اسرائیل پر شعری حملہ

ساجد

محفلین
جرمنی سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ ادیب اور شاعر گنٹر گراس نے اپنی ایک نظم میں اسرائیل کو،پہلے ہی سے مخدوش، عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ یہ نظم بُدھ کے روز شائع ہوئی اور اسے جرمنی کے علاوہ اسرئیلی تنقید کا بھی سامنا ہے۔
نظم ،جس کا عنوان ہے"جو بات ضرور کہنی چاہئیے"،دیگر جرائد کے علاوہ جرمنی کے روزنامہ سوڈچ زٹنگ اور اٹلی کے لا ری پبلکا میں شائع ہوئی۔ اس نظم میں گراس ،اپنے الفاظ میں ،اسرائیل کے حوالے سے مغرب کی منافقت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل جو خود ایٹمی اسلحے کی تیاری کے حوالے سے مشکوک ہے ایران پر اس لئے حملہ کرنے جا رہا ہے تا کہ اس اسے ایٹم بم بنانے سے باز رکھا جائے۔
84 سالہ گراس کہتے ہیں کہ برلن (جرمنی) کی طرف سے اسرائیل کو ایسی آبدوزیں بیچنے کے فیصلے نے انہیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا جو ہر قسم کے تباہ کن ہتھیار اس مقام (ایران) تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں جہاں ایک بھی ایٹم بم کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
وہ لکھتے ہیں "ایٹمی طاقت کا حامل اسرائیل دنیا کے امن کو تباہ کرنے کرنے کے درپے ہے جو(امن) پہلے ہی سےخطرات سے دوچار ہے"۔ ان کی نظم میں خاص طور پرایران کے حوالےسے اسرائیل کے خود ساختہ نظرئیے"ایران پر پیشگی حملے کے حق" پر تنقید کی گئی ہے۔
گراس کہتے ہیں کہ اسرائیل کی ایٹمی سرگرمیوں پر بلا تامل اور مستقل طور پرقابو پانے اور ایران کی ایٹمی تنصیبات پر نظر رکھنے کے لئے ایک بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
گراس نےصدر احمدی نژاد کی طرح اسرائیل کو تباہ کرنے کی بات نہیں کی ،اس کی بجائے یہ کہا کہ ایران کے عوام ایک جارح کی جارحیت سے دوچار ہیں۔
اسرائیل پروسیع پیمانے پر ایٹمی اسلحے کا حامل ہونے کا قوی امکان ظاہر کیا جاتا ہے لیکن اس نے کبھی اس کا اقرار نہیں کیا۔اس کی بجائے اس نے ہمیشہ "اپنے اوپر ہونے والے حملوں کا جواب دینے کی تیاری" کی سرکاری پالیسی کا پرچار کیا ہے۔
اسرائیل کے پاس تین جرمن ساختہ ڈولفن آبدوزیں ہیں۔------ایک کی آدھی اور دو کی پوری مالی معاونت جرمنی کی ہے-----۔ دو مزید آبدوزیں تکمیل کے مراحل میں ہیں اور چھٹی آبدوز کی تیاری کے معاہدے پر پچھلے ماہ دستخط ہوئے ہیں۔
ڈولفن آبدوزیں ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ابھی اس بات کا ثبوت موجود نہیں ہے کہ اسرائیل نے ان پر ایٹمی ہتھیار نصب کئے ہیں یا نہیں۔ جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام توانائی پیدا کرنے اور طبی تحقیق کے لئے ہے۔
گراس کہتے ہیں کہ وہ بہت عرصہ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر خاموش رہے، کیوں کہ ان کے اپنے ملک نے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا لہذا اب وہ سمجھتے ہیں کہ مزید خاموش رہنا ان کے لئے ایک بھاری جھوٹ اور جبر کے مترادف ہو گا۔
1959 میں شائع شدہ "The Tin Drum" نےبائیں بازو کے نظریات رکھنے والے گراس کو ایک بڑی ادبی شخصیت کے طور پر متعارف کروایا اور انہوں نے 1999 میں انہوں نے نوبل پرائز جیتا۔انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دہائیوں میں تکلیف دہ نازی تاریخ کا سامنا کرنے کے حوالے سے اپنے ہم وطنوں کو سراہا۔
تاہم 2006 میں ان کے ایک اعتراف نے ان کے امیج کو نقصان پہنچایا۔
بُدھ کو گراس کے خیالات پر تیز تنقید کچھ ان الفاظ میں ہوئی۔
"غور طلب بات ہے کہ دنیا میں صرف اسرائیل ہی ایسا ملک ہے جس کے زندہ رہنے کے حق پر عوامی سطح پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ ہم خطے میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں"
جرمنی میں موجود اسرائیلی سفارتخانے کا بیان
-
"گنٹر گراس نہ صرف صورت حال کی مکمل طور پر معکوس ترجمانی کر رہے ہیں بلکہ ایک ایسی ظالم حکومت کا دفاع کر رہے ہیں جو نہ صرف بے توقیری کی مرتکب ہے بلکہ کئی برسوں سے بین الاقوامی معاہدات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے"۔
دیدرے برگر، برلن میں قائم امریکن جیوش کمیٹی کے ڈائریکٹر
-
"ایران ، دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے اور اسرائیل پورے خطے میں واحد جمہوریت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کا واحد ملک جس کی بقاءپر کھلے عوام سوالات اٹھائے جاتے ہیں"۔
کارلٹ نو بلوخ، جرمنی کی یہودی کمیونٹی کے سابق رہنما
-
جرمن چانسلر انجیلا مرکل اسرائیل کی قابل اعتماد اتحادی ہیں،ان کے ترجمان نے صورت حال پر اپنا رد عمل یو ں دیا
:جرمنی میں فنی آزادی ہے اور یہی آزادی جرمن حکومت کو بھی حاصل ہے کہ وہ ہر فنی تخلیق پر اپنا تبصرہ نہ دے"۔
سٹیفن سیبرٹ ، انجیلا مرکل کے ترجمان
-
جرمن پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ روپرچ پولنز جو کہ مرکل کی کرسچئن ڈیمو کریٹ پارٹی کے رکن بھی ہیں، نے روزنامہ مٹل ڈچ زٹنگ سے بات کرتے کہا "گراس ایک اچھے ادیب ہیں۔لیکن جب وہ سیاست کے بارے میں بولتے ہیں تو مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر غلط قیافے لگاتے ہیں۔ جو ملک ہمیں پریشان کر رہا ہے وہ ہے ایران اور ان کی نظم ہماری توجہ اس نقطے سے ہٹاتی ہے"
=======
ملخص من
 
Top