اساتذہ کرام کی خدمت میں اصلاح کے لیے ایک اور غزل پیش کرنے کی جسارت

۔۔۔غزل۔۔۔

واں سدا کی بے رخی اور میرا یہ جنوں
ایک خستہ دل مرا اور اُس پر یہ فسوں

کب تلک گھونٹوں گلا اے مرے گریہء شب
کب تلک تھاموں زباں کب تلک میں چپ رہوں

ہائے حسرت دیکھیے ضبط سے ٹکرا گئی
اب رہا شکوہ مجھے نا رہا اُس کو سکوں

روکے غیرت پاؤں کو اور وہ حُسنِ بلا
یاں زباں ہلتی نہیں اور چپ کیسے رہوں

اب کہاں وہ محفلیں اب کہاں دل کے حبیب
کیا سناؤں حالِ دل کس کے سینے سے لگوں

چھا گیا مجھ پہ فسوں اُس کی یادوں کا مگر
اے گمانِ زندگی اب تو بتا کیسے جیوں

یاد آتی ہے بہت اُس کی پلکوں کی گھٹا
کیا بکھیروں راکھ اب کیا گلہ عاصمؔ کروں

عاصمؔ شمس
2016۔1۔28
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ عاطف کی نشان دہی کے علاوہ۔۔

اب رہا شکوہ مجھے نا رہا اُس کو سکوں
۔۔’نا‘ بطور دو حرفی پسندیدہ نہیں۔

روکے غیرت پاؤں کو اور وہ حُسنِ بلا
یاں زباں ہلتی نہیں اور چپ کیسے رہوں

۔۔دو لختی کی کیفیت بھی ہے۔

اب کہاں وہ محفلیں اب کہاں دل کے حبیب
کیا سناؤں حالِ دل کس کے سینے سے لگوں

÷÷ دل کے رفیق زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے میرے خیال میں۔

چھا گیا مجھ پہ فسوں اُس کی یادوں کا مگر
اے گمانِ زندگی اب تو بتا کیسے جیوں

۔۔اب تو بتا میں ’اب‘ بحر سے زائد ہے۔ اس کے بغیر وزن مکمل ہو جاتا ہے۔

یاد آتی ہے بہت اُس کی پلکوں کی گھٹا
کیا بکھیروں راکھ اب کیا گلہ عاصمؔ کروں
۔۔راکھ بکھیرنے سے پلکوں کی گھٹا کا تعلقَ یہ بھی دو لخت ہے۔
 
اچھی غزل ہے۔ عاطف کی نشان دہی کے علاوہ۔۔

اب رہا شکوہ مجھے نا رہا اُس کو سکوں
۔۔’نا‘ بطور دو حرفی پسندیدہ نہیں۔

روکے غیرت پاؤں کو اور وہ حُسنِ بلا
یاں زباں ہلتی نہیں اور چپ کیسے رہوں

۔۔دو لختی کی کیفیت بھی ہے۔

اب کہاں وہ محفلیں اب کہاں دل کے حبیب
کیا سناؤں حالِ دل کس کے سینے سے لگوں

÷÷ دل کے رفیق زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے میرے خیال میں۔

چھا گیا مجھ پہ فسوں اُس کی یادوں کا مگر
اے گمانِ زندگی اب تو بتا کیسے جیوں

۔۔اب تو بتا میں ’اب‘ بحر سے زائد ہے۔ اس کے بغیر وزن مکمل ہو جاتا ہے۔

یاد آتی ہے بہت اُس کی پلکوں کی گھٹا
کیا بکھیروں راکھ اب کیا گلہ عاصمؔ کروں
۔۔راکھ بکھیرنے سے پلکوں کی گھٹا کا تعلقَ یہ بھی دو لخت ہے۔
Many thanks,Sir.
 
Top