اسرائیل ایران جنگ ؛ پاکستان ، روس ، چین سعودی عرب اور ترکی کا ردعمل

الف نظامی

لائبریرین
آصف محمود لکھتے ہیں:
سابق سفیر جی ایم بلوچ صاحب سے ایران اسرائیل جنگ پر بات ہو رہی تھی.
ایک طالب علم کےطور پر میرا خیال تھا کہ ایران کی قوت کو اسرائیل نے اتنا نقصان پہنچا دیا ہے کہ اب کسی بھرپور جوابی حملے کی توقع نہیں ہے. اور یہ منظر نامہ کسی صدمے سے کم نہیں.
جنرل سمریز کی رائے مختلف تھی. وہ کہنے لگےکہ ایران کی جواب دینے کی صلاحیت قائم ہے اور وہ جواب دے گا اور اس کاجواب دنیا دیکھے گی.
جنرل سمریز جذباتی آدمی نہیں ہیں. بالکل دھیما بولتے ہیں اور ناپ تول کر بولتے ہیں. اواز بھی اونچی نہیں ہوتی. مگر اس کے باوجود مجھے لگا کہ وہ ایران کو تھوڑا سا اوور ریٹ کر گئے ہیں
جنرل نے ایک اور بات کی تو میری رائے پختہ ہو گئی کہ وہ ایران کو بہت زیادہ اوور ریٹ کر رہے ہیں. انکا کہنا تھا یہ امکان بھی پوری طرح موجود ہے کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت اب بھی موجود ہے وہ تباہ نہیں ہوئی اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ ضرورت پڑنے پر ایران اسرائیل کو ہی ہٹ کردےکہ یہ رہی ہماری ایٹمی قوت.
میرے لیے جنرل کی دونوں باتوں سے اتفاق مشکل تھا. ایران کا کھیل میری رائے میں ختم ہو چکا تھا اور اب امریکی سرپرستی میں ایران کے اندر بغاوت کا مرحلہ شروع ہونے کو تھا.
پھر میں سو گیا.
اور جب سو کر اٹھا تو ایک نیا منظرنامہ سامنے تھا. ایران اپنی قوت کے ساتھ موجود تھا. اور تل ابیب سے اٹھتے شعلے بتا رہے ہیں کہ :
گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں
ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است
(ایسا گماں نہ کر کہ شراب پلانے والے کا کام تمام ہوا. انگور کے خوشوں میں ابھی بہت سی ایسی شراب ہے جسے کسی نے نہیں چکھا۔)
_____
 
Top