اسلامک کوئز

شمشاد

لائبریرین
اگر ایسی بات ہے تو پھر بھیڑ کو ذبح کرنے والوں کو کون مارے گا؟ اور اعلان کون کرے گا؟
 

راجہ صاحب

محفلین
ویسے میں نے دونوں حوالے پڑھے ہیں

شمشاد بھائی والا تو ابھی پچھلے دنوں ہی زیر مطالعہ تھا
میں دوبارہ ڈھونڈ کر پوسٹ کرتا ہوں
 

فہیم

لائبریرین
1: محرم
2: سفر
3: ربیع الاول
4: ربیع الاثانی
5: جمادی الاول
6: جمادی الاثانی
7: رجب
8: شعبان
9: رمضان
10: شوال
11: ذی العقد
12: ذی الحج
 

راجہ صاحب

محفلین
اگر ایسی بات ہے تو پھر بھیڑ کو ذبح کرنے والوں کو کون مارے گا؟ اور اعلان کون کرے گا؟

یہ سب غالباً اس وقت ہو گا جب مخلوقات کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا :rolleyes:

کبھی نا مرنے کے لےلئے پھر ان کے سامنے موت کو بھیڑ کی شکل میں ذبح کیا جائے گا
 

سارا

محفلین
میں نے نوح علیہ السلام کا پورا قصہ پڑھا ہوا ہے قصص الانبیا سے۔۔اس میں بیٹوں کے نام تو تھے لیکن بیوی کا نام نہیں لکھا تھا۔۔۔:rolleyes:
 
غالباً "واعلہ" نام تھا ایک بیوی کا جو کہ ایمان نہیں لائی تھیں اور ایک بیوی کا نام "نامہ" پڑھا ہے جوکہ غالباً بائبل کی روایات میں کہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب۔
 

فہیم

لائبریرین
میں نے حضرت نوح‌علیہ السلام کی بیوی کا نام جو ایمان نہیں لائیں تھیں "واعلہ" پڑھا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے میں کتنی مدت لگی اور اس کشتی کی لمبائی چوڑائی کتنی تھی؟
 

راجہ صاحب

محفلین
چند دن پہلے اس دھاگے میں میں نے ایک سوال پوسٹ کیا تھا
جس کے جواب میں کچھ شک و شبہ کی گنجائش تھی اسی موضوع پر ایک کتاب نظر سے گزری اس کا اقتباس یہاں پیش کر رہا ہوں

سوال یہ تھا ۔
چلیں اب میں سوال کرتا ہوں
اس کائنات میں سب سے آخر میں‌کسے موت آئے گی ؟


میرا تو خیال تھا کہ آخری موت تو "موت" ہی کی ہوگی ۔ کہیں پڑھا تھا کہ موت کو بھیڑ کی شکل میں لایا جائے گا اور اسے ذبح کرنے کے بعد اعلان کیا جائے گا کہ آج کے بعد کسی پر موت نہیں آئے گی۔ واللہ اعلم

موت کو ذبح کردینے والی بات ہی درست ہے

شکریہ محمود صاحب۔ اگر آپ کو حوالہ یاد ہو تو پلیز یہاں پوسٹ کردیں تاکہ ریکارڈ درست رہے

بیہقی و فریابی نے بروایت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور ﷺ سے ایک حدیث میں تفصیلاََ ان کی کیفیت موت روایت کی ، کہ جب سب فنا ہوں گے جبریل و مکلائیل و ملک الموت باقی رہیں گے ، کہ جب رب تبارک تعالٰی کہ دانا تر ہے ارشاد فرمائے گا ، اے ملک الموت اب کون باقی ہے ۔

ملک الموت عرض کریں گے : بقی و جھک الباقی الدائم و عبدک و جبریل و میکائیل و ملک الموت ۔
ترجمہ : باقی ہے تیرا وجہ کریم کہ ہمیشہ رہے گا اور تیرے بندے جبریل و میکائل و ملک الموت۔

حکم ہو گا ، تغرف نفس میکائیل ’’ میکائیل کی روح قبض کر ‘‘ ۔ وہ عظیم پہاڑ کی طرح گریں گے ۔ پھر اللہ سبحان و تعالٰی فرمائے گا اور وہ خوب جانتا ہے ، اب کون باقی ہے ؟

عرض کریں گے : ’’ وجھک الباقی الکریم و عبدک جبریل و ملک الموت ‘‘ ۔
اللہ سبحان و تعالٰی فرمائیں گے ، ’’ تغرف نفس جبریل ‘‘ جبریل کی روح قبض کر ۔ وہ اپنے پر پھٹپھٹاتے ہوئے سجدے میں گر جائیں گے ، پھر اللہ سبحان و تعالٰی فرمائیں گے : اور وہ خوب جانتاہے ، اب کون رہا ؟

ملک الموت عرض کریں گے : ’’ وجھک الکریم و عبد ک ملک الموت و ھو میت ‘‘۔ تیرا وجود ہمیشہ قائم رہے اور تیرا بندہ ملک الموت کہ وہ بھی مر جائےگا ۔
اللہ سبحان و تعالٰی فرمائیں گے ۔’’ مُت‘‘۔ مر جا۔وہ بھی مر جائیں گے
پھر اللہ سبحان و تعالٰی فرمائیں گے : ابتداء میں میں نے خلق بنائی اور میں پھر اسے زندہ کروں گا ، کہاں ہیں سلاطین مغرور جو ملک کا دعویٰ کرتے تھے کوئی جواب دینے والا نا ہو گا ۔ پھر اللہ سبحان و تعالٰی خود ہی فرمائیں گے ’’ للہ الواحد القھار‘‘ آج بادشاہی ہے اللہ غالب کی ۔ ’’ملفق منھما و عند الفریانی ان اخرھم موتا جبرئیل ۔

وللہ تعالٰی علم۔

بحوالہ :۔
تحفظ عقائد اہلسنت
از : مولانا علامہ محمد ظہیر الدین قادری
صفحہ نمبر 338
ناشر : فرید بک سٹال ۳۸ ۔اردو بازار لاہور
 

راجہ صاحب

محفلین
حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے میں کتنی مدت لگی اور اس کشتی کی لمبائی چوڑائی کتنی تھی؟

کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ چوڑائی پچاس ہاتھ بلندی تیس ہاتھ تھی۔ کشتی میں تین طبقے سوار تھے۔ ایک طبقے میں چالیس مومنین اور ان کی بیویاں دوسرے طبقے میں پرندے تیسرے میں چوپائے اور وحوش جوڑا جوڑا تھے۔

بحوالہ :
حکایات کا انسائیکلو پیڈیا
 

شمشاد

لائبریرین
کشتی بنانے کے سلسلے میں بائبل نے یہ تفصیل بیان کی ہے۔

"پھر لکڑی کی ایک کشتی اپنے لیے بنا۔ اس کشتی میں کوٹھریاں تیار کرنا۔ اس کے اندر اور باہر رال لگانا اور ایسا کرنا کہ کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ، چوڑائی پچاس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ اور اس کشتی میں ایک روشن دان بنانا اور اوپر سے ہاتھ بھر چھوڑ کر اسے ختم کر دینا اور اس کشتی کا دروازہ اس کے پہلو میں رکھنا اور اس میں تین درجے بنانا نچلا دوسرا اور تیسرا اور جانوروں میں ہر قسم کے دو دو اپنی کشتی میں لے لینا، وہ نر اور مادہ ہوں اور ہر پرندے کی ہر قسم میں سے اور چرندوں کی قسم میں سے اور زمین پر رینگنے والوں کی ہر قسم میں سے دو دو تیرے پاس آئیں تا کہ وہ زندہ بچیں اور تو ہر طرح کے کھانے کی چیزیں لے کر اپنے پاس جمع کر لے۔"

جب حضرت نوح علیہ السلام کی بددعا قبول ہو گئی اور حکم خداوندی آیا کہ کشتی بناؤ تو بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ نے ان کو یہ حکم بھی دیا کہ فلاں درخت اگاؤ جس سے کشتی بنائی جائے گی تو حضرت نوح علیہ السلام نے وہ درخت اگایا اور سو سال تک اس کا انتظار کیا پھر اس کوٹ چھیل کر ہموار کیا۔ اس میں ایک قول کے مطابق سو سال اور دوسرے قول کے مطابق 40 سال کا عرصہ لگ گیا۔ محمد بن اسحٰق، حضرت ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لکڑی ساگوان کی تھی اور دوسرے قول کے مطابق وہ لکڑی صنوبر کی تھی اور دوسرا قول تورات کے مطابق ہے۔

آخر وہ دن بھی آ گیا جب یہ کشتی تیار ہو گئی۔ مؤرخین کی اکثریت نے اس کشتی کا طول ایک ہزار گز اور عرض چار سو گز لکھا ہے۔ کشتی کے نچلے حصے میں جانوروں چوپایوں اور درندوں کو باندھنے کا بندوبست تھا، درمیانے حصے میں وحوش و طیور کے رہنے کی جگہ اور سب سے اوپر کے حصے میں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھ تھے۔
 
Top