اسلامی عہد کے ہند میں فارسی زبان - اَمبِکا پرَساد واجپئی

حسان خان

لائبریرین
“جن مسلمان حملہ آوروں نے بھارت پر حملہ کر کے اُس پر سالہا سال تک حکومت کی تھی، وہ نہ عرب تھے اور نہ ایرانی، وہ ترک تھے۔ سکندر کے حملے سے پہلے کسی زمانے میں ایران کی سلطنت بہت وسیع تھی۔ بھارت کا سندھ بھی اُسی میں تھا۔ ایشیا میں وہ وسطی ایشیا تک پھیلا ہوا تھا اور یورپ میں بھی بحرِ ایجہ تک اُس کی سرحد تھی۔ لہٰذا جس طرح انگریزی آج بین الاقوامی زبان ہے، اُسی طرح اُس وقت فارسی تھی۔ ترک اپنی ترکی زبان کے بجائے اُسی بین الاقوامی زبان کے پیروکار تھے، جس طرح آج کانگریس کے رہنما انگریزی کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محمود غزنوی کی تعریف میں فردوسی نے جو شاہنامہ لکھا تھا، وہ ترکی کے بجائے فارسی ہی میں لکھا گیا تھا۔ لہٰذا ترکی زبان جہاں تھی، وہیں رہ گئی، اور فارسی حکومت کی زبان بن گئی۔ سبب یہ ہے کہ غیر ترقی یافتہ ترکی زبان حکومت کی زبان بننے کے لائق ویسے ہی نہیں سمجھی گئی جیسے آج ہندی نہیں سمجھی جاتی۔

اس طریق سے فارسی مسلم حکومت کی زبان بن گئی، خواہ دلی کے بادشاہ ترک تھے یا پٹھان یا پھر مغل۔ اس لیے سرکاری نوکریاں پانے کے لیے ہندوؤں میں کایستھوں نے پہلے پہل فارسی پڑھی اور سکندر لودی کے زمانے میں تقریباً ۱۵۲۰ء کے آس پاس وہ شاہی دفتروں میں داخل ہونے لگے۔ پھر تو کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ملک کے لوگ کون سی زبان بولتے ہیں۔ ہاں، مال گزاری کے کاغذات اور دستور العمل ہندی ہی میں رہے۔ یہ صورتِ حال اکبری عہدِ حکومت کے نصفِ اول تک رہی۔ بعد ازاں، ڈاکٹر بلاکمین کے مطابق، اکبر کے وزیرِ مالیات ٹوڈرمل کے حکم سے یہ دستور العمل بھی فارسی میں کر دیے گئے۔ اس طرح ملک کی زبان اور حکومت کی زبان کے مابین کوئی تعلق نہیں رہا۔ پھر تو مغلوں کی عملداری جہاں کہیں رہی، وہاں فارسی ہی کا بول بالا ہو گیا۔”

(اَمبِکا پرَساد واجپئی کے مضمون 'سَرَسْوَتی کے آوِربھاو کے سمے ہندی کی اَوَسْتھا' سے اقتباس اور ترجمہ)
 
Top