اسلامی نظریہ اور ثقافت

بات چونکہ مذہبی تناظر میں ہورہی ہے اسلئیے میں محض عقلی استدلال سےکی مدد سے کسی نتیجے پر پہنچنے کو ناکافی خیال کرتا ہوں۔ چونکہ اسکا اک گونہ تعلق مذہب سے ہے، اسلئیے مذہبی روایات اور احکامات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہمیں ہمارے مذہب کی روایات سے یہ علم ملتا ہے کہ:
1-بیشک مشرکین نجس ہیں (القرآن)
2- مسلمان کا جوٹھا آپ کھا یا پی سکتے ہیں لیکن کفار و مشرکین کے معاملے میں ایسا نہیں ہے (ماخوذ از حدیث)
تو ان باتوں کے ہوتے ہوئے ہم محض اپنے استدلال کو بنیاد بنا کر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔۔۔ہاں اگر مذہب اور اسکے احکامات ہماری نظر میں اہمیت نہیں رکھتے تو پھر ہم کسی بھی رائے کو اختیار کرنے میں آزاد ہیں۔ لیکن اگر انکی کچھ بھی اہمیت ہے ہمارے نزدیک، تو کئی باتوں کو بغیر چون و چرا کئے بغیر تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ورنہ اگر آپ محض اپنی محدودعقل کو ہی معیار مقرر کریں گے تو قرآن و حدیث کی بیشمار باتوں کا انکار کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ :)
 
میری وہ تحریر جو "مصرع طرح" تھی۔ اس کا موضوع تو یہ نہ تھا۔
اس کا موضوع تعلیم و تربیت اور تاریخ کو تڑور مڑور کر پیش کرنا یا اسلام کو بطور ایک عالم گیر ثقافت بتانا تھا۔ جبکہ دوسری ثقافتوں کا دائرہ کار محدود ہے۔
بچوں کی تربیت میں جو کردار میڈیا اور بھارتی میڈیا کا ہے اس پر بحث تھی۔
 
سب انسان آدم کی اولاد ہیں۔ محض ان کے مذہب کی وجہ سے ان سے نفرت یا حقارت کا رویہ ہمیں کسی طور بھی زیب نہیں دیتا۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے بلکہ اسلام کی انتہائی غلط تشریح ہے۔ ہمارے بڑے ہندوستان سے مسلمانوں کی علیحدگی کا ایک سبب یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ اگر مسلمان کسی ایسے کنویں سے پانی پی لیتا جو ہندو آبادی میں ہوتا تو وہاں کے لوگ اس کنویں کو ناپاک قرار دے دیتے۔ مسلمانوں کو اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے کچن میں پاؤں رکھنے کی اجازت نہ تھی کہ اس سے ان کا رسوئی گھر بھرشٹ ہو جاتا تھا۔ دیگر بھی لاتعداد معاشرتی اسباب تھے جنہوں نے مسلمانوں کے اذہان میں اس توہین آمیز زندگی سے نجات کی آرزو جگائی۔ لیکن یہاں ایک بات ہم بھول جاتے ہیں کہ آزادی سے قبل بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا تھا اور آزادی کے بعد بھی حالات اتنے بہتر نہیں ہو گئے کہ دونوں ممالک کے عوام کی سوچوں میں مذہب کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہو۔ چھوت چھات ہندو دھرم کا حصہ ہو لیکن اسلام کا پیغام اس کی مکمل نفی کرتا ہے لہذا ہمیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے اپنے کسی فعل کی تاویل کسی دوسرے مذہب کی تعلیم یا کسی قوم کے عقیدے میں نہیں ڈھونڈنی چاہئے۔ ہمیں ان اصولوں کو مدنظر رکھنا ہے جو اسلام نے ہمیں دیے۔ ہمسائے کے حقوق کے حوالے سے جب یہ فرمان ہم تک پہنچتا ہے کہ "مجھے گمان ہوا کہ اللہ تعالی وراثت میں بھی ہمسائے کا حصہ مقرر فرما دے گا"تو اس میں ہمسائے کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے کی تخصیص کہیں نظر نہیں آتی۔ جب اپنی دیوار اونچی کرنے سے ہمسائے کی تکلیف کا خیال رکھنے کا حکم ذہن میں آتا ہے تو ہمسائے کی تعریف صرف مسلمان نہیں کی گئی۔ سالن میں تھوڑا زیادہ پانی ڈال کر اسے ہمسائے کے گھر بھجوانے میں بھی کافر و مومن کی بحث نہیں کی گئی۔ غیر مسلم سے ہاتھ ملانے سے ہاتھ ناپاک نہیں ہو جاتا ۔ اگر وجہ یہ ہے کہ وہ رفع حاجت کے بعد ہاتھ نہین دھوتا تو پھر کیا گارنٹی ہے کہ تمام مسلمان رفع حاجت کے بعد ہاتھ دھوتے ہوں۔ سینکڑوں مسلمانوں کو میں نے دیکھا ہے جو کھانے پینے کی دکانوں پر کام کرتے ہوئے بھی پیشاب کرنے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر کام پر لگ گئے اور بہت سوں کو میں نے ذاتی طور پر بہت بار شرم بھی دلائی۔ کوک کی بوتل جو میرے منہ کے ساتھ لگی ہوتی ہے کبھی میں نے سوچا کہ پچھلی بار یہ بوتل کسی غیر مسلم کے ہونٹوں پر اسی طرح فٹ ہوئی ہو گی جس طرح سے اب میرے ہونٹوں سے جڑی ہے؟۔ ہوٹل میں کھانا کھاتے ہر گاہک اپنا مذہب بتا کر نہیں کھاتا اور سبھی انہی برتنوں میں بار بار کھاتے ہیں۔ بہت سی ادویات غیر مسلم ممالک کی بنی ہیں جو اسی مشین پر بنتی ہیں جس پر حرام شراب سے ملی دوائیاں بھی بنتی ہیں اور غیر مسلمین کے ہاتھوں سے بنتی ہیں۔ میراثی ہماری ثقافتی میراث کا محافظ ہے۔ وہ ثقافت جس پر ہمارا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے وہ بڑی حد تک میراثی کی مرہون ہے اور یہ بھی اتنا ہی محترم مسلم ہے جتنا کہ میں خود کو سمجھتا ہوں۔ "کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوٰی کے" نیز سید المرسلیں اپنی بیٹی فاطمہ کو فرماتے ہیں کہ روز جزا میں تیرے کام نہ آ سکوں گا تو پھر ہم سید برادری کو کس بنیاد پر ایک علیحدہ مقام دیتے ہیں؟۔ جو متقی ہے وہ سردار (سید) ہے خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو اور جو اللہ کے احکام کا نافرمان ہے وہ کسی سرداری کا مستحق نہیں بھلے سید ہی کیوں نہ ہو۔ میرا ایک دوست شراب پی کر آئے اور اس کے منہ سے بدبو بھی آ رہی ہو تو میں اس کے ساتھ کھانا کھا سکتا ہوں کیوں کہ وہ مسلم ہے اور ایک غیر مسلم کے ساتھ محض شک کی بنیاد پر کھانے سے پرہیز کرنا چہ معنی دارد؟۔ہاں یقین ہو کہ برتن پلید ے یا کھانا حرام ہے تو کیا مسلم کیا غیر مسلم سب کے ساتھ انکار ہی ہو نا چاہئے۔
میرے بچپن میں ہمارے گھر میں صفائی والے کا برتن ہمای پالتو بلی کے برتن کے قریب الٹا کر کے رکھا ہوتا تھا ۔ لیکن میں نے اپنی والدہ کو مجبور کیا کہ یہ غلط ہے۔ رات کو برتن چولہے کے پاس پڑے رہ جاتے ہیں تو گاؤں کے آوارہ کتے یا بلیاں ان کو چاٹتی ہوں گی (اس وقت گاؤں میں گھروں کو مین گیٹ نہیں ہوا کرتے تھے اور کچن اوپن ائر ہوتے تھے)۔ اور ہم ان جانوروں کے جھوٹے برتنوں کو دھو کر استعمال کر لیتے ہیں لیکن ایک ابنِ آدم کے برتن کو اس لئے استعمال نہیں کرتے کہ اس کا مذہب ہم سے الگ ہے۔ یہ تو ظلم ہے ۔ دلیل قوی تھی گھر والوں کو ماننا پڑی۔ وہ دن اور آج کا ہمارے گھر میں صفائی کرنے والی غیر مسلم ماسی کو اسی کپ میں چائے ملتی ہے جس میں ہم پیتے ہیں اور انہی پلیٹوں میں کھانا ملتا ہے جن میں ہم کھاتے ہیں۔ کیا میرے ایمان میں کوئی فرق آ گیا یا میری مسلمانی کو کوئی ضعف لاحق ہو گیا؟۔ ہرگز نہیں....... دونوں ہی اللہ کی مہربانی سے صحیح سلامت ہیں!!!۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث ایسی ہیں جن میں آپ نے قریش خصوصاُ بنی ہاشم کو۔کچھ احادیث درج ہیں

سب آدمیوں سے بہتر عرب ہیں اور سب عرب سے بہتر قریش اور سب قریش سے بہتر بنی ہاشم۔(اس کو ویلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔)
اللہ عزوجل نے خلق بنا کر دو فریق کی،مجھے بہتر فریق میں رکھا،پھر انکے قبیلے جدا کیے،مجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا،پھر قبیلوں میں خاندان بنائے،مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا۔پس میرا قبیلہ تمہارے قبیلوں سے بہتر اور میرا گھر تمہارے گھروں سے بہتر(جامع ترمذی ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
آدمی اپنی جگہ چھوڑ کر کسی کیلیئے نہ اٹھے سوائے بنی ہاشم کے (اسے روایت کیا ہے خطیب نے ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (تاریخ بغداد))
قریش روزِ قیامت سب لوگوں سے آگے ہونگے اور اگر انکے کے اترا جانے کا خیال نہ ہوتا تو انہیں بتا دیتا کے اللہ کے یہاں کیا ثواب ہے۔(اس کو روایت کیا ہے ابن عدی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(الکامل لابن عدی))
کیا یہ خیال کرتے ہو کہ جب میں درہائے جنت کی زنجیر ہاتھ میں لوں اس وقت اولادِ مطلب پر کسی اور کو ترجیح دوں گا(اس کو روایت کیا ہے ابن النجار نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(کنزالعمال بحوالہ ابنالنجار عن ابن عباس ))
اور دوسری بات بڑی معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کے پاکستان میں زیادہ تر سید قیام پاکستان کے ساتھ ہی معرضِ وجود میں آئے(کیونکہ مسلمان سید کا احترام کرتے ہیں تو اس لحاظ سے سید بننا کافی فائدہ مند ہے)۔پاکستان میں اصل سید بھی ہیں لیکن وہ کم ہیں بہ نسبت بناوٹیوں کے
 

سید ذیشان

محفلین
یار ذیشان عرف ذیش۔۔۔ ۔۔۔ ۔!​
کیا آپ کو اہل کتاب اور مشرک میں فرق کا پتا ہے؟​
پات چیت کا ایک اصول یہ ہے آپ اپنے آپ کو عقل کل اور سامنے والے بندے کو کم عقل نا سمجھیں۔ یا کم از کم اتنا کم عقل نا سمجھیں کہ تیسری جماعت کے سوالات پوچھنا شروع کر دیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث ایسی ہیں جن میں آپ نے قریش خصوصاُ بنی ہاشم کو۔کچھ احادیث درج ہیں

سب آدمیوں سے بہتر عرب ہیں اور سب عرب سے بہتر قریش اور سب قریش سے بہتر بنی ہاشم۔(اس کو ویلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔)
اللہ عزوجل نے خلق بنا کر دو فریق کی،مجھے بہتر فریق میں رکھا،پھر انکے قبیلے جدا کیے،مجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا،پھر قبیلوں میں خاندان بنائے،مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا۔پس میرا قبیلہ تمہارے قبیلوں سے بہتر اور میرا گھر تمہارے گھروں سے بہتر(جامع ترمذی ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
آدمی اپنی جگہ چھوڑ کر کسی کیلیئے نہ اٹھے سوائے بنی ہاشم کے (اسے روایت کیا ہے خطیب نے ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (تاریخ بغداد))
قریش روزِ قیامت سب لوگوں سے آگے ہونگے اور اگر انکے کے اترا جانے کا خیال نہ ہوتا تو انہیں بتا دیتا کے اللہ کے یہاں کیا ثواب ہے۔(اس کو روایت کیا ہے ابن عدی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(الکامل لابن عدی))
کیا یہ خیال کرتے ہو کہ جب میں درہائے جنت کی زنجیر ہاتھ میں لوں اس وقت اولادِ مطلب پر کسی اور کو ترجیح دوں گا(اس کو روایت کیا ہے ابن النجار نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(کنزالعمال بحوالہ ابنالنجار عن ابن عباس ))
یہ سرخ کی گئی حدیث کیا انہوں(ص) نے ہی فرمائی ہے جو کہ فرماتے ہیں کہ "کسی عرب کو عجم اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے"؟

اور دوسری بات بڑی معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کے پاکستان میں زیادہ تر سید قیام پاکستان کے ساتھ ہی معرضِ وجود میں آئے(کیونکہ مسلمان سید کا احترام کرتے ہیں تو اس لحاظ سے سید بننا کافی فائدہ مند ہے)۔پاکستان میں اصل سید بھی ہیں لیکن وہ کم ہیں بہ نسبت بناوٹیوں کے

اس طرح کی غلیظ بات پر میں کوئی بھی کمینٹ نہیں کروں گا۔

بلکہ اپنے اخلاق کو اس مہینے میں بچانے کے لئے میں اس دھاگے کو خیرباد کہوں گا۔
 
بلکہ اپنے اخلاق کو اس مہینے میں بچانے کے لئے میں اس دھاگے کو خیرباد کہوں گا۔
بھائی دراصل یہ موضوع تھا ہی نہیں۔ ویسے آپ کا اقدام بھی خوش آئند ہے
اس کا موضوع تعلیم و تربیت اور تاریخ کو تڑور مڑور کر پیش کرنا یا اسلام کو بطور ایک عالم گیر ثقافت بتانا تھا۔ جبکہ دوسری ثقافتوں کا دائرہ کار محدود ہے۔​
بچوں کی تربیت میں جو کردار میڈیا اور بھارتی میڈیا کا ہے اس پر بحث تھی۔​
 
اس بات کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے مذہبی منافرت سے البتہ یہ کافی قریب ہے۔
مجھے تو اس میں مذہبی منافرت والی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ مثال کے طور پر اگر کوئی غیر مسلم شخص یہ کہے کہ" مسلمان شراب نہیں پیتے لیکن ہم پیتے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ ہم کو گھٹیا سمجھتے ہیں اور خود کو برتر اور زیادہ پاک و صاف۔ "۔۔۔تو کیا اسکی یہ منطق درست ہوگی؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پاکستان میں لوگ سڑکوں پر گندگی پھیلاتے ہیں اور جب بھی آپ سڑک پر سفر کرتے ہیں تو جب آبادی آنے لگتی ہے تو آپ کو گندگی کے ڈھیروں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آبادی آ گئی ہے۔ جب کہ پاکستان میں 97 فی صد مسلمان ہیں۔ جب کبھی یورپ یا امریکہ سے کوئی "کافر" آئے گا تو آپ کے خیال سے وہ یہ سمجھے گا کہ ہم کافر تو بہت گندے لوگ ہیں اور یہ مسلمان بہت ہی پاک صاف لوگ ہیں؟
جی نہیں ، اس کافر کو پوری آزادی ہے کہ وہ ہمارے شہروں اور گلیوں کی حالتِ زار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرے۔۔۔اسے "میرے" خیال کے مطابق سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مسلمان کیلئے جب صفائی نصف ایمان ہے تو پھر گلیوں محلوں کی ایسی حالت کا کوئی جواز نہیں بنتا، اور اس میں سراسر ہم مسلمانوں ہی کا قصور ہے کہ ہم نے صفائی کو نصف ایمان زبانی کلامی طور پر تو مان لیا لیکن اسکی حقیقت سے کافی دور رہے۔۔قصور کس کا ہوا؟۔۔مسلمان کا یا اسلام کا؟
ایک دو شخصی مثالوں سےیہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ غلیظ لوگ ہیں۔ یہ مثالیں تو یہی ثابت کرتی ہیں کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہم شاکی رہتے ہیں اور ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
اگر کوئی آپ سے آپ کے مذہب کی وجہ سے شاکی رہے اور آپ پر انسانی بنیادوں پر اعتماد نہ کرے تو ایسے انسان کو آپ کیا سمجھیں گے؟
ممعزرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ میں نے جو مثالیں پیش کی تھیں، وہ سنی سنائی باتیں نہیں تھیں بلکہ ایسے چشم دید واقعات تھے۔۔چنانچہ ان مثا لوں سے یہ ہرگز نہیں ثابت ہوتا کہ دوسرے مذاہب کے بعض لوگوں سے ہم ہمیشہ بلاوجہ ہی شاکی رہتے ہیں اور ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔۔۔
دوبارہ عرض کروں گا کہ
بات چونکہ مذہبی تناظر میں ہورہی ہے اسلئیے میں محض عقلی استدلال سےکی مدد سے کسی نتیجے پر پہنچنے کو ناکافی خیال کرتا ہوں۔ چونکہ اسکا اک گونہ تعلق مذہب سے ہے، اسلئیے مذہبی روایات اور احکامات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہمیں ہمارے مذہب کی روایات سے یہ علم ملتا ہے کہ:
1-بیشک مشرکین نجس ہیں (القرآن)
2- مسلمان کا جوٹھا آپ کھا یا پی سکتے ہیں لیکن کفار و مشرکین کے معاملے میں ایسا نہیں ہے (ماخوذ از حدیث)
تو ان باتوں کے ہوتے ہوئے ہم محض اپنے استدلال کو بنیاد بنا کر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔۔۔ ہاں اگر مذہب اور اسکے احکامات ہماری نظر میں اہمیت نہیں رکھتے تو پھر ہم کسی بھی رائے کو اختیار کرنے میں آزاد ہیں۔ لیکن اگر انکی کچھ بھی اہمیت ہے ہمارے نزدیک، تو کئی باتوں کو بغیر چون و چرا کئے بغیر تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ورنہ اگر آپ محض اپنی محدودعقل کو ہی معیار مقرر کریں گے تو قرآن و حدیث کی بیشمار باتوں کا انکار کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ :)
 

ساجد

محفلین
آئیے چند باتیں حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جانیں۔ امرتسرکے مشہور گوردوارے ہری مندر صاحب کا سنگِ بنیاد اسی ہستی نے گرو ارجن دیو کی دعوت پر رکھا تھا۔
چلئے اب ایک ہندو یعنی سرگنگا رام کے احوال پر بھی ایک نظر دوڑا لیتے ہیں۔ اور جب سرحد کے اس پار سے مذہبی منافرت کا آغاز ہوا تو اس عظیم انسان کے مجسمے کے ساتھ وہ سلوک ہوا جو اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا۔
صرف ایک سوال ؛ کیا حضرت میاں میر قرآنی تعلیمات سے بے بہرہ تھے جو کافروں کی عبادت گاہ کا سنگِ بنیاد رکھ گئے یا سر گنگا رام کی پہچان ایک ہندو کی نہ تھی؟۔
 
انکی دعوت پرعبادتگاہ کا سنگِ بنیاد رکھنا اور انکا جوٹھا کھانا، دو علیحدہ امور ہیں اور دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔۔۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اسلامی احکام کی بنیاد نفرت پر نہیں بلکہ حکمت پر ہے، چنانچہ اگر کسی مشرک کا جوٹھا کھانے سے منع کیا گیا ہے تو اسکی علت نفرت نہیں بلکہ کوئی حکمت ہی ہوگی، بعینہِ اسی طرح جیسے قرآن میں مشرکین کو مسجد الحرام میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے، تو اسکی بنیاد بھی نفرت نہیں بلکہ کوئی حکمت ہی ہوگی۔۔۔:)
 

ساجد

محفلین
انکی دعوت پرعبادتگاہ کا سنگِ بنیاد رکھنا اور انکا جوٹھا کھانا، دو علیحدہ امور ہیں اور دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اسلامی احکام کی بنیاد نفرت پر نہیں بلکہ حکمت پر ہے، چنانچہ اگر کسی مشرک کا جوٹھا کھانے سے منع کیا گیا ہے تو اسکی علت نفرت نہیں بلکہ کوئی حکمت ہی ہوگی، بعینہِ اسی طرح جیسے قرآن میں مشرکین کو مسجد الحرام میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے، تو اسکی بنیاد بھی نفرت نہیں بلکہ کوئی حکمت ہی ہوگی۔۔۔ :)
محمود بھائی میری تحریر آپ کی تحریر کا جواب نہیں تھی بلکہ ایک عمومی روئیے کی طرف اشارہ تھا جو ماضی میں برصغیر کے لوگوں کو باوجود مذہبی فرق کے پیار محبت سے جوڑ کر رکھتا تھا۔ پھر مذہب کو کمرشلائز کر دیا گیا اور معاشرتی مسائل بھی مذہبی نظر سے دیکھے جانے لگے۔
آج کل جس قسم کی بیماریوں کی تمام ممالک و معاشروں میں بہتات ہے اسکی بنا پر مسلم اور غیر مسلم کی تمیز کئے بغیر اپنا اپنا کپ اور گلاس الگ رکھنا ہی بہترہے۔ ہم پانچ چھ دوست کبھی اکٹھے کھائیں تو بھی الگ برتن میں کھانا نکالتے ہیں اور الگ گلاس میں پانی پیتے ہیں ؛ حالانکہ سبھی مسلم ہیں۔:)
 

عدیل منا

محفلین
ایام کالج کے دوران جب میں فرسٹ یر میں تھا تو ان دنوں نیا نیا شیعیت پر مائل ہوا تھا، لہذا مذہبی بنیاد پرستی کا نشہ چڑھا ہوا تھا۔ میرا بہت اچھا دوست 'جے کمار لاکھوانی' تھا جس کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ شیعہ مجتہدین کے مطابق کافر نجس ہیں (موجودہ مجتہدین اہلِ کتاب کو پاک قرار دینے لگے ہیں)، اور ان کے جسم کی رطوبت بھی نجس ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ کھانا کھانے کو ناجائز قرار دیا جاتا ہے۔ خیر، ہم سب دوست روزانہ کالج کے بعد کھانا کھانے جاتے تھے، سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ مگر میرے کٹر پنے کی حد یہ تھی کہ میں اس کی چھوئی ہوئی چیز کو کھانے سے انکار کر دیتا تھا، کوشش کرتا تھا کہ اس کی پلیٹ الگ ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتا تو میں اصرار کر کے الگ نکلوایا کرتا تھا۔ اب وہ بچہ تو ہے، یقینا سمجھ گیا ہوگا کہ اس کے ساتھ میں امتیازی سلوک برتتا ہوں اور برا بھی لگتا ہوگا، مگر وہ کیا کہہ سکتا تھا۔۔۔ خیر، اب جب میں نے عقیدوں وقیدوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اب اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت شرم محسوس کرتا ہوں۔ کیونکہ اگر یہی حرکت کوئی میرے ساتھ کر رہا ہوتا تو مجھے بالکل برداشت نہیں ہوتی۔ لیکن یہی رویہ میں نے اس کے ساتھ دو سال تک جاری رکھا، صرف اس کے ہندو ہونے کی بنا پر۔۔۔

اور جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ غیر مسلم پاکیزگی کا خیال نہیں رکھتے اور ان کے ساتھ کھانے میں ابکائی آتی ہے، انہیں میں بتاتا چلوں کہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا میرا ہندو دوست لاکھوں مسلمانوں سے زیادہ پاک صاف رہا کرتا تھا۔۔۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ ناپاک ہوتے ہیں صرف مذہبی تعصب پر مبنی بات ہے۔
یہ ہمارا نظریہ نہیں ہے۔ ہمیں اسلام نے یہی بتا یا ہے۔ اور ہمیں بحیثیت مسلمان اس پر یقین کرنا ہے۔ اگر ہم اس کی مخالفت کریں گے تو گویا اللہ کے کلام کی مخالفت ہوگی۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا وجہ ہے کہ سید صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی ہیں۔

کیا کسی نے عرب ممالک میں بھی کسی عربی سید سے ملاقات کی ہے؟
 

عدیل منا

محفلین
کیا وجہ ہے کہ سید صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی ہیں۔

کیا کسی نے عرب ممالک میں بھی کسی عربی سید سے ملاقات کی ہے؟
جی! میں نے سید سے ملاقات کی۔ بلکہ مجھے بھی اگر کوئی احتراماََ بلاتا ہے تو سید کہہ کر بلاتا ہے کیونکہ سید کا مطلب ہے "محترم"
ہمارے معاشرے میں سید ہونے کا جو تصور ہے وہ بہت غلط ہے۔ہمارا اعمال نامہ ہمارے حسب نسب کو دیکھ کر نہیں لکھا جا رہا۔
 

عدیل منا

محفلین
احباب جو ٖ قرآن میں سے(التوبہ۔28 "نجس" کا مطلب جسمانی ناپاکی لے رہے ہیں اور ان کے ساتھ کھانا پینا بھی حرام قرار دے رہے ہیں تو پھر وہ اس آیت کریمہ کا کیا جواز پیش کریں گے۔
اليوم أحل لكم الطيبات وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم (المائدۃ-5)
آج تمہارے لئے سب پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان گروہ سے ہوں۔یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے۔
لیکن یہ اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرمادیا گیا ہے کہ "تمہارے لئے چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔" یعنی اہل کتاب اگر پاکی و طہارت کے ان قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطء نظر سے ضروری ہیں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرے سابق باس کے نام جو ڈاک آتی تھی اس پر اس کا نام "السید / عونی عبد اللہ یونس المحترم" لکھا ہوتا تھا۔ جبکہ وہ فلسطینی عیسائی تھا۔ اس کے باپ کا نام عبد اللہ یونس تھا اور اس کے بیٹے کا نام بھی عبد اللہ عونی یونس ہے۔
 

عدیل منا

محفلین
میرے سابق باس کے نام جو ڈاک آتی تھی اس پر اس کا نام "السید / عونی عبد اللہ یونس المحترم" لکھا ہوتا تھا۔ جبکہ وہ فلسطینی عیسائی تھا۔ اس کے باپ کا نام عبد اللہ یونس تھا اور اس کے بیٹے کا نام بھی عبد اللہ عونی یونس ہے۔
شمشاد بھائی! ویسے برصغیر میں سید کہتے کس کو ہیں؟
 
یہ سرخ کی گئی حدیث کیا انہوں(ص) نے ہی فرمائی ہے جو کہ فرماتے ہیں کہ "کسی عرب کو عجم اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے"؟



اس طرح کی غلیظ بات پر میں کوئی بھی کمینٹ نہیں کروں گا۔

بلکہ اپنے اخلاق کو اس مہینے میں بچانے کے لئے میں اس دھاگے کو خیرباد کہوں گا۔
میں نے حقیقت بیان کی ہے اور یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ میں نے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے
 
Top