اسلامی نظریہ اور ثقافت

شمشاد

لائبریرین
یہی تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان میں جو سید کہلاتے ہیں وہ کون ہیں؟
 
یہ سرخ کی گئی حدیث کیا انہوں(ص) نے ہی فرمائی ہے جو کہ فرماتے ہیں کہ "کسی عرب کو عجم اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے"؟



اس طرح کی غلیظ بات پر میں کوئی بھی کمینٹ نہیں کروں گا۔

بلکہ اپنے اخلاق کو اس مہینے میں بچانے کے لئے میں اس دھاگے کو خیرباد کہوں گا۔
یہ ویڈیو 14 منٹ 20 سیکنڈ تا 15 منٹ تک دیکھ لیں کافی حد تک تسلی ہو جائیگی کہ کون کہہ رہا ہے
 
یہی تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان میں جو سید کہلاتے ہیں وہ کون ہیں؟
میں تو سید تو اسے سمجھتا ہوں جو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ یا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد سے ہو۔اور سید بمعنی" سردار" کے
 
یہ سرخ کی گئی حدیث کیا انہوں(ص) نے ہی فرمائی ہے جو کہ فرماتے ہیں کہ "کسی عرب کو عجم اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے"؟



اس طرح کی غلیظ بات پر میں کوئی بھی کمینٹ نہیں کروں گا۔

بلکہ اپنے اخلاق کو اس مہینے میں بچانے کے لئے میں اس دھاگے کو خیرباد کہوں گا۔
یہ حدیث نعوذبااللہ میں نے اپنی طرف سے نہیں گھڑی اور نہ میں ایسا کام کرسکتا ہوں
اسکا حوالہ یہ ہے(الفردوس بماء ثور الخطاب حدیث 2892 دارالکتب العلمیہ بیروت)
 

سید ذیشان

محفلین
یہی تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان میں جو سید کہلاتے ہیں وہ کون ہیں؟
اس دھاگے کا اس سوال سے کیا تعلق ہے؟

اس فورم کے منتظم ہونے کے باوجود آپ اس کے اصولوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں؟
اگر اس مسئلے کو ڈسکس کرنا ہے تو ایک نیا دھاگہ کھولیں اور اس دھاگے کے مضمون پر رہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
دھاگے کا یہ رخ میں نے تو نہیں موڑا، اوپر کے کچھ پیغامات پڑھ لیں، آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔
 

ساجد

محفلین
دیکھئے صاحبان ، بحث یہ نہیں کہ کون کیا تھا اور قیام پاکستان کے وقت کیا بن گیا۔ حسن نثار جن برادریوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ قیامِ پاکستان سے قبل بھی اپنا وجود رکھتی تھیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنی برادریوں کو ہیر پھیر سے بدل کر کچھ سے کچھ بنا لیا ہو لیکن اسے قیام پاکستان کے ساتھ مخصوص کرنا زیادتی ہے یہ کام آج بھی ہوتا ہے۔ جبکہ بات یہ ہو رہی ہے کہ جو اللہ کا نافرمان ہے ، وہ بھلے کسی برادری سے بھی تعلق رکھتا ہو ، مردود ہے تو یہ بات ہی بحث سے خارج ہو گئی کہ پاکستان میں کون کیا ہے۔ میرا خیال ہے اس قضئے کو مزید نہ کریدا جائے تو بہتر ہو گا۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ دھاگہ میری نظر سے گذرا تھا۔ مگر مجھے اس میں مخصوص سوچ اور نظریہ کے سوا نظر کچھ نہیں آیا تو میں نے اسے نظرانداز کردیا ۔ ہم سب اس طرح کے موضوعات پر کافی عرصے سے بحث و مباحثہ کر رہے ہیں ۔ جہاں ایک ہی آیت پر مختلف آراء سامنے آجاتیں ہیں ۔ جہاں احادیث کےسیاق و سباق کو سمجھے بغیر ہم اس کے لفظی معنی میں سارے معاملات کو پرو دیتے ہیں ۔ اس دھاگے میں چند ایسی باتیں بھی ابھر کر سامنے آگئیں ہیں ۔ جو ہمارے معاشرے آج کل بہت سریت کے ساتھ فعال ہو رہی ہے ۔ جس میں ایک غیر مسلموں کیساتھ تعلقات بھی ہے ۔ دوست و احباب نے اپنے خیالات کا اظہار اس حوالے سے کیا ہے کہ ہم خاکروب اور دیگر ادنیٰ درجے کے کام کرنے والے غیر مسلموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم نہیں رکھ سکتے ۔ بلکہ ان کے ساتھ کھانے پینے اور ہاتھ ملانے تک کو کراہیت سے گردان دیا ہے ۔ اور پھر حسبِ معمول اسے اسلام سے نتھی کردیا گیا ۔ یہیں میرا نکتہِ اعتراض ابھرکر سامنے آتا ہے ۔ جو میں بیان کردیتا ہوں ۔
اسلام ، قرآن اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو غیر مسلموں کیساتھ ہماری ایک سطح انسانی ہے ۔ یعنی ہم اور وہ سب آدم کی اولاد ہیں ۔ لہذا اس بنیاد پر ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ ان تعلقات کی نوعیت دوستی پر ہو ، پڑوسی پر ہو ، تجارتی بنیادوں پر ہو یا زندگی کے دیگر معاملات پر ہو۔ ان تمام تعلقات کی بنیاد خالصتاً انسانیت کے تقاضوں پر ہوگی ۔ انسانیت یہاں مشترک ہے ۔ لہذا میں نہیں سجھتا کہ یہاں کسی بحث کی گنجائش ہے ۔ دوسرا مقام وہ ہے جہاں ہم اس جگہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ کا پیغام ہے ۔ یہاں ہمارا تعلق داعی اور مدعو کا ہے ۔ لہذا ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم ان کو اللہ کے پیغام کی طرف متوجہ کریں ۔ دعوت کے اس معاملے میں تعلق خیر خواہی کا ہوگا ۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا قیامت کے دن مواخذہ ہونا ہے ۔ لہذا ہم کوشش کریں گے اپنے دیگر بھائیوں ( انسانی بنیادوں پر ) اس حق کی طرف بلائیں ۔ قرآن نے یہاں ہماری رہنمائی کردی ہے کہ جب بھی دعوت دی جائے اس میں بھلائی ، حکمت اور دانشمندی کے پہلو نمایاں ہوں ۔ بحث کی نوبت آجائے تو وہاں بھی اخلاق اور مروت کا مظاہرہ کیا جائے ۔ گفتگو کے پیرائے کو مدنظر رکھتے ہوئے تیسرا مقام وہ ہے جب ہم ان کو ساتھ ایک قومی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ جہاں ایسے معاملات بھی سامنے آجاتے ہیں ۔ جہاں کسی اختلاف کی نوعیت پیش آجاتی ہے ۔ وہاں بھی قرآن کی تعلیم یہی درس دیتی ہے کہ “ تم کو کسی قوم کی دشمنی اس انتہا پر نہ لے جائے کہ تم کو عدل اور اخلاق پسِ پشت ڈال دو ۔ “ یعنی ہر حال میں ہمیں غیر مسلموں کیساتھ انتہائی اخلاق اور دانشمندی کیساتھ پیش آنے کو کہا گیا ہے ۔خواہ ان کی نوعیت کیسی بھی ہو۔

ہمارا معاشرہ گو کہ ایک اسلامی معاشرہ گردانا جاتا ہے ۔ مگر یہاں مذہبی بنیادوں سے لیکر ذات پات ، برادری اور زبان تک میں تفریق برتی جاتی ہے ۔ اور یہ تفریق کسی ادنی درجے کام کرنے والے غیر مسلم کیساتھ نہیں بلکہ ایک مسلمان کے ساتھ برتی جاتی ہے ۔ جب ہمارے رحجان کا عالم یہ ہے تو ہم کہاں اس بات کے متحمل ہوسکتے ہیں کہ کسی غیر مسلم کیساتھ برابری تو دور کی بات کم از کم انسانی بنیادوں پر ہی ان سے راوابط رکھ لیں۔ جب یہ مخصوص سوچ اسلام کی اخلاقی تعلیم کو پامال کرتی ہوئی ہمیں آپس میں ٹکڑیوں‌میں بانٹ دیتی ہے تو وہاں کسی غیر مسلم کی گنجائش کہاں نکلتی ہے ۔ نجس ہونا اور غیر مسلم ہونا دونوں الگ باتیں ہیں ۔ کچھ دوستوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ غیر مسلم نجس ہوتے ہیں ۔ جنابت کے غسل سے بھی فارغ البال ہوتے ہیں تو کیا ایسے شواہد موجود ہیں کہ تمام مسلم ان چیزوں سے مبرا ہیں ۔یعنی کچھ مسلم اس حالت میں نہیں ہوتے ۔ میں نے تو یہاں تک دیکھا کہ کچھ مسلم کو جنابت کے غسل کا تصور تک ہی نہیں ۔ تو پھر یہ فرق صرف غیر مسلم کیساتھ ہی کیوں ۔ ؟ کیا آپ ایسے مسلم کیساتھ کھانا یا ہاتھ ملا سکتے ہیں ۔ جو نجاست سے پاک نہ ہو ۔ تو پھر یہاں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیوں ۔ ؟ کیا پاک و صاف ہونا ضروری نہیں ہے ۔ ؟ اگر کوئی خاکروب پاک صاف ہے تو اس سے ہاتھ ملانے اور ساتھ کھانے کھانے میں کیا قباحت ہے ۔ ہاں اگر آپ کی نازک طبعیت پر یہ بات گراں گذرتی ہے اور آپ کو اس بات سے کراہیت محسوس ہوتی ہے تو ایسی سوچ کو اسلام سے کیوں جوڑ دیا جاتا ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دستر خوان پر یہود و نصاریٰ دونوں موجود ہوتے تھے ۔ وہاں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ہم اس امتیازی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہم اس حق کی دعوت ان تک کیسے پہنچا سکتے ہیں ۔ جس کا اللہ نے ہم کو داعی بنایا ہے ۔ جب ہم ان سے روابط نہیں رکھیں گے ۔ اس کے معاملات کو اپنا معاملہ نہیں سمجھیں گے ۔ ان سے مسکرا اور خندہ پیشانی سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو اپنے دین کی دعوت کی طرف کس طرح بلائیں گے ۔
چونکہ ٹاپک ہی ہندوستان کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ ہندوؤں کا مسلمانوں سے انفردای سلوک کرنے کا سبب ایک تاریخی پس منظر ہے ۔ ہندو قوم میں سب سے پہلے اسلام شودروں ، پلید اور نیچی ذات والوں نے قبول کیا ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ساتھ جو سلوک اونچی ذات والے صدیوں سے روا رکھے ہوئے تھے ۔ وہ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی جاری رہا ۔ کیونکہ اونچی ذات والوں کی نظر میں وہ اب بھی شودر، پلید اور نچلی والے ذات تھے ۔ ان کے اس امتیازی سلوک کی وجہ اسلام نہیں بلکہ ان کے نظریات اور ذات پات کے تصور ہیں ۔ جو انہوں نے صدیوں سے پال رکھے ہیں ۔
اسلام پاکیزگی اور طہارت کو بہت اہمیت دیتا ہے ۔ اور اس کو اختیار کرنے لیئے مسلم اور غیر مسلم کی کوئی شرط کم از کم اسلام نے تو نہیں رکھی ہے ۔
 
ذیشان بھائی !
حدیث درست ہے۔ آپ اس کا استعمال غلط طریقے سے بتا رہے ہیں جی
ان شاءاللہ میں اس موضوع پر پھر لکھوں گا۔ تفصیلی
 
اگر کسی کو میری کہی ہوئی باتیں بری لگی ہوں تو معذرت چاہتا ہوں۔میں نے فقط اپنا نقطہ نظر پیش کیا تھا اور اب بھی اسی پر قائم ہوں مجھے اپنے کہے پر کوئی ندامت نہیں لیکن اگر آپکا دل دکھا ہو تو معذرت ۔ویسے بھی دین کا معاملہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ہو سکتا ہے آپ سب مجھ سے بہتر مسلمان ہوں۔مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کو کسی بات سے روکوں یہ آپ کا اپنا معاملہ جیسے چاہیں زندگی گزاریں۔آپ کا دین آپکے ساتھ میرا دین میرے ساتھ
والسلام
 
Top