اسرائیل کی ناجائز پیدائش، پس پردہ تاریخی حقائق...آئین نو…ڈاکٹر مجاہد منصوری

اسرائیل کی ناجائز پیدائش، پس پردہ تاریخی حقائق...آئین نو…ڈاکٹر مجاہد منصوری

SMS: #MMC (space) message & send to 8001
drmansoori@hotmail.com
اسرائیل غزہ کے محبوس فلسطینیوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑ رہا ہے، اس نے عالمی برادری میں مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کا تجسس تو پیدا کر دیا ہے۔ خصوصاً اس کی نئی نسل میں اسرائیلی بربریت کے جاری برہنہ مظاہرے سے بلند درجے کا یہ تجسس پیدا ہونا بھی قدرتی ہے کہ انسانیت، آزادی، بنیادی انسانی حقوق، حق خود ارادیت اور جغرافیائی سرحدوں کے احترام کے علمبردار امریکہ اور یورپی یونین انسانیت کشاسرائیلی دہشت گردی پر مجرمانہ حد تک کیسے خاموش ہیں بلکہ اسرائیل کی پشت پناہی بھی کیوں کر رہے ہیں؟ حتیٰ کہ حماس کی طرف سے ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق وقفوں سے راکٹ لانچر چلانے کی مذمت کرنے والے بانکی مون کی زبان کو بھی گنگ لگ گیا۔ آخر کیوں؟ سعودی فرمانبروا شاہ عبداللہ نے عالمی برادری کی خاموشی کو جنگی جرم قرار دے دیا ہے۔ مسلمانوں میں جن کا قرآنی مطالعہ بنیادی نوعیت کا بھی ہے، یا وہ ایسے ماحول میں رہے جو دین اسلام کے دشمنوں سے آگاہی کیلئے ذریعہ آگاہی بنا، ان کا تجسس کم درجے کا ہے۔ لیکن سوال انکے ذہن میں بھی اٹھ رہے ہیں غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسکے بعد اب مسئلہ فلسطین ’’عرب اسرائیل تنازعہ ‘‘ ہی نہیں رہ گیا نہ یہ اب فقط دنیائے اسلام کیخلاف گہری صہیونی سازش (قیام اسرائیل) کے پھر واضح کرنے کی ضرورت تک محدود رہے گا۔ مسئلہ فلسطین، امن عالم کا انتہائی سنجیدہ سوال تو چھ عشروں سے بنا ہوا ہے۔ اب اسرائیلی دہشت گرد صہیونی حکومت کی غزہ میں جاری برہنہ بربریت نے اسے انسانی ارتقائی عمل کی بقاء کے سوال میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب تک تو گہری اور شیطانی روپ کی صہیونی سازشوں اور ان کی پشت پناہی کے حقائق کو آشکار کرنا خود امریکہ سمیت کسی کیلئے ممکن ہی نہ تھا۔ اب اسرائیل اور اسکی پشت پناہی پر مجبور طاقتوں کے شیطانی کردار نے خود وہ صورت تشکیل دے دی کہ حقائق بھی آشکار ہوں اور صہیونیوں کی ہزاروں سال سے قائم اپنے باطل کو چھپانے کی صلاحیت کو برقرار رکھنا بھی چیلنج بن جائے گا تاہم صہیونی جکڑ بندی سے نجات، پوری انسانیت کے لئے ایک کار محال کے طور پر نہ جانے کب اور کیسے ہو گی؟ غزہ پر جدید چنگیزیت کا مظاہرہ، اس سوال کے جواب کی تلاش پر عالمی برادری کا نہیں تو عالم اسلام کا فوکس کرا سکتا ہے۔ فوری تقاضا تو یہ ہے کہ اسرائیل کی ناجائز پیدائش کو عالمی برادری خصوصاً اس کی نئی نسل پر آشکار کیا جائے۔ یہودی عقیدے کے مطابق خدا نے حضرت ابراہیم ؑ (جنہیں مسلمانوں کی طرح وہ بھی اپنا جد امجد مانتے ہیں) کو بشارت دی تھی کہ وہ کنعان (سرزمین فلسطین) میں جا کر آباد ہو جائیں اسی لئے وہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کو Promised landبھی کہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اولاد کے لئے انہیں کرہ ارض پر عطا کی۔ حضرت عیسیٰ کے 70سال بعد (تقریباً 1900سال قبل) رومیوںنےیروشلم (بیت المقدس) پر حملے کئے اور یہاں آباد یہودیوں کا ٹمپل (ہیکل سلیمانی) منہدم کر دیا، تاہم اس کی مغربی دیوار برقرار رکھی فلسطین تقریباً ظہور اسلام تک رومیوں کے زیر تسلط رہا۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ آج جس قدیم دیوار گریا کے نیچے کھڑے ہوکر ہل ہل کر وہ توریت پڑھتے ہوئے آہ و زاری کرتے ہیں، وہ ہیکل سلیمانی کی باقیات ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ہیکل سلیمانی میں وہ گولڈن باکس دفن تھا جس میں توریت کا اصلی نسخہ موجود ہے کہ بعد میں بائبل کی طرح یہودیوں نے بھی توریت میں مرضی کی ترامیم کر کے اسے مسخ کر دیا جس سے عیسائیوں کی طرح ان کے بھی دو فرقے قدیم یہودی اور صہیونی (Zionist)قائم ہوئے۔ فلسطین رومیوں کے قبضے میں آیا تو یہودی فلسطین سے نکل کرتتربتر ہو گئے تاہم انہوں نے یہ امید باندھ لی کہ وہ ایک روز واپس اپنی Promised Land کو لوٹیں گے، لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش اور رفع الی اللہ سے ظہور اسلام تک (یعنی تقریباً 600سال بعد تک) فلسطین میں یہودی اقلیت کم ہی ہوتی گئی، حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے قبل بھی یہودی واضح طور پر اقلیت میں ہی تھے، تاہم عیسائیت کے ظہور پر اُن کی حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں مسیح کا درجہ حاصل کرنے والے اللہ کے نبی کو عیسائی عقیدے کے مطابق صلیب تک پہنچانے میں ان یہودیوں کا کردار بہت واضح ہے، جہاں سے عیسائیت اور یہودیوں کی دشمنی کی بنیاد رکھی گئی، اس کے بعد عیسائیوں نے ہر موقع ملنے پر جو مظالم ان کی آنے والی نسلوں پر توڑے ہیں، وہ ایک الگ اور مصدقہ داستان ہے جس کی خود یہودی اور عیسائی مورخین اور مذہبی رہنما تصدیق کرتے ہیں۔ ظہور اسلام کے بعد خود فلسطینی اور اس کے گردونواح سے فلسطین پہنچنے والے جو ہم زبان عرب فلسطین آ رہے تھے، وہ تیزی سے مسلمان ہونا شروع ہو گئے، یہ نئی تبدیلی مسلمانوں اور عیسائیوں میں اختلاف کا باعث بننے لگی اور نوبت صلیبی جنگوں تک پہنچی جس میں آخری فتح صلاح الدین ایوبی کی کمان میں مسلمانوں کو ہوئی۔ واضح رہے کہ ظہور اسلام کے بعد بیت المقدس منجانب اللہ مسلمانوں کا قبلہ اول قرار دیا گیا جہاں سے نبی کریم ﷺ نے معراج کا سفر کیا۔ یوں اس شہر کی حیثیت مسلمانوں کے لئے بے پناہ مقدس ہوئی جبکہ خدا کے باغی اور توریت کو اپنے مطابق ڈھال کر خود ہی دنیا کی سب سے برتر نسل بننے والے یہودی، حضرت عیسیٰ ؑ کو (عیسائی عقیدے کے مطابق) مصلوب کرنے کے بعد رومیوں کے حملے میں تباہ و برباد ہوکر ادھر ادھر بھاگ گئے۔کبھی سنا نہ موضوع پر محدود مطالعے میں یہ نکتہ زیر مطالعہ آیا تاہم خاکسار کا تحقیقی مفروضہ ہے کہ وہ عیسائی عقائد کی خود سے تشریح کرنے والے عیسائیوں نے لاشریک رب العالمین کے ساتھ شرک (کہ حضرت عیسیٰ معاذ اللہ خدا کے بیٹے ہیں) یہودیوں کے اس من گھڑت دعوے کا ردعمل تھا کہ وہ ’’سب سے برتر نسل اور خدا کے سب سے لاڈلے ہیں‘‘ گویا عیسائیت کے موجودہ گمراہ کن عقیدے کے پس پردہ یہودیوں کا گمراہ کن متذکرہ دعویٰ ہے۔ مذہبی سکالرز کو اس موضوع کو عام کرنا چاہئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت عمرؓ کے فلسطین کو فتح کرنے سے لے کر سلطان صلاح الدین کی فیصلہ کن فتح عظیم تک اور اس کے بعد فلسطین پر مسلمانوں کا کنٹرول قائم رہنے تک، اسلامی تعلیمات کے مطابق عیسائیوں اور یہودیوں سے بہترین سلوک کیا گیا اور انہیں اپنے عقائد پر قائم رہنے کی آزادی رہی۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ترک مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کے قیام سے قبل سپین میں مسلمانوں کا 800سالہ دور آج بھی یہودی مورخین محققین اور مذہبی اسکالروں کی متفقہ رائے کے مطابق یہودیوں کی 4000سالہ تاریخ کا سب سے سنہری دور رہے، جس میں انہیں مذہب سمیت ہر طرح کی آزادی اور تحفظ حاصل ہوا وگرنہ وہ ہر دور میں اور ہر جگہ غیر محفوظ اور دبے ہوئے ہی رہے۔
 
جب بھی اسرائیل ، فلسطینیوں پر ظلم کرتا ہے دنیا کو یاد آجاتا ہے کہ اسرائیل دراصل ریاست ہی ناجائز ہے۔
اگر اسرائیل فلسطین پر ایسے ظلم نا کرتا ہوتا تو شاید آہستہ آہستہ دنیا اسرائیلی ریاست کو تسلیم کر لیتی۔
 
حماس کو جنگ بندی کیلئے تیار رہنا چاہئے بھارت نے بھی ز ہر اُگل دیا، لوک سبھا میں مظالم پر بحث کی قرارداد مسترد

نئی دہلی (این این آئی) بھارت نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی مذمت سے انکارکرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے فریقین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ بھارتی میڈیاکے مطابق لوک سبھا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے غزہ کی صورتحال پر ایک قرارداد منظور کرنے کیلئے حکومت سے بحث کا مطالبہ کیا جس پر حکومت نے موقف اختیارکیاکہ غزہ کی صورتحال پر بحث ملک کے مفاد میں نہیں ہے تاہم بعدازاں سپیکر کی مداخلت سے ایوان میں بحث شروع ہوگئی لیکن حکومت نے کسی طرح کی قرارداد پاس کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہاکہ حماس کو جنگ بندی کیلئے تیار ہونا چاہئے۔ اس موقع پر بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے کہاکہ انکی حکومت فلسطینی کاز کی حمایت کرتی ہے اور اسرائیل بھارت کا ایک قریبی دوست ہے۔
 

زیک

مسافر
کافی ملغوبہ قسم کا آرٹیکل ہے جس میں تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے
 

محمد اسلم

محفلین
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2014/08/140803_baat_se_baat_rk.shtml

تین روز قبل اسرائیل کے بقول سیکنڈ لیفٹننٹ ہادار گولڈن کو حماس کے چھاپہ مار 72 گھنٹے کی جنگ بندی شروع ہونے کے فوراً بعد اغوا کر کے لے گئے۔ لہٰذا اسرائیل کو جنگ بندی کے صرف چار گھنٹے بعد مجبوراً پھر سے بمباری کرنی پڑی اور 100 کے لگ بھگ مزید فلسطینی بادلِ نخواستہ ہلاک ہوگئے۔باقی دنیا نے حماس کی جانب سے اغوا کی پرزور تردید کے باوجود ہادار گولڈن کے دن دہاڑے اغوا کے اسرائیلی دعوے پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے کہا کہ یہ واردات اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس کو جنگ بندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون، امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور صدر اوباما نے ہادار گولڈن کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی گھٹیا حرکتوں سے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اسی بارے میں
ہائے بے چارہ ہادار گولڈن !! ابھی23 برس کا ہی تو سن تھا۔چند ہی ہفتے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔اس کے دادا اور دادی نازیوں کے گیس چیمبر میں دھکیلے جانے سے بال بال بچے اور پھر دونوں نے بطور شکرانہ فلسطین میں آ کر اسرائیل کی جنگِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔

بہیمانہ فعل
غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے والد سمبا اور والدہ ہیڈوا کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب پروفیسر سمبا تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ ِ یہود کے استاد ہیں۔ہادار کا جڑواں بھائی زور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ جبکہ ایک بھائی مینہم اور بہن ایلات زیرِ تعلیم ہیں۔ایسے پڑھے لکھے محبِ وطن امن پسند خاندان کے لیے اپنے جگر گوشے کے اغوا اور پھر اس کی ہلاکت دونوں کی نیتن یاہو حکومت کی جانب سے تصدیق کسی قیامت سے کم نہیں۔

چنانچہ جس طرح اسرائیل کی بری و فضائی افواج نے ہادار کے مبینہ اغوا کے غم میں جنگ بندی کی بے فکری میں ضروریاتِ زندگی خریدنے والے اہلِ غزہ کو نشانہ بنایا اسی طرح ہادار کی ہلاکت کی تصدیق کے سوگ میں ایک اور اسکول پر حملہ کردیا جس میں اقوامِ متحدہ کے تحفظ میں بہت سے فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔

اب آپ کہیں گے کہ مجھے 1700 کے لگ بھگ فلسطینیوں کی لاشیں اور 9000 زخمی اور پانچ لاکھ دربدر اہلِ غزہ اور اقوامِ متحدہ کے جھنڈے والےدفاتر اور سکولوں میں پناہ گزین ڈیڑھ لاکھ لوگ اور ان عمارتوں پر ہونے والی بمباری کیوں نظر نہیں آتی۔ مجھے غزہ کی مسلسل کئی برس کی بحری ، فضائی اور بری ناکہ بندی کیوں دکھائی نہیں دیتی۔میں صرف لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے دکھ میں کیوں مرا جا رہا ہوں۔

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر
140803092522_gaza_rafah_un_school_304x171_afp_nocredit.jpg

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔

مجھے ٹی وی چینلز پر اقوامِ متحدہ کا پھوٹ پھوٹ کر رونے والا اہل کار کرس گنیس کیوں نظر نہیں آتا۔میں ان چار بچوں کا ذکر کیوں نہیں کرتا جو ساحل پر کھیلتے ہوئے کسی اسرائیلی جنگی کشتی کے گولے کا نشانہ بن گئے۔میں کریم ابو زید کی بات کیوں نہیں کرتا جو غزہ کی موجودہ جنگ شروع ہونے سے سولہ روز پہلے پیدا ہوا ۔تئیس روز نہ سمجھ میں آنے والے دھماکوں سے ڈر کر ماں کی چھاتی سے چمٹا رہا اور اب سے تین روز پہلے اپنی عمر کے 40 دن پورے کرکے جسم یہیں پے چھوڑ گیا۔

ایسے سوالات مجھ سے نہیں ان تین 395 امریکی سینیٹروں سے پوچھئے جو پانچ ہفتے کی چھٹی پر جانے سے پہلے اسرائیل کے ’راکٹ روک‘ آئرن ڈوم سسٹم کی مزید ترقی کے لیے دو 225 ملین ڈالر کا بجٹ منظور کرگئے۔خادمِ حرمین و شریفین شاہ عبداللہ سے پوچھئے جنھیں تین ہفتے بعد پتہ چلا کہ غزہ میں کچھ لوگ مرگئے ہیں ۔مصر کے جنرل عبدالفتح السسی اور امیرِ قطر حماد الخلیفہ الثانی سے پوچھئے جو جارح حماس اور بے چارے اسرائیل کے درمیان بروکری کی غیر مشروط کوشش کررہے ہیں۔اردن کے بادشاہ سے پوچھئے جو اب تک اعلانِ مذمت کے لیے موزوں الفاظ کی تلاش میں ہیں۔اور محمود عباس سے پوچھئے جو ہر راہگیر کے سامنے روہانسے ہوئے جا رہے ہیں کہ ’بھائی صاحب میں مانگنے والا نہیں ہوں بس ایک منٹ میری بات سن لیں۔‘

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔
 
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2014/08/140803_baat_se_baat_rk.shtml

تین روز قبل اسرائیل کے بقول سیکنڈ لیفٹننٹ ہادار گولڈن کو حماس کے چھاپہ مار 72 گھنٹے کی جنگ بندی شروع ہونے کے فوراً بعد اغوا کر کے لے گئے۔ لہٰذا اسرائیل کو جنگ بندی کے صرف چار گھنٹے بعد مجبوراً پھر سے بمباری کرنی پڑی اور 100 کے لگ بھگ مزید فلسطینی بادلِ نخواستہ ہلاک ہوگئے۔باقی دنیا نے حماس کی جانب سے اغوا کی پرزور تردید کے باوجود ہادار گولڈن کے دن دہاڑے اغوا کے اسرائیلی دعوے پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے کہا کہ یہ واردات اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس کو جنگ بندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون، امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور صدر اوباما نے ہادار گولڈن کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی گھٹیا حرکتوں سے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اسی بارے میں
ہائے بے چارہ ہادار گولڈن !! ابھی23 برس کا ہی تو سن تھا۔چند ہی ہفتے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔اس کے دادا اور دادی نازیوں کے گیس چیمبر میں دھکیلے جانے سے بال بال بچے اور پھر دونوں نے بطور شکرانہ فلسطین میں آ کر اسرائیل کی جنگِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔

بہیمانہ فعل
غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے والد سمبا اور والدہ ہیڈوا کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب پروفیسر سمبا تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ ِ یہود کے استاد ہیں۔ہادار کا جڑواں بھائی زور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ جبکہ ایک بھائی مینہم اور بہن ایلات زیرِ تعلیم ہیں۔ایسے پڑھے لکھے محبِ وطن امن پسند خاندان کے لیے اپنے جگر گوشے کے اغوا اور پھر اس کی ہلاکت دونوں کی نیتن یاہو حکومت کی جانب سے تصدیق کسی قیامت سے کم نہیں۔

چنانچہ جس طرح اسرائیل کی بری و فضائی افواج نے ہادار کے مبینہ اغوا کے غم میں جنگ بندی کی بے فکری میں ضروریاتِ زندگی خریدنے والے اہلِ غزہ کو نشانہ بنایا اسی طرح ہادار کی ہلاکت کی تصدیق کے سوگ میں ایک اور اسکول پر حملہ کردیا جس میں اقوامِ متحدہ کے تحفظ میں بہت سے فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔

اب آپ کہیں گے کہ مجھے 1700 کے لگ بھگ فلسطینیوں کی لاشیں اور 9000 زخمی اور پانچ لاکھ دربدر اہلِ غزہ اور اقوامِ متحدہ کے جھنڈے والےدفاتر اور سکولوں میں پناہ گزین ڈیڑھ لاکھ لوگ اور ان عمارتوں پر ہونے والی بمباری کیوں نظر نہیں آتی۔ مجھے غزہ کی مسلسل کئی برس کی بحری ، فضائی اور بری ناکہ بندی کیوں دکھائی نہیں دیتی۔میں صرف لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے دکھ میں کیوں مرا جا رہا ہوں۔

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر
140803092522_gaza_rafah_un_school_304x171_afp_nocredit.jpg

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔

مجھے ٹی وی چینلز پر اقوامِ متحدہ کا پھوٹ پھوٹ کر رونے والا اہل کار کرس گنیس کیوں نظر نہیں آتا۔میں ان چار بچوں کا ذکر کیوں نہیں کرتا جو ساحل پر کھیلتے ہوئے کسی اسرائیلی جنگی کشتی کے گولے کا نشانہ بن گئے۔میں کریم ابو زید کی بات کیوں نہیں کرتا جو غزہ کی موجودہ جنگ شروع ہونے سے سولہ روز پہلے پیدا ہوا ۔تئیس روز نہ سمجھ میں آنے والے دھماکوں سے ڈر کر ماں کی چھاتی سے چمٹا رہا اور اب سے تین روز پہلے اپنی عمر کے 40 دن پورے کرکے جسم یہیں پے چھوڑ گیا۔

ایسے سوالات مجھ سے نہیں ان تین 395 امریکی سینیٹروں سے پوچھئے جو پانچ ہفتے کی چھٹی پر جانے سے پہلے اسرائیل کے ’راکٹ روک‘ آئرن ڈوم سسٹم کی مزید ترقی کے لیے دو 225 ملین ڈالر کا بجٹ منظور کرگئے۔خادمِ حرمین و شریفین شاہ عبداللہ سے پوچھئے جنھیں تین ہفتے بعد پتہ چلا کہ غزہ میں کچھ لوگ مرگئے ہیں ۔مصر کے جنرل عبدالفتح السسی اور امیرِ قطر حماد الخلیفہ الثانی سے پوچھئے جو جارح حماس اور بے چارے اسرائیل کے درمیان بروکری کی غیر مشروط کوشش کررہے ہیں۔اردن کے بادشاہ سے پوچھئے جو اب تک اعلانِ مذمت کے لیے موزوں الفاظ کی تلاش میں ہیں۔اور محمود عباس سے پوچھئے جو ہر راہگیر کے سامنے روہانسے ہوئے جا رہے ہیں کہ ’بھائی صاحب میں مانگنے والا نہیں ہوں بس ایک منٹ میری بات سن لیں۔‘

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔

برادر او ائی سی کی صدارت پاکستان کے پاس ہے
 
دوسرے یہ اچھی خبر نہیں ہے
امریکہ اور یورپ اور خود اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ فلسطینی فلسطین چھوڑ کر منتشر ہو کر دنیا میں پناہ حاصل کرلیں۔ تاکہ ان کے رائیٹ اف ریٹرن کا کوئی مسئلہ ہی نہ رہے۔
یہ تجویز دوستی کی اڑ میں چھرا گھونپنے والی بات ہے
 
ویسے پیدائش ناجائر تھی پر موت جائز ہوگی۔

فلطسین کے مسئلہ میں مسلم نوجوان کے لیے پیغام ہے۔ خصوصا وہ مسلمان جو کسی طاقت کے زیر اثر رہ رہے ہیں۔ جیسے کشمیر، انڈیا، افغانستان وغیرہ
۱۔ اگر کوئی قوم ہار نہ مانے تو اسے ہرا نہیں سکتے
۲۔ جدید ٹیکنالوجی انسانی عزم کا متبادل نہیں ہے
۳۔ قوم کی کمزوری ٹیکنالوجی کی کمی نہیں بلکہ اخلاقی کمزوری میں ہوتی ہے
۴۔ قوم کو اپنی مدد اپ کرنی چاہیے۔ دوسروں کی امداد وقتی ہوتی ہے اور ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں
 

زیک

مسافر
پلیز،،، آپ تھوڑی تکلیف کریں،،، اور اصل بات بتائیں۔
ببلیکل سکالرز کی کوئی اچھی کتب پڑھیں۔ رومن ہسٹری پڑھیں۔ پہلی جنگ عظیم پر کوئی اچھی کتاب پڑھیں۔ پھر انیسویں اور بیسویں صدی میں اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ پر ایک آدھ کتب کا مطالعہ کر لیں۔ ساتھ ساتھ یورپ میں یہودیوں کی تاریخ اور عربوں کی تاریخ پر بھی کچھ پڑھ لیں تو شاید کچھ اندازہ لگا سکیں کہ آرٹیکل میں مسئلہ کیا ہے۔
 

محمد اسلم

محفلین
ببلیکل سکالرز کی کوئی اچھی کتب پڑھیں۔ رومن ہسٹری پڑھیں۔ پہلی جنگ عظیم پر کوئی اچھی کتاب پڑھیں۔ پھر انیسویں اور بیسویں صدی میں اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ پر ایک آدھ کتب کا مطالعہ کر لیں۔ ساتھ ساتھ یورپ میں یہودیوں کی تاریخ اور عربوں کی تاریخ پر بھی کچھ پڑھ لیں تو شاید کچھ اندازہ لگا سکیں کہ آرٹیکل میں مسئلہ کیا ہے۔
آپ کا یہ جواب پڑھتے ہوئے تو میں کرسی سے پھسل گیا فی الحال۔۔۔
اب اتنا تو ہم شاید کر سکیں،،،، جب سے یہاں آئے ہیں،،،،
دوسروں کی اور ہی تکتے ہیں۔
 
ببلیکل سکالرز کی کوئی اچھی کتب پڑھیں۔ رومن ہسٹری پڑھیں۔ پہلی جنگ عظیم پر کوئی اچھی کتاب پڑھیں۔ پھر انیسویں اور بیسویں صدی میں اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ پر ایک آدھ کتب کا مطالعہ کر لیں۔ ساتھ ساتھ یورپ میں یہودیوں کی تاریخ اور عربوں کی تاریخ پر بھی کچھ پڑھ لیں تو شاید کچھ اندازہ لگا سکیں کہ آرٹیکل میں مسئلہ کیا ہے۔
آپ کا یہ جواب پڑھتے ہوئے تو میں کرسی سے پھسل گیا فی الحال۔۔۔
اب اتنا تو ہم شاید کر سکیں،،،، جب سے یہاں آئے ہیں،،،،
دوسروں کی اور ہی تکتے ہیں۔
اصولاً تو یہ بات درست ہے کہ کسی بھی متنازعہ مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے صرف ایک فریق کے نکتہ نظر کو سمجھنا کافی نہیں ہوتا۔ کیونکہ عموماً ہر فریق اپنی حمایت میں جانے والے حقائق اور دلائل بیان کرتا ہے۔ اس لئے حقیقت کو سمجھنے کے لئے دونوں فریقوں کی کے دلائل کا تجزیہ ضروری ہے۔
لیکن اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ حصوصاً فلسطین کے معاملے میں سب سے بڑی دلیل طاقت اور امریکی حمایت بن چکی ہے جس کے بل پر وہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب سیاسی سے زیادہ انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کا بن چکا ہے۔
 


دوسری جنگ عظیم کے دوران یا اس سے پہلے چونکہ یہودیوں کا ناطقہ یورپ میں بند کیا جاچکا تھا لہذا وہ دنیا بھر میں منتشر ہوگئے۔ امریکہ اس میں سر فہرست تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ امریکہ میں مذہبی ازادیاں بہت تھیں۔ اس لیے یورپ بھر سے مذہبی پابندیوں کا شکار لوگ امریکہ کا رخ کرتے تھے۔

emig33.jpg




یہودی اس سے پہلے بھی دنیا میں کئی مرتبہ منتشر ہوچکے ہیں اور مصر میں مارے مارے پھرے ہیں۔ مثلا
jewish-diaspora.gif


نویں اور گیاریوں صدی میں
Jmigmap.gif


چودھویں اور پندریوں صدی میں
expuls.gif


حتیٰ کہ ترکی میں بھی
welcome.jpg

Welcoming of Sephardim Jews to Turkey in 1492 by Sultan Beyazit II. A painting by Mevlut Akyildiz.

حتیٰ کہ یورپ نے ان سے مکمل طور پر جان چھڑانی کی سوچی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کو فلسطین میں منتقل کیا
73.jpg


یہودی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صدیوں پہلے ان کی مملکت اسرائیل یہ تھی۔

bible-map-israel1.jpg


یہ سب ایک اجمالی خاکہ ہے ۔ تاکہ اسانی سے سمجھا جاسکے کہ یہودی کیوں فلسطین ائے۔

میرا ںہیں خیال کہ یہودی امریکہ واپس جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ زمین سے زیادہ منسلک ہیں۔ مگر زمینی حالات بدلنے کے ساتھ ہی ایک اور مائیگریشن بھی ہوسکتی ہے جس کے یہودی عادی ہیں
 
Top