اسلام آباد میں دھماکہ

ساجداقبال

محفلین
آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ اسلام آباد دھماکے ميں جن امريکيوں پر حملہ کيا گيا ان ميں وہ ايف – بی – آئ کے اہلکاربھی شامل تھے جو حاليہ دھماکوں کے سلسلے ميں حکومت پاکستان کی مختلف ايجينسيوں کی مدد کی غرض سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ کيا امريکی ايجينسياں اپنے ہی اہلکاروں پر حملے کروانے کی سازش کريں گی؟
آپکو اس بات کا کیسے علم ہے کہ ایف بی آئی کے اہلکار یہاں معاونت کیلیے آئے تھے جبکہ ایف بی آئی کے ترجمان نے صرف اپنے اہلکاروں کے زخمی ہونے سے زیادہ کوئی بات نہیں کی؟ اور یہ اسقدر خفیہ کیوں آئے جبکہ دوسری طرف سکاٹ لینڈ یارڈ والے ڈھنڈوارا پیٹتے تفتیش کرتے رہے؟
 

ساجداقبال

محفلین
1998 ميں امريکی سفارت خانے پر حملہ، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا وجود ہے۔
ممکن ہے آپکی بات درست ہو کہ امریکہ پاک صاف ہے لیکن کیا آپ کیا وضاحت فرمائیں گے کہ Weapons of mass destruction نامی مہنگے ڈرامے کا کیا جواز تھا؟
 

مہوش علی

لائبریرین
کچھ دوستوں کی جانب سے ايک مرتبہ پھر پاکستان ميں ہونے والی دہشت گردی کا الزام غير ملکی ايجينسيوں اور امريکہ پر لگانے پر مجھے کوئ خاص حيرت نہيں ہوئ۔

آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ اسلام آباد دھماکے ميں جن امريکيوں پر حملہ کيا گيا ان ميں وہ ايف – بی – آئ کے اہلکاربھی شامل تھے جو حاليہ دھماکوں کے سلسلے ميں حکومت پاکستان کی مختلف ايجينسيوں کی مدد کی غرض سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ کيا امريکی ايجينسياں اپنے ہی اہلکاروں پر حملے کروانے کی سازش کريں گی؟

کسی دوست نے ايک اخبار کا حوالہ بھی ديا ہے جس ميں بغير کسی ثبوت کے يہ مفروضہ پيش کيا گيا ہے کہ القاعدہ کی کاروائيوں سے سارا فائدہ امريکہ کو ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں ميں يہ دعوی کيا گيا ہے کہ القاعدہ کی کاروائيوں کے پيچھے امريکہ کا ہاتھ ہے۔اگر ان کالم نويس کا يہ مفروضہ درست مان ليا جائے تو حقائق کچھ اس طرح سے بنتے ہيں۔

11 ستمبر 2001 کو امريکہ نے اپنے ہی شہر نيويارک پر حملے کيے اور اس کے نتيجے ميں اپنے 3 ہزار شہری ہلاک کروا ديے۔

يہی نہيں بلکہ واشنگٹن ميں اپنے دفاعی اور عسکری مرکز پينٹاگان پر امريکی شہريوں سے بھرے ہوئے جہاز سے حملہ کروا کے 300 سے زيادہ اہم دفاعی اور حکومتی اہلکار ہلاک کروا ديے۔ اس کے علاوہ ايک اور جہاز امريکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے ليے روانہ کر ديا۔

اس کے بعد القائدہ کے نام سے ايک تنطيم کا قيام عمل ميں لايا گيا جس ميں عرب ممالک سے ہزاروں کی تعداد ميں دہشت گرد بھرتی کيے گئے اور انھيں افغانستان ميں آباد کيا گيا تاکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کا ذمہ دار انھيں قرار دے کر افغانستان پر حملہ کيا جا سکے۔

القائدہ کے وجود کا ثبوت دينے کے ليے امريکہ ان "تربيت يافتہ مسلم دہشت گردوں" سے مسلسل خودکش حملے کروا رہا ہے اور اس کے نتيجے ميں نہ صرف دنيا بھر ميں اپنی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ درجنوں کی تعداد ميں اپنے شہری بھی مروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا واقعی کوئ وجود ہے۔

1998 ميں امريکی سفارت خانے پر حملہ، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا وجود ہے۔

اسامہ بن لادن کی جانب سے سينکڑوں کی تعداد ميں نشر کيے جانے والے پيغامات جس ميں اس نے نا صرف 11 ستمبر 2001 کے واقعے کی تمام ذمہ داری بارہا تسليم کی ہے بلکہ اپنے چاہنے والوں کو مستقبل ميں بھی ايسے ہی "کارنامے" جاری رکھنے کی تلقين کی ہے يقينآ امريکی سازش کا ہی حصہ ہے۔

انٹرنيٹ پرالقائدہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد ميں ويب سائٹس جن بر چوبيس گھنٹے امريکہ سے نفرت اور امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی ترغيب دی جاتی ہے، اس کا قصورواربھی امريکہ ہے۔

دہشت گردی کی تربيت کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد ميں فلميں جو القائدہ کے ٹھکانوں سے حاصل ہوئ ہيں، اس کا قصوروار بھی امريکہ ہے جو کہ ايک پوری نسل کو اپنے خلاف بھڑکا کر انہيں اپنے خلاف خودکشی کے ليے تيار کر رہا ہے تاکہ يہ "تاثر" برقرار رکھا جا سکے کہ القآئدہ کا وجود ايک حقيقت ہے۔

يہ يقينآ انسانی تاريخ کی انوکھی ترين سازش ہے جس ميں سازش کرنے والا مسلسل اپنا ہی جانی اور مالی نقصان کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور پھر اپنے ہی خلاف پروپيگنڈا کر کے ايسے خودکش حملہ واروں کی فوج تيار کر رہا ہے جو سينکڑوں معصوم لوگوں کی جان لينے ميں قخر محسوس کرتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov


مجھے بھی اپنی قوم کے ان کرداروں پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک القاعدہ نامی تنظیم کا وجود ماننے کے لیے تیار نہیں ۔۔۔۔ اور اگر مانتے ہیں تو ان کے نزدیک یہ القاعدہ امریکہ کی بنائی ہوئی تنظیم ہے ۔۔۔

یہ انسانی سوچ میں گڑبڑ کی وہ علامت ہے کعد مجھے علم ہے کہ اس کے بعد انسان گونگا بہرا و اندھا ہو چکا ہوتا ہے اور کوئی دلیل اُسے قائل نہیں کر سکتی۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ جبتک کوئی صحیح بات کو سمجھے ہی نہیں اُس وقت تک وہ اپنی غلطیوں و کمزوریوں کو دور نہیں کر سکتا۔

اس دنیا کا دستور یہ ہے کہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے اختلاف ہو سکتا ہے، ایک بیٹے کو باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے ۔۔۔ اور اسی اختلاف رائے کی بنیاد پر مجھے بھی امریکی حکومت سے بہت سی جگہوں پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے اور بہت سی جگہوں پر مجھے امریکہ بہادر [یعنی حکومت اور سی آئی اے] صریح غلطی کرتے ہوئے، شر پھیلاتے ہوئے اور طاقت کے نشے میں جھومتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ مگر اس بنیاد پر اپنے گریبان میں نہ جھانک کر اپنی غلطیوں کو نہ ماننا بہت ناانصافی کی بات ہے۔

میری تو اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں بطور قوم اپنی غلطیوں سے منہ پھیرنے کو توفیق عطا فرمائے۔

/////////////////////


میرے نزدیک امریکہ صرف امریکی حکومت اور سی آئی اے کا نام نہیں ہے، بلکہ امریکی شہری بھی اس میں شامل ہیں۔ [جو کجھ امریکی حکومت یا سی آئی اے طاقت کے نشے میں کرتی ہے، امریکی عوام بہت حد تک اسکی ذمہ دار نہیں]

اور ایک چیز ہے جس کو "انسانیت" کہا جاتا ہے، اور یہ انسانیت وہ چیز ہے جو ہر انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے رکھ دی ہے۔ اسی انسانیت کے نظریے کی بنا پر دنیا نے سیکھا کہ غلامی ایک لعنت ہے اور ہر شخص کے حقوق برابر ہونے چاہیے ہیں، اسی انسانیت نے سکھایا کہ جنگ بری چیز ہے اور شہری آبادی پر بمباری کرنا اس سے بھی برا، تو اسی انسانیت کی بنا پر نہتی شہری آبادیوں کو بہت تحفظ حاصل ہوا کہ جس کے بغیر اُسکا بہت برا حال ہونا تھا۔

اس انسانیت کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، مگر میں یہاں پر بس کرتی ہوں۔ صرف اتنا کہ یہ انسانیت ہے جو ہمیں Civilized بنا رہی تھی اور ہمیں بنا مذھب و رنگ و نسل کی تمیز کیے ایک دوسرے سے محبت و احترام کا درس دے رہی تھی۔

مگر اس انسانیت کے دشمن ہیں یہ انتہا پسند [چاہے یہ ہماری قوم کے ہوں یا کسی دوسری دشمن قوم کے]۔

اگر سی آئی اے کسی دوسرے ملک پر امریکی حکومت کو حملہ کرواتی ہے تو یہ سب سے پہلے اس "انسانیت" کی ہار ہوتی ہے۔

اور اسی طرح جب یہ انتہا پسند مسلمان ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں 3 ہزار امریکی شہریوں کا خون کرتے ہیں یا کوئی اور خود کش حملہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ اس "انسانیت" کی ہار ہوتی ہے۔

۔۔۔۔ کیونکہ ان حملوں کے نتیجے میں نفرت پھیلتی ہے اور انسانیت کا احترام کرنے والے گروہ کمزور پڑ جاتے ہیں اور انتہا پسند نفرت رکھنے والے گروہ [دونوں قوموں میں] مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔

تو جتنے زیادہ یہ انتہا پسند ہماری قوم میں مضبوط ہوتے جائیں گے، اس کے رد عمل میں اتنے ہی زیادہ انتہا پسند دوسری قوم میں بھی مضبوط ہوتے جائیں گے۔ یہ دونوں طرف کے انتہا پسند ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ایک دوسرے کے اولیاء و مددگار ہیں اور آخر میں انکی جنگ صرف انسانیت سے محبت و احترام کرنے والے لوگوں سے ہے۔
 
شاید فود صاحب نے میری پوسٹ کا حوالہ دے کر لکھا ہے۔
اگر انھوں نے میری بات کو غور سے پڑھاہوتا تو انھیں پتہ چلتا کہ میری بات کا زور اس بات پر تھاکہ پاکستان میں امریکہ کا اپنا اسٹیک ہے اور وہ اپنے مفادات کے لیے کاروائیاں کرتا ہے ۔ مثال سی ائی اے کے ارکان کا پاکستانی دھماکہ میں زخمی ہونا ہے (بقول اپکے) ۔ مگر پاکستانی ایجنسیوں‌کے اپنے اسٹیک بھی ہیں اور کبھی کبھار وہ بھی اپنے مخالف کو روکنے کے لیے کاروائیاں کرتے ہیں۔ مثال اسلام اباد میں‌دھماکہ ہے۔
پاکستان اس وقت کچھڑی بن چکا ہے بین الاقوامی طاقتوں کی کاروائیوں کا۔ کیونکہ انھیں افغانستان اور عراق میں‌شکست کا سامنا ہے اور پھر خود ان کی اقتصادی حالت بھی اب ڈانوڈول ہورہی ہے۔
انتہا پسندی تو یہ ہے کہ اپ بغیر کسی وجہ کے صرف اپنی انا کو بحال کرنے یا صرف اپنی حکومت بنانے کے لیے دوسرے ممالک پر قبضہ کرلیں ۔ وہاں لاکھوں کی تعداد میں‌ قتل کریں‌ اور اگر کوئی احتجاج کرے تو اس کو انتہاپسند کہہ کرماردیں۔
کیا ان لاکھوں‌قتل کا انسانی تاریخ کے کسی بھی قتل عام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے جو عراق و افغانستان میں‌جارہی ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ میری قوم کے اندھے پیروکاروں‌کو یہ نظر ہی نہیں‌ارہا ہے۔
 
نذیرناجی نے مزید پول کھولے ہیں
col3.gif

http://www.jang.com.pk/jang/mar2008-daily/18-03-2008/editorial/col3a.gif
جنگ
 

ساجداقبال

محفلین
یہ انسانی سوچ میں گڑبڑ کی وہ علامت ہے کعد مجھے علم ہے کہ اس کے بعد انسان گونگا بہرا و اندھا ہو چکا ہوتا ہے اور کوئی دلیل اُسے قائل نہیں کر سکتی۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ جبتک کوئی صحیح بات کو سمجھے ہی نہیں اُس وقت تک وہ اپنی غلطیوں و کمزوریوں کو دور نہیں کر سکتا۔
دیکھیے یہاں کوئی دانشور نہیں آتے ، کئی لوگ میری طرح سیکھنے کے غرض سے آتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کوئی کسی کو گونگا بہرا و اندھا اور کوئی کسی کو مغرب زدہ قرار دے رہا ہے۔ دوسروں پر فتوے جاری کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں ہماری دلیلیں تو نامکمل نہیں۔ القاعدہ کوئی آسمانی کتاب نہیں کہ جس کے وجود کے انکار سے انسان اندھا بہرہ قرار پائے۔ دوسرے اس وسیع اور پیچیدہ دنیا میں نہ آپ کی بات حرف آخر ہے اور نہ کسی اور کی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
انتہا پسندی تو یہ ہے کہ اپ بغیر کسی وجہ کے صرف اپنی انا کو بحال کرنے یا صرف اپنی حکومت بنانے کے لیے دوسرے ممالک پر قبضہ کرلیں ۔ وہاں لاکھوں کی تعداد میں‌ قتل کریں‌ اور اگر کوئی احتجاج کرے تو اس کو انتہاپسند کہہ کرماردیں۔
کیا ان لاکھوں‌قتل کا انسانی تاریخ کے کسی بھی قتل عام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے جو عراق و افغانستان میں‌جارہی ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ میری قوم کے اندھے پیروکاروں‌کو یہ نظر ہی نہیں‌ارہا ہے
۔

بات یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو اس میں کسی کی طرف سے کم اور کسی کی طرف سے زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔

امریکی حکومت یا سی آئی اے نے اگر غلط پالیسیاں چلی ہیں تو یہ بات کیا اس چیز کے لیے کافی ہے کہ انکی بنیاد پر اپنے گریبانوں میں جھانکنا بند کر دیا جائے اور اپنی تمام تر برائیوں کا ذمہ دار بھی امریکہ کو ہی ٹہرا دیا جائے؟

میری ناقص رائے میں یہ اوپر والا طرز عمل انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔

اگر امریکی حکومت اور سی آئی اے نے عراق میں حملہ کیا ہے تو اسے ایک غلطی مانا جا سکتا ہے۔ مگر عراق میں جب مسلمان فرقوں میں بٹ گئے ہوں تو مسلمان کا فرقوں میں بٹنا مسلمان کی اپنی غلطی ہے۔ اور اسی غلطی کی وجہ سے مسلمان کی آپس میں اتنی نفرت ہے کہ اگر امریکہ کے حملے سے ایک مسلمان مرا ہے تو مسلمان کے اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر حملوں میں 500 لوگ مارے گئے ہیں۔

اور میرے بھائی، آپ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ آپ ان 500 مسلمانوں کے خون کو بھی امریکہ کے کھاتے میں ڈال کر مسلمان کا دامن غلطیوں سے مکمل پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ مسلمان کے دامن کے پاک ہونے کہ یہ خوش فہمی بہت مہنگی ثابت ہو گی اور کبھی بھی اصل محرکات کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔
 

اظہرالحق

محفلین
مجھے تو اکثر مہوش اور انکی سوچ رکھنے والوں لوگوں کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ شاید اسلام کا خاتمہ ہوا ہی چاہتا ہے ، ظاہر ہے جب مسلمان لڑ لڑ کر آپس میں یا کسی کے ساتھ ختم ہو جائیں گے تو اسلام کا نام لیوا کون ہو گا ؟؟

ویسے جو اللہ نے کہا ہے کہ اسلام کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقے میں مت پڑو ۔ ۔ ۔ اس پر ہم عمل نہیں کریں گے ۔ ۔ تو فنا ہو جائیں گے نا ۔ ۔ ۔

یعنی اسلام کے ابدی ہونے کا تصور ہی غلط ہے ؟؟

---------------------------------------

اور یہ تو ہو سکتا ہے کہ مسلمان غلط ہوں ، مگر اسلام یا قرآن غلط ہے ، کیا ایک مسلمان کے ہوتے اس پر یقین‌ کر لینا چاہیے ۔ ۔۔ ۔

آج جو مغرب اسلام کے پیغمبر اور قرآن کے خلاف باتیں کر رہا ہے وہ اس نظریے کے خلاف ہیں جسے اسلام کہتے ہیں ۔ ۔ اور افسوس ہم مسلمانوں میں ہی بہت سارے لوگ یہ مایوسیاں پھیلا رہے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ہم تو فنا ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ ہم ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے انتشار کا شکار ہیں !!!!


افسوس صد افسوس کہ ہمارے اپنوں میں ہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور کچھ دوسرے لوگوں کے لئے تو سیزر کا جملہ ہی کافی ہے کہ "بروٹس تم بھی !!!!"
 

مہوش علی

لائبریرین
اظہر برادر نے میری جس تحریر کے جواب میں مجھ پر چند اعتراضات [/الزامات] عائد کیے ہیں، وہ یہ تھی:
اگر امریکی حکومت اور سی آئی اے نے عراق میں حملہ کیا ہے تو اسے ایک غلطی مانا جا سکتا ہے۔ مگر عراق میں جب مسلمان فرقوں میں بٹ گئے ہوں تو مسلمان کا فرقوں میں بٹنا مسلمان کی اپنی غلطی ہے۔ اور اسی غلطی کی وجہ سے مسلمان کی آپس میں اتنی نفرت ہے کہ اگر امریکہ کے حملے سے ایک مسلمان مرا ہے تو مسلمان کے اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر حملوں میں 500 لوگ مارے گئے ہیں۔

اور میرے بھائی، آپ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ آپ ان 500 مسلمانوں کے خون کو بھی امریکہ کے کھاتے میں ڈال کر مسلمان کا دامن غلطیوں سے مکمل پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ مسلمان کے دامن کے پاک ہونے کہ یہ خوش فہمی بہت مہنگی ثابت ہو گی اور کبھی بھی اصل محرکات کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔
اس بنیاد پر پہلا اعتراض/ الزام مجھ پر یہ عائد ہوا ہے کہ میں مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہی ہوں۔ اظہر برادر کے الفاظ یہ ہیں:
مجھے تو اکثر مہوش اور انکی سوچ رکھنے والوں لوگوں کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ شاید اسلام کا خاتمہ ہوا ہی چاہتا ہے ، ظاہر ہے جب مسلمان لڑ لڑ کر آپس میں یا کسی کے ساتھ ختم ہو جائیں گے تو اسلام کا نام لیوا کون ہو گا ؟؟
میں اظہر برادر کے اس الزام کو بلا تبصرہ چھوڑنا چاہتی ہوں، مگر خود بتائیے کہ عراق میں مسلمانوں میں موجود اس فتنے نے کئی لاکھ مسلمانوں کا خون چاٹ لیا ہے، مگر ہمارے ان بھائیوں کی حالت یہ ہے کہ انکے قلم سے 500 مرتبہ تو امریکہ کے خلاف مواد نکل سکتا ہے مگر ایک مرتبہ بھی مسلمان کے ہاتھوں اس مسلم قتل عام پر انکے قلموں کی سیاہی خشک ہو جاتی ہے۔ نہ کوئی احتجاج ہوتا ہے، نہ کوئی اصلاح کی نصیحت ہوتی ہے بلکہ انکا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے جبکہ مسلمان کا دامن آب زمزم سے دھلا ہوا صاف ستھرا ہے۔ اور جب انہیں دامنِ مسلم پر لگے اپنوں ہی کے خون کو دکھایا جاتا ہے تو ہمیں پر ہر قسم کے الزامات عائد۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ اخبارات میں لکھنے والے ہمارے قلمکاروں نے کالم لکھ لکھ کر امریکہ کے خلاف دفتر بھر دیے، مگر انہیں کوئی توفیق نہ ہوئی کہ القاعدہ کی اس انتہا پسندی کے فتنے کے خلاف قلم اٹھائیں کہ جس سے امت مسلمہ کو جو نقصان پہنچا ہے اُسکا عشر عشیر بھی امریکہ نے مسلمانوں کو نہیں پہنچایا ہے۔

اور انہیں قلم کاروں اور دانشوران کی وجہ سے آج بھی القاعدہ کی تحریک و نظریات مسلم معاشرے میں پھیل پھول رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جو آج ہم پاکستان میں بھی خود کش حملے دیکھ رہے ہیں۔

آگے اظہر برادر کا اعتراض ہے:
اور یہ تو ہو سکتا ہے کہ مسلمان غلط ہوں ، مگر اسلام یا قرآن غلط ہے ، کیا ایک مسلمان کے ہوتے اس پر یقین‌ کر لینا چاہیے ۔ ۔۔ ۔
اظہر برادر، آپ نے میری کس تحریر کی بنیاد پر مجھ پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ میں نے اسلام یا قرانِ پاک کو غلط کہا ہے؟ یاد رکھئیے یہ ایک سنگین الزام ہے اور مجھے پورا حق حاصل ہے کہ میں آپ سے اس مطالبہ کروں کہ آپ اپنے اس الزام کی دلیل پیش کریں۔

آگے اظہر برادر تحریر کر رہے ہیں:
آج جو مغرب اسلام کے پیغمبر اور قرآن کے خلاف باتیں کر رہا ہے وہ اس نظریے کے خلاف ہیں جسے اسلام کہتے ہیں ۔ ۔
نوٹ فرمائیے:

۱۔ میں بار بار گذارش کر چکی ہوں کہ آپ حضرات Totalism کے اس بھنور سے نکلئیے۔ جب آپ مغرب پر یہ الزام لگاتے ہیں تو یہ چیز بالکل غلط اور ناانصافی ہو جاتی ہے کیونکہ مغرب کی اکثریت اہل اعتدال اور انسان دوست ہے اور رنگ، نسل و مذھب کی دیواروں سے آزاد ہو کر ہر کسی کے ساتھ امن و صلح سے رہنا چاہتی ہے۔ مگر اس ٹوٹلزم کی وجہ سے آپ پورے مغرب کو حربی کافر ثابت کر رہے ہیں۔

۲۔ ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح انتہا پسند بھی ہر جگہ موجود ہیں، مگر کاش کہ انسان اس قدر دیدہ بینا رکھے کہ سیاہ و سفید میں تفریق کر کے انصاف کر سکتا ہو۔

۳۔ اہل مغرب کی اسی انسان دوست اکثریت نے مسلمان مذھب کو یہاں ہر طرح کی آزادی دی ہوئی ہے کہ وہ اپنے عقائد پر عمل کریں اور اپنے عقائد کی تبلیغ کریں۔

۴۔ اور دین اسلام کے خلاف جو لوگ باتیں کرتے ہیں، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اسکا سب سے اچھا جواب کیا ہو سکتا ہے؟
تو کیا ہمیں اسکے جواب میں انکے معصوم شہریوں پر خود کش حملے شروع کر دینے چاہیے اور پورے اہل مغرب کے خلاف نفرتیں پھیلانا شروع کر دینی چاہیے؟
یا پھر ہمارے لیے بہتر ہے کہ اسکا جواب اپنے عمل سے یوں دیں کہ اپنی جہالت و تاریکیوں سے نکل کے علم کے میدان میں آگے بڑھیں، اپنے آپ کو صادق و امین و انسان دوست جیسی صفات سے مزین کریں اور اپنے کردار سے ثابت کریں کہ اسلام کے خلاف لگائے گئے ان الزامات کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اسلام میں ہی انسانیت کی نجات ہے؟

فیصلہ میری قوم کو خود کرنا ہے۔
۔ ۔ اور افسوس ہم مسلمانوں میں ہی بہت سارے لوگ یہ مایوسیاں پھیلا رہے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ہم تو فنا ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ ہم ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے انتشار کا شکار ہیں !!!!
بھائی جی، ایک دفعہ تو اپنے دل میں جھانک کر آپ نے پوچھا ہوتا کہ کیا واقعی ہم انتشار کا شکار ہیں یا نہیں۔ میں کب سے تو قوم کی توجہ دلا رہی ہوں کہ سب فتنوں کا الزام مغرب پر لگانے کی بجائے ایک دفعہ اپنے گریبان میں جھانک کر انصاف کیا ہوتا۔
تو کیا اپنے خامیوں کی اصلاح کرنے کے لیے انکی نشاندہی کرنا مایوسیاں پھیلانا ہے؟
تو کیا یہ بتانا کہ علم و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھے بغیر بس جہاد جہاد کے نام پر صرف اتنی مردانگی دکھانا کہ اہل مغرب کے نہتے شہریوں پر خود کش حملے کرنا فتنہ ہے ۔۔۔۔ تو کیا کسی کو اس بات کی صداقت میں کوئی شک ہے؟
اور فنا ہونے اور مقابلہ نہ کرنے کی بات ہے ۔۔۔۔ تو کیا اس بات کی صداقت میں کوئی شک ہے؟

نہیں ان باتوں کی صداقت میں کوئی شک نہیں مگر کوئی ہے جو اس سچائی سے نظریں چرا رہا ہے۔

اور اس سچائی سے نظریں چرانے کا انجام کیا ہے؟ ۔۔۔ جی ہاں اسکا انجام وہی ہے جو ہمیں افغانستان میں نظر آیا جب طالبان اپنے معصوم و نہتے بچوں، عورتوں و شہریوں کو امریکہ بہادر کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی جانیں بچانے کے لیے غاروں میں بھاگے جا رہے تھے۔ مگر کوئی ہیں جو اس سچائی سے نظریں چرائے ہوئے ہیں اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو انکا جواب [/الزام] ذیل ہوتا ہے:

افسوس صد افسوس کہ ہمارے اپنوں میں ہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور کچھ دوسرے لوگوں کے لئے تو سیزر کا جملہ ہی کافی ہے کہ "بروٹس تم بھی !!!!"


آپ اپنی جذباتیت میں آ کر یہ الزام تو لگا رہے ہیں اور جہاد جہاد کا شور تو مچایا ہوا ہے، مگر کاش کہ اپنے گریبان میں پہلے جھانک اپنی حالت کو تو ایک دفعہ دیکھ لیتے۔ کاش کہ ایک نظر پہاڑوں و غاروں میں بھاگتے چھپتے طالبان کو تو دیکھ لیتے، مگر کوئی ہے جو ان سب سے آنکھیں چرائے بیٹھا ہے۔

یاد رکھئیے، افغانستان کے ان معصوم نہتے شہریوں کو طالبان نے نہیں بچایا، انہیں امریکہ بہادر کی حکومت نے نہیں بچایا، انہیں مشرف صاحب نے نہیں بچایا، انہیں کسی مسلم ملک کی حکومت نے نہیں بچایا۔۔۔۔۔ بلکہ اگر انہیں بچایا ہے تو وہ اس عالمی ضمیر، اس انسانیت کی عالمگیر آواز، اس انسان دوستی نے بچایا ہے جو ہر جگہ رنگ و نسل و مذھب کی تفریق کے بغیر محبت و احترام کا سبق دے رہی ہے۔

مگر یہ انتہا پسندی اس انسانیت کو قتل کرتی چلی جا رہی ہے، اور دونوں طرف کے انتہا پسند مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

///////////////////

میرے ایک ٹیچر نے مجھے سکول میں کہا تھا:

There is No Short Cut to Success
یعنی کامیابی کی طرف کوئی شارٹ کٹ نہیں جاتا۔ جبکہ ہماری قوم ہر مسئلہ کو شارٹ کٹ کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے اور اسکی نظر میں اپنی تعلیمی و علمی و کردار سازی کے بغیر ہی بس جہاد کے شارٹ کٹ کے ذریعے ہر مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔


اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ امین۔

والسلام۔
 
بات یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو اس میں کسی کی طرف سے کم اور کسی کی طرف سے زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔

امریکی حکومت یا سی آئی اے نے اگر غلط پالیسیاں چلی ہیں تو یہ بات کیا اس چیز کے لیے کافی ہے کہ انکی بنیاد پر اپنے گریبانوں میں جھانکنا بند کر دیا جائے اور اپنی تمام تر برائیوں کا ذمہ دار بھی امریکہ کو ہی ٹہرا دیا جائے؟

میری ناقص رائے میں یہ اوپر والا طرز عمل انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔

اگر امریکی حکومت اور سی آئی اے نے عراق میں حملہ کیا ہے تو اسے ایک غلطی مانا جا سکتا ہے۔ مگر عراق میں جب مسلمان فرقوں میں بٹ گئے ہوں تو مسلمان کا فرقوں میں بٹنا مسلمان کی اپنی غلطی ہے۔ اور اسی غلطی کی وجہ سے مسلمان کی آپس میں اتنی نفرت ہے کہ اگر امریکہ کے حملے سے ایک مسلمان مرا ہے تو مسلمان کے اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر حملوں میں 500 لوگ مارے گئے ہیں۔

اور میرے بھائی، آپ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ آپ ان 500 مسلمانوں کے خون کو بھی امریکہ کے کھاتے میں ڈال کر مسلمان کا دامن غلطیوں سے مکمل پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ مسلمان کے دامن کے پاک ہونے کہ یہ خوش فہمی بہت مہنگی ثابت ہو گی اور کبھی بھی اصل محرکات کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔
دیکھیے کمزوری کا ادراک ایک اچھی چیز ہے اسی سے کمزوری کو دور کرنے کی راہ کھلے گی۔ اپ کے تجزیہ کا نچوڑ یہ ہے کہ کمزوری کا ادراک کیا جائے۔ میں‌اس سے متفق ہوں۔
مگر مسئلہ کے اصل محرک سے نظر ہٹانا تو تباھی کوجنم دے گا۔ یہ میں‌بتانا چاہ رہا تھا کہ نظر اصل محرک پر رہے اور پھر اپ اپنی کمزوریاں‌دور کرتے رہیں‌تاکہ بالاخر کامیاب ہوں۔
اگر اصل دشمن‌ہی کو نہ پہچانا تو کمزوری دور کرکے بھی کیا حاصل۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
قبلہ ہمت علی صاحب اگر مسلمان کمزور نہ ہوں تو کسی دشمن کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات بھی نہ ہو - عراق پر حملے کی وجہ صرف اور صرف مسلمانوں کا تفرقہ اور انکا دفاعی لحاظ سے کمزور ہونا ہے - اس لیے کمزوری ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے -
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
(اقبال)
 
1998 ميں امريکی سفارت خانے پر حملہ، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا وجود ہے۔

ممکن ہے آپکی بات درست ہو کہ امریکہ پاک صاف ہے لیکن کیا آپ کیا وضاحت فرمائیں گے کہ Weapons of mass destruction نامی مہنگے ڈرامے کا کیا جواز تھا؟

آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ اسلام آباد دھماکے ميں جن امريکيوں پر حملہ کيا گيا ان ميں وہ ايف – بی – آئ کے اہلکاربھی شامل تھے جو حاليہ دھماکوں کے سلسلے ميں حکومت پاکستان کی مختلف ايجينسيوں کی مدد کی غرض سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ کيا امريکی ايجينسياں اپنے ہی اہلکاروں پر حملے کروانے کی سازش کريں گی؟

آپکو اس بات کا کیسے علم ہے کہ ایف بی آئی کے اہلکار یہاں معاونت کیلیے آئے تھے جبکہ ایف بی آئی کے ترجمان نے صرف اپنے اہلکاروں کے زخمی ہونے سے زیادہ کوئی بات نہیں کی؟ اور یہ اسقدر خفیہ کیوں آئے جبکہ دوسری طرف سکاٹ لینڈ یارڈ والے ڈھنڈوارا پیٹتے تفتیش کرتے رہے؟

اس کے بعد القائدہ کے نام سے ايک تنطيم کا قيام عمل ميں لايا گيا جس ميں عرب ممالک سے ہزاروں کی تعداد ميں دہشت گرد بھرتی کيے گئے اور انھيں افغانستان ميں آباد کيا گيا تاکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کا ذمہ دار انھيں قرار دے کر افغانستان پر حملہ کيا جا سکے۔

ذرا وضاحت فرمائیں اس تنظیم شریف کے مرکزی کردار کسی کی سرپرستی میں افغانستان کے ”ساحل“ دیکھنے آئے تھے؟


فواد صاحب کچھ سوالات آپ کے منتظر ہیں، کدھر رہ گئے آپ۔ کیا جوابات تیار کر ہے ہیں۔ یا کسی نئے آرٹیکل کے لئے تیاری کی جا رہی ہے :rolleyes:
 
قبلہ ہمت علی صاحب اگر مسلمان کمزور نہ ہوں تو کسی دشمن کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات بھی نہ ہو - عراق پر حملے کی وجہ صرف اور صرف مسلمانوں کا تفرقہ اور انکا دفاعی لحاظ سے کمزور ہونا ہے - اس لیے کمزوری ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے -
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
(اقبال)

کمزوری جرم نہیں‌ ظلم جرم ہے۔
اگر بازار میں‌ایک بدمعاش کسی کمزور کی پٹائی کررہا ہو تو کیا اپ کمزور کو معطون کریں گے یا ظالم بدمعاش کی پٹائی کریں گے؟
ہاں‌اگرایمان کمزور ہو تو کمزوری کی سزا ملتی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
کمزوری جرم نہیں‌ ظلم جرم ہے۔
اگر بازار میں‌ایک بدمعاش کسی کمزور کی پٹائی کررہا ہو تو کیا اپ کمزور کو معطون کریں گے یا ظالم بدمعاش کی پٹائی کریں گے؟
ہاں‌اگرایمان کمزور ہو تو کمزوری کی سزا ملتی ہے۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی آپ نے بڑی دلچسپ بات کہی ۔ :grin:
کمزور کو تو آپ اس بات پر سرزنش کرسکتے ہیں کہ تُو ظالم سے الجھا ہی کیوں ۔۔۔ مگر ظالم کی آپ پٹائی کیسے کرسکیں گے ۔ ؟ تب ۔۔ جب آپ طاقت میں ظالم سے زیادہ طاقتور ہونگے ورنہ اس سے کم درجے پر اگر آپ اس سے الجھے تو وہ آپ کی ایسی درگت بنائے گا کہ لوگ پہلے والے کمزور کو بھول جائیں گے ۔
سخنور صاحب یہی کہنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ مطلب اپنا سر دیوار پر مار رہے تھے ۔ ;)
 
ہمیشہ کی طرح آج بھی آپ نے بڑی دلچسپ بات کہی ۔ :grin:
کمزور کو تو آپ اس بات پر سرزنش کرسکتے ہیں کہ تُو ظالم سے الجھا ہی کیوں ۔۔۔ مگر ظالم کی آپ پٹائی کیسے کرسکیں گے ۔ ؟ تب ۔۔ جب آپ طاقت میں ظالم سے زیادہ طاقتور ہونگے ورنہ اس سے کم درجے پر اگر آپ اس سے الجھے تو وہ آپ کی ایسی درگت بنائے گا کہ لوگ پہلے والے کمزور کو بھول جائیں گے ۔
سخنور صاحب یہی کہنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ مطلب اپنا سر دیوار پر مار رہے تھے ۔ ;)
غور کریں‌تو یہ گھٹنے ٹیکنے والی بات ہے۔
میں‌اپ کو ہمت اور حوصلہ کی بات کررہا ہوں۔
کمزور کو دبایا تو کیا بڑا کام کیا۔
سب سے پہلی بات تو جرم کو پہچاننا ہے۔ ہر حال میں‌ ظلم جرم ہے چاہے کرنے والا کتنا ہی طاقتور ہی کیوں‌ نہ ہو
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

فواد صاحب کچھ سوالات آپ کے منتظر ہیں، کدھر رہ گئے آپ۔ کیا جوابات تیار کر ہے ہیں۔ یا کسی نئے آرٹیکل کے لئے تیاری کی جا رہی ہے :rolleyes:

ڈبليو – ايم – ڈی ايشو

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔

اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔

يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔

usaid.gov/iraq/pdf/iraq_mass_graves.pdf
massgraves.9neesan.com/

يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔

عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔ حال ہی ميں الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے جسم پر بم باندھ کر ان کے ذريعے کروائے جانے والے دھماکے اور اس کے نتيجے ميں سو سے زيادہ بے گناہ عراقيوں کی موت اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔

کيا آپ تصور کر سکتے ہيں کہ عراق کی صورت حال کيا ہو گی اگر ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ نہ کی جائے جو بس اسٹيسن، بازاروں اور سکولوں پر حملہ کرنے ميں کوئ عار محسوس نہيں کرتے۔

اسامہ بن لادن اور افغان جنگ ميں امريکی کردار

امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقاۂق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟

افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القاعدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" شرک الاوسط" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القاۂدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القاۂدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد:

نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔

کیا یہ کیمیکل ہتھیار امریکہ ہی سے ایران جنگ کے لئے عراق کو نہیں مہیا کئے گئے تھے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
صدام کا حلبچہ پر کیمیائی بم گرانا اور امریکہ بہادر کی حکومت کا منافقانہ رویہ

فواد صاحب:
اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

امریکی اور یورپی اقوام کے مثبت رویے اور کردار کی میں نے ہمیشہ دل کھول کر تعریف کی ہے اور انکو اسکا مکمل کریڈٹ دیا ہے۔ واقعی یہاں پر انسان اور انسانیت کا احترام ہے۔

بہرحال امریکی حکومت اور سی آئی اے کے کچھ کردار بہت منافقانہ رہے ہیں۔

ایران دشمنی میں امریکہ نے صدام حسین سے دوستی یاری کی بہت پینگیں بڑھائی تھیں اور میں اس مسئلے کی تفصیل میں نہیں جا رہی۔ میرا پہلا موضوع ہے حلبچہ پر صدام حسین کا کیمیائی حملہ اور امریکی حکومت کا اس ضمن میں کردار۔

///////////////////////////////

حلبچہ پر کیمیائی حملے کی مختصر تفصیل:

۱۔ حلبچہ عراق کا حصہ ہے جہاں کرد آبادی رہتی ہے اور یہ صدام حسین کے مخالف تھے۔

۲۔ صدام حسین کے حکم پر حلبچہ کے پورے شہر پر کیمیائی بم برسائے گئے جس سے ایک رات میں پانچ ہزار سے زیادہ عورتیں، بچے اور عام شہری ہلاک ہو گئے۔


حلبچہ کی اس پانچ ہزار معصوم نہتی آبادی پر ان کیمیائی بموں کا جو رد عمل ہوا، وہ "انسانیت" کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔ ذرا حوصلہ کر کے سنیے کہ کیا ہوا:

۱۔ چونکہ اس سے قبل صدام حسین ایرانی فوج کے خلاف کیمیائی بم استعمال کر رہا تھا اس لیے اُسے امریکی حکومت کی مکمل حمایت حاصل رہی [اور یہ حمایت اس صورت میں تھی کہ امریکہ میں ان کیمیائی حملوں کے خلاف میڈیا میں ایک آواز بلند نہ ہوئی]

۲۔ چنانچہ جب حلبچہ کی شہری آبادی پر بم برسائے گئے تو امریکہ کے اخبارات و میڈیا اور حکومت کی طرف سے ایک ذرا سا بھی ردعمل نہ تھا [جبکہ اگر اسرائیل کا ایک فوجی مارا جائے تو پورا امریکہ درد سے چلا اٹھتا ہے]

۳۔ چونکہ پاکستان بھی امریکہ اور سعودیہ کے زیر اثر تھا، اس لیے پاکستان کے اخبارات میں بھی انسانیت پر اس ظلم کے خلاف ایک خبر نہیں چھپی۔ [سعودیہ، کویت، عرب امارات وغیرہ سب اس جنگ میں صدام حسین کے حلیف تھے اور اس لیے انکے اخبارات میں تو ویسے ہی کوئی خبر نہیں چھپ سکتی تھی]

میڈلین البرائیٹ اور حلبچہ کے کیمیائی بم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حلبچہ میں انسانیت پر ہونے والے اس عظیم ظلم کے بہت سالوں بعد امریکہ نے پہلی خلیجی جنگ لڑی اور صدام حکومت کو شکست دی۔

۔ اس پہلی جنگ ہارنے کے بعد صدام نے وعدہ کیا کہ وہ کیمیائی ہتھیار تباہ کر دے گا۔

۔ مگر عراق پر دوسرا حملہ کرنے کے لیے امریکی حکومت مسلسل الزام لگاتی رہی کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی بم ہیں۔

بہت بہت سالوں بعد جب میڈلین البرائیٹ نےپھر ایک کانفرنس میں صدام حسین کے کرتوتوں کا ذکر کرتے ہوئے حلبچہ کا ذکر کیا توایک صحافی نے سوال کیا: "آج جب کم از کم ظاہری طور پر عراق میں تمام کیمیائی مواد تباہ کیا جا چکا ہے اُس کے باوجود آپ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ان کیمیائی ہتھیاروں پر اتنا شور کر رہی ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ جب صدام حسین نے حلبچہ پر کیمیائی بم برسا کر ایک ہی رات میں 5 ہزار سے زائد شہری آبادی کو نیست و نابود کر دیا تھا تو اس پر آپکے اخبارات میں ایک لفظ نہیں چھپا اور نہ ہی آپ نے کوئی شور و واویلا کیا، بلکہ سال ہا سال گذر گئے اور آپ نے ایک لفظ نہیں کہا، مگر آج آپ کو صدام کے تمام گناہ یاد آ رہے ہیں تو اسکی کیا وجہ ہے۔"


اب ذرا دل تھام کر امریکی حکومت کی اس اہم شخصیت میڈلین البرائیٹ کا بہانہ سنیے۔

میڈم میڈلین البرائیٹ اس سوال پر ناخوش ہوتی ہیں اور جواب میں کہتی ہیں: "جب صدام حسین نے حلبچہ پر حملہ کیا تھا اُس وقت سی آئی اے کو یقین نہیں تھا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی بم موجود ہیں۔"

جی ہاں، یہ میڈم البرائیٹ کے الفاظ تھے سی آئی اے کے متعلق۔۔۔۔ یعنی نہ سی آئی اے کو ان کیمیائی ہتھیاروں کا علم تھا اور نہ ان 5 ہزار کرد شہریوں کے مرنے کا علم۔

////////////////////////////

جس دن میڈلین البرائیٹ نے یہ انٹرویو دیا اس وقت میں ہوسپٹل میں تھی اور وہاں پر ایک جرمن نرس میڈلین البرائیٹ کو برا بھلا کہہ رہی تھی کیونکہ اُس کے مطابق حلبچہ کی جنگ سے قبل صدام حسین نے کئی ہزار ایرانیوں پر کیمیائی بم حملے کیے تھے اور ان میں سے کئی ہزار کو علاج کے لیے ایرانی حکومت نے جرمنی بھیجا تھا اور یہ نرس وہاں پر معمور رہی تھی۔
چنانچہ اُس رات کو اُس جرمن نرس نے میڈلین البرائیٹ اور امریکہ کو برا بھلا کہا کہ سی آئی اے کو کیسے ان تمام سالوں میں صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کا علم نہ ہو سکا جبکہ جرمنی میں ہزاروں متاثرہ افراد علاج کروا چکے تھے۔

اسکے بعد اگلے ویک اینڈ تک ہسپتال سے میں فارغ ہو چکی تھی اور جمعے کو ایرانی مسجد میں مجلس جانے کا اتفاق ہوا۔ اس مسجد میں پورے ہفتے کے پرانے اخبارات ذخیرہ رہتے تھے اور تمام ایرانی اخبارات میڈلین البرائیٹ کے اس جھوٹ پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ اتنے ہزاروں لوگوں کو صدام حسین نے پوری جنگ کے دوران کیمیائی بموں سے نیست و نابود کر دیا مگر سی آئ اے اس سے بے خبر رہی، اور خبر ہوئی تو صرف اور صرف اُس وقت ہوئی جب اسرائیل کو اس سے خطرہ محسوس ہوا۔


///////////////////////////

میرا ماننا یہ ہے کہ امریکی حکومت اور سی آئی اے اپنے مفادات کے نام پر کہیں پر بھی کسی بھی وقت "انسانیت" کو نیست و نابود کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں اور جب ایسا معاملہ درپیش ہو تو امریکی میڈیا بھی اپنی حکومت کا مکمل وفادار ہے۔


فواد صاحب نے مزید تحریر فرمایا ہے:

يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔ حال ہی ميں الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے جسم پر بم باندھ کر ان کے ذريعے کروائے جانے والے دھماکے اور اس کے نتيجے ميں سو سے زيادہ بے گناہ عراقيوں کی موت اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔کيا آپ تصور کر سکتے ہيں کہ عراق کی صورت حال کيا ہو گی اگر ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ نہ کی جائے جو بس اسٹيسن، بازاروں اور سکولوں پر حملہ کرنے ميں کوئ عار محسوس نہيں کرتے۔​

بلا شبہ مجھے صدام حسین کی قتل و غارت یا آج ان دہشت گرد تنظیموں سے انتہائی نفرت ہے۔

مگر کاش کہ فواد صاحب، یا امریکی حکومت مجھے یہ بتا دے کہ آج آپ لکھ رہے ہیں کہ صدام حسین سینکڑوں کی تعداد میں عراقیوں کو قید خانوں میں ڈال کر تشدد کرنا معمول سمجھتا تھا اور اُس کا گناہ حلبچہ کی کرد آبادی پر کیمیائی بم برسانا بھی تھا۔۔۔۔۔ مگر فواد صاحب کاش کہ آپ اور آپ کی امریکی حکومت یہ قبول کر سکے کہ نہ صرف انکی خارجہ پالیسیوں میں غلطی ہوتی رہی ہے بلکہ وہ انتہائی منافقانہ و ظالمانہ بھی رہی ہیں اور صدام کے جو مظالم آج آپ اور آپ کی امریکی حکومت بیان کر رہی ہے، صدام حسین کے انہی جرائم کی وہ اُس وقت مکمل پشت پر تھے جب یہ جرم کیے جا رہے تھے۔


امریکہ کی طرح پاکستانی اخبارات میں بھی حلبچہ اور صدام حسین کے مظالم پر ایک خبر شائع نہیں ہوئی۔ اور پاکستان کے کالم لکھنے والے تمام تر دانشوران اس پر اُس وقت خاموش رہے۔

اور آج جب القاعدہ جیسی دھشت گرد تنظیمیں عراق میں تین چار لاکھ معصوم شہریوں کو بموں کا حملہ بنا چکے ہیں تو پھر ہمارے یہ کالم لکھنے والے دانشوران پھر چپ سادھے ہوئے ہیں اور اپنے گریبان کے گندگی کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور القاعدہ اور ان انتہا پسندوں کے خلاف کچھ لکھتے ہوئے انکے قلموں کی سیاہی پھر خشک ہو جاتی ہے جبکہ دوسروں کے خلاف لکھ لکھ کر انہوں نے دفتر بھر دیے ہیں۔

انہی دانشوران کے اس ناانصافانہ رویے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں یہ القاعدہ کے خود کش حملہ آور پلتے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور عوام میں ان کو اپنے لیے ہمدردیاں مل رہی ہیں۔

ہمارے یہ دانشور ایسے ہیں کہ ہمارے یہ انتہا پسند کتنے ہی بے گناہوں کو قتل نہ کر دیں، وہ فورا اس سب کی خرابی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹہرا دیتے ہیں۔

اور ہمارے یہ دانشور ایسے ہیں کہ انہیں سات پردوں میں بھی لپٹی ہوئی ہر امریکی سازش کا علم ہوتا ہے اور اس خیالی سازش کے زوروں پر بہت زوردار آرٹیکل لکھ رہے ہوتے ہیں، مگر جب بات آتی ہے القاعدہ کی تو انکے نزدیک ابھی تک القاعدہ کا کوئی وجود نہیں بلکہ امریکہ نے خود ہوا کھڑا کرنے کے لیے گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کروایا تھا، اور عراق میں جو یہ تین چار لاکھ معصوم شہری خود کش حملوں کی وجہ سے مر چکے ہیں تو یہ تمام خوش کش حملے امریکہ کروا رہا ہے جبکہ مسلمانوں کا اپنا دامن تو بالکل پاک صاف ہے اور اپنے گریبان کی گندگی دور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اب میں کس کس چیز کا رونا رووں؟

کیا امریکہ بہادر کی حکومت کا رونا رووں، یا عراق میں مارے گئے لاکھوں معصوموں کا یا پھر اپنے ملک عزیز میں ہونے والے خود کش حملوں کا۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کے سب انسانیت کے دشمن ہیں اور میری دعا یہی ہے کہ میڈیا واقعی ایک دن اتنا آزاد ہو جائے کہ حکومتوں کے مفادات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے مفادات کو تحفظ فراہم کر سکے۔ امین۔
 

شمشاد

لائبریرین
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرئے۔

امریکہ جو بھی کرتا ہے وہی صحیح ہوتا ہے۔ باقی سب غلط
القاعدہ والے جو کرتے ہیں، ان کے نزدیک وہی صحیح ہوتا ہے باقی سب غلط
پی پی پی جو کر رہی ہے وہی صحیح ہے باقی سب غلط
رجنی کانت / سلطان راہی جو کرتے رہے وہی صحیح باقی سب غلط
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

مگر کاش کہ فواد صاحب، یا امریکی حکومت مجھے یہ بتا دے کہ آج آپ لکھ رہے ہیں کہ صدام حسین سینکڑوں کی تعداد میں عراقیوں کو قید خانوں میں ڈال کر تشدد کرنا معمول سمجھتا تھا اور اُس کا گناہ حلبچہ کی کرد آبادی پر کیمیائی بم برسانا بھی تھا۔۔۔۔۔ مگر فواد صاحب کاش کہ آپ اور آپ کی امریکی حکومت یہ قبول کر سکے کہ نہ صرف انکی خارجہ پالیسیوں میں غلطی ہوتی رہی ہے بلکہ وہ انتہائی منافقانہ و ظالمانہ بھی رہی ہیں اور صدام کے جو مظالم آج آپ اور آپ کی امریکی حکومت بیان کر رہی ہے، صدام حسین کے انہی جرائم کی وہ اُس وقت مکمل پشت پر تھے جب یہ جرم کیے جا رہے تھے۔


مہوش،

ميں نے آپکی پوسٹ کے حوالے سے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں متعلقہ افسران سے رابطہ کيا ہے۔ اس حوالے سے ميں حقائق اور اعداد وشمار حاصل کر کے جلد ہی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا موقف آپکی خدمت ميں پيش کروں گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 
Top