین
صوفیت بند ہوگی تو بہت سے تجارتی مراکزبند ہوجائئنگے ، روزی روٹی بند ہوجائے گی،
 

حافظ احمد

محفلین
دوسرا نقطہ نظر

اپنا مراسلہ پیش کرنے سے قبل میں ایک بار پھر یہ بات دہراؤں گا کہ ۔۔۔
تصوف کو منجانب اللہ و رسول ۔۔۔ جو لوگ ثابت کرنے کے درپے ہیں ۔۔۔ یہ ذمہ داری انہی کی ہے کہ وہ قرآن و سنت یا پھر اجماعِ صحابہ سے اس کو ثابت کریں ۔

تصوف پر اب تک جس نقطۂ نظر سے تحقیق پیش کی گئی ہے ۔۔۔ اس سے ہٹ کر ایک دوسرا نقطۂ نظر ذیل میں بیان کیا گیا ہے ۔
اور ہر دو نقاطِ نظر سے اتفاق یا اختلاف قاری کا حق ہے !
====

‫" تصوف " ۔۔۔ ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے جس کا عربی لغت میں کوئی وجود نہیں ! اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی میں خود صوفیاء کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لفظ کا کون سا مفہوم صحیح ہے جس کی رعایت سے اس کے حامل کو ’صوفی‘ کہا جاتا ہے؟؟؟
اس کے علاوہ چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیثِ بنوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اور اس سے متعلق سارا فلسفہ اسلام کے خلاف اور ایک ایسی ’بدعت‘ ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی بنیاد نہیں ہے ۔

صوفیاء کے نزدیک تصوف ، اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اخلاق رذیلہ سے پھیرنے اور اخلاق حمیدہ یعنی زہد و علم صبر و اخلاص اور صدق و صفا جیسے خصائل حسنہ پر آمادہ کرنے کا نام ہے جس سے دنیا و آخرت میں کامرانی نصیب ہو ۔

تصوف کا لفظ ’صوف‘ سے بناہے جس کے معنی اُون کے ہیں ۔ مراد اس سے وہ درویش اور اللہ ترس بندگان اللہ ہیں جو دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے کنارہ کش ہو کر یادِ اللہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ موٹا چھوٹا پہنتے ہیں اور جیسا بھی کھانے کو مل جائے اس سے اپنا پیٹ پھر لیتے ہیں ۔

ایک بات بار بار زیر بحث آتی ہے کہ صوف کا مطلب اون ہے اور یہ کہ صوفی اون کا لباس پہنتے تھے۔ مگر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جو لوگ گرم علاقوں کے رہنے والے ہیں وہ کیا پہنتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گرمی میں اون کا لباس تو نہیں پہنا جا سکتا۔ ان کو کیا نام دیا جائے گا۔
 

حافظ احمد

محفلین
لیکن عالم اور پیغمبر میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ عالم پر الہام یا وحی نہیں ہوتی اس سے دلیل پوچھنا تو غیر عالم کا حق ہے کہ عالم نے اپنی کوئی بات قرآن یا حدیث میں کس جگہ سے اخذ کی ہے
عجب مضحکہ خیزی ہے حضرت
قرآن کا موقف ہے کہ
کیا علما اور غیر علما برابر ہو سکتے ہیں
اور
اگر تمہیں علم نہ ہو تو علما سے پوچھ لیا کرو
علماء کی متعین کردہ تعریف کا درست ہونا انہی دو باتوں سے ثابت ہے
اور یہ کیسا سوال کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔۔
یہ تو بالکل اسی طرح ہے
جیسے میں یہ سوال کر دوں کہ
کیا قرآن اور حدیث میں لکھا ہے کہ ایک صاحب ہونگے "باذوق" جو وہ کہیں گے وہی درست ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت جب آپ کو یزید کی حمایت کرنا ہوتی ہے تو آپ امام غزالی کا حوالہ دیتے ہیں اور جب تصوف کا معاملہ درپیش ہو تو آپ غزالی کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے ۔ آپ علما ء کا سہارا بھی لیتے ہیں اور علماء کو رد بھی کرتے ہیں آخر آپ کے ہاں کو معیار تو ہونا چاہیے
 
Top