اسلام اور تصورِ وطن

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

سید مودودی (رحمہ اللہ) کی معروف کتاب
مسئلہ قومیت
سے کچھ مفید اقتباسات ۔
================​

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
الْاَرْضَ لِلّهِ ( ترجمہ : زمین اللہ کی ہے ! )
(سورہ : الاعراف ۔ آیت : ١٢٨)


اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسانی کو زمین پر اپنی خلافت سے سرفراز کیا ہے۔ اور یہ قطعی کوئی ضروری نہیں ہے کہ انسان ایک خطّہ کا بندہ بن کر رہ جائے۔ یہ وسیع زمین انسان کے لئے بالکل کھلی ہوئی ہے۔ ایک جگہ اس کے لئے تنگ ہو تو دوسری جگہ چلا جائے، جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو موجود پائے گا !
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ کیا اللہ کی زمین وسیع اور کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے۔۔۔۔۔۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ٩٧)
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں وافر جگہ اور کشائش پائے گا۔۔۔۔۔۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ١٠٠)

آپ پورے قرآن کو دیکھ جائیے۔ اس میں ایک لفظ بھی آپ کو وطنیت یا نسلیت کی تائید میں نہیں ملے گا۔
قرآن کی دعوت کا خطاب تو پوری نوعِ انسانی سے ہے۔ تمام روئے زمین کی انسانی مخلوق کو وہ خیر و صلاح کی طرف بلاتا ہے۔
اس میں نہ کسی قوم کی تخصیص ہے اور نہ کسی سرزمین کی۔
اس نے اگر کسی زمین کے ساتھ خاص تعلق پیدا کیا ہے تو وہ صرف ''مکّہ'' کی زمین ہے۔ لیکن اس کے متعلق بھی صاف کہہ دیا کہ:
سَوَآءَ نِ الْعاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِ ٭ (سورہ : الحج ٢٢ ۔ آیت : ٢٥)
(معانی / مفہوم : ۔۔۔۔۔۔ مکّہ کے اصلی باشندے اور باہر والے مسلمان برابر ہیں ۔۔۔۔۔۔ )


وطنیت اور نسلیت کی جتنی تعریفیں کی گئی ہیں ان کے لئے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔
یہ صرف مادّی تفریقیں ہیں جن کا ہر دائرہ ، زاویہٴ نظر کی ہر وسعت پر ٹوٹ جاتا ہے۔
علم و عرفان کی روشنی جس قدر پھیلتی ہے، بصیرت کی رسائی جس قدر بڑھتی ہے، قلب میں جتنی جتنی وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے ، یہ حِسّی اور مادّی پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر 'وطنیت' اور 'نسلیت' کو '' آفاقیت'' کے لئے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔
اور یہ بالکل وہی بات ہے جو اسلام کہتا ہے۔

اسلام نے انسان اور انسان کے درمیان کسی مادّی اور حِسّی فرق کو تسلیم نہیں کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ سب انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔
ترجمہ : اللہ نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا جوڑ پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو [دنیا میں] پھیلا دیا ۔۔۔۔۔۔
( سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ١)

اس کے بعد نسل اور خاندان کے اختلاف کی بھی یہ حقیقت بتا دی کہ:
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ۔ مگر درحقیقت معزز تو تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
( سورہ : الحجرٰت ٤٩ ۔ آیت : ١٣)

یعنی یہ قوم اور قبائل کا اختلاف محض تعارف کے لئے ہے۔
آپس کے حسد، ایک دوسرے پر تفاخر، ایک دوسرے سے جھگڑنے کے لئے نہیں ہے۔ اس اختلاف میں انسانی اصل کی وحدت کو بھول نہ جانا۔ تم میں اگر کوئی حقیقی تفریق ہے تو وہ اخلاق و اعمال کی، نیکی اور بدی کی بنا پر ہے !

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادّی ، حِسّی اور وہمی بنیادوں کو جن پر دنیا کی مختلف قومیتوں کی عمارتیں قائم کی گئی تھیں، ڈھا دیا۔
وطن، رنگ، نسل، زبان، معیشت اور سیاست کی غیر عقلی تفریقوں کو، جن کے سبب انسان نے اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے 'انسانیت' کو تقسیم کر رکھا تھا، مٹا دیا۔
اور انسانیت کے مادّے میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا ہم مرتبہ قرار دے دیا!

اسلام نے خالص عقلی بنیادوں پر ایک نئی قومیّت تعمیر کی۔ اس قومیّت کی بنا بھی امتیاز پر تھی، مگر مادّی اور غرضی امتیاز پر نہیں بلکہ روحانی اور جوہری امتیاز پر!
اس نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی جس کا نام ''اسلام'' ہے !!

اسلام نے خدا کی بندگی اور اطاعت ، نفس کی پاکیزگی اور طہارت، عمل کی نیکی اور پرہیزگاری کی طرف ساری نوعِ بشری کو دعوت دی۔ پھر کہہ دیا کہ جو اس دعوت کو قبول کر لے وہ ایک 'جماعت' سے ہے۔ اور جو اس کو ردّ کرے وہ دوسری 'جماعت' سے ہے۔
ایک جماعت 'ایمان اور اسلام' کی ہے اور اس کے سب افراد ایک 'امّت' ہیں۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً ۔ ( سورہ : البقرہ ٢ ۔ آیت : ١٤٣)
اور دوسری جماعت 'کفر اور گمراہی' کی ہے اور اس کے متبعین اپنے اختلافات کے باوجود ایک گروہ ہیں۔
وَللٰہُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ ( سورہ : البقرہ ٢ ۔ آیت : ٢٦٤)
وطن کا اختلاف بھی ان دو جماعتوں کے درمیان وجہٴ امتیاز نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں امتیاز 'حق اور باطل' کی بنیاد پر ہے اور ظاہر ہے حق اور باطل کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔
اسلام کہتا ہے کہ اگر تمھارے دین اور تمھارے وطن میں دشمنی ہو جائے تو دین کی خاطر وطن کو چھوڑ کر نکل جاؤ۔ جو شخص دین کی محبت پر وطن کی محبت کو قربان کر کے ہجرت نہ کرے وہ منافق ہے۔ اس سے تمھارا کوئی تعلق نہیں۔
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں، اِن میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت ٨٩)

اسی طرح اسلام اور کفر کے اختلاف سے خون کے قریب ترین رشتے بھی کٹ جاتے ہیں۔ ماں، باپ ، بھائی، بیٹے صرف اِس لئے جدا ہو جاتے ہیں کہ وہ اسلام کے مخالف ہیں۔ ہم نسل قوم کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خدا سے دشمنی رکھتی ہے۔ وطن کو اس لئے خیرباد کہا جاتا ہے کہ وہاں اسلام اور کفر میں عداوت ہے۔

گویا اسلام دنیا کی ہر چیز پر مقدّم ہے۔
ہر چیز اسلام پر قربان کی جا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ اسلام کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جا سکتا !!
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے باذوق۔میں متفق ہوں اور کم از کم کسی اور عید کا تو کوئ جواز نہیں سوا عیدین کے۔ عید ملیداد النبی کو بھی میں غلط سمجھتا ہوں۔ رہا سوال خود آں حضرت کی مکے سے محبت، تو ایک تو مکہ یوں بھی خصوصیت کا حامل ہے جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ اور میں یہ ضرور مان سکتا ہوں کہ اپنی گھر، اپنی بستی سے محبت جائز مانی جا سکتی ہے، لیکن سیاسی ماحول سے قطعِ نظر۔ آپ لاہور سے الفت کر سکتے ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ پنجاب میں ہے، مشرقی پنجاب یا ہندوستان یا پنجاب اور پاکستان کہ ظاہر ہے کہ پہلے ہندوستان میں تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
درست کہا باذوق بھائی، ویسے ایک حدیث سنی ہے کہ مومن کا وطن وہی ہے جہاں اس کا رزق ہو
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم باذوق،

آپ کا یہ پیغام اور دوسرے پیغامات پاکستان کے یوم آزادی کی مناسبت سے خاصے معنی خیز ہیں۔ میں نے آپ کا پیغام پورا نہیں پڑھا ہے اس لیے اس سے اتفاق یا اختلاف قبل از وقت ہوگا۔ میں وقت ملنے پر اس موضوع پر بات آگے بڑھانا چاہوں گا، اگر اس میں مزید بات کرنے کی گنجائش ہوئی تو۔ باقی دوستوں سے میری درخواست ہوگی کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت تحمل کا مظاہرہ کریں۔

والسلام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
باذوق نے کہا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

سید مودودی (رحمہ اللہ) کی معروف کتاب
مسئلہ قومیت
سے کچھ مفید اقتباسات ۔
================​

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
الْاَرْضَ لِلّهِ ( ترجمہ : زمین اللہ کی ہے ! )
(سورہ : الاعراف ۔ آیت : ١٢٨)


اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسانی کو زمین پر اپنی خلافت سے سرفراز کیا ہے۔ اور یہ قطعی کوئی ضروری نہیں ہے کہ انسان ایک خطّہ کا بندہ بن کر رہ جائے۔ یہ وسیع زمین انسان کے لئے بالکل کھلی ہوئی ہے۔ ایک جگہ اس کے لئے تنگ ہو تو دوسری جگہ چلا جائے، جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو موجود پائے گا !
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ کیا اللہ کی زمین وسیع اور کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے۔۔۔۔۔۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ٩٧)
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں وافر جگہ اور کشائش پائے گا۔۔۔۔۔۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ١٠٠)

آپ پورے قرآن کو دیکھ جائیے۔ اس میں ایک لفظ بھی آپ کو وطنیت یا نسلیت کی تائید میں نہیں ملے گا۔
قرآن کی دعوت کا خطاب تو پوری نوعِ انسانی سے ہے۔ تمام روئے زمین کی انسانی مخلوق کو وہ خیر و صلاح کی طرف بلاتا ہے۔
اس میں نہ کسی قوم کی تخصیص ہے اور نہ کسی سرزمین کی۔
اس نے اگر کسی زمین کے ساتھ خاص تعلق پیدا کیا ہے تو وہ صرف ''مکّہ'' کی زمین ہے۔ لیکن اس کے متعلق بھی صاف کہہ دیا کہ:
سَوَآءَ نِ الْعاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِ ٭ (سورہ : الحج ٢٢ ۔ آیت : ٢٥)
(معانی / مفہوم : ۔۔۔۔۔۔ مکّہ کے اصلی باشندے اور باہر والے مسلمان برابر ہیں ۔۔۔۔۔۔ )


وطنیت اور نسلیت کی جتنی تعریفیں کی گئی ہیں ان کے لئے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔
یہ صرف مادّی تفریقیں ہیں جن کا ہر دائرہ ، زاویہٴ نظر کی ہر وسعت پر ٹوٹ جاتا ہے۔
علم و عرفان کی روشنی جس قدر پھیلتی ہے، بصیرت کی رسائی جس قدر بڑھتی ہے، قلب میں جتنی جتنی وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے ، یہ حِسّی اور مادّی پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر 'وطنیت' اور 'نسلیت' کو '' آفاقیت'' کے لئے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔
اور یہ بالکل وہی بات ہے جو اسلام کہتا ہے۔

اسلام نے انسان اور انسان کے درمیان کسی مادّی اور حِسّی فرق کو تسلیم نہیں کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ سب انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔
ترجمہ : اللہ نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا جوڑ پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو [دنیا میں] پھیلا دیا ۔۔۔۔۔۔
( سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ١)

اس کے بعد نسل اور خاندان کے اختلاف کی بھی یہ حقیقت بتا دی کہ:
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ۔ مگر درحقیقت معزز تو تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
( سورہ : الحجرٰت ٤٩ ۔ آیت : ١٣)

یعنی یہ قوم اور قبائل کا اختلاف محض تعارف کے لئے ہے۔
آپس کے حسد، ایک دوسرے پر تفاخر، ایک دوسرے سے جھگڑنے کے لئے نہیں ہے۔ اس اختلاف میں انسانی اصل کی وحدت کو بھول نہ جانا۔ تم میں اگر کوئی حقیقی تفریق ہے تو وہ اخلاق و اعمال کی، نیکی اور بدی کی بنا پر ہے !

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادّی ، حِسّی اور وہمی بنیادوں کو جن پر دنیا کی مختلف قومیتوں کی عمارتیں قائم کی گئی تھیں، ڈھا دیا۔
وطن، رنگ، نسل، زبان، معیشت اور سیاست کی غیر عقلی تفریقوں کو، جن کے سبب انسان نے اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے 'انسانیت' کو تقسیم کر رکھا تھا، مٹا دیا۔
اور انسانیت کے مادّے میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا ہم مرتبہ قرار دے دیا!

اسلام نے خالص عقلی بنیادوں پر ایک نئی قومیّت تعمیر کی۔ اس قومیّت کی بنا بھی امتیاز پر تھی، مگر مادّی اور غرضی امتیاز پر نہیں بلکہ روحانی اور جوہری امتیاز پر!
اس نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی جس کا نام ''اسلام'' ہے !!

اسلام نے خدا کی بندگی اور اطاعت ، نفس کی پاکیزگی اور طہارت، عمل کی نیکی اور پرہیزگاری کی طرف ساری نوعِ بشری کو دعوت دی۔ پھر کہہ دیا کہ جو اس دعوت کو قبول کر لے وہ ایک 'جماعت' سے ہے۔ اور جو اس کو ردّ کرے وہ دوسری 'جماعت' سے ہے۔
ایک جماعت 'ایمان اور اسلام' کی ہے اور اس کے سب افراد ایک 'امّت' ہیں۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً ۔ ( سورہ : البقرہ ٢ ۔ آیت : ١٤٣)
اور دوسری جماعت 'کفر اور گمراہی' کی ہے اور اس کے متبعین اپنے اختلافات کے باوجود ایک گروہ ہیں۔
وَللٰہُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ ( سورہ : البقرہ ٢ ۔ آیت : ٢٦٤)
وطن کا اختلاف بھی ان دو جماعتوں کے درمیان وجہٴ امتیاز نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں امتیاز 'حق اور باطل' کی بنیاد پر ہے اور ظاہر ہے حق اور باطل کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔
اسلام کہتا ہے کہ اگر تمھارے دین اور تمھارے وطن میں دشمنی ہو جائے تو دین کی خاطر وطن کو چھوڑ کر نکل جاؤ۔ جو شخص دین کی محبت پر وطن کی محبت کو قربان کر کے ہجرت نہ کرے وہ منافق ہے۔ اس سے تمھارا کوئی تعلق نہیں۔
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں، اِن میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت ٨٩)

اسی طرح اسلام اور کفر کے اختلاف سے خون کے قریب ترین رشتے بھی کٹ جاتے ہیں۔ ماں، باپ ، بھائی، بیٹے صرف اِس لئے جدا ہو جاتے ہیں کہ وہ اسلام کے مخالف ہیں۔ ہم نسل قوم کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خدا سے دشمنی رکھتی ہے۔ وطن کو اس لئے خیرباد کہا جاتا ہے کہ وہاں اسلام اور کفر میں عداوت ہے۔

گویا اسلام دنیا کی ہر چیز پر مقدّم ہے۔
ہر چیز اسلام پر قربان کی جا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ اسلام کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جا سکتا !!

السلام علیکم
باذوق بھائی نے مولانا مودودی کی کتاب سے خاصے مفید اقتباسات درج فرمائے
لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ جب ہندوستان کی سرزمین امت مسلمہ پر تنگ ہوئی اور اسلام کے نام پر مسلمانونوں کے لیئے ایک نئے ملک کا وجود عمل میں آیا اور اسلام کے لیئے لوگوں نے اپنی مادر وطن کوخیرباد کہنا شروع کیا تو ایسے میں بھی کچھ ذمہ دار لوگ اسی وطنیت اور قومیت پرستی کا راگ الاپ رہے تھے جس کا تذکرہ باذوق بھائی نے کیا ہے ایسے لوگوں سے نالاں ہو کر علامہ اقبال رح کو کہنا پڑا تھا
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
ز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ است چہ بوالعجبی

باقی رہا پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کا تعلق تو اسے ضرور منانا چاہیئے کیونکہ اس روز مسلمانوں نے اسلام کی خاطر قائم ہونے والی ایک آزاد سرزمیں کی طرف اسلام کے نام پر ہجرت کی تھی اور ہجرت کا دن تو یادگار ہوتا ہی ہے مسلمانوں کے کیلنڈر کا آغاز بھی تو ہجرت ہی سے ہوا اور اسی لیئے اس کو ہجری کہا جاتا ہے جس سے اس عظیم ہجرت کی یاد تازہ ہوتی ہے جو اسلام کی خطر مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی جانب کی تھی
اور ہجرت کے بعد صحابہ کرام اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن کو یاد کرنے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں لیکن ان کا تعلق موضوع سے نہیں ہے
ہم پاکستان کی آزادی کا دن مناتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں نہ کہ ترک وطن اور ہجرت پر مغموم ہوتے ہیں اور نہ ہی سابقہ وطن کو یاد کر کے نئے وطن میں آمد پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں۔
جو لوگ کل آزادی کے خلاف تھے اور ہجرت کی مخالفت کرتے تھے آج اگر وہ پاکستان کے قیام اور آزاد وطن کی جانب ہجرت کی خوشی منانے پر برا مناتے ہیں تو مناتے رہیں ہمیں ایسے لوگوں سے کیا؟
ہم تو یہ خوشی منانے میں حق بہ جانب ہیں
 

باذوق

محفلین
شاکرالقادری نے کہا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی رہا پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کا تعلق تو اسے ضرور منانا چاہیئے کیونکہ اس روز مسلمانوں نے اسلام کی خاطر قائم ہونے والی ایک آزاد سرزمیں کی طرف اسلام کے نام پر ہجرت کی تھی اور ہجرت کا دن تو یادگار ہوتا ہی ہے مسلمانوں کے کیلنڈر کا آغاز بھی تو ہجرت ہی سے ہوا اور اسی لیئے اس کو ہجری کہا جاتا ہے جس سے اس عظیم ہجرت کی یاد تازہ ہوتی ہے جو اسلام کی خطر مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی جانب کی تھی
اور ہجرت کے بعد صحابہ کرام اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن کو یاد کرنے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں لیکن ان کا تعلق موضوع سے نہیں ہے
ہم پاکستان کی آزادی کا دن مناتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں نہ کہ ترک وطن اور ہجرت پر مغموم ہوتے ہیں اور نہ ہی سابقہ وطن کو یاد کر کے نئے وطن میں آمد پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں۔
جو لوگ کل آزادی کے خلاف تھے اور ہجرت کی مخالفت کرتے تھے آج اگر وہ پاکستان کے قیام اور آزاد وطن کی جانب ہجرت کی خوشی منانے پر برا مناتے ہیں تو مناتے رہیں ہمیں ایسے لوگوں سے کیا؟
ہم تو یہ خوشی منانے میں حق بہ جانب ہیں
قابلِ احترام شاکر القادری بھائی
جشنِ آزادی کے منانے یا نہ منانے کے تعلق سے میں نے ایک اور دھاگہ شروع کیا تھا۔
آپ کے یہ خیالات اسی دھاگے کے لیے موزوں نظر آتے ہیں ۔۔۔ لہذا آپ کی ان باتوں کا جواب میں یہاں اس دھاگے میں دے رہا ہوں۔
 
Top